ایک تو اکثر اشعار میں "بھی" ردیف درست نہیں آ رہی ہے، اکثر لگتا ہے کہ اس کی جگہ "تک" بہتر ہوتا۔
مجھے زندگی سے گلہ بھی نہیں ہے
اگرچہ کبھی کچھ ملا بھی نہیں ہے
درست ہے (یہاں بھی "ملا تک"‘ بہتر تھا۔)
محبت ہے بے لوث جذبہ دلوں کا
سو میں نے تو چاہا صلہ بھی نہیں ہے
///دونوں مصرعوں میں ربط نظر نہیں آ رہا۔ کیا اگر محبت ایسی نہیں ہوتی تو تم صلہ مانگتے؟ کس بات کا صلہ؟ "سو" کا مطلب ہوتا ہے "اس لئے"۔ اس وجہ سے تفہیم میں مزید مشکل ہو رہی ہے۔ ذرا سوچو کہ کیا کیا جا سکتا ہے اس کا۔
قبیلے نے میرے دیا تھا جو گھاؤ
ابھی تک کسی سے سلا بھی نہیں ہے
///یہاں گھاؤ بر وزن فعلن آ رہا ہے جو اچھا نہیں لگ رہا، درست بر وزن فعل ہے۔ اس کو یوں کیا جا سکتا ہے:
دیا تھا جو زخم اپنے لوگوں نے مجھ کو
ابھی تک۔۔۔۔
یہاں بھی "بھی" کی جگہ "تک " بہتر ہوتا
یہ موسم کی سازش ہے بارش سے لوگو
کہ غنچہ چمن میں کھلا بھی نہیں ہے
///اچھا شعر ہے، اگر چہ ردیف کا "بھی" درست نہیں آ رہا ہے۔
امیروں نے شہروں میں راجا کبھی بھی
غریبوں کو بخشی جلا بھی نہیں ہے
///یہ تم امیر غریب ہمیشہ لاتے رہتے ہو۔ کمیونزم کو برا نہیں کہہ رہا، لیکن ایک ہلی موضوع ایک ہی طرح سے ہر بار اچھا نہیں لگتا۔
پھر کوئی جلا کیسے بخش سکتا ہے؟ اور شہروں سے کیا تخصیص، کیا گاؤوں میں امیر نہیں ہوتے؟ اس شعر کو نکال ہی دو۔