اچھی غزل ہے راجا صاحب۔
دوسرے شعر لاجواب ہے، بہت خوب، بہت پسند آیا مجھے۔ لیکن اس میں مجھے 'تری' کی بجائے 'مری' زیادہ لطف دے رہا ہے، کیا خیال ہے؟
بہت شکریہ وارث بھائی، آپ نے تو میرا خون دگنا کر دیا
دوسرے شعر میں تری کہ بجائے مری لکھنے سے ترنم میں واقعی اضافہ ہوتا ہے، مگر خیال بدل جاتا ہے، یعنی شاعر محبوب کی آنکھ کی بات کر رہا، کہ وہ دریا کی مانند ہیں،
ذرا اظہارِ خیال فرمائیے گا،
اعجاز صاحب سے بھی توجہ کی استدعا ہے شکریہ۔
استادوں سے بحث یو تو بہت غلط روش ہے مگر بندہ آپکو بھائی کہتا ہے سو جائز جانتا ہےآپ نے صحیح کہا، راجا صاحب لیکن محبوب کی آنکھوں کی تعریف میں شاید 'دریا' کی بجائے 'جھیل' لاتے ہیں۔ شاید دریا بھی ہو لیکن جھیل زیادہ مستعمل اور مقتضائے حال ہے۔
'مری' آنکھ دریا ہے ایسا کہ جسکا
کسی سمت کوئی کنارہ نہیں ہے
'مری' کرنے سے مجھے یہ لگا کہ میری آنکھیں تیرے ہجر میں رو رو کر ایک ایسا دریا بن چکی ہیں اور وہ طغیانی پر ہیں کوئی کنارہ ہی نہیں رہا۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ میرا دھیان تعریف کی طرف گیا ہی نہیں تھا۔
استادِ محترم غزل کو دوبارہ کہا ہے برائے کرم توجہ دیجیئے۔ شکریہ۔
وہ سورج ہے کوئی ستارہ نہیں ہے
رہا اب مگر جو ہمارا نہیں ہے
/// اس کا تو میں لکھ چکا ہوں کہ مطلب واضح نہیں۔
مری آنکھ دریا ہے ایسا کہ جسکا
کسی طرف کوئی کنارہ نہیں ہے
///یہاں وزن سے خارج کر دیا ےتم نے اس کو۔ اس سے تو کسی سمت‘ ہی بہتر تھا، لیکن میرا اعتراض دوسرا تھا۔ دریاؤں کی سمتیں نہیں ہوتیہں۔
بھلا کیا یہ روشن کرے گا گھروں کو
یہ جگنو ہے کوئی ستارہ نہیں ہے
کبھی پو چھنے بھی جو آیا نہ ہم کو
اسے بھول جائیں؟ گوارہ نہیں ہے
چلے وہ اگر ساتھ، دنیا چلے گی
یہاں میں کہ، کوئی سہارہ نہیں ہے
//// ابھی بھی مطلب واضح نہیں۔ کیا مطلب یوں ادا ہو سکتا ہے:
یہاں کوئی اپنا سہارا نہیں ہے؟
بہاروں کی آمد ہے گلشن میں لیکن
مری آنکھ نم ہے کوئی نظارہ نہیں ہے
/// یہاں ’کوئی‘ کا اضافہ کیوں، جس سے بحر سے خارج کر دیا ہے!!
بھلا دوں اسے ہے مگر پاسِ الفت
مجھے بے وفائی گوارہ نہیں ہے
جلے ہم ہیں اسطرح راجا وفا میں
بچا کچھ بھی اب تو ہمارا نہیں ہے