متفق۔اکثر یہ فشار خون بلند کرنے والی حسن نثار مستعار منطق یوں شروع ہوتی ہے۔
اس کمرے میں غور سے دیکھو چیزوں کو ، یہ پنکھا دیکھ رہے ہو، یہ کولر ، یہ فرج ، یہ ٹی وی ، یہ کمپیوٹر ۔ یہ سب چیزیں انگریزوں (مغرب کو اکثر انگریزوں سے ہی منسوب کر دیتے ہیں ) کی ایجاد کردہ ہیں۔ پہلے ان کا استعمال ترک کرو پھر ان پر تنقید یا مخالفانہ بات کرو۔
اس قدر احمقانہ اور غیر منطقی دلیل سن کر سر پیٹ لینے کو جی چاہتا ہے کہ انسانیت کی مجموعی ترقی کو ایک خاص نسل اور علاقہ سے منسوب کر دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ باقی تمام گروہوں کو بانجھ سمجھ لیا جاتا ہے۔ ویسے تازہ ترین ایجاد یوٹیوب میں ایک موجد بنگالی ہے تو ایسے تمام حضرات جو یہ دلیل دیتے ہیں جس کا ذکر اوپر کیا ہے وہ کم از کم یوٹیوب استعمال کرنا کم کر دیں اگر چھوڑ نہیں سکتے۔
شکریہ آنٹی۔ میں اسی بات کی طرف توجہ دلوانا چاہتی تھی۔ ہمارے پاس اپنے ہر ایسے عمل کے لئے یہی ایک توجیہہ موجود ہوتی ہے کہ جب ان کی تحقیق سے فائدہ اٹھا رہے ہو تو جواباً ہم پر یہ فرض ہے کہ ہم ان کی ہر بات کی نقالی کریں۔ بات کسی مخصوص تہوار یا رسم کی ہی نہیں ہے بات ہمارے فلسفہ زندگی کی ہے۔ میں نے جو کام کرنا ہے اگر تو وہ میرے عقیدے اور ثقافت سے میل کھاتا ہے تو میں نے خود کو بہترین امتی اور درد مند شہری ڈیکلیئر کرنا ہے ہر جگہ پر۔ اور اگر میری دلچسپی کسی ایسی بات میں ہے جس میرے عقیدے کے خلاف جائے گا تو میرے پاس 'روشن خیالی' اور 'نظریہ ضرورت' کا بیج تو موجود ہے ہی۔ اس کو جھاڑ پونچھ کر سجانا کون سا مشکل ہے۔اصل میں فرحت بات یہ ہے کہ نفس امارہ کو علماء کرام شیطان کا بڑا بھائی قرار دیتے ہیں سو یہ بھونڈی فلاسفی بھی اسی نفس امارہ کی ہی گھڑی ہوئی ہے کہ بس کسی بھی مذہب کی کوئی بھی رسم و رواج کو اپنانے میں کیا حرج ہے ؟ جب مسلمان نے اس کو ماننے سے انکار کیا تو اس نے ایسی توجیہ گھڑ لی کہ لو تم انکی ٹیکنالوجی سے بھی فائدہ اٹھا رہے ہو نا تو اس کو اپنانے سے کچھ نہیں ہوگا بے دھڑک اس کو مناؤ
حالانکہ یہ ساری جدید ٹیکنالوجی تو مسلمان سائنسدانوں کی تحقیق کی مرہون منت ہے جو انہوں نے کئی سو سال پہلے کی تھیں اور مغربی سائنسدانوں نے اس کو اپنے کارنامے کے طور پر پیش کردیا اور ہم تو ایسے تھالی کے بینگن ہیں نا کہ جدھر لڑھکاؤ وہیں لڑھک جاتے ہیں اگر اپنے سائنسدانوں کو پڑھا ہوتا تو آج یہ صورتحال نہ ہوتی۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ !!!
جی۔ لیکن اکثر یہی سمجھا اور سمجھایا جاتا ہے کہ جرمن لباس زیب تن فرما لو ورنہ جرمن اپنا لٹریچر پڑھنے پر پابندی لگا دیں گے۔درست ! جرمن لٹريچر پڑھنے كے ليے جرمن لباس زيب تن كرنا ضرورى نہيں ۔
فرحت سس بہت خوب صورت سوال ہے اور شايد يہ وسيع بحث ايك نئے موضوع كى متقاضى ہے ۔
شکریہ آنٹی۔ میں اسی بات کی طرف توجہ دلوانا چاہتی تھی۔ ہمارے پاس اپنے ہر ایسے عمل کے لئے یہی ایک توجیہہ موجود ہوتی ہے کہ جب ان کی تحقیق سے فائدہ اٹھا رہے ہو تو جواباً ہم پر یہ فرض ہے کہ ہم ان کی ہر بات کی نقالی کریں۔ بات کسی مخصوص تہوار یا رسم کی ہی نہیں ہے بات ہمارے فلسفہ زندگی کی ہے۔ میں نے جو کام کرنا ہے اگر تو وہ میرے عقیدے اور ثقافت سے میل کھاتا ہے تو میں نے خود کو بہترین امتی اور درد مند شہری ڈیکلیئر کرنا ہے ہر جگہ پر۔ اور اگر میری دلچسپی کسی ایسی بات میں ہے جس میرے عقیدے کے خلاف جائے گا تو میرے پاس 'روشن خیالی' اور 'نظریہ ضرورت' کا بیج تو موجود ہے ہی۔ اس کو جھاڑ پونچھ کر سجانا کون سا مشکل ہے۔
جہاں تک اپنی تاریخ پڑھنے کا تعلق ہے اگر ہم لوگوں کو تاریخ سے دلچسپی ہوتی، ہمیں اس بارے میں بتایا جاتا یا ہم نے خود جاننے کی کوشش کرتے تو ہماری جنریشن شاید اتنی کنفیوز نہ ہوتی۔
بہت شکریہ۔ آنرڈ ۔فرحت تم نے اتنا بہترین علمی نوعیت کا جو سوال پوچھا ، اس میں غور و فکر کے لئے واقعی خاصا مواد ہے اب جو چاہے غور و فکر اور تفکر و تدبر سے کام لے کر اپنے ذہن کی گتھیاں سلجھا لے ، سب مسلمانوں کو دعوت عام ہے
یقین کرو اس سوال نے میرا دل خوش کر دیا ہے
سدا خوش رہو فرحت
اللہ ہم سب کو راہ راست پر چلنا نصیب فرمائے آمین
فرحت سس ہنسی آ گئی یہ پڑھ کر ، يہ اتنا حقيقى تبصرہ كيا ہے نا آپ نے۔ دراصل پادرى كے دن كے متعلق جو كشش ، ضرورت، مجبور ہونے كى بات كر رہے تھے واقعى وہ ايك اور جگہ حلال جانوروں کے فضلے كے بارے ميں "امتى " بن گئے ۔شکریہ آنٹی۔ میں اسی بات کی طرف توجہ دلوانا چاہتی تھی۔ ہمارے پاس اپنے ہر ایسے عمل کے لئے یہی ایک توجیہہ موجود ہوتی ہے کہ جب ان کی تحقیق سے فائدہ اٹھا رہے ہو تو جواباً ہم پر یہ فرض ہے کہ ہم ان کی ہر بات کی نقالی کریں۔ بات کسی مخصوص تہوار یا رسم کی ہی نہیں ہے بات ہمارے فلسفہ زندگی کی ہے۔ میں نے جو کام کرنا ہے اگر تو وہ میرے عقیدے اور ثقافت سے میل کھاتا ہے تو میں نے خود کو بہترین امتی اور درد مند شہری ڈیکلیئر کرنا ہے ہر جگہ پر۔ اور اگر میری دلچسپی کسی ایسی بات میں ہے جس میرے عقیدے کے خلاف جائے گا تو میرے پاس 'روشن خیالی' اور 'نظریہ ضرورت' کا بیج تو موجود ہے ہی۔ اس کو جھاڑ پونچھ کر سجانا کون سا مشکل ہے۔
جہاں تک اپنی تاریخ پڑھنے کا تعلق ہے اگر ہم لوگوں کو تاریخ سے دلچسپی ہوتی، ہمیں اس بارے میں بتایا جاتا یا ہم نے خود جاننے کی کوشش کرتے تو ہماری جنریشن شاید اتنی کنفیوز نہ ہوتی۔
سو فیصد متفق نور العینفرحت سس ہنسی آ گئی یہ پڑھ کر ، يہ اتنا حقيقى تبصرہ كيا ہے نا آپ نے۔ دراصل پادرى كے دن كے متعلق جو كشش ، ضرورت، مجبور ہونے كى بات كر رہے تھے واقعى وہ ايك اور جگہ حلال جانوروں کے فضلے كے بارے ميں "امتى " بن گئے ۔
جی نور۔ مجھے آج تک اس سوال کا جواب نہیں مل سکا۔ شاید کبھی کوئی اس بات پر بھی گفتگو شروع کردے۔
تھوڑا ہم خود ڈر جاتے ہيں تھوڑا وہ ڈرا ليتے ہيں۔ ويسے يورپ کے بعض ممالك نے تو درست ثابت كر دى يہ بات ، نقاب پر پابندى لگ گئی ، داڑھی پر شايد لگ جائے۔ ہيٹرڈ تو آلريڈى موجود ہے۔جی۔ لیکن اکثر یہی سمجھا اور سمجھایا جاتا ہے کہ جرمن لباس زیب تن فرما لو ورنہ جرمن اپنا لٹریچر پڑھنے پر پابندی لگا دیں گے۔
میں ابھی تہمید ہی باندھ رہا تھا کہ لائٹ چلی گئی میرے کہنے کا آسان مطلب یہ تھا کہ مہ جبین صاحبہ ، ام نور العين صاحبہ اور فرحت کیانی صاحبہ کے ہوتے ہوئے میری تو کوئی ضرورت نہیں پھر بھی میں اپنی ناقص رائے پیش کرنا چاہتا ہوں صرف اس آسرے پر کہ تیرے دل مں اتر جائے میری بات۔
اقوامِ مغرب کی کچھ باتوں اور رسموں کو قبول کرنے اور کچھ کو نہ قبول کرنے کی ایک بڑی وجہ ہمارا دین ہی ہے۔ اس کا بہت سادہ جواب تو یہ ہی ہے کہ جو بھی چیز ہمارے دین سے متصادم نہیں ہوگی اور دین میں رہتے ہوئے اس کو استعمال کرنے میں ابھی یا اگے چل کر ہمارے دین کو کوئی نقصان نہیں اٹھانا پڑے گا تو ہم اسکا استعمال جائز سمجھتے ہیں پر اگر کوئی بھی شہ یوم یا رسم ہمارے دین کو نقصان پہنچائے اسکو ہم نہ صرف ذاتی طور پر رد کردیں گے بلکہ دین کے ہی تقاضے کے مطابق اسکو پہلے زبان سے اور پھر ضرورت پڑی تو ہاتھ سے روکیں گے کیونکہ ہم کو یہی درس دیا گیا ہے۔ حضرت امام حسین (ع) نے فرمایا اسلام کو دنیا کی کسی چیز پر قربان نہیں کیا جاسکتا جبکہ اسلام پر دنیا کی ہر چیز قربان کی جاسکتی ہے اور انہوں نے عملی طور پر بھی یہ کر کے دکھایا۔ اب آپ اسی اصول پر چل کر دیکھ سکتے ہیں کہ ہم نے جس جس چیز کو قبول کیا ہے اسنے دین کو نقصان نہیں پہنچایا ۔ جیسے ٹیکنالوجی کا استعمال ہم نا صرف امریکہ اور برطانیہ کی ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہیں یورپ کی کرتے ہیں اسی طرح جاپان،چائنا اور رشیا کی بھی کرتے ہیں اسکا کیا مطلب ہے انکی بھی سب رسومات قبول کر کے ہم بدھسٹ یا کمیونسٹ بن جائیں اسی طرح ہم نے رسمیں بھی قبول کیں یا جب ہم میں یہ شامل ہورہی تھیں اسوقت جو ردِ عمل ظاہر ہونا چاہئے تھا وہ نہیں ہوا اسکی سب سے بڑی وجہ یہی تھی کے اس سے ہمارے اسلامی معاشرے کو کوئی نقصان نہیں تھا مثلاَ سالگرہ پر کیک کاٹنے سے ہمارے دین کو کیا نقصان ہے اگر وہ پردہ کا خیال رکھتے ہوئے کاٹا جائے اسی طرح بہت سی رسومات ہیں جن کو ہم اپنے دین میں رہتے ہوئے کرسکتے ہیں پر یہ یومِ محبت اور اسطرح کی دیگر رسومات کی دین میں کوئی گنجائش نہیں ہے اگر کوئی اس سے یہ کہ کر اختلاف کرے کہ اسکو بھی دین میں رہ کر کیا جاسکتا ہے کہ اپنی ماں یا باپ سے محبت کا اظہار کرے تو بھائی اسکے لئے تو پہلے ہی آپ نے یومِ مادر اور یومِ پدر رکھے ہوئے ہیں پھر اس دن کی کیا ضرورت ہے دوسرے جو لوگ اسکی طرفداری کرتے ہیں وہ سچ سچ اور پوری تحقیق سے بتائیں کہ کتنے فیصد نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں نے یہ دن اپنے ماں باپ یا بہن بھائی کے ساتھ مل کر منایا ہوگا اور کتنوں نے اپنے محبوب کے ساتھ اسلام کبھی بے حیائی کی اجازت نہیں دے سکتا اور اگر ابھی نہیں تو آگے چل کر اسکے تباہ کن اثرات نکل سکتے ہیں۔
اسکے دلائل میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسلام میں شادی کیلئے لڑکی اور لڑکے کی پسند ضروری ہے اور اسکی بھی اجازت ہے کہ وہ آپس میں بات کریں اور مزاج کو سمجھیں ۔ بالکل ایسا ہی ہے پر یہ سمجھ کا فرق ہے اسلام نے پسند کی شادی کو کہا ہے محبت کی شادی کو نہیں۔ اگر آپس میں بات کرنے کو کہا گیا ہے تو وہ بھی حجاب میں رہ کر اور سب کے سامنے اور اسکی بھی حدود ہیں کہ جب آپ کے والدین اجازت دیں کہ آپ کا رشتہ ہم طے کرنے جارہے ہیں تو آپ بات کرسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں حضرت علی(ع) فرماتے ہیں کہ جب بھی ایک جوان لڑکا اور لڑکی ایک جگہ اکھٹے ہوتے ہیں تو ان کے درمیان شیطان ضرور ہوتا ہے ۔
اچھا اس سلسلے میں ایک دلیل اور دی جاتی ہے جو یہاں نہیں دی گئی کہ ہمارے پیارے نبی(ص) نے بھی جو پہلی شادی کی وہ محبت کی تھی کیونکہ بی بی خدیجۃالکبرٰی (ص) نے آپ(ص) کو دیکھا تھا اور پسند کیا پھر رشتہ بھیجا۔ اس سے بھی میں متفق ہوں پر کسی روایت میں نہیں ہے کہ آپ(ص) کبھی ان سے اکیلے میں ملے ہوں بلکہ انکی طرف سے رشتہ کی بات حضرت ابو طالب سے کی گئی تھی جو آپ کے چچا تھے اورسر پرست تھے
انیس بھائی جزاک اللہ خیراً کثیراًیہ جاننے کیلئے کہ کونسی رسم یا کوئی بھی بات ہمارے مذہب سے متصادم ہے یا نہیں میں ایک آسان نسخہ بتادیتا ہوں اسکا جواب میں نے مشہور شیعہ عالم دین علامہ طالب جوہری سے اخذ کیا ہے پر امید ہے یہ تمام مسالک میں مشترکہ طور پر قابلِ قبول ہے۔ دین کے اندر ہم جتنے بھی کام(اعمال) ہم کرتے ہیں وہ پانچ اقسام میں تقسیم ہیں جنکوعقائد شریعہ کہا جاتا ہے
واجب اور فرض : کرو نہیں کرو گے تو گناہ ہوگا
حرام : نہ کرو اگر کرو گے تو گناہ ہوگا
مستحب یا سنت : اچھا ہے کہ کرلو اگر نہیں کرو گے تو گناہ نہیں ہوگا
مکروہ: اچھا ہے کہ نہ کرو اگر کرو گے تو گناہ نہیں ہوگا
مباح : تمہاری مرضی کرو یا نہ کرو نہ کرنے میں گناہ نہ نا کرنے میں گناہ
مثال:
ہم کو پیاس لگی ہم نے پانی یا کسی اور حلال مشروب سے پیاس بجھالی یہ ہم نے ایک مباح کام کیا پر ہم نے اسے کام سے پہلے بسمہ اللہ پڑھی اور تین سانس میں رک رک کر پانی پیا اور پانی پینے کی ساری سنتیں ادا کیں یہ کام مستحب میں تبدیل ہوگیا ۔ ٹوٹے ہوئے گلاس یا برتن میں پانی پی لیا یہ کام مکروہ ہوگیا پیاس کسی حرام مشروب سے بجھالی یا مالک سے اجازت لئے بغیر اسکے برتن یا ملکیت سے پانی پی لیا تو یہ کام اب حرام ہوگیا اگر آپ نے پیاس اتنی دیر تک روک کر رکھی کہ جان جانے کا ڈر ہوگیا تو اب پیاس بجھانا آپ پر واجب ہوگیا ۔ آپ نے دیکھا ایک ہی عمل میں عقائد کے حساب سے کتنی تبدیل ہورہا ہے
اب ہم وہ ساری رسومات اور معاشرے میں آنے والی تبدیلیوں کو چاہے وہ کسی ٹیکنالوجی کی وجہ سے ہوں یا زمانے کی ضروریات کی وجہ سے آسانی سے پرکھ سکتے ہیں اس میں کوئی ابہام ہی نہیں ہے ۔
سو فیصد درست نور العینشروع تو ہو گئی اب جارى ركھیے !
تھوڑا ہم خود ڈر جاتے ہيں تھوڑا وہ ڈرا ليتے ہيں۔ ويسے يورپ کے بعض ممالك نے تو درست ثابت كر دى يہ بات ، نقاب پر پابندى لگ گئی ، داڑھی پر شايد لگ جائے۔ ہيٹرڈ تو آلريڈى موجود ہے۔
يعنى cultural assimilation يا acculturation يكطرفہ ہو تو قبول اور خوب ! ورنہ قانونى پابندى !
حوصلہ افزائی کا بہت بہت شکریہ بہن۔انیس بھائی جزاک اللہ خیراً کثیراً
آپ کے حقائق پر مبنی بیان کے بعد تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جانا چاہئے
يہ بات حقائق كے خلاف ہے كہ قوميں دوسروں کے تہوار اپنا ليتى ہيں ، حقيقت يہ ہے كہ Cultural assimilation كے غلغلے كے جواب ميں بہت سى طاقتور اور توانا آوازيں ايك تحريك كى صورت اٹھی ہيں جو اس طرح غالب ثقافت ميں مدغم ہو جانے كے سخت خلاف ہيں اور اس كو رد كيا جا چكا ہے ۔ دنيا كى چھوٹی چھوٹی ثقافتيں بھی اپنی زبان اور تہوار بچانے كى جنگ پورى مستعدى سے لڑ رہی ہيں ، دور كيوں جائيے يہ فورم اردو محفل بھی اردو كو رومن اردو بن جانے سے بچانے كى كوشش كا ايك حصہ ہے تا کہ نئی پود اصطلاحاتيں جيسى اردو نہ بولے۔ : ) سالگرہ مكمل طور پر قبول كر لى گئی ہے یہ بھی ايك غير حقيقى دعوى ہے ، لوگ صرف انہی علماء كو ديكھنا چاہتے ہوں جو ان كى ہاں ميں ہاں ملائيں تو اور بات ہے ورنہ سالگرہ ، نيو ائيرنائٹ اور ويلنٹائنز ڈے نہ منانے والوں كى ايك بڑی تعداد موجود ہے۔ اس صورت حال ميں يہ كہنا كہ اسلامى ثقافت جيسى دنيا كى بڑی ثقافت دوسروں کے تہوار اپنا لے انوكھی تاويل ہے۔ فلاسفہء تاريخ كا كہنا ہے كہ غالب قوميں مغلوب قوموں كو اپنی ثقافت كے سامنے سرنگوں ديكھنا چاہتى ہيں اور مغلوب قوموں ميں ہميشہ ايك ايسى مرعوب كلاس /طبقہ پيدا كرنے ميں كامياب ہو جاتى ہے جو ان كا نقال ہوتا ہے ۔ ماہرين نفسيات كے مطابق Immitation is a sign of love نقالى دراصل محبت كى علامت ہے ۔ مرعوب قسم كا يہ طبقہ غالب قوم كو اہل كمال جان كر ان سے اپنی محبت كا اظہار ان كى ہر كام ميں نقالى كر كے كرتا ہے۔ جب سپين مسلمان فاتحين كے زير اثر تھا تو وہاں بھی سپينش نصرانيوں كى اپر كلاس كے نوجوان مسلمانوں كى طرح باقاعدگی سے غسل اور وضو كرتے ، ان كا شماغ پہنتے داڑھی ركھتے يہاں تك كہ ان ميں سے بعض نے اپنے ناموں كے ساتھ عربى ناموں كے لاحقے لگا ليے ، نصرانى پادرى ان نوجوانوں كو بے دين اور عربوں سے مرعوب گمراہ ذہن قرار ديتے تھے۔ انڈيا ميں ہندو نيوائيرنائٹ اور ويلنٹائنز ڈے منانے كے خلاف نكلتے ہيں تو اسى ليے كہ وہ اپنی ثقافت بچانا چاہتے ہيں ۔يہ سب حقائق جان لينے كے بعد بھی اگر كوئى ثقافتوں كے ادغام كو دنيا كا واحد نظريہ سمجھتا ھے تو يہ بہت بڑی علمى خطا ہے۔ اس وقت دنيا كى ايك بڑی اكثريت Cultural assimilation كا نظريہ رد كر كے Multiculturalism كى باتيں كر رہی ہے آپ اس كو نظرانداز تبھی كرسكتے ہيں جب آ پ نے Cultural assimilation كى ديوار سے ناك سختى سے چپكا رکھی ہوں اور چاہتے ہوں كہ باقى سب بھی آپ کے ساتھ اسى melting pot ميں آ جائيں ۔
اکثر یہ فشار خون بلند کرنے والی حسن نثار مستعار منطق یوں شروع ہوتی ہے۔
اس کمرے میں غور سے دیکھو چیزوں کو ، یہ پنکھا دیکھ رہے ہو، یہ کولر ، یہ فرج ، یہ ٹی وی ، یہ کمپیوٹر ۔ یہ سب چیزیں انگریزوں (مغرب کو اکثر انگریزوں سے ہی منسوب کر دیتے ہیں ) کی ایجاد کردہ ہیں۔ پہلے ان کا استعمال ترک کرو پھر ان پر تنقید یا مخالفانہ بات کرو۔
اس قدر احمقانہ اور غیر منطقی دلیل سن کر سر پیٹ لینے کو جی چاہتا ہے کہ انسانیت کی مجموعی ترقی کو ایک خاص نسل اور علاقہ سے منسوب کر دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ باقی تمام گروہوں کو بانجھ سمجھ لیا جاتا ہے۔ ویسے تازہ ترین ایجاد یوٹیوب میں ایک موجد بنگالی ہے تو ایسے تمام حضرات جو یہ دلیل دیتے ہیں جس کا ذکر اوپر کیا ہے وہ کم از کم یوٹیوب استعمال کرنا کم کر دیں اگر چھوڑ نہیں سکتے۔