پندرہویں سالگرہ برصغیر کی معدوم ہوتی اشیاء

سید عمران

محفلین
اس لڑی کی تحریک کا محرک ظہیراحمدظہیر صاحب کا یہ مراسلہ بنا:
اس لڑی سے ایک خیال ذہن میں یہ آیا ہے کہ اردو کی بھی ایک تصویری لغت ہونی چاہئے۔ گلوبلائزیشن نے بہت تیزی سے ہماری تہذیب وثقافت کو متاثر کیا ہے ۔ نہ صرف یہ کہ زبان اور اقدار تبدیل ہورہی ہیں بلکہ گھریلو استعمال کی پرانی اشیا بھی بڑی تیزی سے منظر سے غائب ہوتی جارہی ہیں ۔عین ممکن ہے کہ آئندہ نسلیں جب خاصدان ، اگالدان ، سِینی ، سلفچی ، سروتا جیسے الفاظ پرانی کتابوں میں پڑھیں تو انہیں معلوم ہی نہ ہو کہ یہ کونسی اشیا ہیں ۔ اس لئے میری تجویز ہے کہ اردو محفل پر ایک دھاگا یا پروجیکٹ اس قسم کا شروع کیا جائے جس میں ان پرانی اشیا کی تصاویر جہاں سے بھی ممکن ہو ڈھونڈ ڈھانڈ کر جمع کردی جائیں ۔ اور بعدازاں ان کی مدد سے ایک تصویری لغت بہ اعتبار حروفِ تہجی ترتیب دی جائے ۔
 

سید عمران

محفلین
سروتا۔۔۔
بالخصوص چھالیہ کاٹنے کا آلہ۔۔۔
کسی زمانہ میں اس کی اتنی اہمیت تھی کہ شادی بیاہ کے گانوں میں اس کا خصوصیت کے ساتھ ذکر ہوتا تھا۔۔۔
پیارے نندویا سروتا کہاں بھول آئے۔۔۔
اب یہاں پیارے نندویا کی کیا اہمیت تھی وہ اُس زمانہ کے لوگ جانیں۔۔۔
ہم کسی کا پردہ فاش نہیں کریں گے۔۔۔
سروتے کو گاہے دیگر مقاصد مثلاً اخروٹ وغیرہ کاٹنے میں بھی استعمال کیا جاتا تھا۔۔۔
زیادہ تاؤ دلانے کی صورت میں فاعل کی جانب نشانہ درست کرکے مارا جاتا تو خاطر خواہ نتائج برآمد ہوتے تھے!!!
image.jpg
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
پاندان۔۔۔
نانی اماں اور دادی جان کی جان۔۔۔
اس میں موجود ڈبیاں کُلیاں کہلاتی تھیں۔۔۔
کبھی گھر والوں کی نگاہوں سے بچا کر کلیوں کے نیچے پیسے، ٹافی یا اسی نوع کی وہ اشیاء چھپا دی جاتی تھیں جو بچوں کی خواہشات نفس کو مہمیز دینے کے کام آسکتی ہوں۔۔۔
لیکن بچےہوں یا بڑے، شک ہونے کی صورت میں سیدھا اسی جگہ کی تلاشی لے کر گوہرِ مراد پالیتے تھے!!!
image.jpg



image.jpg
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
اُگال دان۔۔۔
پان تھوکنے کے کام آتا تھا۔۔۔
کبھی مریض کے سرہانے بھی رکھ دیتے تھے تاکہ اسی میں قےکرے یا بلغم تھوکے۔۔۔
پھر جس کو سزا دینی مقصود ہوتی اس سے یہ دھلوایا جاتا تھا۔۔۔
اس عمل کے دوران اُگال دان کے ساتھ مجرم کی طبیعت بھی صاف ہوجاتی تھی!!!

image.jpg
 

سید عمران

محفلین
برسوں پہلے اردو قاعدہ میں ص سے صراحی پڑھایا جاتا تھا۔۔۔
پھر صراحی نظر آنا بند ہوگئی، اب ص سے صندوق آنے لگا۔۔۔
صراحی بنانا نہایت آسان ہے، بس مٹکے کے اوپر پتلی لمبی گردن لگادیں اور صراحی تیار۔۔۔
مٹکے کی اس جدت طرازی کو سب سے زیادہ شعراء نے سراہا، اس کی وہ قدر دانی کی جو عام آدمی کے خواب و خیال میں بھی نہ آسکتی تھی۔۔۔
یعنی حسیناؤں کے حسن کا اک معیار صراحی دار گردن ہونا بھی ٹھہرا، ورنہ اس کا حسن قابل گردن زنی ٹھہرا۔۔۔
صراحی کے ساتھ ساتھ اب حسیناؤں کی پتلی لمبی گردنوں کا بھی کال پڑ گیا!!!

image.jpg
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
نعمت خانہ۔۔۔
لکڑی کے فریم والی چھوٹی سی الماری جس میں جالیاں لگی ہوتی تھیں تاکہ ہوا کی آمد و رفت میں آسانی رہے۔۔۔
فریج عام ہونے سے قبل اس میں کھانے پینے کی اشیاء رکھی جاتی تھیں۔۔۔
اسی نسبت سے اسے نعمت خانہ اور ہوا دان بھی کہا جاتا تھا۔۔۔
احتیاطی تدابیر کے طور پر دروازہ پر تالا لگایا جاتا تھا تاکہ ندیدے چٹورے لوگ دودھ پر سے بالائی اتار کر چٹ نہ کرجائیں۔۔۔
آج اس کی ضرورت نہیں۔۔۔
اب نہ پانی ملے دودھ پر بالائی آتی ہے نہ چپس چاکلیٹ کا ذائقہ منہ کو لگنے کے بعد شوق سے کھائی جاتی ہے!!!

image.jpg
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
سلفچی۔۔۔
مہمانوں کے ہاتھ دھلانے کے کام آتی تھی۔۔۔
اب نہ مہمان آتے ہیں نہ ان کے ہاتھ دھلانے کی نوبت آتی ہے۔۔۔
کوئی بھولا بھٹکا مہمان آ بھی جائے تو اس کے جلد جانے کا انتظام کیا جاتا ہے۔۔۔
نتیجۃً اسے صابن کے بجائے کھانے سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں!!!

image.jpg
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
لالٹین۔۔۔
مٹی کے تیل سے جلنی والی۔۔۔
رات کے اندھیروں میں کام آنے والی۔۔۔
طلباء اسی کی روشنی میں راتوں کو پڑھتے تھے۔۔۔
دستر خوان بچھا کر اسی کی روشنی میں رات کا کھانا کھایا جاتا تھا۔۔۔
اندھیری رات کو کوئی کام پڑتا تو اسی کے نور سے راہیں منور ہوتیں۔۔۔
جب سے بجلی بھری ہے تاروں کے انگ میں، لالٹین کے رنگ مدھم پڑگئے!!!

image.jpg
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
خاص دان۔۔۔
پان پر کتھا چونا لگا، تمباکو چھالیہ اور مطلوبہ لوازمات بھر ایک خاص انداز سے لپیٹا جاتا تھا جسے گلوری کہتے تھے۔۔۔
اسے انگریزی والی گلوری نہ سمجھ بیٹھیے گا ورنہ مار کھا جائیں گے۔۔۔
پان کی گلوریوں کو ایک خاص ظرف میں رکھ کر پیش کیا جاتا تھا جسے خاص دان کہتے تھے۔۔۔
اب نہ وہ خاص لوگ رہے نہ خاص دان۔ رہا تو بس اللہ کا نام!!!

image.jpg
 
آخری تدوین:
برسوں پہلے اردو قاعدہ میں ص سے صراحی پڑھایا جاتا تھا۔۔۔
پھر صراحی نظر آنا بند ہوگئی، اب ص سے صندوق آنے لگا۔۔۔
صراحی بنانا نہایت آسان ہے، بس مٹکے کے اوپر پتلی لمبی گردن لگادیں اور صراحی تیار۔۔۔
مٹکے کی اس جدت طرازی کو سب سے زیادہ شعراء نے سراہا، اس کی وہ قدر دانی کی جو عام آدمی کے خواب و خیال میں بھی نہ آسکتی تھی۔۔۔
یعنی حسیناؤں کے حسن کا اک معیار صراحی دار گردن ہونا بھی ٹھہرا، ورنہ اس کا حسن قابل گردن زنی ٹھہرا۔۔۔
صراحی کے ساتھ ساتھ اب حسیناؤں کی پتلی لمبی گردنوں کا بھی کال پڑ گیا!!!

image.jpg
90 کے اوائل تک ایک صراحی اور ایک گھڑا ہمارے گھر موجود اور مستعمل تھا۔
 
لالٹین۔۔۔
مٹی کے تیل سے جلنی والی۔۔۔
رات کے اندھیروں میں کام آنے والی۔۔۔
طلباء اسی کی روشنی میں راتوں کو پڑھتے تھے۔۔۔
دستر خوان بچھا کر اسی کی روشنی میں رات کا کھانا کھایا جاتا تھا۔۔۔
اندھیری رات کو کوئی کام پڑتا تو اسی کے نور سے راہیں منور ہوتیں۔۔۔
جب سے بجلی بھری تاروں کے انگ میں، لالٹین کے رنگ مدھم پڑگئے!!!

image.jpg
2 لالٹین کوئی دس سال پہلے تک موجود تھیں، پھر کسی کو دے دیں۔
 
نعمت خانہ۔۔۔
لکڑی کے فریم والی چھوٹی سی الماری جس میں جالیاں لگی ہوتی تھیں تاکہ ہوا کی آمد و رفت میں آسانی رہے۔۔۔
فریج عام ہونے سے قبل اس میں کھانے پینے کی اشیاء رکھی جاتی تھیں۔۔۔
اسی نسبت سے اسے نعمت خانہ اور ہوا دان بھی کہا جاتا تھا۔۔۔
احتیاطی تدابیر کے طور پر دروازہ پر تالا لگایا جاتا تھا تاکہ ندیدے چٹورے لوگ دودھ پر سے بالائی اتار کر چٹ نہ کرجائیں۔۔۔
آج اس کی ضرورت نہیں۔۔۔
اب نہ پانی ملے دودھ پر بالائی آتی ہے نہ چپس چاکلیٹ کا ذائقہ منہ کو لگنے کے بعد شوق سے کھائی جاتی ہے!!!

image.jpg
ہمارا نعمت خانہ جستی چادروں کا بنا ہوا تھا۔ ایک شفٹنگ کے دوران بیچی جانے والی اشیاء میں یہ بھی شامل تھا۔
 
پاندان۔۔۔
نانی اماں اور دادی جان کی جان۔۔۔
اس میں موجود ڈبیاں کُلیاں کہلاتی تھیں۔۔۔
کبھی گھر والوں کی نگاہوں سے بچا کر کلیوں کے نیچے پیسے، ٹافی یا اسی نوع کی وہ اشیاء چھپا دی جاتی تھیں جو بچوں کی خواہشات نفس کو مہمیز دینے کے کام آسکتی ہوں۔۔۔
لیکن بچےہوں یا بڑے، شک ہونے کی صورت میں سیدھا اسی جگہ کی تلاشی لے کر گوہرِ مراد پالیتے تھے!!!
image.jpg



image.jpg
دادا کا پاندان ان کے انتقال کے بعد خاندان کے ایک اور بزرگ کو دان کر دیا تھا۔
 

سید عمران

محفلین
سینی۔۔۔
اگرچہ ایسی عنقا تو نہ ہوئی، تاہم نام، دام اور کام بدل گئے۔۔۔
اب اسے ٹرے کے نام سے پکارا جاتا ہے اور کبھی ڈش کے نام سے۔۔۔
اصلی سینی دھات سے بنی ہوتی تھی۔۔۔
عوام میں تانبے کی اور بادشاہوں کے ہاں سونے چاندی کی رائج تھی۔۔۔
عموماً ہلکی پھلکی اشیائے خورد و نوش پیش کرنے کے لیے مستعمل تھی جسے آج کل اسنیکس کہتے ہیں جیسے مٹھائی، نمکو وغیرہ!!!

image.jpg
 
سینی۔۔۔
اگرچہ ایسی عنقا تو نہ ہوئی، تاہم نام، دام اور کام بدل گئے۔۔۔
اب اسے ٹرے کے نام سے پکارا جاتا ہے اور کبھی ڈش کے نام سے۔۔۔
اصلی سینی دھات سے بنی ہوتی تھی۔۔۔
عوام میں تانبے کی اور بادشاہوں کے ہاں سونے چاندی کی رائج تھی۔۔۔
عموماً ہلکی پھلکی اشیائے خورد و نوش پیش کرنے کے لیے مستعمل تھی جسے آج کل اسنیکس کہتے ہیں جیسے مٹھائی، نمکو وغیرہ!!!

image.jpg
ابھی تک مستعمل ہے۔ اور دال، چاول، زیرہ وغیرہ کی صفائی کے کام آتی ہے۔
 

سید عمران

محفلین
مدھانی۔۔۔
ٹھنڈے یخ دودھ میں لکڑی کی یہ مدھانی چلاتے تھے۔۔۔
اس سے مکھن دودھ کے اوپر آجاتا تھا۔۔۔
باقی جو پانی بچتا تھا اسے چھاچھ کہتے ہیں۔۔۔
لسی کی دوکانوں پر کہیں کہیں مدھانی نظر آجاتی ہے۔۔۔
بعض اوقات اس سے حلیم وغیرہ بھی گھوٹا جاتا ہے۔۔۔
شہروں میں تو پہلے ہی اس کا تصور عام نہ تھا اب تو دیہاتوں میں بھی معدوم ہوتا جارہا ہے!!!

image.png
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
نعمت خانہ۔۔۔
لکڑی کے فریم والی چھوٹی سی الماری جس میں جالیاں لگی ہوتی تھیں تاکہ ہوا کی آمد و رفت میں آسانی رہے۔۔۔
فریج عام ہونے سے قبل اس میں کھانے پینے کی اشیاء رکھی جاتی تھیں۔۔۔
اسی نسبت سے اسے نعمت خانہ اور ہوا دان بھی کہا جاتا تھا۔۔۔
احتیاطی تدابیر کے طور پر دروازہ پر تالا لگایا جاتا تھا تاکہ ندیدے چٹورے لوگ دودھ پر سے بالائی اتار کر چٹ نہ کرجائیں۔۔۔
آج اس کی ضرورت نہیں۔۔۔
اب نہ پانی ملے دودھ پر بالائی آتی ہے نہ چپس چاکلیٹ کا ذائقہ منہ کو لگنے کے بعد شوق سے کھائی جاتی ہے!!!

image.jpg
ہمارے پاس بھی ہوا کرتا تھا ۔اور دودھ کی بالائی میرے ہاتھوں سے کبھی محفوظ نہ رہتی تھی ۔
ہم اسے نعمت خانے کے علاوہ گنجینہ بھی کہتے تھے کہ یہی ہمارے لیے گنج ہائے گرانمایہ رکھتا تھا ۔
 
Top