یعنی ۔کپڑے پھیلانے والی رسی
چھینکا۔۔۔
یہ عموماً لوہے کی جال دار ٹوکری ہوتا ہے۔ اسے دیوار یا کپڑے پھیلانے والی رسی و تار پر ٹانگ دیا جاتا تھا۔۔۔
اس میں دودھ، سالن وغیرہ رکھتے تھے تاکہ جانوروں خصوصاً بلی سے محفوظ رہے اور ہوا لگتے رہنے سے خراب نہ ہو۔۔۔
اسی لیے محاورہ بنا ہے بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا۔۔۔
یعنی بلی کے بھاگ، قسمت جاگ اٹھی کہ چھینکا ٹوٹا اور بلی کو کھانے کے لیے کچھ ملا!!!
کسی کو اس کی تصویر میسر ہو تو شئیر کردی جائے!!!
یہ لیجیئے اس میں بلی کے بھاگ بھی آگئے ۔ بیچاری بلی خالی چھینکے کو ہی تک رہی ہے ۔ ویسے اس چھینکے میں ڈھکن نظر نہیں آرہا جو ہمارے چھینکے میں تو ہوا کرتا تھا ۔اسی لیے محاورہ بنا ہے بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا۔۔۔
ہم نے بہت استعمال کیں ہیں یہ ۔ ہم انہیں رَلّی کہتے ہیں ۔شاید اب بھی اندرونِ سندھ استعمال ہوتی ہو!!!
ہم نے بھی رِلّی ہی سنا اور کہا۔جبکہ سندھی زبان میں غالباََ یہ رِلّی کہلاتی ہے ۔
اور یہ ہماری سکھر میں موجود ایک رشتہ دار خاتون نے نئے سلنے والے کپڑوں کی بچی ہوئی کترنوں سے سلوا کر بھیجی تھیں۔ہم نے بھی رِلّی ہی سنا اور کہا۔
ابھی بھی رکھی ہوئی ہیں۔
میں نے اردو بولنے والوں سے کبھی رِلی نہیں سنا ۔ہم نے بھی رِلّی ہی سنا اور کہا۔
ابھی بھی رکھی ہوئی ہیں۔
اٹک میں ہماری پھوپھی مرحومہ کے گھر شہتیر والی چھت تھی۔ چند سال قبل گھر دوبارہ تعمیر کروایا ہے، تو یہ لکڑی اتنی مضبوط تھی کہ یہی لکڑی نئے گھر میں بھی دروازوں کے لیے استعمال ہوئی۔شہتیر۔۔۔
لکڑی کے موٹے موٹے اور لمبے لمبے ٹکڑے۔۔۔
انہیں دیواروں پر رکھ کر اوپر چھت ڈالی جاتی تھی۔۔۔
گویا پرانے زمانے کے بیم تھے!!!