برطانیہ ملک ریاض کے19 کروڑ پاؤنڈز پاکستان کو دے گا

آورکزئی

محفلین
وزیراعظم کے سب سے زیادہ اچھے تعلقات ملک ریاض سے ہیں۔۔
وزیراعظم عمران خان جن شخصیات کو انتہائی پسند کرتے ہیں ان میں ایک ملک ریاض بھی شامل ہیں۔۔
عمران خان اور ملک ریاض کے تعلقات اس قدر اچھے ہیں۔۔۔۔۔
 

جاسم محمد

محفلین
وزیراعظم کے سب سے زیادہ اچھے تعلقات ملک ریاض سے ہیں۔۔
وزیراعظم عمران خان جن شخصیات کو انتہائی پسند کرتے ہیں ان میں ایک ملک ریاض بھی شامل ہیں۔۔
عمران خان اور ملک ریاض کے تعلقات اس قدر اچھے ہیں۔۔۔۔۔
ملک ریاض عمران خان کی متبادل اے ٹی ایم ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
ملک ریاض جہاں کھڑے ہوں قطار وہیں سے شروع ہوتی ہے
ملک ریاض کو بولی لگانی آتی ہے، چیز چاہے نیلامی کے لیے پیش کی گئی ہو یا نہیں، چیز چاہے خریدنے کے قابل بھی ہو یا نہیں۔

عفت حسن رضوی
مصنفہ، صحافی @IffatHasanRizvi
جمعرات 5 دسمبر 2019 7:30

56551-1330444764.jpg

ملک ریاض ہمارے معاشرے کا آئینہ ہیں، وہ سیاست، فوج، میڈیا، بیوروکریسی سے لے کر عدلیہ تک سب کا چہرہ ہمیں بار بار دکھاتے ہیں(اے ایف پی)

کچھ مڈل کلاسیے اچھل اچھل کر ملک ریاض کو پڑنے والے مبینہ ہرجانے کا جشن منا رہے ہیں، برطانیہ میں ہونے والی ملک ریاض کی سُبکی پہ کچھ ناعاقبت اندیش پھول کے کپا ہوئے جاتے ہیں۔

ذرا سنبھل جاؤ میرے ہم وطنو۔ وہ اتنا دھن والا ہے کہ آپ سمیت آپ کا پورا سسٹم خرید سکتا ہے۔

مڈل کلاسیوں کا تو یہ حال ہے کہ ابا ساری زندگی سرکاری دفتر کی جوتیاں گھستے گھستے اللہ کے پاس جا بسے، پیچھے اپنے نکمے لڑکوں کو بسانے کے لیے جو 120 گز کا پلاٹ چھوڑ گئے تھے، اس پر چھ بھائیوں کے بیچ مقدمے بازی چل رہی ہے، چھ کے چھ کرائے کے مکانوں میں رہتے ہیں جہاں ہر پہلی تاریخ کو مالک مکان کے ہاتھوں عزت کا سیخ کباب بنواتے ہیں۔

کم بختو سے اس پلاٹ پر چار دیواری تک نہ اٹھائی گئی، مگر سلام ہے اس خود اعتمادی پہ جب چھ کے چھ بھائی مل کر ملک ریاض کو اجتماعی لعن طعن کرتے ہیں کہ ’ملک ریاض سارا ملک کھا گیا۔‘

میں سمجھتی تھی کہ پاکستانیوں میں ’پلاٹ‘ خریدنے کا پہلے ضرورت پھر فیشن اور اب لت بنانے کے پیچھے بھی ملک ریاض کا ہاتھ ہے، پھر دھیرے دھیرے اندازہ ہوا کہ جیسے ملک ریاض ایک ہی نگاہ میں بندے کی قیمت کا اندازہ لگا لیتے ہیں ویسے ہی ملک صاحب نے اس قوم کی نبض پہ بھی ہاتھ رکھا۔

ہمارے متوسط طبقے کو پلاٹ کی شکل میں دنیا کی محفوظ ترین سرمایہ کاری نظر آتی ہے، بیرون ملک مقیم پاکستانی چاہے برسوں میں ایک بار وطن آئے مگر اپنی کوٹھی ضرور بناتا ہے۔ جہیز میں بھی دیے گئے پلاٹوں کی بڑی دھوم ہوتی ہے، لڑکے بھی ترکے میں ملنے والے رقبوں پر بہت چوڑے ہوتے ہیں۔

جو زیادہ امیر ہیں وہ شہر سے پرے خالی پلاٹ پر فارم ہاؤس بنا کر نجانے کون سے جذبات کی تسکین کرتے ہیں۔ آپ خود اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں سمجھ آجائے گا کہ یہ ’پلاٹ‘ موئی کس آفت کا نام ہے۔

راولپنڈی لوئی بھیر کے اطراف میں جنگلات تھے، ان جنگلوں میں بھی ملک صاحب نے راستے نکال لیے۔ پہلے ایسا صرف جنید جمشید کے گانے میں ہوتا تھا۔ کراچی کی جو زمین بنجر تھی سندھ حکومت نے ویسے بھی وہاں تیسرا ٹاؤن ٹائپ کا کوئی فلاپ پراجیکٹ ہی بنانا تھا، سو وہاں ملک ریاض نے حسرتوں کا تاج محل کھڑا کر دیا۔ پرانے لہور والے یونہی اپنی تاریخی عمارتوں پر اتراتے تھے، ملک ریاض نے بحریہ ٹاؤن لاہور بنا کر نئی تاریخ رقم کر دی۔

ملک صاحب پہ دھوکہ دہی، قتل، رشوت، جنگلات پہ قبضے، حکومتی اراضی پر قبضے کے درجنوں مقدمات بنے مگر وہ ماشاء اللہ سے ہر بار سرخرو ہوئے، کہیں مصالحت کے نتیجے میں کہیں سپریم کورٹ کو پیسے دے کر۔

ملک صاحب واحد بندہ ہے جو کھل کر بتاتا ہے کہ فائلوں کو پہیے کیسے لگائے جاتے ہیں، ذرا فلمی ہو جائے گا مگر تحریر کے اس نازک موڑ پر یہ ڈائیلاگ مارنا ضروری ہے کہ ’ابھی تک وہ قانون ہی نہیں بنا جو ملک ریاض پر گرفت کر سکے‘ یا پھر ’ملک ریاض جہاں کھڑے ہو جائیں قطار وہیں سے شروع ہوتی ہے۔‘

کیس میڈیا پر اچھلے تو ملک صاحب اپنا اخبار نکال لیتے ہیں، صحافیوں کی زبانیں زیادہ چلنے لگیں تو اپنے آڑی اینکرز کو شو کرا دیتے ہیں۔ کوئی میڈیا گروپ آنکھیں دکھائے تو بحریہ ٹاؤن کے یہ لمبے لمبے اشتہار کروڑوں میں دے دیتے ہیں۔

کیس سپریم کورٹ آئے تو سپریم کورٹ بار کے صدر کو ہی اپنا وکیل کر لیتے ہیں۔ ایک فوجی نے اپنے حلف میں سوہنی دھرتی کی حفاظت کی قسم اٹھائی ہوتی ہے، تو ملک صاحب اسی اٹھائی گئی قسم کی ایکسٹینشن کرتے ہوئے ریٹائرڈ افسران کو اپنے ہاں ملک کے چپے چپے کی حفاظت کے لیے رکھ لیتے ہیں۔

وللہ ایسی دور اندیشی ایسی منصوبہ بندی! سوائے ڈی ایچ اے کوئی مقابل نہیں دور تک۔ محسوس ہوتا ہے کہ پاک بحریہ بھی تذبذب کا شکار ہے کہ بحریہ ٹاؤن میں خواہ مخواہ لگے اپنے نام پہ فخر کرے یا اس سے اظہار لاتعلقی فرما دے۔

ملک ریاض کی محفل میں کون ہے جو غزل سرا نہ ہوا۔ ملک صاحب زرداری کے عزیز دوست ہیں تو شریف خاندان کے بھی پکے ساتھی، چوہدری برادران بھی ملک ریاض کے قریبی سمجھے جاتے ہیں تو تحریک انصاف والے بھی ان کے پیارے ہیں۔ اور تو اور یہ ملک ریاض ہی کا دل گردہ تھا جو حیدرآباد میں الطاف بھائی کے نام سے یونیورسٹی بنانے کا نادر خیال پیش کیا بلکہ فیتہ تک کاٹ دیا۔ کوئی اور ایسا خطروں کا کھلاڑی ہے تو بتائیں۔

ملک ریاض کو بولی لگانی آتی ہے، چیز چاہے نیلامی کے لیے پیش کی گئی ہو یا نہیں، چیز چاہے خریدنے کے قابل بھی ہو یا نہیں، کوئی خود کو بازار میں برائے فروخت لایا یا نہیں، یا پھر کسی نے خود کو انمول سمجھ کر کوئی قیمت ہی نہ لگائی ہو۔ ملک ریاض وہ خریدار ہے جو قیمت خود طے کرتا ہے۔ وہ ایک ہی ملاقات، چھوٹی سی بات یا ڈھکی چھپی مناجات سے سمجھ جاتا ہے کہ کس کو کتنے دام میں خریدا جا سکتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ ملک ریاض کے پاس کامیابی کی کون سی گیدڑ سنگھی ہے؟

اس کا جواب بھی سوال میں چھپا ہے یعنی پہلے ’مال‘ پھر ’کامیابی۔‘ روئٹرز کو دیے ایک انٹرویو میں ملک ریاض کا کہنا تھا کہ ’اگر میں یہ بتا دوں کہ میں نے سب سے بڑی رشوت کتنے پیسوں کی دی تو آپ کو دل کا دورہ پڑ جائے گا۔‘

ملک ریاض ہمارے معاشرے کا آئینہ ہیں۔ وہ سیاست، فوج، میڈیا، بیوروکریسی سے لے کر عدلیہ تک سب کا چہرہ ہمیں بار بار دکھاتے ہیں۔ میرے خیال میں تو ملک ریاض کو اس ملک کی ’کرپشن مٹاؤ مہم‘ کا سربراہ بنا دیا جائے، سارے چور اندر ہوں گے۔ ملک صاحب نے تو ویسے بھی باہر ہی رہنا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
وزیراعظم کے سب سے زیادہ اچھے تعلقات ملک ریاض سے ہیں۔۔
وزیراعظم عمران خان جن شخصیات کو انتہائی پسند کرتے ہیں ان میں ایک ملک ریاض بھی شامل ہیں۔۔
عمران خان اور ملک ریاض کے تعلقات اس قدر اچھے ہیں۔۔۔۔۔
انگریز بھی ملک ریاض کو بہت پسند کرتے ہیں۔ اتنا زیادہ کہ انہوں نے ان کی 5 کروڑ پاؤنڈ کی جائیداد ضبط کر کے اسے بیچنے کا فیصلہ کر لیا ہے :)
یہ پیسے سیدھا ریاست پاکستان کے پاس جائیں گے۔ :)


برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی نے ملک ریاض کی جائیداد کا قبضہ حاصل کرلیا
عاتکہ رحماناپ ڈیٹ 05 دسمبر 2019

لندن: برطانوی حکام کی جانب سے 19 کروڑ پاؤنڈ کے تصفیے کی پیشکش قبول کرنے کے بعد نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) نے ایک بیان جاری کیا جو پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کے جائیداد فروخت کر کے سپریم کورٹ میں رقم جمع کروانے کے موقف سے متضاد ہے۔

خیال رہے کہ 2 روز قبل ملک ریاض نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت بحریہ ٹاؤن کراچی کیس میں 19 کروڑ پاؤنڈز کی رقم جمع کروانے کے لیے برطانیہ میں موجود ظاہر شدہ قانونی جائیداد فروخت کی۔

تاہم جب اس بارے میں این سی اے کے ایک عہدیدار سے پوچھا گیا کہ آیا یہ تصفیہ ملک ریاض کی جانب سے جائیداد فروخت کرنے کا نتیجہ ہے تو انہوں نے ڈان کو بذریعہ ای میل بتایا کہ ’این سی اے نے جائیداد کی ملکیت حاصل کرلی ہے جسے فروخت کر کے آمدنی پاکستان کو واپس کی جائے گی‘۔

اس بیان کے روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ لندن میں ایک ہائیڈ پارک پلیس کے نام سے موجود 50 کروڑ پاؤنڈز مالیت کی جائیداد کا قبضہ اب برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی کے پاس ہے اور اس کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم کسی فرد واحد کو نہیں بلکہ ریاست پاکستان کو دی جائے گی۔

تاہم یہ واضح نہیں ہوسکا کہ اس صورت میں ملک ریاض کس طرح اس رقم کو بحریہ ٹاؤن کیس کی رقم کی ادائیگی کے لیے استعمال کریں گے۔

اس ضمن میں ڈان نے بحریہ ٹاؤن کے ترجمان سے رابطہ کیا تو انہوں نے کوئی جواب دینے سے انکار کردیا۔

یاد رہے کہ رواں برس مارچ میں سپریم کورٹ کے جسٹس شیخ عظمت سعید کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے بحریہ ٹاؤن کراچی کی زمین کو قانونی دائرے میں لانے کے لیے 460 ارب روپے کی پیش کش قبول کی تھی۔


سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ سندھ حکومت کی جانب سے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو دی گئی زمین اور اس کا نجی ٹھیکیدار سے تبادلہ اور جو کچھ بھی صوبائی حکومت نے نو آبادیاتی حکومتی زمین کے قانون برائے 1912 کے تحت کیا وہ غیر قانونی تھا۔

دوسری جانب این سی اے کی جانب سے 2 روز قبل یہ بیان سامنے آیا تھا کہ اس نے ملک ریاض کے اہلِ خانہ سے منسلک جائیدادوں اور اکاؤنٹس کی ایک ماہ تک تحقیقات کرنے کے بعد ان کی جانب سے 19 کروڑ پاؤنڈ کی پیشکش قبول کرلی۔

این سی اے کی جانب سے برطانیہ میں موجود ملک ریاض کے اثاثوں کی تحقیقات کا پہلا ریکارڈ پاکستان تحریک انصاف کےا قتدار میں آنے کے بعد دسمبر 2018 کا ہے۔

اس حوالے سے 14 اگست 2019 کو جاری کردہ ایک پریس ریلیز میں کرائم ایجنسی کا کہنا تھا کہ ’این سی اے نے 8 بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے کے احکامات دیے تھے جن میں 10 کروڑ پاؤنڈز موجود ہیں جو مبینہ طور پر کسی دوسرے ملک میں رشوت اور بدعنوانی کے ذریعے حاصل کیے گئے، بعدازاں دسمبر 2018 میں ہونے والی ایک سماعت کے بعد ایک فرد سے منسلک 2 کروڑ پاؤنڈز منجمد کردیے گئے تھے‘۔


بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ ویسٹ منسٹر میجسٹریٹ عدالت نے 12 اگست کو اکاؤنٹ فریزنگ آرڈرز(اے ایف او) جاری کیے جو برطانوی کرمنل ایکٹ 2017 کے تحت اب تک ’فریز کی گئی سب سے بھاری رقم ہے‘۔

مذکورہ معاملے نے بین الاقوامی میڈیا کی سرخیوں میں بھی اپنی جگہ بنا ئی جس میں دی گارجیئن، الجزیرہ، فنانشل ٹائمز شامل ہیں۔

برطانوی اخباروں نے لکھا کہ ملک ریاض گریڈ ’اے‘ کا 16 ہزار مربع فٹ پر محیط خاندانی گھر 1 ہائیڈ پارک پلیس حکام کے حوالے کریں گے، ایک رپورٹ کے مطابق یہ عالیشان گھر 10 بیڈرومز پر مشتمل مینشن ہے جس میں سنیما، سوئمنگ پول، جمنازیم، اسٹیم روم اور سپا بھی موجود ہے۔

برطانیہ کی ڈیجیٹل لینڈ رجسٹری کی چھان بین میں یہ بات سامنے آئی کہ برطانوی ورجن آئی لینڈز کی ’الٹیمیٹ ہولڈنگز لمیٹڈ‘ اس جائیداد کی رجسٹرڈ مالک ہے، مذکورہ دستاویز میں 14 نومبر 2019 تک کی معلومات درج تھیں۔


لینڈ رجسٹری ریکارڈ کے مطابق یہی جائیداد 2016 میں 4 کروڑ 25 لاکھ پاؤنڈز میں حسن نواز شریف سے خریدی گئی تھی، تاہم شریف خاندان کے ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ مذکورہ جائیداد فروخت کرنے کے بعد حسن نواز کا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
 

جان

محفلین
ارے بھائی تحریک انصاف حکومت پر تنقید کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ وہ تو پچھلے 15 ماہ سے مسلسل ہو رہی ہے۔
اگر حکومت نے صحافیوں کا منہ بند کرنا ہوتا تو پچھلی حکومت کی طرح ان کیلئے قومی خزانہ کا دروازہ کھول دیتے۔ تاکہ ان بے روزگار صحافیوں کی نوکریاں خطرہ میں نہ پڑتی۔ لیکن حکومت نے اُلٹا سرکاری اشتہارات میں مزید کمی کر دی ہے۔ اس لئے ایک دو کو چھوڑ کر باقی تمام نیوز چینلز حکومت مخالف پراپگنڈہ میں مصروف ہیں۔ اس سے کیا حکومت پر کوئی اثر پڑا؟ بالکل بھی نہیں۔ کیونکہ حکومت کو معلوم ہے کہ اس کے سپورٹر پرنٹ، الیکٹرونک میڈیا کے محتاج نہیں۔ وہ سوشل میڈیا پرپائے جاتے ہیں جہاں اپوزیشن اور اس کے حامی لفافوں کے ہر منفی پراپگنڈہ کا تسلی بخش جواب دیا جاتا ہے۔
ایسا نہیں کہ صحافیوں میں پروپیگنڈہ گروپس نہیں پائے جاتے بلکہ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ حکومت اور اس کے کٹر حامی خود بہت بڑے پروپیگنڈہ ماہر ہیں۔ خان صاحب اٹھتے بیٹھتے یہی رونا روتے رہتے ہیں کہ 'مافیا، مافیا، مافیا'، کمال ہے اگر مافیا ہسپتال اور جیلوں میں رہ کر ملکی حالات کنٹرول کر رہا ہے اور خان صاحب اقتدار میں رہ کر کچھ نہیں کر پا رہے، پھر تو یقیناً مافیا سپر پاورز رکھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ گرتی ہوئی یا ٹیڑھی دیوار خود اپنی ہی اپوزیشن ہوتی ہے کوئی بھی دھکا دے کر الزام اپنے سر نہیں لیتا، اب چونکہ اپوزیشن خان صاحب کو سیاسی شہید ہوتا نہیں دیکھ سکتی اس لیے ان کی طرف سے تو اپوزیشن ہے ہی نہیں، اب خان صاحب اپنی نااہلی کو چھپانے کے لیے سارا سہرا خیالی 'مافیا' کو پہنچانا چاہتے ہیں، اس لیے ایک خیالی 'اپوزیشن' کی رٹ لگا کر خود کو بیوقوف بنا رہے ہیں اور صبح شام اسی پروپیگنڈے میں مصروف ہیں کہ عوام کو یقین دلایا جائے کہ ہماری ناکامی کے پیچھے 'مافیا' ہے۔ یاد رہے کہ ایک ٹیکنیک ضروری نہیں ہر دفعہ کامیاب ہو، پروپیگنڈہ حکومت تک تو لا سکتا ہے کسی سیاستدان کو لیکن اس سے آگے سیاستدان کی کارکردگی یہ ظاہر کرتی ہے وہ کتنا قابل ہے لیکن خان صاحب اور اس کی پروپیگنڈہ ٹیم اس خام خیالی میں ہے کہ اگر پروپیگنڈہ حکو مت تک لا سکتا ہے تو حکومت بچا بھی سکتا ہے لیکن اس کی آنکھیں اگلے انتخابات میں کھلیں گی (اگر الیکشن فیئر ہوئے تو)!
 
ملک ریاض کا خاندان برطانیہ میں ہونے والی تحقیقات اور متعدد اکاؤنٹ منجمد کئے جانے کے بعد برطانیہ کی کرائم ایجنسی کے ساتھ طے پانے والے ایک معاہدہ کے تحت 19 کروڑ پاؤنڈ ادا کرنے پر راضی ہوگیا ہے۔ برطانوی حکام نے اگست میں آٹھ مختلف اکاؤنٹ منجمد کئے تھے۔ اب ملک ریاض ان اکاؤنٹس میں موجود تمام رقوم سے دستبردار ہونے کے علاہ 5 کروڑ مالیت کی ایک جائیداد بھی برطانوی حکام کے حولے کرنے پر راضی ہوگئے ہیں۔

برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کے ایک بیان میں گزشتہ روز کہا گیا تھا کہ ’ایجنسی نے ایک پاکستانی شہری ملک ریاض حسین جو پاکستان کے نجی شعبہ میں سب سے بڑے آجر ہیں، کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے۔ اس معاہدہ میں ایجنسی نے 19 کروڑ پاؤنڈ ادائیگی کی پیش کش قبول کرلی ہے۔ اس میں 1۔ ہائیڈ پارک پلیس، لندن میں واقع ایک جائیداد بھی شامل ہے جس کی مالیت پانچ کروڑ پاؤنڈ ہے‘۔

یہ خبر سامنے آنےکے بعد وزیر اعظم کے خصوصی مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر نے ایک بیان میں بتایا کہ برطانوی حکام اس رقم کو فوری طور سے حکومت پاکستان کے حوالے کرنے پر راضی ہوگئے ہیں۔ انہوں نے اس اقدام کو دونوں ملکوں کے اداروں کے درمیان تعاون کی شاندار کامیابی بھی قرار دیا۔ تاہم اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ برطانوی حکام کے ساتھ ایک پاکستانی شہری کا معاہدہ ایک سول معاملہ ہے اور اس سے کسی جرم کی نشاندہی نہیں ہوتی۔ احتساب خاتمہ مہم میں حکومت کے ’پرنس‘ شہزاد اکبر کا یہ اصرار بھی ہے کہ ’برطانوی حکام نے یہ کارروائی کسی نامزد فرد کے خلاف نہیں کی بلکہ اکاؤنٹس میں موجود فنڈز کے خلاف کی گئی تھی‘۔

ملک ریاض نے پاکستان میں ہاؤسنگ سوسائیٹیاں بناکر اور سرکاری و نیم سرکاری زمینوں پر جدید رہائشی منصوبوں کے ذریعے کثیر دولت جمع کی ہے ۔ ان پر قانون شکنی کے نت نوع الزامات بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔ اسی حوالے اس سال کے شروع میں کراچی کے بحریہ ٹاؤن کے لئے حاصل کی گئی املاک کے تنازعہ میں بحریہ ٹاؤن پاکستانی سپریم کورٹ کے ساتھ طے پانے والے ایک معاہدہ میں 460 ارب روپے ادا کرنے پر راضی ہوگیا تھا۔ اس معاہدہ کے بعد سپریم کورٹ نے احتساب بیورو کو بحریہ ٹاؤن یا ملک ریاض کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی بند کردینے کا حکم دیا تھا۔

برطانیہ میں ہونے والی کارروائی اور معاہدہ دراصل برطانیہ کے 2002 کے ایک قانون کے مطابق ہؤا ہے، جس کے تحت غیر قانونی سرگرمیوں سے حاصل ہونے والی املاک یا دولت کو ضبط کیا جاسکتا تھا۔ برطانوی حکومت نے اس سال کے دوران اس قانون میں ترمیم کرتے ہوئے اس کا دائرہ ایسی تمام املاک تک پھیلا دیا تھا جنہیں غیرمصدقہ وسائل سے خریدا گیا ہو۔ اسی طرح کوئی بھی شخص یا ادارہ اگر اپنی جائیداد یا اکاؤنٹ میں موجود رقوم کا حساب نہ دے سکے تو حکومت اسے ضبط کرنے اور متعلقہ افراد کے خلاف قانونی کارروائی کا اختیار رکھتی ہے۔ برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے ملک ریاض کے خلاف بھی اسی قانون کے تحت کارروائی کی تھی۔ تاہم ملک ریاض قانون کی گرفت سے بچنے کے لئے یہ معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔

ملک ریاض سے موصول ہونے ولی رقم چونکہ پاکستان کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، اس لئے یہ واضح ہے کہ برطانوی حکام کو یقین ہے کہ ملک ریاض نے یہ رقم پاکستان سے غیر قانونی طور پر برطانیہ منتقل کی تھی۔ اب برطانیہ کی حکومت معاہدہ کے تحت ادا شدہ رقم میں سے واجب الادا اخراجات یا ٹیکس و محاصل منہا کرکے باقی ماندہ رقم پاکستان کے حوالے کردے گی۔ اس طرح برطانوی حکام نے بیرون ملک سے منی لانڈرنگ کے ذریعے ناجائز دولت برطانیہ لانے والوں کو واضح پیغام دیا ہے کہ وہاں ان کی غیر قانونی دولت محفوظ نہیں ہوگی۔ برطانوی حکومت اور عوام جرم کے ذریعے حاصل کی گئی دولت کو ضبط کرنے اور ان کے اصل حق داروں تک پہنچانے کا عزم رکھتے ہیں۔

ایک پاکستانی نژاد سے 19 کروڑ پاؤنڈ کی خطیر رقم کی وصولی اگرچہ برطانیہ کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کامیابی ہے اور وہاں کی حکومت کے سیاسی عزم کا اظہار ہے لیکن اس معاملہ میں پاکستان کو اس کا براہ راست فائدہ پہنچا ہے۔ پاکستان کے حکام ہمیشہ ملک سے غیر قانونی طور پر سرمایہ بیرون ملک لے جانے کا ذکرکرتے رہے ہیں اور عوام کو یہ بتایا جاتا رہا ہے کہ اس دولت کو ملک واپس لا کر ملک کی تقدیر بدل دی جائے گی۔ البتہ عمران خان اور تحریک انصاف کی حکومت نے سیاست دانوں اور سابقہ حکمرانوں پر ملکی دولت لوٹ کر بیرون ملک منتقل کرنے کی پرجوش کہانیاں عوام کو سنائی تھیں۔ شروع میں تو ان سیاسی لیڈروں کے ’خفیہ‘ طور سے بیرون ملک چھپائے گئے 200 ارب ڈالر ملک واپس لانے اور خزانہ بھر دینے کے بلند بانگ دعوے کئے گئے تھے جنہیں بعد میں سیاسی بیان قرار دے کر نظر انداز کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔

اس کے باوجود عمران خان اور ان کے ساتھی نواز شریف اور آصف زرداری پر ملک کا خزانہ لوٹنے اور غیر ملکی قرضوں کو اپنے اکاؤنٹس میں منتقل کردینے کا الزام لگاتے رہے ہیں۔ عمران خان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ پاکستان پر اس وقت غیر ملکی قرضوں کا کثیر بوجھ ہے لیکن معیشت تباہ حال ہے۔ وہ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ نواز شریف اور آصف زرداری کے ادوار میں غیر ملکی قرضوں کو منی لانڈرنگ کے ذریعے نجی اکاؤنٹس میں منتقل کردیا گیا لیکن قوم کو اب یہ قرضے واپس کرنا پڑیں گے۔ اسی لئے وہ سابقہ حکمرانوں کو این آر او نہ دینے اور ہر صورت میں ان سے ناجائز دولت اگلوانے کے دعوے کرتے رہتے ہیں۔ سابق صدر آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور منی لانڈرنگ کے ہی مقدمات میں زیر حراست ہیں۔ سابقہ وزیر اعظم نواز شریف کے علاوہ ان کے بھائی شہباز شریف اور ان کی اولادوں پر بھی اس حوالے سے مقدمات قائم کئے گئے ہیں۔ اگرچہ ان میں ابھی کسی بھی مقدمہ میں نیب یاایف آئی اے نے کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں کی۔

ناجائز دولت ملک واپس لانے کے بارے میں عمران خان نہ صرف جوشیلی تقریریں کرتے رہتے ہیں بلکہ سیاسی حریفوں پر کوئی الزام ثابت ہوئے بغیر ہی انہیں چور اور لٹیرا قرار دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ اسی مقصد سے شہزاد اکبر کو احتساب کا مشیر بنایا گیا ہے اور بیرون ملک سے لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے لئے بھی ایک خصوصی یونٹ قائم کیاگیا ہے۔ اس پس منظر میں جب برطانیہ سے ایک پاکستانی شہری سے خطیر رقم وصول ہونے اور اس کے پاکستان واپسی کی خبر موصول ہوئی تو یہ امید کی جارہی تھی کہ حکومت اسے مثال بناتے ہوئے ملک ریاض کے خلاف فوری طور سے تحقیقات کا آغاز کرے گی تاکہ یہ طے کیا جاسکے کہ انہوں نے کس قسم کی منافع خوری اور غیر قانونی طریقوں سے یہ دولت برطانیہ منتقل کی تھی۔

پاکستان کو منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ کے سلسلہ میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے دباؤ کا بھی سامنا ہے۔ اس لئے بھی یہ ضروری ہے کہ ملک ریاض سے دریافت کیا جائے کہ انہوں نے کن ذرائع سے یہ رقم ملک سے باہر منتقل کی تھی۔ ملک ریاض نے برطانیہ کا کوئی قانون نہیں توڑا ہوگا لیکن جس ملک سے یہ ناجائز دولت حاصل کرکے برطانیہ بھیجی گئی تھی، وہاں وہ یقیناً دوہرے جرم کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ایک یہ کہ کس طرح یہ دولت کمائی گئی اور دوسرے اسے کس طرح بیرون ملک بھیجا گیا کہ برطانوی حکام کو وہ ذریعہ آمدنی کے بارے میں مطمئن کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے اور رقم دینے کا معاہدہ کرکے جان چھڑانا مناسب خیال کیا۔

بہت سے لوگوں کو عمران خان کے گرما گرم ٹوئٹ یا ایک ایسے بیان کی امید تھی جس میں ہر قسم کی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث افراد کے خلاف حکومت کی مہم جوئی کا اعلان کیا جاتا۔ لوٹی ہوئی دولت واپس لانا چونکہ تحریک انصاف کا بنیادی نعرہ ہے، اس لئے بھی یہ توقع کرنا جائز اور درست تھا کہ عمران خان اور ان کی حکومت اس بارے میں تفصیلات سامنے لاتی، حکومت کی کارکردگی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتی اور یہ واضح کیا جاتا کہ کس طرح شہزاد اکبر کی انتھک کوششوں کی وجہ سے برطانوی ادارے پاکستان سے جانے والی غیر قانونی دولت تلاش کرنے میں کامیاب ہوئے۔

عوام و خواص کی یہ توقعات پوری نہیں ہوسکیں۔ ملک ریاض سے وصول ہونے والی رقم کے معاملہ پر حکومت شرمندہ اور ملک کا میڈیا خاموش ہے۔ حکومت کے نمائندے اس پر بات کرنے پر آمادہ نہیں۔ شہزاد اکبر نے روزنامہ ڈان کے اصرار پر کہا ہے کہ ’معاہدہ کی شرائط کی وجہ سے اس معاملہ میں تفصیلات نہیں بتائی جا سکتیں۔ ہم نے مقدمہ بازی کی بجائے رقم وصول کرنا ضروری سمجھا‘۔ گویا وزیر اعظم کے مشیر برطانوی حکام کی کارروائی کا کریڈٹ لینے کی کوشش تو کر رہے ہیں لیکن نہ تفصیلات بتانا چاہتے ہیں اور نہ ملک ریاض کا نام لے کر کسی غیر قانونی کارروائی کا ذکر کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ کسی بنیاد کے بغیر سیاسی مخالفین پر تنقید کے گولے برسانے والے وزیر اعظم اور ان کے بزرجمہر بھی خاموش ہیں۔

ایسا ہی سناٹا پاکستانی میڈیا پر بھی دکھائی دیا۔ عام طور سے اس خبر کو ملک ریاض کا نام لئے بغیر شائع یا نشر کیا گیا۔ بال کی کھال اتارنے والے ٹاک شوز بھی مہر بلب رہے۔ آخر کیا سبب ہے کہ ملک ریاض کا نام آتے ہی منہ زور حکومت کا پتہ پانی ہوگیا ہے۔ اور سنسنی کی تلاش میں سرگرم میڈیا پر شرمناک خاموشی کا راج ہے؟ ایسے میں سوال تو پیدا ہوتا ہے کہ جس ملک کے ’ملک ریاض‘ اتنے طاقتور ہوں، کیا وہاں کبھی قانون سب کے لئے مساوی ہوسکتا ہے؟
 

زیرک

محفلین
میں یہاں ملک ریاض کا گیت گانے نہیں آیا، نہ ہی شرفائے لاہور کو بچانے کی کوشش کر رہا ہوں، مگر ان دوستوں سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں جو 190 ملین پاؤنڈز یا قریباً 40 ارب روپوں کے بارے میں عجیب عجیب درفطنیاں چھوڑ رہے تھے کہ یہ فلاں سیٹلمنٹ کے نتیجے میں ملے ہیں۔ آج ملک کے سب سے بڑے پاور بروکر ملک ریاض نے مختصراً مگر بڑی وضاحت کے ساتھ کہا کہ ؛
"سپریم کورٹ کے ساتھ کیے گئے وعدوں کو پورا کریں گے، ہم نے یہ پیسے سپریم کورٹ میں جمع کروانا ہیں، اس کے لیے ہمیں اپنے گھر بھی گروی رکھنا پڑے تو رکھیں گے اور سپریم کورٹ کو پیسے ادا کریں گے"۔
دوستوں سے عرض ہے کہ رقم کی واپسی اس 460 ارب روپے کے جرمانے سے متعلق ہے جو سرکاری زمینوں کو اونے پونے خریدنے کے کیس میں سپریم کورٹ بنچ نے ملک ریاض کے خلاف دیا تھا، فیصلے کے تحت ملک ریاض اب رقوم کی واپسی کے کام کا آغاز کر چکے ہیں، اور مذکورہ رقم کو اس جرمانے کی پہلے قسط کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے بھی تصدیق کی ہے کہ؛
"190 ملین پاؤنڈز کی رقم برطانیہ سے پاکستان کو ٹیلی گرافک ٹرانسفر کے ذریعے موصول ہوئی ہے، عدالتی فیصلے کے تحت یہ رقم سپریم کورٹ آف پاکستان میں جمع ہو گی،ایک رازداری کے حلف نامے پر دستخط کرنے کے بعد اس تصفیے کی مزید تفصیلات نہیں بتا سکتے "۔
مشکل معاشی صورت حال میں جب کہ حکومت کے پاس سوائے ٹیکسز بڑھانے، مہنگائی کرنے اور قرضے لینے کے سوا کوئی حل نہیں تھا، ایسے میں سیٹلمنٹ کے ذریعے 40 ارب روپے کی خطیر رقم کی واپسی کو اچھی خبر کے طور پر لینا چاہیے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ایسا نہیں کہ صحافیوں میں پروپیگنڈہ گروپس نہیں پائے جاتے بلکہ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ حکومت اور اس کے کٹر حامی خود بہت بڑے پروپیگنڈہ ماہر ہیں۔
ایک منظم حکومت مخالف پراپگنڈہ کا موثر ترین جواب منظم کاؤنٹر پراپگنڈہ ہے۔ آ پ شاید یہ چاہتے ہیں کہ لفافوں کو حکومت پر تنقید کا پورا حق حاصل ہے۔ لیکن اگر تحریک انصاف کے حامی ان کو ٹکا کر جواب دیں تو ایسا کرنا غلط ہے۔ :)
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
۔ حقیقت یہ ہے کہ گرتی ہوئی یا ٹیڑھی دیوار خود اپنی ہی اپوزیشن ہوتی ہے کوئی بھی دھکا دے کر الزام اپنے سر نہیں لیتا، اب چونکہ اپوزیشن خان صاحب کو سیاسی شہید ہوتا نہیں دیکھ سکتی اس لیے ان کی طرف سے تو اپوزیشن ہے ہی نہیں
اگر اپوزیشن ہے ہی نہیں تو پارلیمانی اجلاس کیوں نہیں چل پا رہے؟ ضروری قانون سازی کیوں نہیں ہو رہی؟ پارلیمانی کمیٹیاں کیوں غیر فعال ہیں؟ ظاہر ہے اپوزیشن نہیں چاہتی کہ حکومت ایک دن بھی چلے۔ اور اس کے لئے ہر ممکن کام کر رہی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اگر پروپیگنڈہ حکو مت تک لا سکتا ہے تو حکومت بچا بھی سکتا ہے لیکن اس کی آنکھیں اگلے انتخابات میں کھلیں گی (اگر الیکشن فیئر ہوئے تو)!
جتنا پیسا پچھلی ن لیگی حکومت نے مافیاز، لفافوں اور عوام کو قومی خزانہ خالی کر کے کھلایا ہے۔ اس کے بدلہ میں تو آج بھی انہی کی حکومت ہونی چاہئے تھی ۔ لیکن ایسا کیوں نہ ہو سکا؟
کیونکہ اسٹیبلشمنٹ ، عدلیہ اور دیگر اہم اسٹیک ہولڈرز نہیں سمجھتے کہ ملک کا دیوالیہ نکال کر سب کو خوش کرکے دوبارہ اقتدار میں آنے کی کوشش کرنا کوئی جائز طریقہ واردات ہے:)
 

جاسم محمد

محفلین
ملک ریاض کا خاندان برطانیہ میں ہونے والی تحقیقات اور متعدد اکاؤنٹ منجمد کئے جانے کے بعد برطانیہ کی کرائم ایجنسی کے ساتھ طے پانے والے ایک معاہدہ کے تحت 19 کروڑ پاؤنڈ ادا کرنے پر راضی ہوگیا ہے۔ برطانوی حکام نے اگست میں آٹھ مختلف اکاؤنٹ منجمد کئے تھے۔ اب ملک ریاض ان اکاؤنٹس میں موجود تمام رقوم سے دستبردار ہونے کے علاہ 5 کروڑ مالیت کی ایک جائیداد بھی برطانوی حکام کے حولے کرنے پر راضی ہوگئے ہیں۔

برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کے ایک بیان میں گزشتہ روز کہا گیا تھا کہ ’ایجنسی نے ایک پاکستانی شہری ملک ریاض حسین جو پاکستان کے نجی شعبہ میں سب سے بڑے آجر ہیں، کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے۔ اس معاہدہ میں ایجنسی نے 19 کروڑ پاؤنڈ ادائیگی کی پیش کش قبول کرلی ہے۔ اس میں 1۔ ہائیڈ پارک پلیس، لندن میں واقع ایک جائیداد بھی شامل ہے جس کی مالیت پانچ کروڑ پاؤنڈ ہے‘۔

یہ خبر سامنے آنےکے بعد وزیر اعظم کے خصوصی مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر نے ایک بیان میں بتایا کہ برطانوی حکام اس رقم کو فوری طور سے حکومت پاکستان کے حوالے کرنے پر راضی ہوگئے ہیں۔ انہوں نے اس اقدام کو دونوں ملکوں کے اداروں کے درمیان تعاون کی شاندار کامیابی بھی قرار دیا۔ تاہم اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ برطانوی حکام کے ساتھ ایک پاکستانی شہری کا معاہدہ ایک سول معاملہ ہے اور اس سے کسی جرم کی نشاندہی نہیں ہوتی۔ احتساب خاتمہ مہم میں حکومت کے ’پرنس‘ شہزاد اکبر کا یہ اصرار بھی ہے کہ ’برطانوی حکام نے یہ کارروائی کسی نامزد فرد کے خلاف نہیں کی بلکہ اکاؤنٹس میں موجود فنڈز کے خلاف کی گئی تھی‘۔

ملک ریاض نے پاکستان میں ہاؤسنگ سوسائیٹیاں بناکر اور سرکاری و نیم سرکاری زمینوں پر جدید رہائشی منصوبوں کے ذریعے کثیر دولت جمع کی ہے ۔ ان پر قانون شکنی کے نت نوع الزامات بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔ اسی حوالے اس سال کے شروع میں کراچی کے بحریہ ٹاؤن کے لئے حاصل کی گئی املاک کے تنازعہ میں بحریہ ٹاؤن پاکستانی سپریم کورٹ کے ساتھ طے پانے والے ایک معاہدہ میں 460 ارب روپے ادا کرنے پر راضی ہوگیا تھا۔ اس معاہدہ کے بعد سپریم کورٹ نے احتساب بیورو کو بحریہ ٹاؤن یا ملک ریاض کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی بند کردینے کا حکم دیا تھا۔

برطانیہ میں ہونے والی کارروائی اور معاہدہ دراصل برطانیہ کے 2002 کے ایک قانون کے مطابق ہؤا ہے، جس کے تحت غیر قانونی سرگرمیوں سے حاصل ہونے والی املاک یا دولت کو ضبط کیا جاسکتا تھا۔ برطانوی حکومت نے اس سال کے دوران اس قانون میں ترمیم کرتے ہوئے اس کا دائرہ ایسی تمام املاک تک پھیلا دیا تھا جنہیں غیرمصدقہ وسائل سے خریدا گیا ہو۔ اسی طرح کوئی بھی شخص یا ادارہ اگر اپنی جائیداد یا اکاؤنٹ میں موجود رقوم کا حساب نہ دے سکے تو حکومت اسے ضبط کرنے اور متعلقہ افراد کے خلاف قانونی کارروائی کا اختیار رکھتی ہے۔ برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے ملک ریاض کے خلاف بھی اسی قانون کے تحت کارروائی کی تھی۔ تاہم ملک ریاض قانون کی گرفت سے بچنے کے لئے یہ معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔

ملک ریاض سے موصول ہونے ولی رقم چونکہ پاکستان کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، اس لئے یہ واضح ہے کہ برطانوی حکام کو یقین ہے کہ ملک ریاض نے یہ رقم پاکستان سے غیر قانونی طور پر برطانیہ منتقل کی تھی۔ اب برطانیہ کی حکومت معاہدہ کے تحت ادا شدہ رقم میں سے واجب الادا اخراجات یا ٹیکس و محاصل منہا کرکے باقی ماندہ رقم پاکستان کے حوالے کردے گی۔ اس طرح برطانوی حکام نے بیرون ملک سے منی لانڈرنگ کے ذریعے ناجائز دولت برطانیہ لانے والوں کو واضح پیغام دیا ہے کہ وہاں ان کی غیر قانونی دولت محفوظ نہیں ہوگی۔ برطانوی حکومت اور عوام جرم کے ذریعے حاصل کی گئی دولت کو ضبط کرنے اور ان کے اصل حق داروں تک پہنچانے کا عزم رکھتے ہیں۔

ایک پاکستانی نژاد سے 19 کروڑ پاؤنڈ کی خطیر رقم کی وصولی اگرچہ برطانیہ کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کامیابی ہے اور وہاں کی حکومت کے سیاسی عزم کا اظہار ہے لیکن اس معاملہ میں پاکستان کو اس کا براہ راست فائدہ پہنچا ہے۔ پاکستان کے حکام ہمیشہ ملک سے غیر قانونی طور پر سرمایہ بیرون ملک لے جانے کا ذکرکرتے رہے ہیں اور عوام کو یہ بتایا جاتا رہا ہے کہ اس دولت کو ملک واپس لا کر ملک کی تقدیر بدل دی جائے گی۔ البتہ عمران خان اور تحریک انصاف کی حکومت نے سیاست دانوں اور سابقہ حکمرانوں پر ملکی دولت لوٹ کر بیرون ملک منتقل کرنے کی پرجوش کہانیاں عوام کو سنائی تھیں۔ شروع میں تو ان سیاسی لیڈروں کے ’خفیہ‘ طور سے بیرون ملک چھپائے گئے 200 ارب ڈالر ملک واپس لانے اور خزانہ بھر دینے کے بلند بانگ دعوے کئے گئے تھے جنہیں بعد میں سیاسی بیان قرار دے کر نظر انداز کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔

اس کے باوجود عمران خان اور ان کے ساتھی نواز شریف اور آصف زرداری پر ملک کا خزانہ لوٹنے اور غیر ملکی قرضوں کو اپنے اکاؤنٹس میں منتقل کردینے کا الزام لگاتے رہے ہیں۔ عمران خان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ پاکستان پر اس وقت غیر ملکی قرضوں کا کثیر بوجھ ہے لیکن معیشت تباہ حال ہے۔ وہ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ نواز شریف اور آصف زرداری کے ادوار میں غیر ملکی قرضوں کو منی لانڈرنگ کے ذریعے نجی اکاؤنٹس میں منتقل کردیا گیا لیکن قوم کو اب یہ قرضے واپس کرنا پڑیں گے۔ اسی لئے وہ سابقہ حکمرانوں کو این آر او نہ دینے اور ہر صورت میں ان سے ناجائز دولت اگلوانے کے دعوے کرتے رہتے ہیں۔ سابق صدر آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور منی لانڈرنگ کے ہی مقدمات میں زیر حراست ہیں۔ سابقہ وزیر اعظم نواز شریف کے علاوہ ان کے بھائی شہباز شریف اور ان کی اولادوں پر بھی اس حوالے سے مقدمات قائم کئے گئے ہیں۔ اگرچہ ان میں ابھی کسی بھی مقدمہ میں نیب یاایف آئی اے نے کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں کی۔

ناجائز دولت ملک واپس لانے کے بارے میں عمران خان نہ صرف جوشیلی تقریریں کرتے رہتے ہیں بلکہ سیاسی حریفوں پر کوئی الزام ثابت ہوئے بغیر ہی انہیں چور اور لٹیرا قرار دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ اسی مقصد سے شہزاد اکبر کو احتساب کا مشیر بنایا گیا ہے اور بیرون ملک سے لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے لئے بھی ایک خصوصی یونٹ قائم کیاگیا ہے۔ اس پس منظر میں جب برطانیہ سے ایک پاکستانی شہری سے خطیر رقم وصول ہونے اور اس کے پاکستان واپسی کی خبر موصول ہوئی تو یہ امید کی جارہی تھی کہ حکومت اسے مثال بناتے ہوئے ملک ریاض کے خلاف فوری طور سے تحقیقات کا آغاز کرے گی تاکہ یہ طے کیا جاسکے کہ انہوں نے کس قسم کی منافع خوری اور غیر قانونی طریقوں سے یہ دولت برطانیہ منتقل کی تھی۔

پاکستان کو منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ کے سلسلہ میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے دباؤ کا بھی سامنا ہے۔ اس لئے بھی یہ ضروری ہے کہ ملک ریاض سے دریافت کیا جائے کہ انہوں نے کن ذرائع سے یہ رقم ملک سے باہر منتقل کی تھی۔ ملک ریاض نے برطانیہ کا کوئی قانون نہیں توڑا ہوگا لیکن جس ملک سے یہ ناجائز دولت حاصل کرکے برطانیہ بھیجی گئی تھی، وہاں وہ یقیناً دوہرے جرم کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ایک یہ کہ کس طرح یہ دولت کمائی گئی اور دوسرے اسے کس طرح بیرون ملک بھیجا گیا کہ برطانوی حکام کو وہ ذریعہ آمدنی کے بارے میں مطمئن کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے اور رقم دینے کا معاہدہ کرکے جان چھڑانا مناسب خیال کیا۔

بہت سے لوگوں کو عمران خان کے گرما گرم ٹوئٹ یا ایک ایسے بیان کی امید تھی جس میں ہر قسم کی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث افراد کے خلاف حکومت کی مہم جوئی کا اعلان کیا جاتا۔ لوٹی ہوئی دولت واپس لانا چونکہ تحریک انصاف کا بنیادی نعرہ ہے، اس لئے بھی یہ توقع کرنا جائز اور درست تھا کہ عمران خان اور ان کی حکومت اس بارے میں تفصیلات سامنے لاتی، حکومت کی کارکردگی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتی اور یہ واضح کیا جاتا کہ کس طرح شہزاد اکبر کی انتھک کوششوں کی وجہ سے برطانوی ادارے پاکستان سے جانے والی غیر قانونی دولت تلاش کرنے میں کامیاب ہوئے۔

عوام و خواص کی یہ توقعات پوری نہیں ہوسکیں۔ ملک ریاض سے وصول ہونے والی رقم کے معاملہ پر حکومت شرمندہ اور ملک کا میڈیا خاموش ہے۔ حکومت کے نمائندے اس پر بات کرنے پر آمادہ نہیں۔ شہزاد اکبر نے روزنامہ ڈان کے اصرار پر کہا ہے کہ ’معاہدہ کی شرائط کی وجہ سے اس معاملہ میں تفصیلات نہیں بتائی جا سکتیں۔ ہم نے مقدمہ بازی کی بجائے رقم وصول کرنا ضروری سمجھا‘۔ گویا وزیر اعظم کے مشیر برطانوی حکام کی کارروائی کا کریڈٹ لینے کی کوشش تو کر رہے ہیں لیکن نہ تفصیلات بتانا چاہتے ہیں اور نہ ملک ریاض کا نام لے کر کسی غیر قانونی کارروائی کا ذکر کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ کسی بنیاد کے بغیر سیاسی مخالفین پر تنقید کے گولے برسانے والے وزیر اعظم اور ان کے بزرجمہر بھی خاموش ہیں۔

ایسا ہی سناٹا پاکستانی میڈیا پر بھی دکھائی دیا۔ عام طور سے اس خبر کو ملک ریاض کا نام لئے بغیر شائع یا نشر کیا گیا۔ بال کی کھال اتارنے والے ٹاک شوز بھی مہر بلب رہے۔ آخر کیا سبب ہے کہ ملک ریاض کا نام آتے ہی منہ زور حکومت کا پتہ پانی ہوگیا ہے۔ اور سنسنی کی تلاش میں سرگرم میڈیا پر شرمناک خاموشی کا راج ہے؟ ایسے میں سوال تو پیدا ہوتا ہے کہ جس ملک کے ’ملک ریاض‘ اتنے طاقتور ہوں، کیا وہاں کبھی قانون سب کے لئے مساوی ہوسکتا ہے؟
ملک ریاض مفاہمت کا بے تاج بادشاہ ہے۔
ELCTe8OWwAUxDQj.jpg

ELCJ-3ZX0AEH4xD.jpg
 
کل جب مصدق ملک نے ندیم ملک کے پروگرام میں فردوس عاشق اعوان پر ٹونٹ کیا کہ انہیں تو ان کے وزیراعظم کی جانب سے زباں بندی کا حکم دیا گیا ہے اور فردوس عاشق نے منہ پر انہیں جھٹلایا تو ہم کچھ سمجھے نہیں، لیکن بعد میں شیخ رشید نے بھانڈا پھوڑا تو احساس ہوا کہ آج کل حکومت، مقتدر ادارے اور ایک نجی ھاوسنگ سوسائٹی کے مالک سب ایک پیج پر ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
لیکن بعد میں شیخ رشید نے بھانڈا پھوڑا تو احساس ہوا کہ آج کل حکومت، مقتدر ادارے اور ایک نجی ھاوسنگ سوسائٹی کے مالک سب ایک پیج پر ہیں۔
حکومت جو 50 لاکھ گھروں کا منصوبہ شروع کرنے جا رہی ہے وہ ملک ریاض کے بغیر ممکن ہی نہیں۔
 
Top