ملک ریاض کا خاندان برطانیہ میں ہونے والی تحقیقات اور متعدد اکاؤنٹ منجمد کئے جانے کے بعد برطانیہ کی کرائم ایجنسی کے ساتھ طے پانے والے ایک معاہدہ کے تحت 19 کروڑ پاؤنڈ ادا کرنے پر راضی ہوگیا ہے۔ برطانوی حکام نے اگست میں آٹھ مختلف اکاؤنٹ منجمد کئے تھے۔ اب ملک ریاض ان اکاؤنٹس میں موجود تمام رقوم سے دستبردار ہونے کے علاہ 5 کروڑ مالیت کی ایک جائیداد بھی برطانوی حکام کے حولے کرنے پر راضی ہوگئے ہیں۔
برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کے ایک بیان میں گزشتہ روز کہا گیا تھا کہ ’ایجنسی نے ایک پاکستانی شہری ملک ریاض حسین جو پاکستان کے نجی شعبہ میں سب سے بڑے آجر ہیں، کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے۔ اس معاہدہ میں ایجنسی نے 19 کروڑ پاؤنڈ ادائیگی کی پیش کش قبول کرلی ہے۔ اس میں 1۔ ہائیڈ پارک پلیس، لندن میں واقع ایک جائیداد بھی شامل ہے جس کی مالیت پانچ کروڑ پاؤنڈ ہے‘۔
یہ خبر سامنے آنےکے بعد وزیر اعظم کے خصوصی مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر نے ایک بیان میں بتایا کہ برطانوی حکام اس رقم کو فوری طور سے حکومت پاکستان کے حوالے کرنے پر راضی ہوگئے ہیں۔ انہوں نے اس اقدام کو دونوں ملکوں کے اداروں کے درمیان تعاون کی شاندار کامیابی بھی قرار دیا۔ تاہم اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ برطانوی حکام کے ساتھ ایک پاکستانی شہری کا معاہدہ ایک سول معاملہ ہے اور اس سے کسی جرم کی نشاندہی نہیں ہوتی۔ احتساب خاتمہ مہم میں حکومت کے ’پرنس‘ شہزاد اکبر کا یہ اصرار بھی ہے کہ ’برطانوی حکام نے یہ کارروائی کسی نامزد فرد کے خلاف نہیں کی بلکہ اکاؤنٹس میں موجود فنڈز کے خلاف کی گئی تھی‘۔
ملک ریاض نے پاکستان میں ہاؤسنگ سوسائیٹیاں بناکر اور سرکاری و نیم سرکاری زمینوں پر جدید رہائشی منصوبوں کے ذریعے کثیر دولت جمع کی ہے ۔ ان پر قانون شکنی کے نت نوع الزامات بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔ اسی حوالے اس سال کے شروع میں کراچی کے بحریہ ٹاؤن کے لئے حاصل کی گئی املاک کے تنازعہ میں بحریہ ٹاؤن پاکستانی سپریم کورٹ کے ساتھ طے پانے والے ایک معاہدہ میں 460 ارب روپے ادا کرنے پر راضی ہوگیا تھا۔ اس معاہدہ کے بعد سپریم کورٹ نے احتساب بیورو کو بحریہ ٹاؤن یا ملک ریاض کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی بند کردینے کا حکم دیا تھا۔
برطانیہ میں ہونے والی کارروائی اور معاہدہ دراصل برطانیہ کے 2002 کے ایک قانون کے مطابق ہؤا ہے، جس کے تحت غیر قانونی سرگرمیوں سے حاصل ہونے والی املاک یا دولت کو ضبط کیا جاسکتا تھا۔ برطانوی حکومت نے اس سال کے دوران اس قانون میں ترمیم کرتے ہوئے اس کا دائرہ ایسی تمام املاک تک پھیلا دیا تھا جنہیں غیرمصدقہ وسائل سے خریدا گیا ہو۔ اسی طرح کوئی بھی شخص یا ادارہ اگر اپنی جائیداد یا اکاؤنٹ میں موجود رقوم کا حساب نہ دے سکے تو حکومت اسے ضبط کرنے اور متعلقہ افراد کے خلاف قانونی کارروائی کا اختیار رکھتی ہے۔ برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے ملک ریاض کے خلاف بھی اسی قانون کے تحت کارروائی کی تھی۔ تاہم ملک ریاض قانون کی گرفت سے بچنے کے لئے یہ معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
ملک ریاض سے موصول ہونے ولی رقم چونکہ پاکستان کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، اس لئے یہ واضح ہے کہ برطانوی حکام کو یقین ہے کہ ملک ریاض نے یہ رقم پاکستان سے غیر قانونی طور پر برطانیہ منتقل کی تھی۔ اب برطانیہ کی حکومت معاہدہ کے تحت ادا شدہ رقم میں سے واجب الادا اخراجات یا ٹیکس و محاصل منہا کرکے باقی ماندہ رقم پاکستان کے حوالے کردے گی۔ اس طرح برطانوی حکام نے بیرون ملک سے منی لانڈرنگ کے ذریعے ناجائز دولت برطانیہ لانے والوں کو واضح پیغام دیا ہے کہ وہاں ان کی غیر قانونی دولت محفوظ نہیں ہوگی۔ برطانوی حکومت اور عوام جرم کے ذریعے حاصل کی گئی دولت کو ضبط کرنے اور ان کے اصل حق داروں تک پہنچانے کا عزم رکھتے ہیں۔
ایک پاکستانی نژاد سے 19 کروڑ پاؤنڈ کی خطیر رقم کی وصولی اگرچہ برطانیہ کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کامیابی ہے اور وہاں کی حکومت کے سیاسی عزم کا اظہار ہے لیکن اس معاملہ میں پاکستان کو اس کا براہ راست فائدہ پہنچا ہے۔ پاکستان کے حکام ہمیشہ ملک سے غیر قانونی طور پر سرمایہ بیرون ملک لے جانے کا ذکرکرتے رہے ہیں اور عوام کو یہ بتایا جاتا رہا ہے کہ اس دولت کو ملک واپس لا کر ملک کی تقدیر بدل دی جائے گی۔ البتہ عمران خان اور تحریک انصاف کی حکومت نے سیاست دانوں اور سابقہ حکمرانوں پر ملکی دولت لوٹ کر بیرون ملک منتقل کرنے کی پرجوش کہانیاں عوام کو سنائی تھیں۔ شروع میں تو ان سیاسی لیڈروں کے ’خفیہ‘ طور سے بیرون ملک چھپائے گئے 200 ارب ڈالر ملک واپس لانے اور خزانہ بھر دینے کے بلند بانگ دعوے کئے گئے تھے جنہیں بعد میں سیاسی بیان قرار دے کر نظر انداز کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔
اس کے باوجود عمران خان اور ان کے ساتھی نواز شریف اور آصف زرداری پر ملک کا خزانہ لوٹنے اور غیر ملکی قرضوں کو اپنے اکاؤنٹس میں منتقل کردینے کا الزام لگاتے رہے ہیں۔ عمران خان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ پاکستان پر اس وقت غیر ملکی قرضوں کا کثیر بوجھ ہے لیکن معیشت تباہ حال ہے۔ وہ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ نواز شریف اور آصف زرداری کے ادوار میں غیر ملکی قرضوں کو منی لانڈرنگ کے ذریعے نجی اکاؤنٹس میں منتقل کردیا گیا لیکن قوم کو اب یہ قرضے واپس کرنا پڑیں گے۔ اسی لئے وہ سابقہ حکمرانوں کو این آر او نہ دینے اور ہر صورت میں ان سے ناجائز دولت اگلوانے کے دعوے کرتے رہتے ہیں۔ سابق صدر آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور منی لانڈرنگ کے ہی مقدمات میں زیر حراست ہیں۔ سابقہ وزیر اعظم نواز شریف کے علاوہ ان کے بھائی شہباز شریف اور ان کی اولادوں پر بھی اس حوالے سے مقدمات قائم کئے گئے ہیں۔ اگرچہ ان میں ابھی کسی بھی مقدمہ میں نیب یاایف آئی اے نے کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں کی۔
ناجائز دولت ملک واپس لانے کے بارے میں عمران خان نہ صرف جوشیلی تقریریں کرتے رہتے ہیں بلکہ سیاسی حریفوں پر کوئی الزام ثابت ہوئے بغیر ہی انہیں چور اور لٹیرا قرار دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ اسی مقصد سے شہزاد اکبر کو احتساب کا مشیر بنایا گیا ہے اور بیرون ملک سے لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے لئے بھی ایک خصوصی یونٹ قائم کیاگیا ہے۔ اس پس منظر میں جب برطانیہ سے ایک پاکستانی شہری سے خطیر رقم وصول ہونے اور اس کے پاکستان واپسی کی خبر موصول ہوئی تو یہ امید کی جارہی تھی کہ حکومت اسے مثال بناتے ہوئے ملک ریاض کے خلاف فوری طور سے تحقیقات کا آغاز کرے گی تاکہ یہ طے کیا جاسکے کہ انہوں نے کس قسم کی منافع خوری اور غیر قانونی طریقوں سے یہ دولت برطانیہ منتقل کی تھی۔
پاکستان کو منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ کے سلسلہ میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے دباؤ کا بھی سامنا ہے۔ اس لئے بھی یہ ضروری ہے کہ ملک ریاض سے دریافت کیا جائے کہ انہوں نے کن ذرائع سے یہ رقم ملک سے باہر منتقل کی تھی۔ ملک ریاض نے برطانیہ کا کوئی قانون نہیں توڑا ہوگا لیکن جس ملک سے یہ ناجائز دولت حاصل کرکے برطانیہ بھیجی گئی تھی، وہاں وہ یقیناً دوہرے جرم کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ایک یہ کہ کس طرح یہ دولت کمائی گئی اور دوسرے اسے کس طرح بیرون ملک بھیجا گیا کہ برطانوی حکام کو وہ ذریعہ آمدنی کے بارے میں مطمئن کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے اور رقم دینے کا معاہدہ کرکے جان چھڑانا مناسب خیال کیا۔
بہت سے لوگوں کو عمران خان کے گرما گرم ٹوئٹ یا ایک ایسے بیان کی امید تھی جس میں ہر قسم کی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث افراد کے خلاف حکومت کی مہم جوئی کا اعلان کیا جاتا۔ لوٹی ہوئی دولت واپس لانا چونکہ تحریک انصاف کا بنیادی نعرہ ہے، اس لئے بھی یہ توقع کرنا جائز اور درست تھا کہ عمران خان اور ان کی حکومت اس بارے میں تفصیلات سامنے لاتی، حکومت کی کارکردگی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتی اور یہ واضح کیا جاتا کہ کس طرح شہزاد اکبر کی انتھک کوششوں کی وجہ سے برطانوی ادارے پاکستان سے جانے والی غیر قانونی دولت تلاش کرنے میں کامیاب ہوئے۔
عوام و خواص کی یہ توقعات پوری نہیں ہوسکیں۔ ملک ریاض سے وصول ہونے والی رقم کے معاملہ پر حکومت شرمندہ اور ملک کا میڈیا خاموش ہے۔ حکومت کے نمائندے اس پر بات کرنے پر آمادہ نہیں۔ شہزاد اکبر نے روزنامہ ڈان کے اصرار پر کہا ہے کہ ’معاہدہ کی شرائط کی وجہ سے اس معاملہ میں تفصیلات نہیں بتائی جا سکتیں۔ ہم نے مقدمہ بازی کی بجائے رقم وصول کرنا ضروری سمجھا‘۔ گویا وزیر اعظم کے مشیر برطانوی حکام کی کارروائی کا کریڈٹ لینے کی کوشش تو کر رہے ہیں لیکن نہ تفصیلات بتانا چاہتے ہیں اور نہ ملک ریاض کا نام لے کر کسی غیر قانونی کارروائی کا ذکر کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ کسی بنیاد کے بغیر سیاسی مخالفین پر تنقید کے گولے برسانے والے وزیر اعظم اور ان کے بزرجمہر بھی خاموش ہیں۔
ایسا ہی سناٹا پاکستانی میڈیا پر بھی دکھائی دیا۔ عام طور سے اس خبر کو ملک ریاض کا نام لئے بغیر شائع یا نشر کیا گیا۔ بال کی کھال اتارنے والے ٹاک شوز بھی مہر بلب رہے۔ آخر کیا سبب ہے کہ ملک ریاض کا نام آتے ہی منہ زور حکومت کا پتہ پانی ہوگیا ہے۔ اور سنسنی کی تلاش میں سرگرم میڈیا پر شرمناک خاموشی کا راج ہے؟ ایسے میں سوال تو پیدا ہوتا ہے کہ جس ملک کے ’ملک ریاض‘ اتنے طاقتور ہوں، کیا وہاں کبھی قانون سب کے لئے مساوی ہوسکتا ہے؟