خدا كى قدرت ہے كہ ہمارى نظر پانچ ہزار مسلمانوں کے خون سے رنگين ، جلى ہوئى برمى بستيوں پر پڑنے كى بجائے ايك چھوٹی سى ملكى تنظيم ميں الجھی ہوئى ہے ۔ كيا مسلمانوں کے اجتماعى قتل عام كے متعلق دھاگا ايك عام تعزيتى موضوع جيسى حيثيت بھی نہيں رکھتا جس ميں ہم ذرا دير کے ليے مخالف نظريات والوں كى جان بخش ديں اور اپنى آؤٹ ڈيٹڈ معلومات كا دريا كہيں اور بہانے کے ليے بچا ركھيں ؟
سب سے پہلے تو محترم بہن پر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میرا نظریہ اسلام ہے جو بھی انسان توحید و رسالت پر ایقان و ایمان رکھتا ہے اُس کا اور میرا نظریہ سانجھا ہے ۔ ایک ہی رب کے ساجدین اور ایک ہی رسول کے عاشقین کو میں مخالف نظرئیے کے کاربند نہیں سمجھتا ۔ محفل پر میرے جملہ مراسلات میں سے ایک بھی مراسلہ آپ کی پیش کردہ اصطلاح"مخالف نظریات" کا حامل ہو تو سامنے لائیں۔
الدعوۃ پراپنے اظہار سے میں کافر ہوا نہ برما کے مسلمانوں کی تکلیف کے احساس سے دست کش۔ انصاف سے کام لیں اور دیکھیں کہ میرے جس مراسلے پر آپ اعتراض اٹھا رہی ہیں اس سے
قبل کے مراسلے میں مَیں کیا لکھ چکا ہوں۔ دنیا بھر میں مسلمان گاجر مُولی کی طرح کٹ رہے ہیں اور ہم یہ جان چکے ہیں کہ بندوق اٹھا کر بھی اس قتل کو نہیں روکا جا سکا تو جب ہم عام زندگی میں کسی ناکامی سے دوچار ہونے کے بعد اپنی پالیسی اور اندازِ کار پر نظرِ ثانی کرتے ہیں تو مسلمانوں کے بہتے خون کو روکنے میں نظرِ ثانی کی پالیسی پر عمل کیوں نہیں کرتے؟۔ اور اگر کوئی اس طرف توجہ دلائے تو اسے نظریاتی مخالفت کی غلام گردشوں میں بھٹکا ہونے کی سند دے کر ایک عجیب سا طرزِ عمل کیوں اختیار کرتے ہیں؟۔
میری معلومات کتنی "آؤٹ ڈیٹڈ" ہیں یہ میں جانتا ہوں ۔ محترم بہن کو اس کے لئے اپنا سر کھپانے کی ضرورت نہیں
۔