بلا عنوان 3

مقدس

لائبریرین
۱۸ اپریل کی صبح۔۔۔۔۔۔۔۔ آفس جانے کا دل نہیں کر رہا تھا۔۔ عجیب طرح کی بےچینی تھی۔۔ لیکن کام پر تو جانا ہی تھا ناں۔۔۔ اس لیے مجبورا ہی اٹھنا پڑا اور آفس کی طرف چل پڑے۔۔ ابھی ریسپشن پر ہی تھی کہ ایک کولیگ نے آواز دی اور میں وہی رک کر اس سے باتیں کرنے لگی۔۔​
اتنے میں ایک آدمی ریسپیشن پر آیا۔۔۔ کسی اردو اسپیکنگ بندے سے بات کرنا چاہتا تھا۔۔۔ ریسپشنسٹ نے مجھ سے کہا کہ میں اس کی بات سن لوں۔۔​
وہ آدمی میری ایک کولیگ کا شوہر تھا۔۔ اس نے بتایا کہ اس کی بیوی اپنا موبائل گھر چھوڑ آئی ہے اور اس کا اس سے رابطہ نہیں ہو پا رہا۔۔ کیا میں اس کی مدد کر سکتی ہوں اس سلسلے میں۔۔ اس نے مجھے بتایا کہ اس کی بیوی کے پیرنٹس کے گھر آگ لگ گئی ہے۔۔ اس کی ماں کی ڈیتھ ہو گئی ہے۔۔۔۔ اور باقی کی ساری فیملی ہاسپٹل میں ہے۔۔۔ اس کی آواز کانپ رہی تھی۔۔ اس سے بولا بھی نہیں جا رہا تھا۔۔۔ اور مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میں اس کو کیا جواب دوں۔۔۔۔ ہمت ہی نہیں ہو رہی تھی ۔۔۔ آئی واز شاکڈ۔۔۔ اپنی کولیگ کی مام کو تو میں جانتی تھی۔۔ اس کی چھوٹی بہن ابھی دو ہفتے پہلے ہی کالج آئی تھی۔۔ داخلہ لینے کے لیے۔۔۔ اس سے میری بات بھی ہوئی تھی۔۔۔ اس کی مام بھی ساتھ ہی تھیں۔۔۔ اتنی سوفٹ نیچر۔۔ کائینڈ ہارٹٹڈ۔۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ یہیں پر رکو۔۔۔۔ میں اس کو ڈھونڈ کر لاتی ہوں۔۔۔ وہ اپنی کلاس روم میں تھی۔۔۔ لیسن کی تیاری کر رہی تھی۔۔۔ میں نے بس اسے یہی کہا کہ تمہارے ہسبینڈ نیچے آئے ہیں۔۔ ان کو تم سے بات کرنی ہے۔۔ وہ بھی حیران ہو رہی تھی کہ وہ کیوں آئے ہیں یہاں۔۔۔ وہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی تو آئی ہے۔۔۔ اس کے ہسبینڈ نے اس کو ریسپیشن پر ہی ساری بات بتا دی۔۔۔​
اس کی حالت دیکھی نہیں جا رہی تھی۔۔۔وہ بس مسلسل ایک ہی بات کہے جا رہی کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔۔ میں رات کو تو ملی تھی ناں۔۔۔۔ انہوں نے تو آج شام کی فلائٹ سے دبئی جانا تھا ۔ اس کی چھوٹی بہن کی شادی دبئی میں ہونی تھی۔۔۔ شام کی فلائٹ تھی۔۔۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔ اس کا شوہر اس کو ساتھ لے کر چلا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
یہ بات اس دن کی تھی۔۔۔ اس کے بعد نیوز اور اخبار میں اتنا پتا چلا کہ ماں کی ڈیتھ آن دا اسپاٹ ہو چکی تھی۔۔ ایک بہن جو ۱۶ سال کی تھی۔۔ وہ ماں کو بچانے کی کوشش کرتی رہی۔۔ اور ۷۰٪ برنز آئے اسے۔۔۔۔ وہ لائف سیونگ مشین پر ہے۔۔ ایک بہن جس کی شادی ہونی تھی۔۔۔ اس کی بیک بون تین جگہ سے فریکچر ہوئی۔۔ ان کے پڑوسیوں نے نیچے میٹریس بچھا دئیے تھے تاکہ وہ اس پر چھلانگ مار کر اپنی جان بچا سکیں۔۔۔اس کی وجہ سے اس کی بیک بون فریکچر ہو گئی۔۔۔تیسری بہن کو ۵۰٪ پرسنٹ برنز آئے۔۔۔ اس حادثے میں جو بچ نکلے مائینر انجریز کے ساتھ۔۔۔ وہ تھے ان لوگوں کے فادر۔۔۔ جن کے چہرے پر تھوڑا سا برن مارک آیا۔۔۔۔۔​
سارا کیس انڈر اینوسٹیگیشن تھا۔۔۔ اس کو ایک حادثہ سمجھا جا رہا تھا۔۔۔۔جب پتا چلا کہ ۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔ یہ حادثہ ہر گز نہیں تھا۔۔۔ آگ جان بوجھ کر لگائی گئی ہے۔۔ اور تین دن کے اندر ہی یہ بات سامنے آ چکی تھی کہ آگ لگانے والا کوئی اور نہیں میری کولیگ کےفادر تھے۔۔۔۔​
ان کی بیٹی ایک عرب سے شادی کرنا چاہتی تھی۔۔۔ اور ماں اس پر رضامند تھی۔۔ باقی کی ساری فیملی خوش تھی۔۔۔ سوائے اس کے فادر کے۔۔۔۔۔ کیونکہ ان کے نزدیک ان کی بیٹی ایک عرب سے شادی کرنا چاہتی تھی۔۔۔ پاکستانی سے نہیں۔۔۔ ان کے نزدیک یہ بےعزتی کی بات تھی۔۔۔۔ لوگ کیا کہیں گے۔۔۔ خاندان میں ان کی کیا عزت ہو گی ۔۔۔۔سب نے کہنا ہے کہ ان کی بیٹی نے عربی سے شادی کر لی۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کی بیوی اور بیٹی نے اس بات کی پرواہ نہیں کی اور شادی کی تیاری کر لی۔۔۔ اسی شام پانچ بجے ان کی فلائٹ تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صبح پانچ بجے نماز کے ٹائم والد صاحب نے بیوی کے کمرے میں آگ لگا دی۔۔۔ بیوی دھواں کی وجہ سے مر گئی۔۔۔ ایک بیٹی ابھی بھی لائف سیونگ مشین پر ہے۔۔۔ دوسری بیٹی شاید ساری لائف کے لیے معذور ہو چکی ہے۔۔۔۔ اور تیسری بیٹی بھی پچاس فیصد جل چکی ہے۔۔۔۔۔ والد محترم نے کورٹ میں یہ کہہ دیا ہے کہ وہ مینٹلی ان فٹ ہے۔۔۔ ایک گھر مکمل طور پر تباہ ہو گیا۔۔۔ میری کولیگ کا کہنا ہے کہ اس کے فادر مکمل طور پر فٹ ہیں۔۔۔ انہوں نے جو کیا وہ جان بوجھ کر اور پلان کے ساتھ کیا۔۔۔۔ ان کے ساتھ اور کون شامل ہے اس میں۔۔ وہ یہ بات نہیں جانتی۔۔۔۔۔۔اور نہ ہی جاننا چاہتی ہے۔۔ کچھ دن پہلے اس کی ماں کی ڈیتھ باڈی ریلیز کر دی گئی۔۔۔ اور ان کا فیونرل ہوا۔۔۔۔​
تینوں بیٹیاں ابھی ہاسپٹل میں ہیں۔۔۔ باپ مینٹل یونٹ میں۔۔۔۔ اور ماں۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
بات کے خاندان کی عزت، معاشرے میں اس کا مقام۔۔۔ کہاں گیا وہ سب؟ ان کی غیرت کہاں گئی اب؟ وہ جو ایک عربی سے بیٹی کی شادی نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔۔۔ اب تو شاید ہی اس کی بیٹیوں کی شادی ہو پائے۔۔۔۔ کیونکہ اس معاشرے کے باقی مرد بھی تو شاید اسی کی طرح ہوں گے ناں۔۔ اس کی بیٹیوں کو اب کون قبول کرے گا۔۔۔ کوئی اس جیسا پاکستانی۔۔۔۔​
نفرت ہے مجھے ایسے لوگوں سے۔۔۔۔ ایسے معاشرے سے۔۔۔۔۔ایسے رشتوں سے۔۔۔ ایسے والدین سے۔۔۔ جن کے لیے لوگ زیادہ اہم ہیں۔۔ جن کے لیے معاشرہ زیادہ اہم ہے۔۔۔ اور اپنی اولاد۔۔۔ اپنا گھر۔۔۔۔ کچھ بھی نہیں۔۔۔۔​
دعا ہے کہ وہ آدمی جو مینٹل یونٹ میں چھپا بیٹھا ہے۔۔۔ اب سخت سے سخت سزا پائے۔۔۔ تاکہ اس کے بعد کسی اور کی ہمت نہ ہو سکے۔۔ ایسا کرنے کی۔۔۔​
اور کوئی ہے جو مجھے صرف یہ سمجھا دے کہ کہاں لکھا ہے کہ کسی عرب سے شادی کرنا منع ہے۔۔ یا گناہ ہے۔۔۔۔ کیا اولاد یا بیوی سے زیادہ عزت اور معاشرے کو جوابدہ ہونا زیادہ ضروری ہوتا ہے؟ کوئی ہے جو صرف اتنا سمجھا دے مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
کیسے کیسے ظالم لوگوں سے دنیا بھری پڑی۔۔۔ خوف خدا کیا ہوتا اس لفظ سے ہی انجان۔۔۔۔ کیسے کوئی اپنی بیٹی اور بیوی کو جلا سکتا۔۔۔ میری بیٹی بیمار ہے اور میں کانٹوں کے بستر پر سو رہا۔۔۔۔ یہاں لوگ اففففف۔۔۔ اففففف۔۔۔ یہ لوگ جینے کے بہانے کیسے تراش لیتے ہیں۔۔۔۔۔:cry: ڈھٹائی کہ تین دن تک وہ مطمئن کھاتا پیتا اور سوتا رہا۔۔۔۔ کیسے پر کیسے۔۔۔۔
 
صرف اور صرف انا کی بیڑیاں ہیں جو دلوں کو جکڑے ہوئے ہیں۔ اور اس میں ہر رشتے کی پہچان ختم ہو جاتی ہے۔ عین ممکن ہے کہ اگر یہ کام اس معرفت سے ہو رہا ہوتا تو ماں ناراض ہوتی۔ کیوں کہ انا اندھا کر دیتی ہے اور صرف ایک ہی احساس دلاتی ہے کہ میں بس میں۔
 

مقدس

لائبریرین
کیسے کیسے ظالم لوگوں سے دنیا بھری پڑی۔۔۔ خوف خدا کیا ہوتا اس لفظ سے ہی انجان۔۔۔ ۔ کیسے کوئی اپنی بیٹی اور بیوی کو جلا سکتا۔۔۔ میری بیٹی بیمار ہے اور میں کانٹوں کے بستر پر سو رہا۔۔۔ ۔ یہاں لوگ اففففف۔۔۔ اففففف۔۔۔ یہ لوگ جینے کے بہانے کیسے تراش لیتے ہیں۔۔۔ ۔۔:cry: ڈھٹائی کہ تین دن تک وہ مطمئن کھاتا پیتا اور سوتا رہا۔۔۔ ۔ کیسے پر کیسے۔۔۔ ۔

نین بھیا یہی تو مجھے سمجھ نہیں آتا۔۔ کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔۔ اتنا ظلم ۔۔۔۔
 

مقدس

لائبریرین
صرف اور صرف انا کی بیڑیاں ہیں جو دلوں کو جکڑے ہوئے ہیں۔ اور اس میں ہر رشتے کی پہچان ختم ہو جاتی ہے۔ عین ممکن ہے کہ اگر یہ کام اس معرفت سے ہو رہا ہوتا تو ماں ناراض ہوتی۔ کیوں کہ انا اندھا کر دیتی ہے اور صرف ایک ہی احساس دلاتی ہے کہ میں بس میں۔

لیکن یہاں اس میں یہ سمجھ نہیں آیا مجھے بھائی کہ انا کیسی۔۔۔ اولاد کی خوشی میں یہ "میں" کہاں سے آتی ہے۔۔ ویسے بھی اس کیس میں مدر جو ہیں۔ انہوں نے رضامندی دے دی تھی وہ خود اس پیچ اپ میں شامل نہیں تھیں۔۔ لیکن اگر ہوتیں بھی تو۔۔ مارنے کا اختیار ان کے پاس کہاں سے آتا ہے
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ایک ایسا المیہ جو کتنی ہی ایشیائی خاندانوں کی بربادی کی وجہ بن جاتا ہے۔ مجھے کبھی سمجھ نہیں آتی کہ ایک طرف تو آپ ساری زندگی ایک ایسے معاشرے میں گزار دیتے ہیں جہاں ہر کوئی اپنی سوچ اور خواہش کا نہ صرف اظہار کر سکتا ہے بلکہ عمل بھی کر سکتا ہے اور دوسری طرف آپ اس معاشرے کی یاد میں ، جسے پیچھے چھوڑ آئے ہوتے ہیں ، ضرورت سے زیادہ تنگ نظری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اتنی تنگ نظری کا جس کی شدت شاید پیچھے رہ جانے والے معاشرے سے بھی کئی گنا آگے بڑھ جاتی ہے۔ نتیجہ خاندان برباد ، رشتے تباہ اور زندگیاں ختم۔ اور سب سے زیادہ پیچھے رہ جانے والوں اور اردگرد والوں کے لئے خاندان اور آبائی ملک سے بیزارگی۔ اب بچ جانے والے لوگ جس ٹراما کا شکار ساری زندگی رہیں گے ، اس کا سوچ کر دل مزید اداس ہو جاتا ہے۔
مقدس بہت پر اثر انداز میں لکھا اور آپ کے سوالوں کا جواب یہی ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔ اور ایسی شدت شاید ملک سے باہر مقیم لوگوں میں زیادہ ہے بہ نسبت پاکستان میں رہنے والوں کے۔ یہ صرف جاہلیت ہے اور کچھ نہیں۔
 

عمراعظم

محفلین
جب پاکیزہ جذبوں اور انسانیت پر انّا کا شیطان حاوی ہو جاتا ہے تو اشرف المخلوقات کا درجہ رکھنے والا ننگِ انساں کی سطح تک گر جاتا ہے۔ہمارے معاشرے میں مہذب انسانوں کا قحط کم ہونے کی بجائے بڑھتا جا رہا ہے۔جس کی بڑی وجہ خود غرضی، علم کی کمی یا عمل کا فقدان ہے،مذہبی اور غیر مذہبی بڑوں کا کردار سازی کی ضرورت سے لا تعلقی اور اسی قبیل کی درجنوں وجوہات بیان کی جا سکتی ہیں۔اس طرح کے مناظر بڑے تواتر سے ہونے کے با عث آہستہ آہستہ ہماری بے حسی کا سبب بھی بن رہے ہیں۔ اللہ ہم پر اپنا کرم فرمائے۔آمین
 

فہیم

لائبریرین
ایک جانور کو بھی اپنے بچوں سے اتنی محبت ہوتی ہے کہ وہ ان کی حفاظت کے لیے اپنی جان کی بازی لگا دیتا ہے۔
لیکن انسانوں کا یہ حال ہے۔
میری نہیں سمجھ آرہا ہے کہ کوئی شخص اتنا زیادہ ظالم کیسے ہوسکتا ہے کہ انا کی خاطر اپنا بسا بسایا گھر اجاڑ دے۔
 

مہ جبین

محفلین
کچھ لوگ ایسی پست ذہنیت کے مالک ہوتے ہیں کہ چاہے کتنا ہی پڑھ لکھ جائیں اور چاہے کیسے ہی ترقی یافتہ ملک میں رہائش اختیار کرلیں لیکن ذہن کے اندھیروں میں کوئی کمی نہیں آتی اور خاندان اور معاشرے کی جھوٹی انا کا خول چڑھا کر ایسے مکروہ اور ناقابلِ بیان کرتوت میں ملوث ہوکر بھی احساسِ ندامت کی ایک ہلکی سی جھلک بھی چہرے پر نظر نہیں آتی ۔۔۔۔۔۔ ایسے لوگ تو پتھر سے بھی زیادہ سخت ہوتے ہیں
اس شخص کو تو کڑی سے کڑی سزا ملنی چاہئے جس نے اپنا ہنستا بستا گھر منٹوں میں تباہ و برباد کردیا
مقدس تم نے بہت مؤثر انداز میں اس واقعے کو بیان کیا بیٹا ۔۔۔۔۔ بس اللہ سب کو عقلِ سلیم اور نورِ بصیرت عطا فرمائے اور ایسے گھناؤنے افعال میں ملوث ہونے سے بچائے آمین
 

نایاب

لائبریرین
اسے تو المیہ کہنا بھی المیے کی توہین ہے ۔۔۔۔۔۔۔
کوئی دکھ سا دکھ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ الامان الحفیظ
آخر کیوں اک باپ اس حد تک پہنچا کہ اپنی شریک حیات کی جان لیتے عزیز ازجان بیٹیوں کی زندگی برباد کرگیا ۔۔۔۔؟
اس کیوں سے بھرپور سوال کے ہزاروں جواب مگر حقیقت رب ہی جانے ۔۔۔ ہم مسلمان اسلام کے اصولوں کو بھول نام و نسب اور تعصب میں سر تا پاؤں غرق ہو چکے ہیں ۔ بیٹیوں کو جان سے بڑھ کر چاہتے ہیں مگر بیٹی کو وہ خوشی دینی جو کہ اس کی زندگی کو مکمل کرے ہمارے لیئے " نام نہاد غیرت " کی وجہ سے ایسی گالی بن جاتی ہے کہ بیٹی کو خوشی دینی درکنار ہم اس کی زندگی ہی اجیرن کر دیتے ہیں ۔
 
بات بہت دکھ والی ہے، قیامت ڈھا دینے والی۔ آپ پہ بہت گراں بھی گزری ہے۔ کچھ لوگوں کے دلوں پر ہی مہر لگا دی جاتی ہے، سب کچھ جانتے بوجھتے بھی، وہ حق بات نہیں کہہ پاتے۔
اولاد اللہ کی انمول نعمت ہے، اور نعمت اللہ کی امانت ہوتی ہے۔ اس امانت میں خیانت تب ہوتی ہے، جب بندہ اس نعمت کی قدر نہ جانے، اور اس کے ذریعہ اللہ کا فضل نہ پا سکے۔ کیسی بدنصیبی والا مقام ہے یہ؟ اور اولاد (خاص کر بیٹیوں) کو تو والدین کے لیے ذریعہ نجات بتایا گیا ہے۔ تو اولاد کو own نہیں کرنا چاہیے، یہ امانت ہے اور اسے امانت کے جیسے ہی رکھنا چاہیے؛ محبت سے، سنبھال کے۔
میں تو بس دعا ہی کر سکتا ہوں کہ ربِ جلیل مظلوموں کو صبرِ جمیل اور ظالموں کو ہدایت نصیب کرے (آمین)۔
آپ کا جذبہ بہت گرانقدر ہے۔ غلط بات کو برا جان لینا بھی رب کا انعام ہی ہے۔ آپ کا بہت شکریہ آپ نے مشاہدہ، ہمارے لیے، محفل کی نذر کیا۔
 
لیکن یہاں اس میں یہ سمجھ نہیں آیا مجھے بھائی کہ انا کیسی۔۔۔ اولاد کی خوشی میں یہ "میں" کہاں سے آتی ہے۔۔ ویسے بھی اس کیس میں مدر جو ہیں۔ انہوں نے رضامندی دے دی تھی وہ خود اس پیچ اپ میں شامل نہیں تھیں۔۔ لیکن اگر ہوتیں بھی تو۔۔ مارنے کا اختیار ان کے پاس کہاں سے آتا ہے
انا تو ازل سے انسان کو زوال دیتی آئی ہے۔انا یعنی اپنی ذات کا گھمنڈ ایسی شے ہے جس نے ابلیس ایسے عبادت گزار کو ملعون بنا دیا، اور تمام عالموں کی پہلی نافرمانی کا ظہور ہوا،
یہ انا ہی تو تھی جس کی وجہ سے آدم کا ایک بیٹا یہ نہیں برداشت کر پایا کہ خدا کے ہاں دوسرے بھائی کے نذرانے قبول کیے جائیں، اور اقلیما یعنی آدم کی بیٹی دوسرے بھائی کو مل جائے۔ اور اس طرح انسانیت کا پہلا قتل بھی ہو گیا۔
انا چاہتی ہے کہ ہر کام میں اس کی رضا مندی شامل ہو، کوئی اس کو بائے پاس نہ کرے۔ اور اگر یہ انا مرد کی ہے پھر تو کیا کہنے، کیوں کہ اس میں پھر انا کے ساتھ ساتھ ڈومینینس کا تڑکا بھی ہوتا ہے کیوں کہ مرد سمجھتا ہے کہ وہ تمام گھر والوں کی جان و مال اور قسمت کا مالک ہے۔ جب اس انا کی خاطر ہزاروں سال کی عبادت گزاری داؤ پر لگائی جا سکتی ہے، اور بھائی بھائی کو ایسے وقت قتل کر سکتا ہے جب انسانیت قتل جیسے فعل سے ہی ناواقف تھی تو آج تو ویسے ہی بہت قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے تو انا کے ہاتھ تو کھلے ہیں۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
کیا تبصرہ کروں
الفاظ بھی شرمندہ ہیں
کہاں ہیں تہذیب و تمدن کے نام نہاد ٹھیکیدار
اُس باپ سے زیادہ قصور وار تو ہمارا معاشرہ ہیں، ہماری نام نہاد کردار سے عاری ظاہری انا قصور وار ہے لیکن یہ سب بھی ایک طرف۔۔۔کوئی باپ اپنی اولاد کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتا ہے


بستیاں چاند ستاروں پہ بسانے والو
کرۂ ارض پہ بجھتے چلے جاتے ہیں چراغ

:(:(
 
Top