امجد میانداد
محفلین
فرحت اس میں جو میرا تجزیہ ہے ہو سکتا ہے غلط ہی ہو لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ایشیائی مغرب کی نسبت تنگ ماحول میں وقت گزارتے ہیں۔ اور وہاں ان کو کھلی شخصی اور جنسی آزادی کا ماحول ملتا ہے اور کوئی روک ٹوک والانہیں ہوتا۔ اور یہاں سے مغرب گئے ہوئے جنوبی ایشیائی مردوں کی اکثریت خواہ فیملی کے ساتھ ہوں یا اکیلے ندیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس مدر پدر آزادی کا خوب فائدہ اٹھاتے ہیں یا قریب سے اس کے گمنام گوشوں اور کالے کرتوتوں کےگواہ ہوتے ہیں۔ خود ہاتھ دھو لینے کے بعد وہ اپنی اولاد اور گھر والوں کے لیے اس کی اچھائیوں پر بھی پابندی لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیوں کہ وہ پہلے سے ہی اس آزادی کے ثمرات سے فائدہ اٹھا چکے ہوتے ہیں یا ہو رہے ہوتے ہیں۔ وہ اپنے کرتوتوں اور تجربے کی آنکھ سے ہی دیکھتے ہیں ہر معاملے کو۔ وہ یہی سمجھتے ہیں کہ لڑکا اور لڑکی اگر پسند سے شادی کر رہے ہیں تو یہ کچھ ڈیٹس سے زیادہ شاید نہ چلے یا بہت تو کچھ ماہ و سال تک بس۔ایک ایسا المیہ جو کتنی ہی ایشیائی خاندانوں کی بربادی کی وجہ بن جاتا ہے۔ مجھے کبھی سمجھ نہیں آتی کہ ایک طرف تو آپ ساری زندگی ایک ایسے معاشرے میں گزار دیتے ہیں جہاں ہر کوئی اپنی سوچ اور خواہش کا نہ صرف اظہار کر سکتا ہے بلکہ عمل بھی کر سکتا ہے اور دوسری طرف آپ اس معاشرے کی یاد میں ، جسے پیچھے چھوڑ آئے ہوتے ہیں ، ضرورت سے زیادہ تنگ نظری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اتنی تنگ نظری کا جس کی شدت شاید پیچھے رہ جانے والے معاشرے سے بھی کئی گنا آگے بڑھ جاتی ہے۔ نتیجہ خاندان برباد ، رشتے تباہ اور زندگیاں ختم۔ اور سب سے زیادہ پیچھے رہ جانے والوں اور اردگرد والوں کے لئے خاندان اور آبائی ملک سے بیزارگی۔ اب بچ جانے والے لوگ جس ٹراما کا شکار ساری زندگی رہیں گے ، اس کا سوچ کر دل مزید اداس ہو جاتا ہے۔
مقدس بہت پر اثر انداز میں لکھا اور آپ کے سوالوں کا جواب یہی ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔ اور ایسی شدت شاید ملک سے باہر مقیم لوگوں میں زیادہ ہے بہ نسبت پاکستان میں رہنے والوں کے۔ یہ صرف جاہلیت ہے اور کچھ نہیں۔
اور کسی اچھائی کے لیے وہ راہ نکالنے پر تیار نظر ہی نہیں آ رہے ہوتے۔