آپ نے یہ بالکل درست فرمایا کہ ہر جگہ بل گیٹس سے ذہین تر افراد ملیں گے، لیکن میں آپ کی اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ اگر وہ پاکستان میں پیدا ہوتا تو وہ دھکے کھا رہا ہوتا وغیرہ وغیرہ۔ محترم واقعی ذہانت تو بہت ساروں کے پاس ہوتی ہے مگر یہ جو ساتھ میں حوصلہ اور لگن ہوتی ہے ”نا جی“، یہ بڑی عجیب چیز ہوتی ہے جی۔ گو کہ ماحول ترقی میں بڑا ساتھ دیتا ہے لیکن جن کے پاس ذہانت کے ساتھ ساتھ حوصلہ اور لگن ہوتی ہے، وہ پہاڑوں کو چٹکی میں ریزہ ریزہ کر دیتے ہیں، بلکہ بل گیٹس تو کچھ بھی نہیں ایسے لوگ تو اس سے بھی بہت آگے جا سکتے ہیں اور میرے خیال میں کالم نگار نے بھی یہی کچھ سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ یہ امریکہ اور یورپ وغیرہ جن کا آج طوطی بولتا ہے، یہ بھی تاریک دور سے گزرے ہیں مگر وہ کامیاب اس لئے ہوئے کیونکہ ان میں کچھ ”سر پھرے“ تھے جو حالات کو دوش دینے اور صرف اپنا سوچنے کی بجائے ہمت اور حوصلے سے چلنے کو ترجیح دیتے رہے۔ پھر ایک وقت آیا جب انہوں نے کئی بل گیٹس پیدا کئے اور ہم آج ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہیں۔ ہمارے سامنے اپنے بڑوں کی مثالیں موجود ہیں کہ کیسے انہوں نے صحراؤں میں گھوڑے دوڑائے مگر افسوس! آج ہم ان کے قصے تو بڑے شوق سے سناتے ہیں مگر ان کے حوصلے اور ہمت کو اپنے لئے مشعل راہ بناتے ہوئے ڈرتے ہیں اور سارا دوش حالت کو دے دیتے ہیں، کیونکہ حالات کو دوش دینا بہت ہی آسان ہے مگر محنت کرنا خاصہ مشکل ہے۔ویسے بھی اگر بل گیٹس امریکا میں پیدا نہ ہوتا اور بد قسمتی سے پاکستان میں پیدا ہوجاتا تو کیا وہ بل گیٹس بن جاتا؟کبھی بھی نہیں۔اسے امریکا میں پیدا ہونے کا بہت بڑا فائدہ ملا ورنہ وہ بھی ایک عام آدمی کی طرح دھکے کھا رہا ہوتا۔چاہے اسکا وژن جیسا بھی ہوتا۔آپکو ہر جگہ بل گیٹس سے ذہین تر افراد ملیں گے لیکن ان کی بدقسمتی یہ ہے کے وہ گئے گزرے ملک میں پیدا ہو گئے
اُس کے الحاد کا وہ خود جواب دہ ہے۔ آپ اس کے الحاد پر مایوس نہ ہوں ۔ یہ دیکھیں کہ ملحد لوگ نظریہ ارتقا کی بنیاد پر خدا کا انکار کیا کرتے ہیں اور ارتقاء کے ثبات کے ساتھ ساتھ وہ تغیرِ خواص کے بھی مبلغ ہوتے ہیں اس لئیے جب ان کا ارتقا بلوغت کی عمر کو پہنچے گا تو ان سے بڑا مؤحد کوئی نہ ہو گا۔میں پہلے دل میں بل گیٹس کی بہت قدر کرتا تھا لیکن جب سے مجھے پتہ چلا کہ یہ مُلحِدہے تو میرا دل اس سے اٹھ گیا کیونکہ میرے خیال میں جب آپ خدا کے وجود کا انکار کر رہے ہیں اور آپکا دماغ اتنا کام نہیں کرتا کہ یہ سمجھ سکیں کہ یہ دنیا کسی کی بنائی ہوئی ہے اور خود بخود نہیں چل رہی تو پھر آپ کیسے جینئس کیسے ذہین؟
جن کا دل دکھا ہو ان سے پیشگی معذرت
بات تو غور کرنے کی ہےاُس کے الحاد کا وہ خود جواب دہ ہے۔ آپ اس کے الحاد پر مایوس نہ ہوں ۔ یہ دیکھیں کہ ملحد لوگ نظریہ ارتقا کی بنیاد پر خدا کا انکار کیا کرتے ہیں اور ارتقاء کے ثبات کے ساتھ ساتھ وہ تغیرِ خواص کے بھی مبلغ ہوتے ہیں اس لئیے جب ان کا ارتقا بلوغت کی عمر کو پہنچے گا تو ان سے بڑا مؤحد کوئی نہ ہو گا۔
آپ شاعر کے اس خیال کو سمجھیں
"ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں"۔
واقعی آپ نے خوب کہا لیکن ہر آدمی ایک جیسا نہیں ہوتا ۔کچھ لوگ خود لگن اور محنت سے اپنے لیے راہ ہموار کر لیتے ہیں لیکن کچھ میرے جیسے کم حوصلہ ہمیشہ کسیِ نا کسی کا ہاتھ تلاش کرتے ہیں چاہے وا حوصلہ افزائی کی صورت میں ہو یا انویسٹمنٹ کی صورت میں۔لیکن پاکستان میں آپکو انویسٹمنٹ کا ہاتھ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا۔جو Entrepreneur کو سرمایہ فراہم کرسکے اور یہی بات میں مغرب اور یورپ ہم سے آگے ہے۔آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اگر مارک ذکربرگ،لیری پیج اور ان جیسے بہت سے لوگوں کو ابتدائی سرمایہ نہ ملتا تو آج گوگل ،فیس بک اور اس جیسی دوسری ویب سائٹ اور سروسز جن سے آج ہم استفادہ کررہے ہیں وہ آج موجود نہ ہوتیں اور ان کے بنانے والے کسی بے بس پاکستانی کی طرح کوئی نہ کوئی ہاتھ تلاش کرتے یہ زندگی گزار دیتے۔آپ نے یہ بالکل درست فرمایا کہ ہر جگہ بل گیٹس سے ذہین تر افراد ملیں گے، لیکن میں آپ کی اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ اگر وہ پاکستان میں پیدا ہوتا تو وہ دھکے کھا رہا ہوتا وغیرہ وغیرہ۔ محترم واقعی ذہانت تو بہت ساروں کے پاس ہوتی ہے مگر یہ جو ساتھ میں حوصلہ اور لگن ہوتی ہے ”نا جی“، یہ بڑی عجیب چیز ہوتی ہے جی۔ گو کہ ماحول ترقی میں بڑا ساتھ دیتا ہے لیکن جن کے پاس ذہانت کے ساتھ ساتھ حوصلہ اور لگن ہوتی ہے، وہ پہاڑوں کو چٹکی میں ریزہ ریزہ کر دیتے ہیں، بلکہ بل گیٹس تو کچھ بھی نہیں ایسے لوگ تو اس سے بھی بہت آگے جا سکتے ہیں اور میرے خیال میں کالم نگار نے بھی یہی کچھ سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ یہ امریکہ اور یورپ وغیرہ جن کا آج طوطی بولتا ہے، یہ بھی تاریک دور سے گزرے ہیں مگر وہ کامیاب اس لئے ہوئے کیونکہ ان میں کچھ ”سر پھرے“ تھے جو حالات کو دوش دینے اور صرف اپنا سوچنے کی بجائے ہمت اور حوصلے سے چلنے کو ترجیح دیتے رہے۔ پھر ایک وقت آیا جب انہوں نے کئی بل گیٹس پیدا کئے اور ہم آج ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہیں۔ ہمارے سامنے اپنے بڑوں کی مثالیں موجود ہیں کہ کیسے انہوں نے صحراؤں میں گھوڑے دوڑائے مگر افسوس! آج ہم ان کے قصے تو بڑے شوق سے سناتے ہیں مگر ان کے حوصلے اور ہمت کو اپنے لئے مشعل راہ بناتے ہوئے ڈرتے ہیں اور سارا دوش حالت کو دے دیتے ہیں، کیونکہ حالات کو دوش دینا بہت ہی آسان ہے مگر محنت کرنا خاصہ مشکل ہے۔
حکیم الامت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے یہ دو شعر
دشت تو دشت ہیں، صحرا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دیئے گھوڑے ہم نے
تھے تو آباء وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو
محترم میرا مقصد کوئی بحث کرنا نہیں، بس محسوس کیا اور اپنے خیالات کا اظہار کر دیا۔ میرے خیال میں اس طرح کی اظہارِ رائے کی آزادی ہونی ہی چاہئے۔
بالکل صحیح کہا آپ نے کہ اس طرح کی اظہارِ رائے کی آزادی ہونی چاہئیے۔اور آپ نے بلکل صحیح کیا جو اپنی بات کا اظہار کردیا۔اس طرح کی گفتگو سے میرے جیسے لوگوں کو کچھ اچھے اسباق مل جاتے ہیں جو زندگی بھر انکا ساتھ دیتے ہیں۔بہت شکریہ بلال بھائی۔محترم میرا مقصد کوئی بحث کرنا نہیں، بس محسوس کیا اور اپنے خیالات کا اظہار کر دیا۔ میرے خیال میں اس طرح کی اظہارِ رائے کی آزادی ہونی ہی چاہئے۔
ایسا نہیں ہے حسیب۔ اپنے لوگوں کی مثال لیں تو ڈاکٹر عبدالسلام اور ڈاکٹر عبدالقدیر دونوں ہی امریکہ کے مقابلے میں ایک گئے گزرے خطے میں پیدا ہوئے۔ ڈاکٹر عادل نجم بھی پاکستانی ہی ہیں۔ لگن بنیادی شرط ہے حوصلہ افزائی اور رہنمائی کرنے والے بہت مل جاتے ہیں۔ لیکن اس کے لئے انسان کو خود بھی آگے بڑھنا ہوتا ہے۔ویسے بھی اگر بل گیٹس امریکا میں پیدا نہ ہوتا اور بد قسمتی سے پاکستان میں پیدا ہوجاتا تو کیا وہ بل گیٹس بن جاتا؟کبھی بھی نہیں۔اسے امریکا میں پیدا ہونے کا بہت بڑا فائدہ ملا ورنہ وہ بھی ایک عام آدمی کی طرح دھکے کھا رہا ہوتا۔چاہے اسکا وژن جیسا بھی ہوتا۔آپکو ہر جگہ بل گیٹس سے ذہین تر افراد ملیں گے لیکن ان کی بدقسمتی یہ ہے کے وہ گئے گزرے ملک میں پیدا ہو گئے
تو اب ڈاکٹر قدیر کے ساتھ کونسا اچھا ہو رہا ہے؟ایسا نہیں ہے حسیب۔ اپنے لوگوں کی مثال لیں تو ڈاکٹر عبدالسلام اور ڈاکٹر عبدالقدیر دونوں ہی امریکہ کے مقابلے میں ایک گئے گزرے خطے میں پیدا ہوئے۔ ڈاکٹر عادل نجم بھی پاکستانی ہی ہیں۔ لگن بنیادی شرط ہے حوصلہ افزائی اور رہنمائی کرنے والے بہت مل جاتے ہیں۔ لیکن اس کے لئے انسان کو خود بھی آگے بڑھنا ہوتا ہے۔
تو اب ڈاکٹر قدیر کے ساتھ کونسا اچھا ہو رہا ہے؟ایسا نہیں ہے حسیب۔ اپنے لوگوں کی مثال لیں تو ڈاکٹر عبدالسلام اور ڈاکٹر عبدالقدیر دونوں ہی امریکہ کے مقابلے میں ایک گئے گزرے خطے میں پیدا ہوئے۔ ڈاکٹر عادل نجم بھی پاکستانی ہی ہیں۔ لگن بنیادی شرط ہے حوصلہ افزائی اور رہنمائی کرنے والے بہت مل جاتے ہیں۔ لیکن اس کے لئے انسان کو خود بھی آگے بڑھنا ہوتا ہے۔
یہ ملک ایسا ہے جس میں ہر بھلا کرنے والا ایک دل پچھتاتا ہےتو اب ڈاکٹر قدیر کے ساتھ کونسا اچھا ہو رہا ہے؟
اجی پیار سے تو جو بھی پکاریں، ہمیں کوئی اعتراض نہیں، ”بھائی“ تو پھر بھی بہت بہترین ہے۔میں پیار سے آپ کو بلال بھائی پکار سکتا ہوں کیا؟
جس نے ”بھلا“ کیا ہوتا ہے وہ کبھی نہیں پچھتاتا مگر جس نے دیگر مقاصد کے لئے کام کیا ہوتا ہے، وہ یقینا مقاصد پورے نہ ہونے پر پچھتاتا ہو گا۔یہ ملک ایسا ہے جس میں ہر بھلا کرنے والا ایک دل پچھتاتا ہے
ان کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ ایک الگ مسئلہ ہے۔ لیکن وہ آگے تو بڑھے۔ انہوں نے کام بھی کیا اور ان کی خدمات کا اعتراف بھی کیا گیا۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ قابل تھے لیکن پاکستانی ہونے کی وجہ سے دھکے کھاتے رہے۔خیر یہ ایک طویل بحث ہے۔تو اب ڈاکٹر قدیر کے ساتھ کونسا اچھا ہو رہا ہے؟
شکریہ جیاجی پیار سے تو جو بھی پکاریں، ہمیں کوئی اعتراض نہیں، ”بھائی“ تو پھر بھی بہت بہترین ہے۔