بندر استرے کا کھیل جاری

زیرک

محفلین
بندر استرے کا کھیل جاری

ایوب خان نے چار بار توسیع لی
ضیاءالحق نے تین بار توسیع لی
پرویز مشرف نے تین بار توسیع لی
اشفاق پرویز کیانی نے ایک بار توسیع لی
کچھ فائدہ ہوا؟
ایسے تجربے پہلے بھی کئی بار ناکام ہو چکے ہیں، ایک بار پھر سے اناڑی بندر کے ہاتھ استرا پکڑانے کا کوئی فائدہ ہے؟ ہر بار کی طرح عوام کے کان، ناک اور گلے ہی کٹیں گے۔ ہر بار نیا ماڈل لانے والوں اور ان کے ماڈل نما نمونوں سے نہ تو ملک کے معاشی حالات سدھرے ہیں نہ سدھریں گے، نہ ہی کشمیر فتح ہوا ہے اور نہ ہی ہو گا۔ جب ایسا ممکن نہیں تو ایسا کھیل کھیلنے کا کیا فائدہ جس کا حاصل نقصان ہی نقصان ہے؟ بوٹ پالیش مافیا نے کئی دن تک یہ تاثر دیا کہ باجوہ صاحب کو ایکسٹیشن نہ ملی تو انڈیا میں جشن منایا جائے گا، میرا سوال یہ ہے کہ کیا ان کی ممکنہ ریٹائرمنٹ کے بعد جو باقی 22 کور کمانڈرز اس عہدے کے لیے بچتے ہیں،کیا وہ نااہل ہیں؟ کیا ان 22 میں سے کسی میں بھی اتنی اہلیت نہیں ہے کہ وہ موقع و محل کی مناسبت سے بروقت اور درست فیصلہ کر سکیں؟ خدارا! ملک کو اناڑی بندر کے شوق کو پورا کرنے کے لیے مزید تجربے گاہ مت بنائیں کیونکہ پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان مذکورہ بالا ناگزیر شخصیات اور ان کے پیدا کردہ نمونوں کی وجہ سے ہی اٹھانا پڑا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
بوٹ پالیش مافیا نے کئی دن تک یہ تاثر دیا کہ باجوہ صاحب کو ایکسٹیشن نہ ملی تو انڈیا میں جشن منایا جائے گا، میرا سوال یہ ہے کہ کیا ان کی ممکنہ ریٹائرمنٹ کے بعد جو باقی 22 کور کمانڈرز اس عہدے کے لیے بچتے ہیں،کیا وہ نااہل ہیں؟ کیا ان 22 میں سے کسی میں بھی اتنی اہلیت نہیں ہے کہ وہ موقع و محل کی مناسبت سے بروقت اور درست فیصلہ کر سکیں؟
چلیں فرض کر لیتے ہیں یہ حکومت جنرل باجوہ کو فارغ کر دیتی ہے یا ان کے حق میں 6 ماہ کے اندر اندر قانون سازی نہیں ہو پاتی تو پھر کیا ہوگا؟
ظاہر ہے نیا آرمی چیف آئے گا۔ وہ آکر کیا ملک کے طول و ارض میں پھیلی اسٹیبلشمنٹ کی جڑیں کاٹنا شروع کرد ے گا؟ یقینا وہ ایسا ہرگز نہیں کرے گا بلکہ آئندہ اپنی من پسند سلیکٹڈ سیاسی حکومت اقتدار میں لانے کیلئے پس پردہ ڈوریں ہلانا شروع کردے گا۔
جس کے نتیجہ میں وزیر اعظم عمران خان کو اپنی آئینی مدت سے پہلے ہی گھر بھیج دیا جائے گا یا تحریک انصاف کی حکومت ختم کر دی جائے گے۔ جس کے بعد ملک میں ایک شدید سیاسی بحران پیدا ہو گا۔
اگر آپ کو یہ سب منظور ہے تو ٹھیک ہے جنرل باجوہ کو آج ہی آرمی چیف کے منصب سے سبکدوش کر دیتے ہیں :)
 

زیرک

محفلین
چلیں فرض کر لیتے ہیں یہ حکومت جنرل باجوہ کو فارغ کر دیتی ہے یا ان کے حق میں 6 ماہ کے اندر اندر قانون سازی نہیں ہو پاتی تو پھر کیا ہوگا؟
ظاہر ہے نیا آرمی چیف آئے گا۔ وہ آکر کیا ملک کے طول و ارض میں پھیلی اسٹیبلشمنٹ کی جڑیں کاٹنا شروع کرد ے گا؟ یقینا وہ ایسا ہرگز نہیں کرے گا بلکہ آئندہ اپنی من پسند سلیکٹڈ سیاسی حکومت اقتدار میں لانے کیلئے پس پردہ ڈوریں ہلانا شروع کردے گا۔
جس کے نتیجہ میں وزیر اعظم عمران خان کو اپنی آئینی مدت سے پہلے ہی گھر بھیج دیا جائے گا یا تحریک انصاف کی حکومت ختم کر دی جائے گے۔ جس کے بعد ملک میں ایک شدید سیاسی بحران پیدا ہو گا۔
اگر آپ کو یہ سب منظور ہے تو ٹھیک ہے جنرل باجوہ کو آج ہی آرمی چیف کے منصب سے سبکدوش کر دیتے ہیں :)
کوئی بھی ناگزیر نہیں ہوتا، ایسے ناگزیر لوگوں سے قبرستان بھرے پڑے ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا کہ "ان کے جانے کے بعد ملک کیسے چلے گا" مگر ماشاءاللہ پاکستان پھر بھی چل رہا ہے۔ باجوہ کے معاملے کو ہی دیکھ لیں، اگر آپ ان کو ناگزیر مانتے ہیں تو ساتھ میں 22 دوسروں کو نااہلی کا طوق بھی پہنا رہے ہیں جو کہ درست نہیں ہے۔ ادارہ کمانڈ کے تابع ہوتا ہے یہ الگ بات ہے کہ طالع آزما اکثر پورے ملک کو طابع کرنے میں لگے رہے ہیں۔ ہائپوتھیٹیکل یا مفروضے پر نہیں چلا کرتے کہ فلاں آ کر یہ کر دے گا یا وہ کر دے گا، جب آئے گا تو کرے گا ناں، مجھے یہ بتائیں جنرل باجوہ کی کی کون گارنٹی دے گا کہ وہ کل ایسا نہیں کریں گے؟۔فوج کےسسٹم کو چلنے دیں، اس میں ہل من مزید کا بیج مت بوئیں، جس کے عہدے کی معیاد ختم ہو جائے وہ اگر ہل من مزید کی خواہش رکھتا ہے تو کل کو وہ اس سے بڑے عہدے کے لیے کیا کچھ نہیں کرے گا؟ آخری بات یہ کہ نہ تو آپ کے پاس ایسی گدڑسنگھی ہے کہ جیسا چاہیں کر سکیں نہ کوئی اختیار کہ جنرل باجوہ کو ہٹا سکیں یا مزید کچھ گھنٹوں کے لیے ہی لگا سکیں، اس لیے ایسے مشورے دینا بند ہی کر دیں تو اچھا ہو گا۔ یہ تو عدالت نے ایک لقونے کو حل کرنے کے لیے ان کو مہلت دے دی جو کہ اصولی طور پر غلط ہے، لیکن اگر مدت والا لقونہ ختم کر کے معاملہ بہتر ہوتا ہے تو اسے مختصر مدت کے لیے مانا جا سکتا ہے۔ ورنہ تو حکومت کے دوغلے پن کا یہ حال ہے کہ ایک طرف سرمایہ کاروں کی منتیں کر رہے ہیں "کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرو یہاں بزنس کے لیے حالات بہت اچھے ہیں" اور دوسری طرف سپریم کورٹ کو کہتے پھر رہے تھے کہ"خدارا! باجوہ کو ایکسٹنشن دو کیونکہ ملک حالتِ جنگ میں ہے" (جبکہ کوئی ہماری طرف کا کشمیری یہ کہتا ہے کہ "وہ کشمیریوں کی مدد کے لیے لائن آف کنٹرول کو کراس کرے گا" تو اسے کہا جاتا کہ "جو لائن آف کنٹرول کراس کرے گا وہ کشمیریوں سے دشمنی کرے گا") سچ یہ ہے کہ نہ تو جنرل جنگ کر سکتے ہیں نہ حکومت چاہتی ہے، پاکستان کے پاس 5 دن سے زیادہ کا تیل کے ذخائر نہیں، جنگ لڑنے کو ایک ہفتے سے زیادہ کے ہتھیار نہیں، تو پھر جنگ کیسے لڑو گے؟ ہاتھوں سے؟۔ اس لیے ملک میں حالتِ جنگ کے حالات کا "ڈراوا" دکھا کر کچھ "مخصوص" مطالبات کو منوایا جا رہا ہے، مجھے بتائیں جنگ کے حالات کا رونا روئیں گے تو ایسے حالات میں سرمایہ کار کیسے آئے گا، وہ پاگل ہے کہ اپنا سرمایہ آگ میں جھونکے گا؟۔
 

جاسم محمد

محفلین
فوج کےسسٹم کو چلنے دیں، اس میں ہل من مزید کا بیج مت بوئیں، جس کے عہدے کی معیاد ختم ہو جائے وہ اگر ہل من مزید کی خواہش رکھتا ہے تو کل کو وہ اس سے بڑے عہدے کے لیے کیا کچھ نہیں کرے گا؟
سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی تقرری سے متعلق اچھی طرح ٹھوک بجا کر سب کو مطلع کر دیا ہے کہ آئین و قانون میں اس حوالہ سے بہت سے خلا موجود ہیں۔ جیسے آرمی چیف کو کتنی عرصہ کیلئے تعینات کیا جانا چاہئے اس کی کوئی حد متعین نہیں ہے۔ پھر توسیع کب ، کیوں اور کیسے دینے ہی یہ بھی قوانین میں شامل نہیں۔ یہاں تک کہ آرمی چیف کو ریٹائر کرنے کے حوالہ سے بھی قانون سازی کی ضرورت ہے۔
جب قانون ہی موجود نہیں تو ماضی میں کس طرح آرمی چیفس کی تقرریاں، توسیع اور معزولیاں ہوتی رہی ہیں؟ اگر پاکستان کو بنانا رپبلک نہیں بننا تو اس اہم ترین منصب کے حوالہ سے موثر قانون سازی تو کرنی پڑے گی۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ تو عدالت نے ایک لقونے کو حل کرنے کے لیے ان کو مہلت دے دی جو کہ اصولی طور پر غلط ہے، لیکن اگر مدت والا لقونہ ختم کر کے معاملہ بہتر ہوتا ہے تو اسے مختصر مدت کے لیے مانا جا سکتا ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ اس سارے معاملہ میں پڑی ہی کیوں ؟ چیف جسٹس کئی بار فرما چکے ہیں کہ وہ سو موٹو ایکشن لینے کے خلاف ہیں۔ پھر اپنی ریٹائرمنٹ سے کچھ عرصہ قبل اس حساس معاملہ پر سوموٹو لے لیا جو سراسر آئینی طور پر حکومت کا صوابدید ہے۔
حکومت عدالت کو کس حیثیت میں بتائے کہ وہ کونسا آرمی چیف کیوں اور کتنے عرصہ کیلئے لگا رہی ہے؟ عدالت کی کار سرکار میں اس طرح مداخلت بذات خود غیر آئینی ہے۔ اس حوالہ سے فاروق سرور خان کافی تفصیل کے ساتھ یہاں لکھ بھی چکے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
ورنہ تو حکومت کے دوغلے پن کا یہ حال ہے کہ ایک طرف سرمایہ کاروں کی منتیں کر رہے ہیں "کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرو یہاں بزنس کے لیے حالات بہت اچھے ہیں" اور دوسری طرف سپریم کورٹ کو کہتے پھر رہے تھے کہ"خدارا! باجوہ کو ایکسٹنشن دو کیونکہ ملک حالتِ جنگ میں ہے" (جبکہ کوئی ہماری طرف کا کشمیری یہ کہتا ہے کہ "وہ کشمیریوں کی مدد کے لیے لائن آف کنٹرول کو کراس کرے گا" تو اسے کہا جاتا کہ "جو لائن آف کنٹرول کراس کرے گا وہ کشمیریوں سے دشمنی کرے گا") سچ یہ ہے کہ نہ تو جنرل جنگ کر سکتے ہیں نہ حکومت چاہتی ہے، پاکستان کے پاس 5 دن سے زیادہ کا تیل کے ذخائر نہیں، جنگ لڑنے کو ایک ہفتے سے زیادہ کے ہتھیار نہیں، تو پھر جنگ کیسے لڑو گے؟ ہاتھوں سے؟۔ اس لیے ملک میں حالتِ جنگ کے حالات کا "ڈراوا" دکھا کر کچھ "مخصوص" مطالبات کو منوایا جا رہا ہے، مجھے بتائیں جنگ کے حالات کا رونا روئیں گے تو ایسے حالات میں سرمایہ کار کیسے آئے گا، وہ پاگل ہے کہ اپنا سرمایہ آگ میں جھونکے گا؟۔
بھائی بات دراصل یہ ہے کہ آرمی چیف کی تقرری، توسیع و معزولی مکمل طور پر حکومت کا صوابدید ہے۔ آئین و قانون میں کہیں یہ نہیں لکھا کہ آرمی چیف کتنے عرصہ کیلئے تعینات ہوگا، کب چھٹی ہوگی اور ان کن حالات میں توسیع کی جا سکے گی۔ یہ اس لئے کیونکہ فوج آئینی طور پر حکومت کا ماتحت محکمہ ہے جیسا کہ محکمہ پولیس۔
پنجاب حکومت پچھلے ۱۵ ماہ میں کوئی ۴ بار آئی جی پولیس تبدیل کر چکی ہے۔ کسی نے کوئی سوال پوچھا کہ اس حوالہ سے آئین و قانون کیا کہتا ہے؟ پھر محکمہ فوج کے بارہ میں یہ سارا ڈرامہ کیوں رچایا گیا؟
صرف اس لئے کیونکہ جج صاحبان نے پہلے فوج کو خلاف آئین ایک آزاد ادارہ سمجھ کر یہ کیس اٹھایا۔ اور اس کا فیصلہ بھی خلاف آئین دے دیا ہے کہ حکومت اس معاملہ پر قانون سازی کرے۔
اب دیکھتے ہیں پارلیمان اور سینیٹ اسے کیسے ہینڈل کرتا ہے۔
 
ادارہ کمانڈ کے تابع ہوتا ہے یہ الگ بات ہے کہ طالع آزما اکثر پورے ملک کو طابع کرنے میں لگے رہے ہیں۔
فوج ایک ادارہ نہیں ہے۔ یہ ایک محکمہ ہے،
صدر پاکستان اور وزیراعظم کے ماتحت
وزیر دفاع کے ماتحت، سیکریٹری دفاع
سکریٹری دفاع کے مساوی
کریڈ 22 کا چیف آف ملٹری استاف وغیرہ

ان محکمات کے قواعد و ضوابط بہت ہی واضح ہیں۔ اس کے لئے کسی آئین سازی کی ضرورت نہیں۔ نا ہی عدالت عالیہ کو اس مقصد کے لئے کسی قانون کی ضرورت ہے۔
یہ بہت ہی سیدھا معاملہ ہے، کہ سیکڑیتری دفاع ان قواعد و ضوابط میں ترمیم کریں اگر ضروری ہے نا کہ عدالت ایسا عدالت چاہتی ہے۔ اور وزیر دفاع ان تمیمات کو وزیر اعظم ے منظور کروا کر ، صدر کی منظوری کے ساتھ ایک نوٹیفیکیشن جاری کریں۔

یہ آئینی معاملہ کیسے ہے یہ سمجھ میں نہین آتا۔ پاکستان پر فرد واحد کی حکومت نہیں ہے ، اور نا ہی عدالت عالیہ ، کسی بھی طور انتظامیہ کو حکم نامے جاری کرسکتی ہے۔ اس لئے کہ یہ دونوں ادارے مساوی حقوق اور ذمہ داریاں رکھتے ہیں۔
 

زیرک

محفلین
یہ آئینی معاملہ کیسے ہے یہ سمجھ میں نہین آتا۔ پاکستان پر فرد واحد کی حکومت نہیں ہے ، اور نا ہی عدالت عالیہ ، کسی بھی طور انتظامیہ کو حکم نامے جاری کرسکتی ہے۔ اس لئے کہ یہ دونوں ادارے مساوی حقوق اور ذمہ داریاں رکھتے ہیں۔
مقننہ آئین ساز ادارہ ہے، اور عدالت عظمیٰ ہی اس آئین کی تشریح کا آخری حق رکھتی ہے، باقی سب باتیں ثانوی ہیں کہ کس نے کیا کرنے کو کہا، یہ آئندہ چند دن میں واضح ہو جائے گا۔
 

جان

محفلین
پہلی بات تو یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ اس سارے معاملہ میں پڑی ہی کیوں ؟ چیف جسٹس کئی بار فرما چکے ہیں کہ وہ سو موٹو ایکشن لینے کے خلاف ہیں۔ پھر اپنی ریٹائرمنٹ سے کچھ عرصہ قبل اس حساس معاملہ پر سوموٹو لے لیا جو سراسر آئینی طور پر حکومت کا صوابدید ہے۔
کہہ تو عمران خان صاحب بھی بہت چکے ہیں، کیا وہ ان پہ عمل پیرا ہیں؟ حضور کہنے اور کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے وگرنہ کہا تو خان صاحب نے بھی تھا کہ وہ ایکسٹینشن دینے کے خلاف ہیں! :)
 

زیرک

محفلین
پہلی بات تو یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ اس سارے معاملہ میں پڑی ہی کیوں ؟ چیف جسٹس کئی بار فرما چکے ہیں کہ وہ سو موٹو ایکشن لینے کے خلاف ہیں۔ پھر اپنی ریٹائرمنٹ سے کچھ عرصہ قبل اس حساس معاملہ پر سوموٹو لے لیا جو سراسر آئینی طور پر حکومت کا صوابدید ہے۔
حکومت عدالت کو کس حیثیت میں بتائے کہ وہ کونسا آرمی چیف کیوں اور کتنے عرصہ کیلئے لگا رہی ہے؟ عدالت کی کار سرکار میں اس طرح مداخلت بذات خود غیر آئینی ہے۔ اس حوالہ سے فاروق سرور خان کافی تفصیل کے ساتھ یہاں لکھ بھی چکے ہیں۔
آئین کے کسی آرٹیکل کی تشریح کا حق عدالتِ عظمیٰ کو ہی حاصل ہے
عدالت اس میں کیوں پڑی یہ الگ سوال ہے، عدالت کے سامنے ایک پٹیشن دائر ہوئی، عدلیہ کو اس میں ایک لقونہ نظر آیا اور اس نے اسے درست کرنے کے لیے اسے پارلیمنٹ میں بھیج دیا۔
 

جاسم محمد

محفلین
آئین کے کسی آرٹیکل کی تشریح کا حق عدالتِ عظمیٰ کو ہی حاصل ہے
عدالت اس میں کیوں پڑی یہ الگ سوال ہے، عدالت کے سامنے ایک پٹیشن دائر ہوئی، عدلیہ کو اس میں ایک لقونہ نظر آیا اور اس نے اسے درست کرنے کے لیے اسے پارلیمنٹ میں بھیج دیا۔
ویسے بعد النظر میں اچھا ہی ہو گیا۔ اگر ایکسٹینشن مل جانے کے بعد پٹیشن سنی جاتی تو آرمی چیف کی بر طرفی کہیں زیادہ بڑا بحران پیدا کر سکتی تھی۔
 

زیرک

محفلین
ویسے بعد النظر میں اچھا ہی ہو گیا۔ اگر ایکسٹینشن مل جانے کے بعد پٹیشن سنی جاتی تو آرمی چیف کی بر طرفی کہیں زیادہ بڑا بحران پیدا کر سکتی تھی۔
وہ کیوں بھائ؟ کیا اس لیے کہ ان کے پاس گن ہے؟ وہ ٹوپک زما قانون کے قائل ہیں اس لیے؟ آخر کار وہ ایک 22 گریڈ کے افسر ہی تو ہیں، ایکسٹنشن کے بعد پٹیشن سننے سے پہاڑ نہیں ٹوٹنا تھا۔ لیکن ہم پاکستانیوں کی عادت بن گئی ہے کہ غریب قانون شکنی کرے تو اسے سزا دیں اور جب ایک 22کگریڈ کا افسرسپریم کورٹ کے ججز کو کھڑا کر کے کہے کہ "میرے منہ سے نکلا لفظ آخری قانون ہو گا"، ہم اسے مان لیتے ہیں کیونکہ ان کے پاس طاقت ہے؟
 

جاسم محمد

محفلین
وہ کیوں بھائ؟ کیا اس لیے کہ ان کے پاس گن ہے؟ وہ ٹوپک زما قانون کے قائل ہیں اس لیے؟ آخر کار وہ ایک 22 گریڈ کے افسر ہی تو ہیں، ایکسٹنشن کے بعد پٹیشن سننے سے پہاڑ نہیں ٹوٹنا تھا۔ لیکن ہم پاکستانیوں کی عادت بن گئی ہے کہ غریب قانون شکنی کرے تو اسے سزا دیں اور جب ایک 22کگریڈ کا افسرسپریم کورٹ کے ججز کو کھڑا کر کے کہے کہ "میرے منہ سے نکلا لفظ آخری قانون ہو گا"، ہم اسے مان لیتے ہیں کیونکہ ان کے پاس طاقت ہے؟
طاقت کا اصل سر چشمہ فوج نہیں عوام ہے۔ بنگالی ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے تھے اور یوں پاک فوج کے تسلط سے آزاد ہو گئے۔ آج وہ ملک دن دگنی رات چگنی معاشی ترقی کر رہا ہے۔
اس کے برعکس پاکستان میں کتنے مارشل لا لگے اور کتنی بار پاکستانی ٹینکوں کے آگے لیٹے؟ الٹا یہاں عوام، اپوزیشن اور ججز منتخب حکومت کا تختہ الٹنے پر مٹھائیاں بانٹتی ہے۔
اس لئے بجائے فوج کو برا بھلا کہنے کہ پہلے اپنی اصلاح کریں۔ جس دن یہ عوام ٹینکوں کے آگے لیٹنے کا حوصلہ پیدا کر لے گی اس دن ملک فوجی تسلط سے آزاد ہو جائے گا۔ یوں ۲۴ گھنٹے ریاست مخالف پراپگنڈہ بندوق والوں کا بال بیکا بھی نہیں کر سکتا۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
کہہ تو عمران خان صاحب بھی بہت چکے ہیں، کیا وہ ان پہ عمل پیرا ہیں؟ حضور کہنے اور کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے وگرنہ کہا تو خان صاحب نے بھی تھا کہ وہ ایکسٹینشن دینے کے خلاف ہیں! :)
پاکستان ہائبرڈ ملک ہے۔ یہاں حکومتیں عوام کے ووٹوں سے کم اور بوٹوں کی پالش سے زیادہ بنتی ہیں۔ اگر جنرل باجوہ تحریک انصاف حکومت کے ساتھ کھڑے نہ ہوتے تو اپوزیشن، لبرل، لفافے ان کو پہلے دن ہی اڑا کر رکھ دیتے۔ چھوٹے مافیاز کا مقابلہ کرنے کیلئے سب سے بڑے مافیا کی حمایت ناگزیر ہے :)
ELP2zbq-Wk-AAb-qu.jpg
 
پاکستان ہائبرڈ ملک ہے۔ یہاں حکومتیں عوام کے ووٹوں سے کم اور بوٹوں کی پالش سے زیادہ بنتی ہیں۔ اگر جنرل باجوہ تحریک انصاف حکومت کے ساتھ کھڑے نہ ہوتے تو اپوزیشن، لبرل، لفافے ان کو پہلے دن ہی اڑا کر رکھ دیتے۔ چھوٹے مافیاز کا مقابلہ کرنے کیلئے سب سے بڑے مافیا کی حمایت ناگزیر ہے :)
ELP2zbq-Wk-AAb-qu.jpg
ہمیں آج تک کوئی ایسا انصافین نہیں ملا جو فوجی نظام کا حامی نہ ہو بلکہ جمہوریت پسند ہو۔ تلاش جاری ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ہمیں آج تک کوئی ایسا انصافین نہیں ملا جو فوجی نظام کا حامی نہ ہو بلکہ جمہوریت پسند ہو۔ تلاش جاری ہے۔
اصولی طور پر کوئی انصافین فوجی نظام کا حامی ہے نہ ہوگا۔ لیکن کیا کریں جب ۱۹۷۷ میں مارشل لا لگا تو بھٹو صاحب کی دو تہائی اکثریت کے باوجود عوام ٹینکوں کے آگے نہ لیٹی۔ قریبا یہی کچھ ۲۰ سال بعد ۱۹۹۹ میں نواز شریف کے ساتھ ہوا۔ دو تہائی اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آئے تھے لیکن جب فوج نے تختہ الٹا تو عوام نے مٹھائیاں بانٹی۔ اب پھر ۲۰ سال گزر گئے ہیں اور ہم نہیں چاہتے کہ تاریخ دوبارہ دہرائی جائے :)
اپوزیشن، لبرل، لفافے ایسی عوام سے جمہوری نظام کی توقع رکھتے ہیں جو ہر بار مارشل لا لگنے پر اپنی ہی ووٹوں سے بننے والی حکومت کو میدان میں تن تنہا چھوڑ کر فرار ہو جاتی ہے۔ پاکستانی قوم کی یہ تاریخ دیکھتے ہوئے عسکری قیادت کا دماغ خراب ہے جو مکمل اقتدار پلیٹ میں رکھ کر منتخب حکومت کو پکڑا دے؟ وہ بھی اب پورے شیر ہو گئے ہیں اور اس ہائبرڈ نظام کا بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ مسئلہ فوج میں کبھی تھا ہی نہیں۔ مسئلہ عوام میں ہے :)
 
اصولی طور پر کوئی انصافین فوجی نظام کا حامی ہے نہ ہوگا۔ لیکن کیا کریں جب ۱۹۷۷ میں مارشل لا لگا تو بھٹو صاحب کی دو تہائی اکثریت کے باوجود عوام ٹینکوں کے آگے نہ لیٹی۔ قریبا یہی کچھ ۲۰ سال بعد ۱۹۹۹ میں نواز شریف کے ساتھ ہوا۔ دو تہائی اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آئے تھے لیکن جب فوج نے تختہ الٹا تو عوام نے مٹھائیاں بانٹی۔ اب پھر ۲۰ سال گزر گئے ہیں اور ہم نہیں چاہتے کہ تاریخ دوبارہ دہرائی جائے :)
اپوزیشن، لبرل، لفافے ایسی عوام سے جمہوری نظام کی توقع رکھتے ہیں جو ہر بار مارشل لا لگنے پر اپنی ہی ووٹوں سے بننے والی حکومت کو میدان میں تن تنہا چھوڑ کر فرار ہو جاتی ہے۔ پاکستانی قوم کی یہ تاریخ دیکھتے ہوئے عسکری قیادت کا دماغ خراب ہے جو مکمل اقتدار پلیٹ میں رکھ کر منتخب حکومت کو پکڑا دے؟ وہ بھی اب پورے شیر ہو گئے ہیں اور اس ہائبرڈ نظام کا بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ مسئلہ فوج میں کبھی تھا ہی نہیں۔ مسئلہ عوام میں ہے :)
مسئلہ نہ فوج کا ہے اور نہ عوام کا۔ مسئلہ انصافین کی فاشسٹ سوچ کا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
مسئلہ نہ فوج کا ہے اور نہ عوام کا۔ مسئلہ انصافین کی فاشسٹ سوچ کا ہے۔
عمران خان کو جب ابھی اقتدار نہیں ملا تھا تو وہ بھی لبرلز کی طرح جرنیلوں اور ان کے فرنٹ مین (ملک ریاض) کو بھگو بھگو کر لتر لگاتے تھے۔ جوابا وہ ہر انتخابات میں خان صاحب کے ساتھ دھاندلی کر کے اقتدار کا راستہ روکتے۔ ۲۲ سال اس تجربہ سے خان صاحب نے یہ سیکھا کہ یہاں اقتدار صرف اسٹیبلشمنٹ کو ساتھ ملا کر کھیلنے سے ملتا ہے۔ :)
 

زیرک

محفلین
طاقت کا اصل سر چشمہ فوج نہیں عوام ہے۔ بنگالی ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے تھے اور یوں پاک فوج کے تسلط سے آزاد ہو گئے۔ آج وہ ملک دن دگنی رات چگنی معاشی ترقی کر رہا ہے۔
اس کے برعکس پاکستان میں کتنے مارشل لا لگے اور کتنی بار پاکستانی ٹینکوں کے آگے لیٹے؟ الٹا یہاں عوام، اپوزیشن اور ججز منتخب حکومت کا تختہ الٹنے پر مٹھائیاں بانٹتی ہے۔
اس لئے بجائے فوج کو برا بھلا کہنے کہ پہلے اپنی اصلاح کریں۔ جس دن یہ عوام ٹینکوں کے آگے لیٹنے کا حوصلہ پیدا کر لے گی اس دن ملک فوجی تسلط سے آزاد ہو جائے گا۔ یوں ۲۴ گھنٹے ریاست مخالف پراپگنڈہ بندوق والوں کا بال بیکا بھی نہیں کر سکتا۔ :)
الحمدللہ کاکول جا کر بھی نہیں سدھرا، فوجی فیملی سے تعلق ہونے کے باوجود عین وقت پر جب لفٹین بننے کا وقت آیا تو "ناٹ ولنگ ٹو سرو بیڈ ایپلز" کہہ کر لات مار کر چلا آیا تھا، مجھے اپنے کیے پر شرمندگی نہیں، بلکہ خوشی ہے کہ میں جنرل مافیا مشین کا پرزہ نہیں بنا۔ عام فوج کو سو سلام کرتا ہوں، وہ بے چاری تو حکم کی پابند ہوتی ہے۔ پاکستانی معاشرہ بحیثیت مجموعی چور ڈکیٹ کو ہیرو مانتا ہے بس شرط یہ ہے کہ وو چوری کے مال سے ان کو بھی لقمہ دے دے۔
بنگالی ہم سے بہتر سوچ کی قوم ہے، انہوں نے پوری کوشش کی پاکستان سے بنی رہے مگر ان کی سب سے بڑی ڈیمانڈ بنگالی زبان والی بات نہ مان کر ہی بنگلہ دیش کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ دشمن کا دشمن دوست کے مصداق بنگالیوں نے انڈین سے ہاتھ ملا لیا، مکتی بائنی کی ٹریننگ انہی کے ہاتھوں ہوئی، ہم خود غلط تھے تو کسی اور کو دوشی مت ٹھہرائیں۔
 

زیرک

محفلین
عمران خان کو جب ابھی اقتدار نہیں ملا تھا تو وہ بھی لبرلز کی طرح جرنیلوں اور ان کے فرنٹ مین (ملک ریاض) کو بھگو بھگو کر لتر لگاتے تھے۔ جوابا وہ ہر انتخابات میں خان صاحب کے ساتھ دھاندلی کر کے اقتدار کا راستہ روکتے۔ ۲۲ سال اس تجربہ سے خان صاحب نے یہ سیکھا کہ یہاں اقتدار صرف اسٹیبلشمنٹ کو ساتھ ملا کر کھیلنے سے ملتا ہے۔ :)
اقتدار کی خاطر ہر ایک نے اپنا اُگلا ہوا نِگلا ہے، عمران خان بھی ویسا ہی ہے، یہ ایسا سیکورٹی رسک ہے کہ جس دن اصل حاکموں نے اسے ہٹایا اس نے ہر جا جا کر اندر کی وہ وہ کہانیاں بیان کرنی ہیں کی سبھی توبہ توبہ کریں گے۔ یہ جس کے کندھے پر چڑھ کر آگے جاتا ہے پھر اسی کے سر پر پیر رکھ کر بیٹھنے کی کوشش کرتا ہے۔
 
Top