بوتل

مشترکہ کاروبار تو شاید چل سکتا ہو ، مشترکہ فریج سراسر خسارے کا سودا ہے
اب دیکھو ناں !!! ملک صاحب بوہری بازار کی سب سے مہنگی پلاسٹک کی دکان سے …. ایک انتہائ کنجوس میمن سے لڑ بھڑ کر ….. 65 روپے کی پلاسٹک بوتل 60 روپے میں خرید لائے
بلڈنگ کی پہلی منزل پر نصب ڈسپنسر سے اس میں فلٹر واٹر بھرا اور فریج میں لا کر رکھ دی
اگلے روز بوتل غائب تھی
ملک صاحب کو پہلا شک عنایت مسیح پر ہوا مگر لجپالی کی کالی چادر اوڑھ کر پھر صدر چلے گئے- نئ بوتل خریدی ، پھر 60 روپے کا ڈالر برانڈ کَٹ والا کالا مارکر خرید کر بوتل پر جلّی حروف میں لکھا
ملکیّت از ملک ممتاز صاحب آف چوُہا سیّدن شاہ – چکوال
تین چار روز کے بعد رات گئے پانی پینے اٹھے تو بوتل پھر غائب تھی- ایک سراغ رساں نے بتایا کہ رانڑاں صاحب کے مہمان آئے تھے ، ان کے ہاتھ میں دیکھی گئ ہے
رانڑاں صاحب سے پوچھا تو بولے
ھم لائے ضرور تھے …. مگر واپس رکھ دی تھی
پر کِتّھے ؟؟؟
ملک صاحب پھر …. پھر ….پھر صدر گئے- نئ بوتل خریدی- پھر امپریس مارکیٹ سے 10 روپے کا پیلا اے فور سائز کاغذ لیا- ریگل سے 80 روپے کی ٹرانسپیرنٹ ٹیپ لی اور بوتل پر سربمہر یہ کتبہ لکھا
یہ بوتل ملک ممتاز صاحب آف چوُہا سیّدن شاہ چکوال کی ملکیّت ہے- حامل ھذہ کی اجازت کے بغیر اس بھانڈے کو ہاتھ یا مونہہ لگانا سختی سے منع ہے
ملک صاحب کے بقول یہ بوتل ہفتہ بھر چلی پھر چلتے چلتے جانے کہاں نکل گئ- سلامت مسیح کا اقبالی بیان ہے کہ آخری بار قادری صاحب کو اس سے وضو فرماتے دیکھا گیا – کیونکہ بلڈنگ میں اس روز پانی نہیں آ رہا تھا
اللہ اکبر
ملک صاحب قادری صاحب کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر چکے ہیں- مگر مشکل یہ ہے کہ ملزم پرانی سبزی منڈی جا کر چھُپ گیا ہے- تبلیغی سفر سے سوموار کو واپسی ہے
ان کا نمبر بھی بند مل رہا ہے
اس وقت ملک صاحب تین چار آپشنز پر غور فرما رہے ہیں
ہر روز بلڈنگ کی 40 سیڑھیاں اتر کر ڈسپنسر کی ٹُوٹی سے ” بُک” میں پانی پیا جائے
گراؤنڈ فلور پر رہائش کی درخواست محکمہ متعلقہ کے گوش گزار کی جائے
نئ بوتل خرید کر اس پر جلّی حروف میں ” سلامت مسیح” لکھ کر فریج میں رکھ دی جائے

آپ کا کیا مشورہ ہے ؟؟



ازقلم … ظفر اقبال محمّد
 

محمد وارث

لائبریرین
یہ انڈیا والا لطیفہ اس انڈین کے سمجھ میں نہیں آیا :talktohand:
پاکستان میں بھی دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ کھانے پینے میں اچھوت اچھات کا مسئلہ ہے، مثال کے طور پر اگر مسیحی مسلمانوں کے کسی برتن کو ہاتھ بھی لگا لیں تو وہ ناپاک سمجھا جاتا ہے۔ ہندوستان میں ہندو بھی دوسرے مذاہب والوں کے ساتھ یہی کچھ کرتے ہیں بلکہ جہاں تک میرے علم میں ہے وہ نہ صرف دوسرے مذاہب بلکہ اپنے ہی مذہب کی چھوٹی ذاتوں والے کے ساتھ بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔

اوپر والے لطیفے نما کثیفے میں یہ کہانی چل رہی ہے کہ کسی صاحب کی پانی والی بوتل چوری ہو جاتی تھی سو ان کو مشورہ دیا گیا کہ بوتل کے اوپر لکھ دو کہ یہ بوتل سلامت "مسیح" کی ہے پھر کوئی اُس کو ہاتھ لگانے کا بھی نہیں سوچے گا۔ اسی طرح اگر ہندوستان میں اگر کسی ہندو کی بوتل چوری ہو رہی ہوتی تو اس کو بھی شاید یہی مشورہ دیا جاتا لیکن نام کا صرف ایک حصہ بدل جاتا!
 
مثال کے طور پر اگر مسیحی مسلمانوں کے کسی برتن کو ہاتھ بھی لگا لیں تو وہ ناپاک سمجھا جاتا ہے۔
ہمارے گھر مسیحی خاتون برتن دھوتی ہے۔ اور اب یہ ناپاک سمجھنے والا رجحان کم ہو رہا ہے۔
لیکن یہاں وہی کہانی چل رہی ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
کہنے کا مقصد صرف اتنا تھا کہ اس خود ساختہ لطیفے میں ایک طرح سے اقلیتوں کی دل آزاری ہے اور لکھنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ اگر مسلم اکثریتی ملک میں وہ اقلیتوں کی دل آزاری کر سکتے ہیں تو ان کو سوچنا چاہیئے کہ ان کے ہم مذہب بہت سے ملکوں میں خود اقلیت میں ہیں!
 

محمد وارث

لائبریرین
ہمارے گھر مسیحی خاتون برتن دھوتی ہے۔ اور اب یہ ناپاک سمجھنے والا رجحان کم ہو رہا ہے۔
لیکن یہاں وہی کہانی چل رہی ہے۔
میرے کالج کے ایف ایس سی کے دن تھے، ایک پروفیسر صاحب کے ہاں کمیسٹری پڑھنے جاتا تھا وہیں گھر میں انہوں نے پریکٹیکلز کے لیے ایک لیب بھی بنا رکھی تھی، اس لیب کا ہیلپر ایک مسیحی تھا، بیچارے کے چائے کے برتن اور پانی کا گلاس سب علیحدہ تھے، ایک دن انہی پروفیسر صاحب سے ملنے کالج کے نائب پرنسپل صاحب آئے وہ بھی مسیحی تھے ان کے لیے اعلیٰ قسم کی کراکری نکالی گئی، چلے گئے تو وہ پروفیسر صاحب خود ہی اپنی بیوی کے "ڈبل سٹینڈرڈ" پر دیر تک گفتگو فرماتے رہے!
 

فہد اشرف

محفلین
پاکستان میں بھی دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ کھانے پینے میں اچھوت اچھات کا مسئلہ ہے، مثال کے طور پر اگر مسیحی مسلمانوں کے کسی برتن کو ہاتھ بھی لگا لیں تو وہ ناپاک سمجھا جاتا ہے۔ ہندوستان میں ہندو بھی دوسرے مذاہب والوں کے ساتھ یہی کچھ کرتے ہیں بلکہ جہاں تک میرے علم میں ہے وہ نہ صرف دوسرے مذاہب بلکہ اپنے ہی مذہب کی چھوٹی ذاتوں والے کے ساتھ بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔

اوپر والے لطیفے نما کثیفے میں یہ کہانی چل رہی ہے کہ کسی صاحب کی پانی والی بوتل چوری ہو جاتی تھی سو ان کو مشورہ دیا گیا کہ بوتل کے اوپر لکھ دو کہ یہ بوتل سلامت "مسیح" کی ہے پھر کوئی اُس کو ہاتھ لگانے کا بھی نہیں سوچے گا۔ اسی طرح اگر ہندوستان میں اگر کسی ہندو کی بوتل چوری ہو رہی ہوتی تو اس کو بھی شاید یہی مشورہ دیا جاتا لیکن نام کا صرف ایک حصہ بدل جاتا!
اب یہ چیز بہت کم رہ گئی ہے، ہم لوگ پانی کی بوتل ہی نہیں ٹفن بھی شئیر کر کے کھاتے ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اب یہ چیز بہت کم رہ گئی ہے، ہم لوگ پانی کی بوتل ہی نہیں ٹفن بھی شئیر کر کے کھاتے ہیں۔
اچھی بات ہے، پاکستان میں بھی یہ رجحان کم ہو رہا ہے، میں بھی کئی سال بلکہ دہائیاں قبل اپنے کالج کے مسیحی دوستوں کے ساتھ اسی طرح کھاتا پیتا تھا لیکن افسوس ابھی بھی یہ رجحان باقی ہے۔ میں نے کچھ ماہ قبل اپنے کچھ دفتری کولیگز کی شکایت سنی کہ میس کے برتنوں کو مسیحی کیوں ہاتھ لگاتے ہیں!

ویسے اس کہانی کا لب لباب یہی تھا اور میں نے بھی اسی تناظر میں بات کی تھی۔
 

سید عمران

محفلین
مطلب جو پہلے اٹھاتا رہا اس کو نہیں پتا تھا کہ یہ بوتل اس کی نہیں؟؟
نام مسیح لکھا ہے اور بوتل مسیح کی نہیں ہے۔۔۔
اب لازماً اس کو شک ہوگا کہ یہ پانی میں نے نہیں بھرا ۔۔۔
نجانے کیسا پانی ہے۔۔۔
بس یہی سوچ کر منہ نہیں لگائے گا۔۔۔
ویسے آپ سلامت مسیح کے وکیل صفائی تو نہیں ہیں نا!!!
 

عثمان قادر

محفلین
نام مسیح لکھا ہے اور بوتل مسیح کی نہیں ہے۔۔۔
اب لازماً اس کو شک ہوگا کہ یہ پانی میں نے نہیں بھرا ۔۔۔
نجانے کیسا پانی ہے۔۔۔
بس یہی سوچ کر منہ نہیں لگائے گا۔۔۔
ویسے آپ سلامت مسیح کے وکیل صفائی تو نہیں ہیں نا!!!
نہیں میں بس یہ چاہتا ہوں کہ "چور" پکڑا جائے۔۔۔۔۔
ویسے اگر بوتل پر سلامت مسیح لکھا ہو گا تو وہ سمجھے گا شاید یہ بوتل کسی نہایت ہی خدا ترس بندے نے میرے لیے رکھی ہے ۔۔۔۔۔
اللہ سب کی بوتلوں کی حفاظت فرمائے آمین
 

سید عمران

محفلین
نہیں میں بس یہ چاہتا ہوں کہ "چور" پکڑا جائے۔۔۔۔۔
ویسے اگر بوتل پر سلامت مسیح لکھا ہو گا تو وہ سمجھے گا شاید یہ بوتل کسی نہایت ہی خدا ترس بندے نے میرے لیے رکھی ہے ۔۔۔۔۔
اللہ سب کی بوتلوں کی حفاظت فرمائے آمین
لیکن جب دوسرا جملہ دیکھے گا۔۔۔
صفائی کا پانی تو۔۔۔
ٹھٹک جائے گا۔۔۔
کہ پتا نہیں کیسا پانی ہے!!!
 
Top