محمداحمد
لائبریرین
واٹر کلر بھی ہیں اور چاولوں کا آٹا بھی۔ جس کی ڈیٹ ایکسپائر ہو چکی تھی۔ اس میں تھوڑی سی گلو اور ذرا سا وائیٹ سیمنٹ بھی ہے۔
چاولوں کا آٹا، وائٹ سیمنٹ کی کیا ضرورت آ پڑی؟
واٹر کلر بھی ہیں اور چاولوں کا آٹا بھی۔ جس کی ڈیٹ ایکسپائر ہو چکی تھی۔ اس میں تھوڑی سی گلو اور ذرا سا وائیٹ سیمنٹ بھی ہے۔
کیوں مسجد قریب نہ تھی؟؟؟
وہی نا۔۔۔بالکل!
جیسے گلِ یاسمین نے بے پر مکھی کی با تصویر روداد لکھ کر درو و غم بیان کیے ہیں۔
مکھی کا جسم بنانے کے لیے۔ ورنہ ایک سپاٹ سا تاثر رہتا اور اندازہ یہی لگایا جاتا کہ گل یاسمیں نے پروں سے محروم کرنے کے ساتھ ساتھ اس معصوم کو بھوکا بھی رکھ چھوڑا ہے۔چاولوں کا آٹا، وائٹ سیمنٹ کی کیا ضرورت آ پڑی؟
آسان لفظوں میں یہ کہ ہم دل کا درد کینوس پہ انڈیل دیتے ہیں۔
مکھی کا جسم بنانے کے لیے۔ ورنہ ایک سپاٹ سا تاثر رہتا اور اندازہ یہی لگایا جاتا کہ گل یاسمیں نے پروں سے محروم جرنے کے ساتھ ساتھ اس معصوم کو بھوکا بھی رکھ چھوڑا ہے۔
آٹا بھی استعمال ہو سکتا تھا مگر اب چاولوں کا آٹا اور کس کام میں لاتے۔
اچھا تو یہ بات ہے۔مافی مُجّد میں ہی ملتی ہے۔
مسجد جاؤ تو پھر معافی مانگنا پڑتی ہے۔
اچھا تو وہ جو مکرر مکررکہا جاتا ہے وہ اس لیے ہوتا ہے کہ واپس اپنی پچھلی یاداشت پہ چلے جائیں۔لیکن ہر کوئی آپ کی طرح آرٹسٹ تو ہوتا نہیں ہے۔
کچھ لوگ دو مصرعوں میں ایک بہت طویل واقعہ رقم کرتے ہیں۔ جسے پڑھنے والے واہ کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ آگے بڑھ جانے والوں کو شاعر دو مزید دلچسپ مصرعے عطا کرتا ہے اور پڑھنے والا یہ پوچھنا ہی بھول جاتا ہے کہ پہلے والے دومصرعوں میں جو کہا گیا ہے اُس کی مزید تفصیلات کیا ہیں؟
کہہ سکتے ہیں۔یعنی تھری ڈی کا سا تاثر دینے کے لئے آپ نے یہ کام کیا؟
کبھی عاطف بھیا کے دنوا دنوا پر بھی غور کیجئیے گا۔ لگ پتہ جانا آپ کو۔سید صاحب، یقین نہیں آیا کہ آپ بھی کسی میرا کے غم میں مبتلا ہیں اور شاعر ہو گئے۔
مکرر مکرر وہ کہتے ہیں، جو شاعر کے شعر سناتے وقت باتوں میں لگے ہوئے تھے اور سُن نہ سکے۔ یا پھر وہ جو ایک بار میں شعر کو سمجھ نہ سکے۔اچھا تو وہ جو مکرر مکررکہا جاتا ہے وہ اس لیے ہوتا ہے کہ واپس اپنی پچھلی یاداشت پہ چلے جائیں۔
کسی مشاعرے کی صدارت کسی جنرل صاحب کو سونپی گئی ۔ مشاعرے کے آغاز پر جب شاعر نے اپنا کلام پڑھنا شروع کیا تو سامعین نے مکرر ارشاد کی صدائیں بلند کیں ۔ جنرل صاحب نے منتظم کو پاس بلا کر اس سے پوچھا کہ یہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں؟
انہیں بتایا گیا کہ یہ شعر کو دوبارہ پڑھنے کے لیے کہہ رہے ہیں ۔ جنرل صاحب نے مائیک ہاتھ میں لے کر سامعین سے مخاطب ہو کر کہا سننا ہے تو پہلی ہی بار غور سے سنو ۔ شاعر آپ کے والد صاحب کے نوکر نہیں ہیں کہ دوبارہ پڑھ کر سنائیں گے
لکھے تو دونوں ایک جیسے ہیں۔ میرا بھی اور میرا بھی۔ کون سا والا کون سا سمجھا جائے۔یار یہ غم شاعری کرنے سے ہی لگے ہیں ۔
اور جواب میرا ہے میرا کا نہیں ۔
مکرر مکرر وہ کہتے ہیں، جو شاعر کے شعر سناتے وقت باتوں میں لگے ہوئے تھے اور سُن نہ سکے۔ یا پھر وہ جو ایک بار میں شعر کو سمجھ نہ سکے۔
ایک معروف لطیفہ اس سلسلے میں یہ سننے کو ملتا ہے۔
سید صاحب، یقین نہیں آیا کہ آپ بھی کسی میرا کے غم میں مبتلا ہیں اور شاعر ہو گئے۔
فراز صاحب کی لاچارگی بھی ملاحظہ فرمائیں 🙂یار یہ غم شاعری کرنے سے ہی لگے ہیں ۔
اور جواب میرا ہے میرا کا نہیں ۔
فراز صاحب کی لاچارگی بھی ملاحظہ فرمائیں 🙂
نثرمیں درد و غم کالکھنا جیسے پروگراموں کے دوران اسکرین پر نیچے پٹی میں خبریں چل رہی ہوں اور شاعر ی میں یہی بیان جیسے بریکنک نیوز پوری اسکرین پر ہلچل مچارہی ہویعنی عاشقوں کے دلوں میں ہونے والے دھماکے پڑھنے اور سننے والے کے دلوں میں گونج رہے ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔درد و غم تو نثر میں بھی بیان ہو سکتے۔ پھر شاعری ہی کیوں۔