جاسم محمد
محفلین
بچوں کو جسمانی سزا دینے پر پابندی کیوں ضروری ہے؟
20/06/2019 ڈاکٹر لبنیٰ مرزا
ایف ایم جی یعنی کہ فارن میڈیکل گریجؤیٹ پورٹل ایک پرائیوٹ کمپنی ہے جو آئی ایم جی یعنی انٹرنیشنل میڈیکل گریجؤیٹس کے لیے امریکہ میں پریکٹس کرنے والے ڈاکٹرز کے ساتھ کام کرنے اور سیکھنے کے لیے چار ہفتے کی روٹیشن ترتیب دیتی ہے۔ میں ان کی فیکلٹی میں ہوں۔ اگر یہ مضمون پڑھنے والے اور ڈاکٹرز بھی پڑھنا چاہیں یا پڑھانا تو وہ بھی سائن اپ کرسکتے ہیں۔ اس روٹیشن میں میرا پڑھانے کا طریقہ کلاس میں کھڑے ہوکر لیکچر دینے سے مختلف ہے۔ یکطرفہ نہیں بلکہ اس طرح ہے کہ میرے ساتھ مریض دیکھیں اور مجھے جو معلومات ہیں وہ میں آپ کو سکھا دوں گی اور آپ نے جو نیا سیکھا ہے وہ مجھے بھی پڑھا دیں۔
اس مہینے ہمارے ساتھ ڈاکٹر وانگ اینڈوکرائن کی روٹیشن کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر وانگ نے شنگھائی چائنا کے قریب ایک شہر میں واقع میڈیکل کالج سے اپنی ڈگری مکمل کی اور اب سارے امریکی امتحان پاس کرنے کے بعد وہ ریذیڈنسی کے لیے اپلائی کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر وانگ نے اینڈوکرائن کی روٹیشن کے دوران ہمیں چین میں چائلڈ ابیوز پر لیکچر دیا۔ اس میں ہم سب کے لیے اہم سبق ہیں۔
چین ایک اجتماعیت پسند قوم ہے اور اس میں بچے پالنے کا طریقہ اتھارٹی والا یعنی تحکمانہ ہے جس میں جبر اور جسمانی تشدد سے ناپسندیدہ انفرادی رویے کو دبا کرفوری نتائج حاصل کیے جانے کا رجحان ہے۔ دنیا کے دیگر علاقوں کے برعکس چین میں جسمانی تشدد امیر غریب یا زیادہ یا کم تعلیم یافتہ گھرانوں میں بغیر تفریق کے تمام معاشرے میں موجود ہے۔ اولاد کی بہتر تربیت میں مار پیٹ کا استعمال چینی فلسفے کا حصہ ہے جس کی تاریخ دو ہزار سال پرانی ہے۔ یہ زو گھرانے کی بادشاہت سے چلی آرہی ہے جس کے مطابق اپنے بچوں سے سختی اور تشدد کے ساتھ پیش آنا والدین کی محبت کا اظہار ہے۔
(سلائیڈ پڑھنے کے لئے کلک کیجئے)
بچوں کو جسمانی سزا دینے سے وہ سدھر جاتے ہیں، ان دعووں میں کتنی سچائی ہے؟
ڈاکٹر وانگ کے لیکچر سے ہمیں معلوم ہوا کہ چین میں 2015 کے اعداد وشمار کے مطابق بچوں کی تعداد 282,260,000 ہے۔ چین میں کی گئی ایک ریسرچ کے مطابق دو سال کی عمر سے لے کر پندرہ سال تک کی عمر کے بچوں میں سے 54 % بچوں نے ماؤں کے ہاتھوں اور تقریباً 48% بچوں نے باپ کے ہاتھوں تشدد کا سامنا کیا۔ ماں اور باپ کے فرق کو اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ زیادہ تر بچے زیادہ تر وقت اپنی ماں کے ساتھ گذارتے ہیں۔ ایک اور اسٹڈی کے مطابق 9 سے 12 سال تک کی عمر کے بچوں میں سے 73% نے ان افراد کے ہاتھوں تشدد برداشت کیا جو دراصل ان کی حفاظت کے ذمہ دار تھے۔
اقوام متحدہ اور بچوں کے حقوق کی کمیٹی کے مطابق بچوں کے خلاف کسی بھی قسم کا جسمانی تشدد بچوں کے حقوق کی پامالی کے دائرے میں آتا ہے اور اس کو روکنا ضروری ہے۔ لیکن چین میں اس وقت اسکولوں یا ڈے کئر سینٹرز میں بچوں پر جسمانی تشدد کے بارے میں کوئی ٹھوس قوانین موجود نہیں ہیں۔ ابھی تک گھروں کے اندر جو ہورہا ہے اس پر گفتگو تک شروع نہیں ہوئی ہے۔ چینی قوانین کے مطابق بچوں کی مار پیٹ ابھی تک جرائم کے دائرے میں شامل نہیں کی گئی ہے۔
بچوں کی جسمانی سزا کے کیا نقصانات ہیں؟
بچوں میں جسمانی تشدد سے ان کی ذہنی نشونما رک جاتی ہے۔ تکلیف اور خوف سے نہ صرف اینڈوکرائن سسٹم متاثر ہوتا ہے بلکہ دماغ کے ان حصوں پر بھی اثر پڑتا ہے جن کا تعلق پیچیدہ معلومات کو سمجھ کر فیصلہ کرنے کی صلاحیت اور سماجی تعلقات قائم کرنے سے ہے۔ ان افراد میں خود بھی پرتشدد ہونے کا رجحان بڑھتا ہے، ان کی یکسوئی متاثر ہوتی ہے اور یہ افراد نشے کی علت میں بھی گرفتار ہو سکتے ہیں۔ ان افراد میں خود کشی کے بارے میں سوچنے اور کر گزرنے کی شرح بھی بڑھ جاتی ہے۔ چین میں کی گئی ریسرچ سے یہ معلوم ہوا کہ جن بچوں نے جسمانی تشدد برداشت کیا تھا ان میں بڑے ہوکر شرابی بن جانے کا خطرہ ان بچوں کے مقابلے میں تین گنا تھا جن کو اپنے بچپن میں تشدد کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ کافی لوگ سمجھتے ہیں کہ مار پیٹ کرنے کے بعد ہم بچوں کو گلے لگا لیں اور ان کو محبت دکھائیں تو مار کا نقصان کم ہوجائے گا یا بچے یہ سمجھیں گے کہ ماں باپ یا ٹیچر نے ہمارے بھلے کے لیے ہی مارا پیٹا لیکن اس تھیوری کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہیں۔
ایکس مسلمز آف نارتھ امریکہ ارگنائزیشین میں ایک نوجوان نے تقریر کی جس میں اس نے اپنے پاکستانی دادا اور دادی کا ذکر کیا جو ہر گرمیوں کی چھٹیوں میں امریکہ آتے تھے۔ دادا روزانہ دوپہر کے وقت اس کو قران پڑھاتے تھے اور غلط پڑھنے پر مارتے تھے۔ دادی جھٹ سے گلے لگا لیتی تھیں۔ اس کے باپ نے بھی اس پر تشدد کیا۔ اس نے کہا کہ میں دوپہر تک سوتا بنے رہنے کی اداکاری کرتا تھا تاکہ سبق کا وقت نکل جائے۔ آج تک اس کے کانوں میں اس تشدد کی وجہ سے ٹنائٹس سے سیٹیاں بجتی رہتی ہیں۔ یہ کون سی محبت ہے؟ جو لولے لنگڑے، اندھے بہرے یا ذہنی بیماریوں کے ساتھ پیدا ہوں، ان کو بھی محبت، امن، سکون، تعلیم اور تربیت کی ضرورت ہے۔ کیا ہمیں نارمل بچے پیدا کر کے ان کو ایب نارمل بنانے پر کام کرنا چاہئیے؟ وہ بھی ان حالات میں جب کہ صحت کے شعبے میں کام کرنے والے افراد کی شدید قلت ہے۔ چین میں سو ہزار افراد کے لیے ایک اعشاریہ پانچ ماہر نفسیات موجود ہیں جبکہ بین الاقوامی شرح ہر سو ہزار افراد کے لیے تقریباً چار ہے۔ اس کے علاوہ دیہی علاقوں میں یہ تعداد اور بھی کم ہے کیونکہ صحت اور تعلیم کی مناسب سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے ڈاکٹرز خود بھی ان علاقوں میں جاکر کام کرنا پسند نہیں کرتے۔ پاکستان کے حالات اس “ہم سب” کو پڑھنے والوں کے سامنے ہیں۔
ان مسائل کا کیا حل ہے؟
بچوں کی مار پیٹ سے ساری دنیا پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس پر قانون سازی کی اشد ضرورت ہے جس کی زبان بالکل سادہ ہونی چاہئیے۔ اگر مگر وغیرہ نکال کر بچوں پر ہر قسم کے تشدد کو غیر قانونی بنانے کی ضرورت ہے۔ اس میں ہر عمر کے بچے شامل ہوں اور یہ قانون گھر، اسکول ہر جگہ لاگو ہو۔ اس قانون کو توڑنے کی سزا جرمانہ ہو۔ اس دائرے میں مقامی کارکن اور سیاسی رہنما اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ٹی وی، ریڈیو اور انٹرنیٹ کے ذریعے عوام میں شعور اور آگاہی بڑھانے کی مہم چلائی جائے۔ کیا ان اقدامات سے کچھ بھلائی ممکن ہے؟
اس سوال کا جواب دینے کے لیے ہم ان کامیاب تجربات کی طرف نظر دوڑا سکتے ہیں جو دیگر ممالک میں کیے گئے۔ سویڈن میں بچوں پر تشدد پر مکمل پابندی کے بعد تشدد کی شرح 1979 میں پچاس فیصد سے گر کر 2000 میں دو فیصد رہ گئی۔ پولینڈ میں بچوں کو مارنے کی شرح 2010 سے 2016 کے دوران 32% گر گئی۔ رومانیہ میں ہاتھ پر مارنے کی شرح 2001 میں 84% سے 2012 میں 62% ہوئی اور کسی چیز سے مارنے کی شرح 29% سے 18% ہوگئی۔ ایسا مارنے سے جس سے نشان رہ جائیں وہ بھی 10فیصد سے گر کر 5 فیصد رہ گیا۔ ان مثالوں سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ قانون سازی سے فرق پڑتا ہے۔
بچوں پر جسمانی تشدد ختم کرنے سے دنیا پر کیا اثر پڑے گا؟
سویڈن کے تجربے سے معلوم ہوا کہ بچوں پر جسمانی تشدد ختم کرنے سے چوری، نشہ آور دواؤں سے متعلق جرائم، ریپ اور جسمانی حملوں کی تعداد گر گئی۔ اس کے علاوہ لڑائی جھگڑے، نشے کی علت، شراب کا استعمال اور خودکشی کی شرح بھی کم ہوگئی۔ سوچنے کی بات ہے کہ ماں باپ ، ٹیچر یا مولوی صاحب بچوں کو مار کر سمجھتے ہیں کہ وہ دنیا کو بہتر بنا رہے ہیں حالانکہ آج ہمارے اردگرد جو جرائم اور مسائل موجود ہیں وہ اس تشدد کی وجہ سے ہیں جو ہمارے دادا پردادا کر گئے۔ لیکن آج تو ہمارا ہے۔ آج ہم خود کو تعلیم یافتہ بنا کر اپنا راستہ درست کریں تو اس کا آنے والی نسلوں پر مثبت اثر پڑے گا اور وہ ہی ہمارے اوپر مستقبل کا قرض ہے۔
20/06/2019 ڈاکٹر لبنیٰ مرزا
ایف ایم جی یعنی کہ فارن میڈیکل گریجؤیٹ پورٹل ایک پرائیوٹ کمپنی ہے جو آئی ایم جی یعنی انٹرنیشنل میڈیکل گریجؤیٹس کے لیے امریکہ میں پریکٹس کرنے والے ڈاکٹرز کے ساتھ کام کرنے اور سیکھنے کے لیے چار ہفتے کی روٹیشن ترتیب دیتی ہے۔ میں ان کی فیکلٹی میں ہوں۔ اگر یہ مضمون پڑھنے والے اور ڈاکٹرز بھی پڑھنا چاہیں یا پڑھانا تو وہ بھی سائن اپ کرسکتے ہیں۔ اس روٹیشن میں میرا پڑھانے کا طریقہ کلاس میں کھڑے ہوکر لیکچر دینے سے مختلف ہے۔ یکطرفہ نہیں بلکہ اس طرح ہے کہ میرے ساتھ مریض دیکھیں اور مجھے جو معلومات ہیں وہ میں آپ کو سکھا دوں گی اور آپ نے جو نیا سیکھا ہے وہ مجھے بھی پڑھا دیں۔
اس مہینے ہمارے ساتھ ڈاکٹر وانگ اینڈوکرائن کی روٹیشن کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر وانگ نے شنگھائی چائنا کے قریب ایک شہر میں واقع میڈیکل کالج سے اپنی ڈگری مکمل کی اور اب سارے امریکی امتحان پاس کرنے کے بعد وہ ریذیڈنسی کے لیے اپلائی کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر وانگ نے اینڈوکرائن کی روٹیشن کے دوران ہمیں چین میں چائلڈ ابیوز پر لیکچر دیا۔ اس میں ہم سب کے لیے اہم سبق ہیں۔
چین ایک اجتماعیت پسند قوم ہے اور اس میں بچے پالنے کا طریقہ اتھارٹی والا یعنی تحکمانہ ہے جس میں جبر اور جسمانی تشدد سے ناپسندیدہ انفرادی رویے کو دبا کرفوری نتائج حاصل کیے جانے کا رجحان ہے۔ دنیا کے دیگر علاقوں کے برعکس چین میں جسمانی تشدد امیر غریب یا زیادہ یا کم تعلیم یافتہ گھرانوں میں بغیر تفریق کے تمام معاشرے میں موجود ہے۔ اولاد کی بہتر تربیت میں مار پیٹ کا استعمال چینی فلسفے کا حصہ ہے جس کی تاریخ دو ہزار سال پرانی ہے۔ یہ زو گھرانے کی بادشاہت سے چلی آرہی ہے جس کے مطابق اپنے بچوں سے سختی اور تشدد کے ساتھ پیش آنا والدین کی محبت کا اظہار ہے۔
(سلائیڈ پڑھنے کے لئے کلک کیجئے)
بچوں کو جسمانی سزا دینے سے وہ سدھر جاتے ہیں، ان دعووں میں کتنی سچائی ہے؟
ڈاکٹر وانگ کے لیکچر سے ہمیں معلوم ہوا کہ چین میں 2015 کے اعداد وشمار کے مطابق بچوں کی تعداد 282,260,000 ہے۔ چین میں کی گئی ایک ریسرچ کے مطابق دو سال کی عمر سے لے کر پندرہ سال تک کی عمر کے بچوں میں سے 54 % بچوں نے ماؤں کے ہاتھوں اور تقریباً 48% بچوں نے باپ کے ہاتھوں تشدد کا سامنا کیا۔ ماں اور باپ کے فرق کو اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ زیادہ تر بچے زیادہ تر وقت اپنی ماں کے ساتھ گذارتے ہیں۔ ایک اور اسٹڈی کے مطابق 9 سے 12 سال تک کی عمر کے بچوں میں سے 73% نے ان افراد کے ہاتھوں تشدد برداشت کیا جو دراصل ان کی حفاظت کے ذمہ دار تھے۔
اقوام متحدہ اور بچوں کے حقوق کی کمیٹی کے مطابق بچوں کے خلاف کسی بھی قسم کا جسمانی تشدد بچوں کے حقوق کی پامالی کے دائرے میں آتا ہے اور اس کو روکنا ضروری ہے۔ لیکن چین میں اس وقت اسکولوں یا ڈے کئر سینٹرز میں بچوں پر جسمانی تشدد کے بارے میں کوئی ٹھوس قوانین موجود نہیں ہیں۔ ابھی تک گھروں کے اندر جو ہورہا ہے اس پر گفتگو تک شروع نہیں ہوئی ہے۔ چینی قوانین کے مطابق بچوں کی مار پیٹ ابھی تک جرائم کے دائرے میں شامل نہیں کی گئی ہے۔
بچوں کی جسمانی سزا کے کیا نقصانات ہیں؟
بچوں میں جسمانی تشدد سے ان کی ذہنی نشونما رک جاتی ہے۔ تکلیف اور خوف سے نہ صرف اینڈوکرائن سسٹم متاثر ہوتا ہے بلکہ دماغ کے ان حصوں پر بھی اثر پڑتا ہے جن کا تعلق پیچیدہ معلومات کو سمجھ کر فیصلہ کرنے کی صلاحیت اور سماجی تعلقات قائم کرنے سے ہے۔ ان افراد میں خود بھی پرتشدد ہونے کا رجحان بڑھتا ہے، ان کی یکسوئی متاثر ہوتی ہے اور یہ افراد نشے کی علت میں بھی گرفتار ہو سکتے ہیں۔ ان افراد میں خود کشی کے بارے میں سوچنے اور کر گزرنے کی شرح بھی بڑھ جاتی ہے۔ چین میں کی گئی ریسرچ سے یہ معلوم ہوا کہ جن بچوں نے جسمانی تشدد برداشت کیا تھا ان میں بڑے ہوکر شرابی بن جانے کا خطرہ ان بچوں کے مقابلے میں تین گنا تھا جن کو اپنے بچپن میں تشدد کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ کافی لوگ سمجھتے ہیں کہ مار پیٹ کرنے کے بعد ہم بچوں کو گلے لگا لیں اور ان کو محبت دکھائیں تو مار کا نقصان کم ہوجائے گا یا بچے یہ سمجھیں گے کہ ماں باپ یا ٹیچر نے ہمارے بھلے کے لیے ہی مارا پیٹا لیکن اس تھیوری کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہیں۔
ایکس مسلمز آف نارتھ امریکہ ارگنائزیشین میں ایک نوجوان نے تقریر کی جس میں اس نے اپنے پاکستانی دادا اور دادی کا ذکر کیا جو ہر گرمیوں کی چھٹیوں میں امریکہ آتے تھے۔ دادا روزانہ دوپہر کے وقت اس کو قران پڑھاتے تھے اور غلط پڑھنے پر مارتے تھے۔ دادی جھٹ سے گلے لگا لیتی تھیں۔ اس کے باپ نے بھی اس پر تشدد کیا۔ اس نے کہا کہ میں دوپہر تک سوتا بنے رہنے کی اداکاری کرتا تھا تاکہ سبق کا وقت نکل جائے۔ آج تک اس کے کانوں میں اس تشدد کی وجہ سے ٹنائٹس سے سیٹیاں بجتی رہتی ہیں۔ یہ کون سی محبت ہے؟ جو لولے لنگڑے، اندھے بہرے یا ذہنی بیماریوں کے ساتھ پیدا ہوں، ان کو بھی محبت، امن، سکون، تعلیم اور تربیت کی ضرورت ہے۔ کیا ہمیں نارمل بچے پیدا کر کے ان کو ایب نارمل بنانے پر کام کرنا چاہئیے؟ وہ بھی ان حالات میں جب کہ صحت کے شعبے میں کام کرنے والے افراد کی شدید قلت ہے۔ چین میں سو ہزار افراد کے لیے ایک اعشاریہ پانچ ماہر نفسیات موجود ہیں جبکہ بین الاقوامی شرح ہر سو ہزار افراد کے لیے تقریباً چار ہے۔ اس کے علاوہ دیہی علاقوں میں یہ تعداد اور بھی کم ہے کیونکہ صحت اور تعلیم کی مناسب سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے ڈاکٹرز خود بھی ان علاقوں میں جاکر کام کرنا پسند نہیں کرتے۔ پاکستان کے حالات اس “ہم سب” کو پڑھنے والوں کے سامنے ہیں۔
ان مسائل کا کیا حل ہے؟
بچوں کی مار پیٹ سے ساری دنیا پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس پر قانون سازی کی اشد ضرورت ہے جس کی زبان بالکل سادہ ہونی چاہئیے۔ اگر مگر وغیرہ نکال کر بچوں پر ہر قسم کے تشدد کو غیر قانونی بنانے کی ضرورت ہے۔ اس میں ہر عمر کے بچے شامل ہوں اور یہ قانون گھر، اسکول ہر جگہ لاگو ہو۔ اس قانون کو توڑنے کی سزا جرمانہ ہو۔ اس دائرے میں مقامی کارکن اور سیاسی رہنما اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ٹی وی، ریڈیو اور انٹرنیٹ کے ذریعے عوام میں شعور اور آگاہی بڑھانے کی مہم چلائی جائے۔ کیا ان اقدامات سے کچھ بھلائی ممکن ہے؟
اس سوال کا جواب دینے کے لیے ہم ان کامیاب تجربات کی طرف نظر دوڑا سکتے ہیں جو دیگر ممالک میں کیے گئے۔ سویڈن میں بچوں پر تشدد پر مکمل پابندی کے بعد تشدد کی شرح 1979 میں پچاس فیصد سے گر کر 2000 میں دو فیصد رہ گئی۔ پولینڈ میں بچوں کو مارنے کی شرح 2010 سے 2016 کے دوران 32% گر گئی۔ رومانیہ میں ہاتھ پر مارنے کی شرح 2001 میں 84% سے 2012 میں 62% ہوئی اور کسی چیز سے مارنے کی شرح 29% سے 18% ہوگئی۔ ایسا مارنے سے جس سے نشان رہ جائیں وہ بھی 10فیصد سے گر کر 5 فیصد رہ گیا۔ ان مثالوں سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ قانون سازی سے فرق پڑتا ہے۔
بچوں پر جسمانی تشدد ختم کرنے سے دنیا پر کیا اثر پڑے گا؟
سویڈن کے تجربے سے معلوم ہوا کہ بچوں پر جسمانی تشدد ختم کرنے سے چوری، نشہ آور دواؤں سے متعلق جرائم، ریپ اور جسمانی حملوں کی تعداد گر گئی۔ اس کے علاوہ لڑائی جھگڑے، نشے کی علت، شراب کا استعمال اور خودکشی کی شرح بھی کم ہوگئی۔ سوچنے کی بات ہے کہ ماں باپ ، ٹیچر یا مولوی صاحب بچوں کو مار کر سمجھتے ہیں کہ وہ دنیا کو بہتر بنا رہے ہیں حالانکہ آج ہمارے اردگرد جو جرائم اور مسائل موجود ہیں وہ اس تشدد کی وجہ سے ہیں جو ہمارے دادا پردادا کر گئے۔ لیکن آج تو ہمارا ہے۔ آج ہم خود کو تعلیم یافتہ بنا کر اپنا راستہ درست کریں تو اس کا آنے والی نسلوں پر مثبت اثر پڑے گا اور وہ ہی ہمارے اوپر مستقبل کا قرض ہے۔