بچوں کو جسمانی سزا دینے پر پابندی کیوں ضروری ہے؟

جاسم محمد

محفلین
بچوں کو جسمانی سزا دینے پر پابندی کیوں ضروری ہے؟
20/06/2019 ڈاکٹر لبنیٰ مرزا


ایف ایم جی یعنی کہ فارن میڈیکل گریجؤیٹ پورٹل ایک پرائیوٹ کمپنی ہے جو آئی ایم جی یعنی انٹرنیشنل میڈیکل گریجؤیٹس کے لیے امریکہ میں‌ پریکٹس کرنے والے ڈاکٹرز کے ساتھ کام کرنے اور سیکھنے کے لیے چار ہفتے کی روٹیشن ترتیب دیتی ہے۔ میں‌ ان کی فیکلٹی میں‌ ہوں۔ اگر یہ مضمون پڑھنے والے اور ڈاکٹرز بھی پڑھنا چاہیں‌ یا پڑھانا تو وہ بھی سائن اپ کرسکتے ہیں۔ اس روٹیشن میں‌ میرا پڑھانے کا طریقہ کلاس میں‌ کھڑے ہوکر لیکچر دینے سے مختلف ہے۔ یکطرفہ نہیں بلکہ اس طرح ہے کہ میرے ساتھ مریض دیکھیں اور مجھے جو معلومات ہیں وہ میں‌ آپ کو سکھا دوں‌ گی اور آپ نے جو نیا سیکھا ہے وہ مجھے بھی پڑھا دیں۔

اس مہینے ہمارے ساتھ ڈاکٹر وانگ اینڈوکرائن کی روٹیشن کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر وانگ نے شنگھائی چائنا کے قریب ایک شہر میں واقع میڈیکل کالج سے اپنی ڈگری مکمل کی اور اب سارے امریکی امتحان پاس کرنے کے بعد وہ ریذیڈنسی کے لیے اپلائی کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر وانگ نے اینڈوکرائن کی روٹیشن کے دوران ہمیں‌ چین میں‌ چائلڈ ابیوز پر لیکچر دیا۔ اس میں‌ ہم سب کے لیے اہم سبق ہیں۔

چین ایک اجتماعیت پسند قوم ہے اور اس میں‌ بچے پالنے کا طریقہ اتھارٹی والا یعنی تحکمانہ ہے جس میں‌ جبر اور جسمانی تشدد سے ناپسندیدہ انفرادی رویے کو دبا کرفوری نتائج حاصل کیے جانے کا رجحان ہے۔ دنیا کے دیگر علاقوں کے برعکس چین میں جسمانی تشدد امیر غریب یا زیادہ یا کم تعلیم یافتہ گھرانوں‌ میں‌ بغیر تفریق کے تمام معاشرے میں‌ موجود ہے۔ اولاد کی بہتر تربیت میں‌ مار پیٹ کا استعمال چینی فلسفے کا حصہ ہے جس کی تاریخ دو ہزار سال پرانی ہے۔ یہ زو گھرانے کی بادشاہت سے چلی آرہی ہے جس کے مطابق اپنے بچوں سے سختی اور تشدد کے ساتھ پیش آنا والدین کی محبت کا اظہار ہے۔

(سلائیڈ پڑھنے کے لئے کلک کیجئے)

بچوں‌ کو جسمانی سزا دینے سے وہ سدھر جاتے ہیں، ان دعووں میں‌ کتنی سچائی ہے؟

ڈاکٹر وانگ کے لیکچر سے ہمیں‌ معلوم ہوا کہ چین میں‌ 2015 کے اعداد وشمار کے مطابق بچوں‌ کی تعداد 282,260,000 ہے۔ چین میں‌ کی گئی ایک ریسرچ کے مطابق دو سال کی عمر سے لے کر پندرہ سال تک کی عمر کے بچوں‌ میں‌ سے 54 % بچوں‌ نے ماؤں‌ کے ہاتھوں اور تقریباً 48% بچوں‌ نے باپ کے ہاتھوں‌ تشدد کا سامنا کیا۔ ماں اور باپ کے فرق کو اس طرح‌ سمجھ سکتے ہیں کہ زیادہ تر بچے زیادہ تر وقت اپنی ماں کے ساتھ گذارتے ہیں۔ ایک اور اسٹڈی کے مطابق 9 سے 12 سال تک کی عمر کے بچوں میں‌ سے 73% نے ان افراد کے ہاتھوں‌ تشدد برداشت کیا جو دراصل ان کی حفاظت کے ذمہ دار تھے۔

اقوام متحدہ اور بچوں کے حقوق کی کمیٹی کے مطابق بچوں‌ کے خلاف کسی بھی قسم کا جسمانی تشدد بچوں‌ کے حقوق کی پامالی کے دائرے میں‌ آتا ہے اور اس کو روکنا ضروری ہے۔ لیکن چین میں‌ اس وقت اسکولوں‌ یا ڈے کئر سینٹرز میں‌ بچوں‌ پر جسمانی تشدد کے بارے میں‌ کوئی ٹھوس قوانین موجود نہیں ہیں۔ ابھی تک گھروں‌ کے اندر جو ہورہا ہے اس پر گفتگو تک شروع نہیں‌ ہوئی ہے۔ چینی قوانین کے مطابق بچوں‌ کی مار پیٹ ابھی تک جرائم کے دائرے میں‌ شامل نہیں کی گئی ہے۔

بچوں‌ کی جسمانی سزا کے کیا نقصانات ہیں؟

بچوں‌ میں‌ جسمانی تشدد سے ان کی ذہنی نشونما رک جاتی ہے۔ تکلیف اور خوف سے نہ صرف اینڈوکرائن سسٹم متاثر ہوتا ہے بلکہ دماغ کے ان حصوں پر بھی اثر پڑتا ہے جن کا تعلق پیچیدہ معلومات کو سمجھ کر فیصلہ کرنے کی صلاحیت اور سماجی تعلقات قائم کرنے سے ہے۔ ان افراد میں‌ خود بھی پرتشدد ہونے کا رجحان بڑھتا ہے، ان کی یکسوئی متاثر ہوتی ہے اور یہ افراد نشے کی علت میں‌ بھی گرفتار ہو سکتے ہیں۔ ان افراد میں‌ خود کشی کے بارے میں‌ سوچنے اور کر گزرنے کی شرح بھی بڑھ جاتی ہے۔ چین میں‌ کی گئی ریسرچ سے یہ معلوم ہوا کہ جن بچوں‌ نے جسمانی تشدد برداشت کیا تھا ان میں‌ بڑے ہوکر شرابی بن جانے کا خطرہ ان بچوں‌ کے مقابلے میں‌ تین گنا تھا جن کو اپنے بچپن میں تشدد کا سامنا نہیں‌ کرنا پڑا۔ کافی لوگ سمجھتے ہیں‌ کہ مار پیٹ کرنے کے بعد ہم بچوں‌ کو گلے لگا لیں اور ان کو محبت دکھائیں تو مار کا نقصان کم ہوجائے گا یا بچے یہ سمجھیں گے کہ ماں‌ باپ یا ٹیچر نے ہمارے بھلے کے لیے ہی مارا پیٹا لیکن اس تھیوری کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہیں۔

ایکس مسلمز آف نارتھ امریکہ ارگنائزیشین میں‌ ایک نوجوان نے تقریر کی جس میں‌ اس نے اپنے پاکستانی دادا اور دادی کا ذکر کیا جو ہر گرمیوں‌ کی چھٹیوں‌ میں‌ امریکہ آتے تھے۔ دادا روزانہ دوپہر کے وقت اس کو قران پڑھاتے تھے اور غلط پڑھنے پر مارتے تھے۔ دادی جھٹ سے گلے لگا لیتی تھیں۔ اس کے باپ نے بھی اس پر تشدد کیا۔ اس نے کہا کہ میں‌ دوپہر تک سوتا بنے رہنے کی اداکاری کرتا تھا تاکہ سبق کا وقت نکل جائے۔ آج تک اس کے کانوں‌ میں‌ اس تشدد کی وجہ سے ٹنائٹس سے سیٹیاں بجتی رہتی ہیں۔ یہ کون سی محبت ہے؟ جو لولے لنگڑے، اندھے بہرے یا ذہنی بیماریوں‌ کے ساتھ پیدا ہوں، ان کو بھی محبت، امن، سکون، تعلیم اور تربیت کی ضرورت ہے۔ کیا ہمیں‌ نارمل بچے پیدا کر کے ان کو ایب نارمل بنانے پر کام کرنا چاہئیے؟ وہ بھی ان حالات میں‌ جب کہ صحت کے شعبے میں‌ کام کرنے والے افراد کی شدید قلت ہے۔ چین میں‌ سو ہزار افراد کے لیے ایک اعشاریہ پانچ ماہر نفسیات موجود ہیں جبکہ بین الاقوامی شرح ہر سو ہزار افراد کے لیے تقریباً چار ہے۔ اس کے علاوہ دیہی علاقوں میں‌ یہ تعداد اور بھی کم ہے کیونکہ صحت اور تعلیم کی مناسب سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے ڈاکٹرز خود بھی ان علاقوں میں‌ جاکر کام کرنا پسند نہیں‌ کرتے۔ پاکستان کے حالات اس “ہم سب” کو پڑھنے والوں‌ کے سامنے ہیں۔



ان مسائل کا کیا حل ہے؟

بچوں‌ کی مار پیٹ سے ساری دنیا پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس پر قانون سازی کی اشد ضرورت ہے جس کی زبان بالکل سادہ ہونی چاہئیے۔ اگر مگر وغیرہ نکال کر بچوں پر ہر قسم کے تشدد کو غیر قانونی بنانے کی ضرورت ہے۔ اس میں‌ ہر عمر کے بچے شامل ہوں اور یہ قانون گھر، اسکول ہر جگہ لاگو ہو۔ اس قانون کو توڑنے کی سزا جرمانہ ہو۔ اس دائرے میں‌ مقامی کارکن اور سیاسی رہنما اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ٹی وی، ریڈیو اور انٹرنیٹ کے ذریعے عوام میں‌ شعور اور آگاہی بڑھانے کی مہم چلائی جائے۔ کیا ان اقدامات سے کچھ بھلائی ممکن ہے؟

اس سوال کا جواب دینے کے لیے ہم ان کامیاب تجربات کی طرف نظر دوڑا سکتے ہیں جو دیگر ممالک میں‌ کیے گئے۔ سویڈن میں بچوں‌ پر تشدد پر مکمل پابندی کے بعد تشدد کی شرح 1979 میں‌ پچاس فیصد سے گر کر 2000 میں‌ دو فیصد رہ گئی۔ پولینڈ میں‌ بچوں کو مارنے کی شرح 2010 سے 2016 کے دوران 32% گر گئی۔ رومانیہ میں‌ ہاتھ پر مارنے کی شرح 2001 میں‌ 84% سے 2012 میں‌ 62% ہوئی اور کسی چیز سے مارنے کی شرح 29% سے 18% ہوگئی۔ ایسا مارنے سے جس سے نشان رہ جائیں وہ بھی 10فیصد سے گر کر 5 فیصد رہ گیا۔ ان مثالوں سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ قانون سازی سے فرق پڑتا ہے۔

بچوں پر جسمانی تشدد ختم کرنے سے دنیا پر کیا اثر پڑے گا؟

سویڈن کے تجربے سے معلوم ہوا کہ بچوں پر جسمانی تشدد ختم کرنے سے چوری، نشہ آور دواؤں سے متعلق جرائم، ریپ اور جسمانی حملوں کی تعداد گر گئی۔ اس کے علاوہ لڑائی جھگڑے، نشے کی علت، شراب کا استعمال اور خودکشی کی شرح‌ بھی کم ہوگئی۔ سوچنے کی بات ہے کہ ماں باپ ، ٹیچر یا مولوی صاحب بچوں‌ کو مار کر سمجھتے ہیں کہ وہ دنیا کو بہتر بنا رہے ہیں حالانکہ آج ہمارے اردگرد جو جرائم اور مسائل موجود ہیں وہ اس تشدد کی وجہ سے ہیں جو ہمارے دادا پردادا کر گئے۔ لیکن آج تو ہمارا ہے۔ آج ہم خود کو تعلیم یافتہ بنا کر اپنا راستہ درست کریں‌ تو اس کا آنے والی نسلوں‌ پر مثبت اثر پڑے گا اور وہ ہی ہمارے اوپر مستقبل کا قرض ہے۔

 

فرقان احمد

محفلین
بچوں کو ہلکی پھلکی ڈانٹ ڈپٹ تو گوارا کی جا سکتی ہے تاہم انہیں جسمانی تشدد کا نشانہ بنانا صریح ظلم ہے۔ پاکستان میں اس حوالے سے سخت ترین قوانین بنائے جانے چاہئیں اور اُن پر سختی سے عمل درآمد کروانا چاہیے۔ مجرمان کے ساتھ کسی صورت رو رعایت برتنا خلافِ عقل ہے۔
 

انیس جان

محفلین
کافی لوگ سمجھتے ہیں‌ کہ مار پیٹ کرنے کے بعد ہم بچوں‌ کو گلے لگا لیں اور ان کو محبت دکھائیں تو مار کا نقصان کم ہوجائے گا یا بچے یہ سمجھیں گے کہ ماں‌ باپ یا ٹیچر نے ہمارے بھلے کے لیے ہی مارا پیٹا لیکن اس تھیوری کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہیں۔
آپ کی ہر بات پتہ نہیں انگریزوں کی مستعار کیوں ہوتی ہے
""غیروں سے کہا تم نے غیروں سے سنا تم نے"
"کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتا"

تجربے کی بات بتا رہا ہوں جناب!
جتنی مار پیٹ ہماری ہوئی ہے بچپن میں افففف توبہ توبہ شاید کسی کی بھی نہ ہوئی ہو
بڑے بھائیوں کے ہاتھوں ابّو کے ہاتھوں لیکن الحمداللہ بجز نسوار کے نشے کے نہ شراب پیتا ہوں نہ ہی گانجا وغیرہ وغیرہ
اور شکر گزار ہوں ان سب کا جس نے بھی اصلاح کیلیے مارا پیٹا ہے
آپ کی تحقیق کے برعکس اگر میری مار پٹائی نہ ہوتی تو شاید میرا معاملہ بھی برعکس ہوتا:embarrassed1:

اور صرف میں نہیں میں نے اپنے دوستوں رشتے داروں میں بھی ایسے کافی بچے دیکھے ہیں بچپن میں جن کی خوب پٹائی ہوتی تھی
لیکن آج ان میں اکثر
کوئی مولوی ہے کوئی سکول ماسٹر غرض معاشرے کے بہترین افراد میں سے ہیں

ہاں "کمیونسٹ ملحد یا مذہب بیزار ""ان میں کوئی بھی نہیں ہے الحمداللہ!!
شاید ان انگریزوں کا بھی اس سے یہی مقصد ہے کہ بچوں کو آزاد چھوڑ کر……………

بچوں کو لاڈ پیار کے ساتھ ساتھ "مولا بخش" سے ڈرانا بھی ضروری ہے
ایک حد تک دونوں ضروری ہے، ،لاڈ پیار بھی اور مولا بخش صاحب بھی
حد سے زیادہ دونوں ہی نقصان دہ ہے
 

فاتح

لائبریرین
میں نے بچپن میں کافی مار کھائی ہے اور میری نفسیات پر اس کا بہت برا اثر ہوا ہے۔ آج بھی میں ان نفسیاتی گرہوں کو محسوس کر سکتا ہوں جو بچپن کی مار کے باعث پڑیں۔
بڑے بچوں کو صرف ا سلیے مارتے ہیں کہ بچے کمزور اور معصوم ہوتے ہیں اور وہ نہ تو اپنا دفاع کر سکتے ہیں اور نہ ہی جوابی وار۔۔۔اور ہمارے ممالک میں تو ان بچوں کے پاس سوائے ان ظلم کرنے والے بڑوں کے کوئی حامی و مددگار بھی نہیں ہوتا جو ان کو ان کے ظلم سے بچا سکے۔
یہی ماں باپ اور اساتذہ یا "بڑے" ان بچوں کو تب کیوں اس طرح نہیں مارتے جب وہ بچے 6 فٹ کے ہو جاتے ہیں؟ اگر مار کا مقصد محض تربیت ہی ہے تو کیا تب ان کی دانست میں تربیت کی تکمیل ہو چکی ہوتی ہے اور مزید کسی تربیت کی ضرورت نہیں رہتی؟
نہیں! تربیت کی ضرورت تو تب بھی ہوتی ہے اور اکثر اوقات بچپن سے زیادہ ہوتی ہے لیکن تب یہ "بڑے" بڑھاپے کا شکار ہو کر خود کمزور ہو چکے ہوتے ہیں اور وہ معصوم اور کمزور بچے جوان اور طاقتور ہو چکے ہوتے ہیں۔ ان "بڑوں" کو معلوم ہوتا ہے کہ اب ان پر جسمانی ظلم کا انجام ان کے اپنے حق میں برا ہو گا۔
معصوم اور کمزور بچوں پر جسمانی تشدد کرنے والے یہ نفسیاتی بیمار لوگ ہیں۔ ان حیوان صفت والدین، اساتذہ اور ملاؤں کا نفسیاتی علاج ضروری ہے یا جیلوں میں بند کر کے وارڈن کے جوتے اور لاٹھیوں سے ان کی بھی اسی طرح "تربیت" ہونا ضروری ہے کیونکہ جیل میں یہ بڑے جیل اسٹاف اور وارڈن کے سامنے طاقتور نہیں رہتے۔
بچے کو ہر تھپڑ مارنے کے بدلے ان بڑوں کو پبلکلی ایک تھپڑ پڑے تو یہ حیوان سے انسان بن جائیں۔
 
آخری تدوین:

محمداحمد

لائبریرین
لیکن قوانین کی نقل نہ کی جائے۔۔۔اپنے معاشرے کے حساب سے بنائے جائیں۔

یہاں غیروں کے قوانین نقل نہیں ہوتے بلکہ مسلط کیے جاتے ہیں۔

بچوں کو اگر سرزنش کے لئے کبھی کبھار مار پٹائی کی ضرورت پڑے تو بہ حالت مجبوری ایسا کیا جا نا چاہیے (جیسا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے افراد کی سرزنش کا بندو بست کرتے ہیں)

لیکن حتی الامکان کوشش یہی ہونی چاہیے کہ ایسی نوبت نہ آئے اور دیگر طریقوں سے بچوں کو سمجھا بجھا لیا جائے ۔
 

انیس جان

محفلین
UOTE="فاتح, post: 2171100, member: 595"]نہیں! تربیت کی ضرورت تو تب بھی ہوتی ہے اور اکثر اوقات بچپن سے زیادہ ہوتی ہے لیکن تب یہ "بڑے" بڑھاپے کا شکار ہو کر خود کمزور ہو چکے ہوتے ہیں اور وہ معصوم اور کمزور بچے جوان اور طاقتور ہو چکے ہوتے ہیں۔ ان "بڑوں" کو معلوم ہوتا ہے کہ اب ان پر جسمانی ظلم کا انجام ان کے اپنے حق میں برا ہو گا۔[/QUOTE]


بیشک تربیت کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ ہر شخص کو تربیت کی ضرورت ہے لیکن جہاں تک بس چلے فتنہ پیدا نہ ہو
یہ طاقت اللہ نے حکومت کو دی ہوتی ہے وہ کرسکتی ہے تربیت لوگوں کی
پیار سے بھی اور زبردستی بھی
باقی ہر شخص اپنے طاقت تک
والدین کا بھی جہاں تک بس چلتا ہیں بچوں کی تربیت کرنے کا وہاں تک کرتے ہیں
لیکن جب بات طاقت و بساط سے نکل جائے اور فتنہ پیدا ہوجانے تک پہنچ جائے تو رک جاتے ہیں
،،
ان حیوان صفت والدین
اور مار پٹائی کی وجہ سے والدین کو حیوان سے تشبیہ دینا انتہائی غلط بات ہے
بلکہ شریعتِ اسلامی میں تو والد اگر اپنے بیٹے کو قتل بھی کردے تو والد ہونے کے احترام میں اس سے قصاص نہیں لیا جائے گا
"باقی آپ شرعی قوانین کو مانتے ہوں یا نہیں اس سے مجھے کچھ لینا دینا نہیں ہے"
 
وہ بچوں کی ایک حجامت کرتے ہیں اور ہم دو حجامتیں ۔
screenshot-629.png
 

فرقان احمد

محفلین
نبی پاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں ہمیں اس حوالے سے جو درس ملتا ہے، اسی پر عمل پیرا ہونا مناسب ہے۔ ان تعلیمات میں بچوں سے حُسنِ سلوک کا درس نمایاں ہے۔ ہلکی پھلکی ڈانٹ ڈپٹ تو زندگی کا حُسن ہے تاہم بچوں پر تشدد کرنا اور ان کی بے چارگی کا لحاظ نہ رکھنا قابل مذمت فعل ہے۔ جہاں تک والدین کا معاملہ ہے، تو عام طور پر، وہ اپنے بچوں سے پیار کا رویہ ہی رکھتے ہیں اور ان کی ہلکی پھلکی ڈانٹ ڈپٹ اور سرزنش میں پیار کا ہی عکس نمایاں ہوتا ہے تاہم کبھی کبھار سوتیلے والدین یا ذہنی و نفسیاتی عوارض میں مبتلا بعض حقیقی والدین سچ مچ حد سے تجاوز کر جاتے ہیں۔ اس حوالے سے اگراپنی اقدار کو سامنے رکھتے ہوئے، کوئی قانون سازی کر دی جائے، تو مناسب ہے۔ ہم نے اپنی گناہ گار آنکھوں سے بچوں پر تشدد ہوتے دیکھا ہے اور یہ سچ مچ ناقابل برداشت اور اذیت ناک ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
نبی پاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں ہمیں اس حوالے سے جو درس ملتا ہے، اسی پر عمل پیرا ہونا مناسب ہے۔ ان تعلیمات میں بچوں سے حُسنِ سلوک کا درس نمایاں ہے۔ ہلکی پھلکی ڈانٹ ڈپٹ تو زندگی کا حُسن ہے
متفق!
تاہم بچوں پر تشدد کرنا اور ان کی بے چارگی کا لحاظ نہ رکھنا قابل مذمت فعل ہے۔
یہ تو واقعی بہت بُری بات ہے۔
جہاں تک والدین کا معاملہ ہے، تو عام طور پر، وہ اپنے بچوں سے پیار کا رویہ ہی رکھتے ہیں اور ان کی ہلکی پھلکی ڈانٹ ڈپٹ اور سرزنش میں پیار کا ہی عکس نمایاں ہوتا ہے
متفق!
تاہم کبھی کبھار سوتیلے والدین یا بعض حقیقی والدین سچ مچ حد سے تجاوز کر جاتے ہیں۔
متفق ہوں۔
بچوں کو بچہ ہی سمجھنا چاہیے اور اُن کے ساتھ شفقت کا معاملہ اختیار کرنا چاہیے۔
اس حوالے سے اگراپنی اقدار کو سامنے رکھتے ہوئے، کوئی قانون سازی کر دی جائے، تو مناسب ہے۔
صد متفق!
 

فاتح

لائبریرین
UOTE="فاتح, post: 2171100, member: 595"]
بلکہ شریعتِ اسلامی میں تو والد اگر اپنے بیٹے کو قتل بھی کردے تو والد ہونے کے احترام میں اس سے قصاص نہیں لیا جائے گا
"باقی آپ شرعی قوانین کو مانتے ہوں یا نہیں اس سے مجھے کچھ لینا دینا نہیں ہے"
شریعت اسلامی اور شرعی قوانین کا راگ تو الاپتے ہیں لیکن کم از کم کوئی ایک دو مثالیں رسول اللہ ﷺ کی سنت سے بھی دے دیں جن میں آپ ﷺ نے بچوں کی مار پیٹ کر "تربیت" فرمائی ہو۔
 

یاقوت

محفلین
پھول سے نازک بچوں کو مار دھاڑ سے سمجھانا اور اپنی اصلاح کی فکر نہ کرنا کہاں کا انصاف ہے۔ہمارے یہاں بچہ اگر کوئی غلط بات کردے اسے موقع پر زبانی تنقید سے لیکر نقد جسمانی تکلیف کے انعام سے نوازاجاتاہے لیکن وہی بڑے جب بچوں کے سامنے الف ننگی گالیاں بکتے ہیں تو تب کہاں ہوتی ہیں اخلاقیات اور مذہبیات کیونکہ دیکھنےمیں آیا ہے کہ اکثر لوگ اس کا جواز مذہبی طور پر پیش کرتے ہیں۔تو اپنے لیے کیا سزا تجویز کریں گے وہ بڑے لوگ۔
 
آخری تدوین:

سین خے

محفلین
نہ جانے کیوں محفل پر کم ایکٹیوٹی کا دکھ لیا جاتا ہے :) میں جس لڑی میں کچھ لکھنے کے بارے میں سوچتی ہوں وہاں پہلے ہی مذہب بیزار, یہود و انگریز و قادیانی نواز کے اتنے نعرے لگ چکے ہوتے ہیں کہ پتلی گلی سے نکلنے میں ہی عافیت محسوس ہوتی ہے۔

جاری رکھیں :)
 
آخری تدوین:
Top