بچوں کی باتیں

فرحت کیانی

لائبریرین
ایک سڑک کے کنارے پہاڑیوں میں چھوٹے چھوٹے سوراخ دیکھ کر پھپھو بھتیجے سے: ان سوراخوں میں پرندوں نے گھر بنائے ہوئے ہیں۔ میں جب یہاں سے کبھی بہت صبح کو یا شام کو گزرتی ہوں تو یہ پرندے اپنے ان گھروں میں ہوتے ہیں۔
بھتیجا: واقعی۔ لیکن ان پہاڑیوں کی مٹی تو گھل رہی ہے۔ دیکھیں بارش کے پانی کے نشان بھی ہیں۔
پھپھو: اسی لیے کہتے ہیں کہ درخت نہیں کاٹنے چاہئیں۔ درختوں کی جڑیں مٹی کو روک کر رکھتی ہیں اور اسے بہنے نہیں دیتیں۔
بھتیجا: پرسوچ انداز میں: مطلب درخت مٹی کے سیکیورٹی گارڈ ہوتے ہیں۔
:)
 

فرحت کیانی

لائبریرین
میں اکثر صبح آفس جاتے ہوئے بھتیجے کو سکول چھوڑتی ہوں۔ چھٹیوں کے بعد پہلا دن تھا سو بھتیجے صاحب کا موڈ انتہائی مغموم تھا کہ چھٹیاں ختم ہو گئیں۔چنانچہ صبح سے اداس بلبل والی شکل بنائی ہوئی تھی۔ راستے میں بھی بس ایک آدھ بات کی ورنہ عموما سڑک پر نظر آنے والی ہر گاڑی کا ماڈل اور دیگر تفصیلات مجھے یاد کرائی جاتی ہیں۔ خیر جب اتار کر گاڑی موڑی تو ڈرائیور جو چھٹیوں کے دوران نئے آئے تھے اور پہلی بار میرے ساتھ سکول چھوڑنے آئے تھے, پوچھنے لگے۔ 'بیٹا۔۔انہیں کیا ہوا ہے؟ یہ تو گاڑی میں چپ نہیں بیٹھتے۔'
پھپھو: اسے سکول ہو گیا ہے۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
پھپھو آفس سے آئی ڈاک میں ایک ذیلی ادارے کی طرف سے بھیجے گئے assessment test کا نمونہ پڑھ رہی تھیں۔
بھتیجا: یہ کیا ہے؟
پھپھو: یہ جیسے آپ کے امتحان میں کوئسچن پیپر ہوتا ہے, ویسا ہی ایک پیپر ہے۔
بھتیجا: میں پڑھ سکتا ہوں؟
پھپھو: پڑھ لیں جناب۔
بھتیجا پڑھتے پڑھتے: یہ تو سوال ہی غلط ہے۔
پھپھو: وہ کیسے؟
(سوال 'discuss' کے لفظ سے شروع ہو رہا تھا۔)
بھتیجا: دیکھیں نا۔ لکھا ہے۔۔ 'Discuss...' پیپر کرتے ہوئے تو آپ کسی سے بات بھی نہیں کر سکتے۔ تو ڈسکس کیسے کریں گے؟ پھر کوئی ٹیچر یہ سوال کیسے دے سکتے ہیں؟
 

جاسمن

لائبریرین
ابھی چند دن پہلے امّاں نے دو ایسی لڑکیوں کو دو چار نصیحتیں کیں جو کمپیوٹر گیمز کو ڈیزائن وغیرہ کرتی ہیں۔
محمد کمپیوٹر پہ کھیل رہا تھا۔
امّاں: کیا کوئی ایسی گیم بھی ہے جس میں سوشل ورک کے نئے نئے پراجیکٹ کئے جاتے ہوں؟؟
محمد:امّاں آپ بھی ناں کوئی انوکھا ،دنیا سے نرالا خیال ہی ڈھونڈ کے لاتی ہیں۔
 

جاسمن

لائبریرین
ایمی: امّاں آپ کے آنے سے گھر کاsilence۔۔۔noise میں بدل گیا ہے۔
ایمی: اماں ہم نے چند دن پہلے noiseپہ ایک نظم پڑھی تھی جماعت میں۔جس میں silence کو موت اور noiseکو زندگی سے تشبیہ دی گئی تھی۔ میں نے اپنی دوست سے کہا کہ پھر تو ہم اپنی کلاس میں صحیح شور مچاتے ہیں۔ اور ہمیں آئیندہ بھی خوب شور مچانا چاہیے۔
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
ایمی:اساتذہ کا تو دن منایا جاتا ہے ۔۔۔اسی طرح طلباء کا بھی دن منایا جانا چاہیے۔
محمد:ہمارا بھی دن منایا جاتا ہے۔
ایمی:کب؟
محمد:روز
 

جاسمن

لائبریرین
اماں ننھے بھتیجے :تم بیگ نہیں لائے۔چلو کان پکڑو۔
بھتیجے نے آگے بڑھ کے اماں کے کان پکڑ لئے۔
 

جاسمن

لائبریرین
ایمی کے وہی مسائل۔فلاں فلاں سہیلی نے ایسے کیا۔فلاں گروپ نے یہ کہا۔ہمارے گروپ نے وہ کہا۔
ان باتوں پہ اماں کہنے لگیں کہ لڑکیوں کو عادت ہوتی ہے پکی سہیلی بنانے کی۔انہوں نے جہاں بھی جانا ہے حتی کہ واش روم بھی تو بھی سہیلی کو ساتھ لے کے جانا ہے۔جبکہ لڑکے ایسا نہیں کرتے۔
محمد:لڑکے جگہ بھی بدلتے رہتے ہیں۔ایک دن میں دس جگہوں پہ بیٹھتے ہیں۔ابھی ایک کے ساتھ ہیں۔تو کچھ دیر بعد کسی دوسرے کے ساتھ۔اور ہم کسی کی شکایت بھی نہیں کرتے۔خود اپنے معاملات نبٹاتے ہیں۔
جبکہ لڑکیاں جب کبھی ان کے پاس سے گذرو،یہ ہمیشہ فلاں ایسی فلاں ویسی،ہائے وائے کریں گی۔میں اکیلی کیسے جاوں ،تم بھی ساتھ چلو(نقلیں کر کر کے) اور شکایتیں بڑی لگاتی ہیں ایک دوسرے کی۔اس نے ایسے کر دیا۔اس نے ویسے کر دیا۔ذرا ذرا سی بات پہ ان کو دورہ پڑ جاتا ہے۔
ہنستے ہوئے اماں سوچنے لگیں کہ بچوں کا مشاہدہ کس قدر ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
اماں کی دوڑیں لگی ہوئی تھیں۔بھتیجوں کو اور ایمی کو پڑھانا۔۔۔۔ساتھ ساتھ کام۔ننھے بھتیجوں کے لئے انار کے دانےباول میں رکھے۔بیسن کی چھوٹی چھوٹی پھلکیاں بنائیں۔۔۔وہ بھی دیں اور ابلے آلو بھی۔۔۔ننھوں کی موج ہو گئی۔۔سب سے چھوٹا ۔۔۔ابھی بولنا سیکھا ہے۔
بھتیجا:"اماں !آپ اچی ہو۔"
اماں کو سمجھ نہیں آیا۔
اماں:"کیا؟"
ننھا بھتیجا:"آپ اچی ہو۔"
اماں نے حیران ہو کر پھر پوچھا۔
ننھا بھتیجا۔:"آپ اچی ہو۔"
کل سے اب تک اماں اسی اظہار محبت کے نشے میں ڈوبی ہیں۔بار بار یاد آتا ہے یہ جملہ اور دل میں ٹھنڈ پڑ جاتی ہے۔
اماں آپ اچی ہو
اماں آپ اچی ہو
اماں آپ اچی ہو
 

جاسمن

لائبریرین
ایمی بڑی پریشان رہتی ہے اِن دنوں اپنے پرچوں اور امتحانات کو لے کے۔میرے نمبر اچھے نہیں آئیں گے۔۔ کہیں میں فیل نہ ہوجاؤں فلاں پرچہ میں۔۔۔وغیرہ وغیرہ جیسی باتیں کرتی ہے۔
اماں: سوہنی بیٹی! کیوں پریشان ہوتی ہو؟ ہم نے تم سے کبھی نمبروں کی کوئی بات کی ہے؟ اِس عمر میں ایسی پریشانیاں کیوں پال رہی ہو۔ نمبروں کی فکر نہ کرو بس پڑھو۔لیکن اتنا بھی نہیں ۔ کھیلو کودو۔ گڑیا پولے ( چھوٹی تھی تو گُڑیا پٹولے کو گُڑیا پولے کہتی تھی) کھیلو۔
ایمی: مما! میرے نمبر زیادہ نہیں آئے تو!
اماں: تب بھی تم ہماری ایمی رہو گی۔ تب بھی ہم تم سے اِتنا ہی پیار کریں گے۔بیٹے! آپ ابھی کھیلو ۔گُڑیوں سے،کھلونوں سے۔ مزے کرو۔تمہیں کبھی یہ احساس نہ ہو کہ تم نے اپنے بچپن میں مزے نہیں کئے۔
ایمی: مما! میری کوئی پوزیشن نہیں آتی۔ میرا دل چاہتا ہے کہ میں پوزیشن لوں۔
امّاں: ہاہاہاہا۔پوزیشن لینا کوئی بڑی بات نہیں بیٹا۔ تھوڑی سی مزید محنت سے لی جا سکتی ہے۔ لیکن اِس بات سے کیا فرق پڑتا ہے! بہت سے عام سے طالب علم بھی اکثر بہت آگے جاتے ہیں۔ بسا اوقات ایسے طالب علموں کے پاس پوزیشن والوں سے زیادہ علم ہوتا ہے۔
علم کی طلب رکھو۔ پوزیشن کی نہیں۔
 

سید عمران

محفلین
ابھی چند دن پہلے امّاں نے دو ایسی لڑکیوں کو دو چار نصیحتیں کیں جو کمپیوٹر گیمز کو ڈیزائن وغیرہ کرتی ہیں۔
محمد کمپیوٹر پہ کھیل رہا تھا۔
امّاں: کیا کوئی ایسی گیم بھی ہے جس میں سوشل ورک کے نئے نئے پراجیکٹ کئے جاتے ہوں؟؟
محمد:امّاں آپ بھی ناں کوئی انوکھا ،دنیا سے نرالا خیال ہی ڈھونڈ کے لاتی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اماں کا آئیڈیا سپرب ہے۔۔۔
کاش ووکیشنل ٹریننگ دینے والے ادارے اس پر غور کریں!!!
 
ابھی چند دن پہلے امّاں نے دو ایسی لڑکیوں کو دو چار نصیحتیں کیں جو کمپیوٹر گیمز کو ڈیزائن وغیرہ کرتی ہیں۔
محمد کمپیوٹر پہ کھیل رہا تھا۔
امّاں: کیا کوئی ایسی گیم بھی ہے جس میں سوشل ورک کے نئے نئے پراجیکٹ کئے جاتے ہوں؟؟
محمد:امّاں آپ بھی ناں کوئی انوکھا ،دنیا سے نرالا خیال ہی ڈھونڈ کے لاتی ہیں۔
تقریباً ایسا ہی آئیڈیا کل ایک دوست سے ڈسکس کیا ہے، جو چھوٹی موٹی اینڈرائڈ گیم بناتا رہتا ہے۔
کہہ رہا تھا کہ اس پر سوچتا ہوں۔
میں نے یہ آئیڈیا دیا تھا کہ جیسے مختلف مشن گیمز ہوتی ہیں، کہ اب جا کر فلاں کو مار دو، فلاں کو اغوا کر لو۔ وہ دوست جھگڑے میں مار کھا رہا ہے، جا کر مدد کرو، یہ ڈکیتی کرو، وغیرہ وغیرہ۔
اسی طرح جو مشن ہوں وہ اس طرح کہ ہوں، کہ فلاں جگہ زخمی پڑا ہے، اسے ہسپتال پہنچاؤ۔
کوڑا پڑا ہوا ہے، اسے کوڑے دان میں لے جا کر ڈالو۔
کوئی لڑ رہا ہے، جا کر صلح کروا دو۔ کسی کو سڑک پار کروا دو، وغیرہ وغیرہ۔
 
آخری تدوین:
Top