محمد تابش صدیقی
منتظم
اور ہماری مثالوں کا آج تصور بھی نہیں ہے۔میں تو ایسا نہیں کرتا۔۔۔۔ اور وجہ اس کی یہ ہے۔۔۔۔
کہ میں خود نکما تھا۔۔۔۔
نہ کبھی والدین نے پیپر کے بعد گھر بیٹھ کر دوبارہ پیپر حل کروایا ہے۔
کبھی سکولوں کے چکر نہیں لگائے۔ بلکہ کبھی مجھ نالائق کے ٹیچر کی طرف سے بلاوا بھی آیا تو بھائی کو بھیج دیا۔
امتحان کے دنوں میں خاص ہدایت ہوتی تھی کہ جلدی سو جاؤ تاکہ صبح تازہ دم اٹھو۔
کبھی پیپر والے دن کتابیں، نوٹس وغیرہ لے کر سکول، کالج نہیں گئے، کہ آخری وقت تک کتابیں گھولتے رہو۔
کبھی ٹیوشن نہیں پڑھی۔
ہم بہن بھائیوں نے اپنی فیلڈز خود منتخب کیں۔ کبھی کسی پر کوئی خاص فیلڈ منتخب کرنے کا دباؤ نہیں تھا۔
بلکہ ابو مکینیکل انجینیئر تھے اور او جی ڈی سی میں تھے۔ لوگ حیران ہو کر پوچھتے تھے کہ کسی بیٹے کو مکینیکل انجینیئرنگ کیوں نہیں کروائی۔ او جی ڈی سی میں "ایڈجسٹ" کروا دیتے۔
ابو نے کہا کہ ان میں سے کسی کا شوق ہی نہیں تھا میکینکل کا۔ اور اپنا کیریئر خود بنائیں۔
کوشش یہی ہے کہ بچوں کو بھی پرسکون ماحول میں پلنے بڑھنے کا موقع دیا جائے۔ چیک اینڈ بیلینس ضروری ہے مگر اعتدال کے ساتھ۔