جاسمن آپی بہت بہت شکریہ آپ نے بہت ہی اہم موضوع کا آغاز کیا۔
مختلف معاشروں میں بچوں کی تربیت کے تقاضے بھی مختلف ہوتے ہیں۔
نبیل بھیا نے بہت اہم بات کی کہ بچوں کی تربیت کے لئے والدین کا تربیت یافتہ ہونا بہت ضروری ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ اس لڑی کی بدولت بحیثیت والدین ہم سب کے تجربات اور خیالات ایک دوسرے کی تربیت کا ذریعہ بنیں گے۔
محمد وارث بھیا نے بالکل درست کہا کہ ہمارے ہاں ماں ہیرو اور باپ ولن سمجھا جاتا ہے۔ یہ بہت اہم بات ہے، یہیں سے تو اولاد کے دل میں باپ کے لئے عزت کی بجائے خوف پیدا ہونا شروع ہوتا ہے اور فاصلے بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں۔
امید ہے کہ محترم
شاہد شاہ بھیا میرے اختلاف کو درگزر فرمائیں گے؛ جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ مختلف معاشروں میں بچوں کی تربیت کے تقاضے بھی مختلف ہوتے ہیں۔ اسلامی معاشرے میں بیٹیوں کو پردہ کرنے کی تلقین کو بے جا کہنا کم از کم میں تو اسلامی تعلیمات کے برعکس ہی سمجھتا ہوں۔ بچپن سے پردہ کرنا احساسِ محرومی کی وجہ بنے یا نہ بنے لیکن جوان ہونے کے بعد انہیں پردہ کرنے کا کہنا یقیناً احساسِ محرومی کی وجہ بننے کے ساتھ ساتھ مزید مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ اور پھر جوان بیٹی کی پردہ نہ کرنے کی عادت چھڑوانا بھی تو کوئی آسان کام نہیں۔ زینب کے دل ہلا دینے والے واقعہ کے بعد ہمیں اوپن مائینڈڈ سے تھوڑا نیرو مائینڈڈ ہونا ہی پڑے گا۔ اس حوالے سے رابعہ بصری صاحبہ کی
یہ تحریر پڑھنے لائق ہے۔
الحمدوللہ میں دو بچوں کا باپ ہوں، بچوں کی تربیت کے حوالے سے میں اپنے تجربے کا خلاصہ یوں بیان کروں گا کہ "ہم اپنی اولاد کو جیسا بنانا چاہتے ہیں، پہلے ہمیں خود ویسا بننا پڑے گا"۔
میں بچوں کو نماز پڑھنے کا نہیں کہتا، جب وہ اپنے بابا یا ماما کو نماز پڑھتے دیکھتے ہیں تو خود ہی آکر ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں۔
گھر میں کوئی بزرک آئے تو میرا بڑا بیٹا ان کے احترام میں کھڑا ہو جاتا ہے کیونکہ اس کا باپ بھی ایسا ہی کرتا ہے۔
کھانا کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا اور کھانا کھانے کے بعد اللہ کا شکر ادا کرنا بھی میرے بچوں نے گھر سے ہی سیکھا ہے۔
اور میں نے یہ سب کچھ اپنے ماں باپ کو کرتے ہوئے دیکھ کر سیکھا ہے۔
میری تمام محفلین سے گزارش ہے کہ بچوں کی تربیت کی اہمیت کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کی تربیت کی خاطر جو اقدامات انہوں نے کیئے ہیں شریکِ محفل کریں تا کہ ہم سب ایک دوسرے سے سیکھ کر اپنے بچوں کی اچھی تربیت کر سکیں۔ جزاک اللہ۔