بڑھتے ہوئے بچوں کے معاملات و مسائل اور ان کا حل

جاسمن

لائبریرین
ہمارے گھر میں بچے ماں اور باپ دونوں سے بے تکلف ہیں۔الحمداللہ۔
ہر طرح کے معاملات میں بات چیت ہوتی ہے۔
محمد کی جماعت میں ایک لڑکا کھلےعام بری باتیں کرتا تھا۔اس کے بتانے پہ مکتب میں جاکے اساتذہ سے بات کی۔ میں نے کہا کہ ہمارا اپنے بچوں کو فلموں سے اور دوسری بری چیزوں سے بچانا بے فائدہ ہے۔ساری فضول معلومات انھیں کمرہ جماعت میں بیٹھے بیٹھے مل رہی ہیں۔
پھر اس لڑکے نے ایک تقریب میں محمد کے ساتھ والی نشست پہ بیٹھے غلط حرکت کی کوشش کی۔ہم نے بچوں کو کہا ہوا ہے کہ ایسے موقع پہ زور سے چیخ ماریں۔محمد نے ایسے ہی کیا اور اس لڑکے کو سکول سے نکال دیا گیا۔
 

شاہد شاہ

محفلین
اور اب لوگ بچوں کی تربیت کے لئے زیادہ سنجیدہ ہو کر سوچتے ہیں، اور اہم بات یہ کہ بچوں کے جذبات اور مسائل کا ادراک کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔
اگر نچلے طبقات میں یہ سب ہو رہا ہے تو واقعی حیران کن حد تک تبدیلی آئی ہے۔ میرے بچپن کے زمانے میں عام خیال یہی تھا کہ بچوں کے جذبات و احساسات شادی کے بعد پیدا ہوتے ہیں۔ اسی لئے بچوں کو شادی کی جلدی ہوتی تھی کہ اسکے بعد انکی بھی کوئی اوقات ہوگی
 
میرے خیال میں آج کل کے ٹین ایجرز میں اور والدین میں سب بڑا مسئلہ جو درپیش ہے وہ جنریشن گیپ کا ہے۔ دنیا اتنی زیادہ رفتار سے بدل رہی ہے کہ والدین کو سمجھ ہی نہیں آتی کہ بچوں کے مسائل دراصل ہیں کیا؟ اور واقعی وہ مسائل ہیں بھی یا نہیں؟
میری رائے میں جنریشن گیپ جتنا بھی زیادہ ہوجائے انسان ،انسان ہی رہے گا اور انسان کی فطرت ہے کہ وہ دوسرے انسانوں سے رابطہ رکھنے کی کوشش کرتا ہے ۔ بجائے اس کے کہ ٹین ایجر انٹرنیٹ پر ان دیکھے لوگوں سے رابطہ اور دوستی کرنے کی کوشش کرے گھر میں موجود اپنے والدین اور بھائی بہنوں سے دوستی کرے۔ اس دوستی کے ذریعے ہی ٹین ایجروں کو گائیڈ کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ اور گائیڈ کرنے کا بہتریں طریقہ والدین کا اپنی نصیحتوں پر خود عمل کرنا ہے۔ بچے (اور بڑے بھی) سنی ہوئی نصیحتوں کی بجائے ناصح کے عمل کا اثر زیادہ قبول کرتے ہیں۔
 

یاز

محفلین
اگر نچلے طبقات میں یہ سب ہو رہا ہے تو واقعی حیران کن حد تک تبدیلی آئی ہے۔ میرے بچپن کے زمانے میں عام خیال یہی تھا کہ بچوں کے جذبات و احساسات شادی کے بعد پیدا ہوتے ہیں۔ اسی لئے بچوں کو شادی کی جلدی ہوتی تھی کہ اسکے بعد انکی بھی کوئی اوقات ہوگی
نچلے طبقات میں تو یہ اب بھی بالکل نہیں ہو رہا۔ البتہ متوسط طبقے میں کچھ بہتری محسوس کی جا سکتی ہے۔
 

شاہد شاہ

محفلین
بجائے اس کے کہ ٹین ایجر انٹرنیٹ پر ان دیکھے لوگوں سے رابطہ اور دوستی کرنے کی کوشش کرے گھر میں موجود اپنے والدین اور بھائی بہنوں سے دوستی کرے
یہاں مغرب میں ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں جہاں والدین نے جعلی آئیڈیز بنا کر نیٹ پر اپنے بچوں سے دوستی اور یوں انکی رہنمائی کی۔ جو مسائل و باتیں وہ براہ راست اپنے والدین سے نہیں کرتے تھے، انکی جعلی آئیڈی سے بلا جھجک کر لیتے تھے۔ یہ بھی ایک طریقہ ہے بچوں پر نظر رکھنے گو کہ بہت اچھا نہیں۔ البتہ جہاں شبہ ہو کہ بچے کچھ چھپا رہے ہیں وہاں اسے استعمال کیا جا سکتا ہے
 
آخری تدوین:
جی یہی تو کہہ رہا تھا کہ اگر سختی کرنی ہے تو شروع سے کریں۔ اور لڑکیوں اور لڑکوں کیساتھ ایک جیسا برتاؤ کریں۔ عموما مشرقی معاشرے میں لڑکیوں کی کڑی نگرانی کی جاتی ہے جبکہ لڑکوں کو کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ دوغلہ رویہ ہے۔ اگر لڑکیوں پر پردہ پابند کرتے ہیں تو لڑکوں پر بھی اسی طرح کی پابندیاں لگائیں کہ لڑکیوں کے پیچھے جانے پر فلاں فلاں سزا ملے گی۔ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔
جی شاہد بھیا، آپ نے بجا فرمایا، یہ دوغلہ رویہ تو ہے ہمارے معاشرے میں۔
میں وثوق سے تو نہیں کہہ سکتا لیکن اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بچیاں اور بچے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں، جسمانی ساخت، ذمہ داریاں، مسائل، حلقہءِ احباب، گھر میں اور معاشرے میں ان کا کردارسب کچھ مختلف ہوتا ہے شاید اس لئے ان کو ٹریٹ بھی مختلف طریقے سے کیا جاتا ہے۔
آپ نے لڑکوں پر پابندی کی بات کی تو مجھے اپنے بچپن کا ایک واقعہ یاد آگیا، میں غالباً ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا اور میری بہن پانچویں میں۔ پرائیویٹ سکول تھا تو لڑکے لڑکیاں اکٹھے پڑھتے تھے، البتہ کلاس روم میں لڑکے ایک سائیڈ پر اور لڑکیاں ایک سائیڈ پر بیٹھتے تھے۔ ایک دن ریسس ٹائم میں میں نے دیکھا کہ میری بہن کا کلاس فیلو بار بار اس کی چٹیا کھینچ رہا ہے، میں نے اس لڑکے کی پٹائی کردی، اس کا ایک بھائی میرا کلاس فیلو تھا اور دوسرا آٹھویں کلاس میں، وہ بھی بھائی کی مدد کرتے ہوئے پٹ گئے۔ کافی ہنگامہ ہوا۔ پرنسپل صاحب کی خدمت میں پیش کردیئے گئے۔ ڈانٹ ڈپٹ کے بعد سب کو ان کی کلاسز میں بھیج دیا گیا، سوائے میرے۔ میں پرنسپل صاحب کا لاڈلا بھی مشہور تھا، انہوں نے مجھے بٹھایا اور ایک بات سمجھائی، کہنے لگے:
بیٹا مجھے خوشی ہے کہ تم ایک غیرت مند بھائی ہو، تم جیسے غیرت مند انسان کو میں ایک راز کی بات بتانا چاہوں گا۔ بیٹا، یہ تو ایک چھوٹی سی شرارت تھی، کل کو تمہاری بہن جوان بھی ہوگی اور لڑکے اسے تنگ بھی کریں گے، اسے چھیڑیں گے بھی۔ چونکہ تم ایک غیرتمند انسان ہو اس لئے مجھے یقین ہے کہ تم ایسا کبھی بھی نہیں چاہو گے۔ اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری بہن کو کوئی لڑکا تنگ نہ کرے تو بیٹا تم کسی کی بہن کو تنگ مت کرنا، اللہ پاک نے ایک سسٹم بنایا ہوا ہے جسے "مکافاتِ عمل" کہتے ہیں۔ وہ سسٹم ایسا ہے کہ اگر تم کسی کی بہن کو چھیڑو گے تو لڑکے تمہاری بہن کو چھیڑیں گے، اور اگر تم کسی کی بہن کو گندی نظر سے نہیں دیکھو گے تو تمہاری بہن کو بھی کوئی گندی نظر سے نہیں دیکھے گا، اگر کوئی کوشش بھی کرے گا تو "مکافاتِ عمل" پر معمور فرشتے اس کی آنکھوں کو تمہاری بہن کے لئے جھکا دیں گے۔
اب غور کرنے کی بات ہے کہ ایک تربیت کرنے والے نے پہلے ایک بچے کو اس کے غیرت مند ہونے پر شاباشی دی اور پھرغیرت کی ایک ایسی بات بتائی کہ وہ لڑکا 40 سال کا ہوگیا لیکن آج تک کسی کی بہن بیٹی کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکا۔
یہ چھوٹا سا واقعہ بچوں کی عمدہ تربیت کا ایک بہترین نمونہ ہے۔
 
آخری تدوین:
ہمارے گھر میں بچے ماں اور باپ دونوں سے بے تکلف ہیں۔الحمداللہ۔
ہر طرح کے معاملات میں بات چیت ہوتی ہے۔
محمد کی جماعت میں ایک لڑکا کھلےعام بری باتیں کرتا تھا۔اس کے بتانے پہ مکتب میں جاکے اساتذہ سے بات کی۔ میں نے کہا کہ ہمارا اپنے بچوں کو فلموں سے اور دوسری بری چیزوں سے بچانا بے فائدہ ہے۔ساری فضول معلومات انھیں کمرہ جماعت میں بیٹھے بیٹھے مل رہی ہیں۔
پھر اس لڑکے نے ایک تقریب میں محمد کے ساتھ والی نشست پہ بیٹھے غلط حرکت کی کوشش کی۔ہم نے بچوں کو کہا ہوا ہے کہ ایسے موقع پہ زور سے چیخ ماریں۔محمد نے ایسے ہی کیا اور اس لڑکے کو سکول سے نکال دیا گیا۔
یہ ہوئی نہ بات۔
 
اگر نچلے طبقات میں یہ سب ہو رہا ہے تو واقعی حیران کن حد تک تبدیلی آئی ہے۔ میرے بچپن کے زمانے میں عام خیال یہی تھا کہ بچوں کے جذبات و احساسات شادی کے بعد پیدا ہوتے ہیں۔ اسی لئے بچوں کو شادی کی جلدی ہوتی تھی کہ اسکے بعد انکی بھی کوئی اوقات ہوگی
بال ابا کے کم قرض زیادہ ہوا، پھر بھی شادی کرا دی مری شکریہ
سونا پڑتا تھا پہلے زمیں پر مجھے، مل گئی چارپائی مزہ آگیا​
 

شاہد شاہ

محفلین
بال ابا کے کم قرض زیادہ ہوا، پھر بھی شادی کرا دی مری شکریہ
سونا پڑتا تھا پہلے زمیں پر مجھے، مل گئی چارپائی مزہ آگیا​
بس جناب اپنی اپنی قسمت ہے۔ کچھ لوگوں کو شادی کے بعد اوقات مل جاتی ہے جبکہ دیگر کو یاد آ جاتی ہے
 

منیب الف

محفلین
میرے ساتھ تو خیر ان کا دوستانہ نہیں ہے نہ جانے کیوں
میں آپ کا شعر پڑھ رہا تھا، وہی اٹھانا ہے پتھر جو سب سے بھاری ہے۔ اس کے بعد اس لڑی میں آپ کا تبصرہ دیکھا۔ مجھے میرے ابو یاد آ گئے۔ ان کے دن رات بھی پڑھنے پڑھانے میں گزرتے تھے۔ ہمارے گھر میں جگہ کم تھی اور کتابیں زیادہ۔ ہم چھ بہن بھائی تھے۔ کسی کا بھی ابو سے ’دوستانہ‘ نہیں تھا۔ ہمیں سمجھ نہیں آتا تھا کہ وہ دن رات کتابیں کھول کے کیا پڑھتے ہیں، کیوں پڑھتے ہیں۔ آج جب خود فکر و شعر کا بھاری پتھر اٹھایا ہے تو سمجھ آنا شروع ہوا ہے کہ اصل دوستی شعور، ادراک اور آگہی کی دوستی ہے۔ میرے ابو نے یہی دوستی نبھانے میں ساری عمر بتا دی۔ بچوں کے ساتھ دوستانہ کیسے ہوتا؟ دو ہی صورتیں ہیں: یا شادی نہ کی جائے، یا فکری کام نہ کیا جائے۔ بہرحال ایک تیسری صورت توازن اور میانہ روی کی بھی ہے۔ کچھ وقت بچوں کو، کچھ کتابوں کو یا یوں کہیں بچوں کو بھی اپنے آگہی کے سفر میں شامل کیا جائے۔ اس کے لیے زیادہ توانائی درکار ہے۔ اگر کوئی یہ اعتدال قائم رکھ سکے تو خوب! اگرچہ میرے پیر کبیر کے مطابق، دو پاٹن کے بیچ میں ثابت رہا نہ کوے۔

20180120_230303.jpg

میرے ابو کی ’چند‘ کتابیں​
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
بچوں کے ساتھ دوستانہ کیسے ہوتا؟ دو ہی صورتیں ہیں: یا شادی نہ کی جائے، یا فکری کام نہ کیا جائے۔ بہرحال ایک تیسری صورت توازن اور میانہ روی کی بھی ہے۔
فی زمانہ، یہاں ہمارے معاشرے میں، اصل مسئلہ فکرِ روزگار ہے۔ شادی کریں یا نہ کریں، کوئی علمی ادبی کام کریں یا نہ کریں لیکن معاش کی فکر ہر حال میں کرنی پڑتی ہے۔ شادی، بچے اور پھر اگر آپ کا کام کچھ اور ہے جبکہ شوق علمی و ادبی کاموں والے ہیں تو پھر زندگی مزید مشکل ہو جاتی ہے اور سعیِ مسلسل میں رہنا پڑتا ہے۔

لیکن ان سب باتوں کا مطلب یہ نہیں کہ بچوں کو وقت نہ دیا جائے۔ بچوں سے دوستی ہونا اور بات ہے اور بچوں کی وقت دینا اور ان کی تعلیم و تربیت کا خیال رکھنا دوسری بات۔ ٹھیک ہے میرے بچوں کی دوستی یا 'فرینکنیس' اس طرح مجھ سے نہیں ہے جس طرح اپنی ماں سے ہے لیکن اپنی تمام تر مصروفیات اور "شوقوں" کے باوجود میں بچوں کی تعلیم و تربیت سے غافل نہیں ہوں۔ سائنس اور ریاضی تو خیر میں روزِ اول ہی سے اپنے بچوں کو پڑھا رہا ہوں اور اب بڑے دو ہائی اسکول میں ہیں، لیکن اردو اور اسلامیات اور تاریخ اور معلوماتِ عامہ پر بھی ان سے کچھ نہ کچھ گپ شپ ہوتی ہی رہتی ہے۔

جیسا کہ آپ نے فرمایا، ان معاملات میں اعتدال بہت ضروری ہے!
 

منیب الف

محفلین
فی زمانہ، یہاں ہمارے معاشرے میں، اصل مسئلہ فکرِ روزگار ہے۔ شادی کریں یا نہ کریں، کوئی علمی ادبی کام کریں یا نہ کریں لیکن معاش کی فکر ہر حال میں کرنی پڑتی ہے۔ شادی، بچے اور پھر اگر آپ کا کام کچھ اور ہے جبکہ شوق علمی و ادبی کاموں والے ہیں تو پھر زندگی مزید مشکل ہو جاتی ہے اور سعیِ مسلسل میں رہنا پڑتا ہے۔

لیکن ان سب باتوں کا مطلب یہ نہیں کہ بچوں کو وقت نہ دیا جائے۔ بچوں سے دوستی ہونا اور بات ہے اور بچوں کی وقت دینا اور ان کی تعلیم و تربیت کا خیال رکھنا دوسری بات۔ ٹھیک ہے میرے بچوں کی دوستی یا 'فرینکنیس' اس طرح مجھ سے نہیں ہے جس طرح اپنی ماں سے ہے لیکن اپنی تمام تر مصروفیات اور "شوقوں" کے باوجود میں بچوں کی تعلیم و تربیت سے غافل نہیں ہوں۔ سائنس اور ریاضی تو خیر میں روزِ اول ہی سے اپنے بچوں کو پڑھا رہا ہوں اور اب بڑے دو ہائی اسکول میں ہیں، لیکن اردو اور اسلامیات اور تاریخ اور معلوماتِ عامہ پر بھی ان سے کچھ نہ کچھ گپ شپ ہوتی ہی رہتی ہے۔
یہ جان کر خوشی ہوئی کہ آپ کی توجہ دونوں جانب ہے۔ میں چونکہ ابھی ’اللہ کے افضال سے‘ بن بیاہا اور بے نونہال ہوں، اس لیے آپ یقیناً ان معاملات اور ذمہ داریوں کی مجھ سے بہتر سمجھ رکھتے ہیں۔
 
آخری تدوین:
میں آپ کا شعر پڑھ رہا تھا، وہی اٹھانا ہے پتھر جو سب سے بھاری ہے۔ اس کے بعد اس لڑی میں آپ کا تبصرہ دیکھا۔ مجھے میرے ابو یاد آ گئے۔ ان کے دن رات بھی پڑھنے پڑھانے میں گزرتے تھے۔ ہمارے گھر میں جگہ کم تھی اور کتابیں زیادہ۔ ہم چھ بہن بھائی تھے۔ کسی کا بھی ابو سے ’دوستانہ‘ نہیں تھا۔ ہمیں سمجھ نہیں آتا تھا کہ وہ دن رات کتابیں کھول کے کیا پڑھتے ہیں، کیوں پڑھتے ہیں۔ آج جب خود فکر و شعر کا بھاری پتھر اٹھایا ہے تو سمجھ آنا شروع ہوا ہے کہ اصل دوستی شعور، ادراک اور آگہی کی دوستی ہے۔ میرے ابو نے یہی دوستی نبھانے میں ساری عمر بتا دی۔ بچوں کے ساتھ دوستانہ کیسے ہوتا؟ دو ہی صورتیں ہیں: یا شادی نہ کی جائے، یا فکری کام نہ کیا جائے۔ بہرحال ایک تیسری صورت توازن اور میانہ روی کی بھی ہے۔ کچھ وقت بچوں کو، کچھ کتابوں کو یا یوں کہیں بچوں کو بھی اپنے آگہی کے سفر میں شامل کیا جائے۔ اس کے لیے زیادہ توانائی درکار ہے۔ اگر کوئی یہ اعتدال قائم رکھ سکے تو خوب! اگرچہ میرے پیر کبیر کے مطابق، دو پاٹن کے بیچ میں ثابت رہا نہ کوے۔

20180120_230303.jpg

میرے ابو کی ’چند‘ کتابیں​
یہ چند کتابیں ہیں؟ مجھے بھی کتابیں پڑھنے کا شوق بہت زیادہ ہے لیکن خریداری کی حیثیت کم۔ کتابوں کے 3-4 ٹرک مجھے عطیہ کر دیں، ایک آدھ دیوار سے کچھ تو بوجھ کم ہوگا۔
یہ چند کتابیں دیکھ کر بچپن میں سنا ایک شعر یاد آگیا

تیری سادگی میں اتنا حسن ہے تیرا سنگھار کیا ہوگا
تیرے غصے میں اتنا لطف ہے تیرا پیار کیا ہوگا
 
آخری تدوین:
فی زمانہ، یہاں ہمارے معاشرے میں، اصل مسئلہ فکرِ روزگار ہے۔ شادی کریں یا نہ کریں، کوئی علمی ادبی کام کریں یا نہ کریں لیکن معاش کی فکر ہر حال میں کرنی پڑتی ہے۔ شادی، بچے اور پھر اگر آپ کا کام کچھ اور ہے جبکہ شوق علمی و ادبی کاموں والے ہیں تو پھر زندگی مزید مشکل ہو جاتی ہے اور سعیِ مسلسل میں رہنا پڑتا ہے۔

لیکن ان سب باتوں کا مطلب یہ نہیں کہ بچوں کو وقت نہ دیا جائے۔ بچوں سے دوستی ہونا اور بات ہے اور بچوں کی وقت دینا اور ان کی تعلیم و تربیت کا خیال رکھنا دوسری بات۔ ٹھیک ہے میرے بچوں کی دوستی یا 'فرینکنیس' اس طرح مجھ سے نہیں ہے جس طرح اپنی ماں سے ہے لیکن اپنی تمام تر مصروفیات اور "شوقوں" کے باوجود میں بچوں کی تعلیم و تربیت سے غافل نہیں ہوں۔ سائنس اور ریاضی تو خیر میں روزِ اول ہی سے اپنے بچوں کو پڑھا رہا ہوں اور اب بڑے دو ہائی اسکول میں ہیں، لیکن اردو اور اسلامیات اور تاریخ اور معلوماتِ عامہ پر بھی ان سے کچھ نہ کچھ گپ شپ ہوتی ہی رہتی ہے۔

جیسا کہ آپ نے فرمایا، ان معاملات میں اعتدال بہت ضروری ہے!
بعض صورتوں میں بچوں کے ساتھ دوستی نہ ہونا بھی بہتر ہوتا ہے، اس کے اپنے فوائد ہیں۔
خیر اللہ پاک سے دعا ہے کہ باپ کے ساتھ دوستانہ ہو یا نہ ہو دونوں صورتوں میں اللہ پاک سب کے بچوں کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور والدین کی عزت کرنے اور والدین کی عزت رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
 
آخری تدوین:
زمان
یہ جان کر خوشی ہوئی کہ آپ کی توجہ دونوں جانب ہے۔ میں چونکہ ابھی ’اللہ کے افضال سے‘ بن بیاہا اور بے نونہال ہوں، اس لیے آپ یقیناً ان معاملات اور ذمہ داریوں کی مجھ سے بہتر سمجھ رکھتے ہیں۔
زمانے کی ٹھوکریں کھا نے بعد انسان سمجھدار ہو جاتا ہے۔ سمجھدار انسان اول تو غلطی کرتا نہیں لیکن جب کرتا ہے تو بہت بھیانک غلطی کرتا ہے، جبکہ اسے لگتا ہے کہ اس نے تو صرف شادی کی ہے۔
شادی چونکہ ایک بابرکت عمل ہے اس لئے شادی کی برکت سے انسان سمجھداری کے ساتھ ساتھ برداشت، صبر و تحمل، خدمت گزاری، فرمانبرداری، غصّہ پینے کی صلاحیت، اپنا غم چھپا کر مسکرانے کی عادت جیسی نعمتوں سے بھی مالامال ہو جاتا ہے، فرسٹ ایڈ کی بھی اچھی خاصی پریکٹس ہو جاتی ہے، یہ ساری خوبیاں آگے چل کر اسے بچوں کی تربیت اور دیکھ بھال کرنے میں بھی مدد دیتی ہیں۔
اور قبل اس کے کہ وہ اپنی غلطی کا ادراک کرنے کے بعد اسے درست کرنے کی کوشش کرے اللہ پاک اس کے صبر و تحمل اور برداشت کے انعام کے طور پر اولاد کا تحفہ عطا فرما دیتے ہیں، اور اولاد میں اللہ نے انسان کے لئے اتنا سکون رکھا ہے کہ انسان اس سکون کے تحفظ کے لئے باقی تمام عمر "جلاد" کی تلوار کے سائے میں بھی ہنسی خوشی بسر کر دیتا یے۔
(کنوارے بھائیوں کے لئے بھیانک خوشخبری)
 
بس جناب اپنی اپنی قسمت ہے۔ کچھ لوگوں کو شادی کے بعد اوقات مل جاتی ہے جبکہ دیگر کو یاد آ جاتی ہے
آپ کا شمار کس صف میں کیا جائے؟
ویسے شکوہء قسمت کے بعد پوچھنے کی گنجائش رہتی تو نہیں لیکن "چھیڑنا" بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے بھیا
 
آخری تدوین:
Top