بحر طویل
653
پہلا مصرع
ایک دن باغ میں جا کر ، چشم حیرت ذدہ واکر، جامہٌ سبر قبا کر، طائر ہوش اڑاکر، شوق کو راہ نما کر، مرغ نظارہ اڑاکر، دیکھی رنگت جو چمن کی، خوبی نسرین و سمن کی، شکل غنچوں کے دہن کی تازگی لالہ کے تن کی، تازگی گل کے بدن کی، کشت سبزے کی ہری تھی، نہر بھی لہر بھری تھی، ہر خیاباں میں تری تھی، ڈالی ہر گل کی پری تھی، خوش نسیم سحری تھی ، سرو شمشاد وصنوبر ، سنبل و سوسن و عر عر ، نخل میوے سے رہے بھر، نفس باد معنبر، در و دیوار معطر، کہیں قمری تھی مطوق، کہیں انگور معلق ، نالے بلبل کے مدقق، کہیں غوگائی کی بق بق، اس قدر شاد ہوا دل، مثل غنچے کے گیا کھل، غم ہوا کشتہ وبسمل، شادی خاطر سے گئی مل، خرمی ہو گئی حاصل ، روح بالیدہ ہو آئی، شان قدرت کی دکھائی۔ جان سی جان میں آئی، باغ کیا تھا گویا اللہ نے اس باغ میں جنت کو اتارا۔
دوسرا مصرع
نا گہاں صحن چمن میں، مجمع سرو وسمن میں، جیسے ہو روح بدن میں، جیسے ہو شمع لگن میں، جیسے خورشید کرن میں، ماہ پرویں وپرن میں، دیکھا اک دل بر رعنا و طرح دار جفا کار، دل آزار نمودار، نگہ ہمسر شمشیر، مژہ تر کش پرتیر، سر زلف گرہ گیر،دل خلق کی زنجیر، جبیں نور کی تصویر، وہ رخ شمس کی تنویر ، زباں شہد بیاں شیر، نظر روح کی اکسیر ، دہن غنچۂ خاموش، سمن بر بردوش ، سخن بحر گہر جوش، بدن سر وقباپوش ، چھڑی گل کی ہم آغوش ، وفا رحم فراموش ، ہر اک آن ستم کوش ، عجب حسن دل آرا، نہ کبھی مہر نے دیکھا، نہ کبھی ماہ نے دیکھا نہ کسی فہم میں آیا ، نہ تصور میں سمایا، وہ نظر مجھ کو جو آیا، مجھے اپنا دکھایا، دل نے اک جوش اٹھایا جی نے سب ہوش اڑایا، سر کو پائوں پہ جھکایا،اشک آنکھوں سے بہایا، اس نے جب یوں مجھے پایا، یہ سخن ہنس کے سنایا، کہ ’’توہے عاشق شیدا، لیکن عاشق نہیں پیدا ، ہووے تجھ پر یہ ہو یدا، کہ اگر ہم کو تو چاہے یا محبت کو بنا ہے، نہ کبھی غم سے کراہے، نہ کسی غیر کو چاہے ، نہ کبھی گل کیطرف دیکھ، نہ سنبل کی طرف دیکھ، نہ بلبل کی طرف دیکھ، نہ بستاں پہ نظر کر، نہ گلستاں میں گزر کر ، چھوڑدے سب کو مودت، ہم سے رکھ دل کی محبت ، اس میں ہم بھی تجھے چاہیں، تجھ سے الفت کو نبائیں ، ہیں یہی چاہ کی راہیں، گریہ مقدور تجھے ہو، اور یہ منظور تجھے ہو، تو نظیرؔ آج سے تو چاہنے والا ہے ہمارا‘‘۔
(نظیر اکبر آبادی)