بھائی ممدو کا املا از شان الحق حقی

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
دوستی تک تو بات ٹھیک ہے لیکن دکھ ہوتا ہے کہ کوئی زمانہ تھا کہ پیسے جوڑ جوڑ کر بمشکل تمام ایک کتاب خریدتے تھے اور جب تک اسے اول تا آخر پڑھ نہ لیں چین نہیں ملتا تھا اور اب یہ عالم ہے کہ بلا شبہ ہزارہا کتب الماریوں اور ہارڈ ڈسکوں میں موجود ہیں لیکن پڑھنے کی ہمت یا فرصت میسر نہیں۔
صد فیصد متفق ۔
بس وہ چنے اور دانت والی مثل سچی ہے ۔ :):):)
 

نمرہ

محفلین
دوستی تک تو بات ٹھیک ہے لیکن دکھ ہوتا ہے کہ کوئی زمانہ تھا کہ پیسے جوڑ جوڑ کر بمشکل تمام ایک کتاب خریدتے تھے اور جب تک اسے اول تا آخر پڑھ نہ لیں چین نہیں ملتا تھا اور اب یہ عالم ہے کہ بلا شبہ ہزارہا کتب الماریوں اور ہارڈ ڈسکوں میں موجود ہیں لیکن پڑھنے کی ہمت یا فرصت میسر نہیں۔
اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے آپ کے نزدیک ؟ میں تو بڑی عمر کو ذمہ دار ٹھہرا کر ایک طرف ہو جاتی ہوں۔
 

فاتح

لائبریرین
اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے آپ کے نزدیک ؟ میں تو بڑی عمر کو ذمہ دار ٹھہرا کر ایک طرف ہو جاتی ہوں۔
بڑی عمر بھی کہہ سکتی ہیں۔۔۔ میرے خیال میں تین بڑی وجوہات ہیں:
جیسے جیسے عمر بڑھتی ہے آپ کی ذمہ داریاں، مسائل اور مصروفیات بھی بڑھتی چلی جاتی ہیں اور ان سب کے ساتھ مکمل کتاب پڑھنے کی عیاشی کا متحمل نہیں رہتا انسان۔
دوسری وجہ انٹرنیٹ ہے۔ میرے بچپن اور لڑکپن میں جب ہمیں کوئی سوال درپیش ہوتا تو ہم لوگ لائبریریوں کا رخ کرتے تھے اور ایک سوال کا جواب پانے کے لیے ایک سے زائد کتب پڑھنی پڑتی تھیں تب اس ایک سوال کا جواب ملتا تھا لیکن بائے پراڈکٹ کے طور پر دو کتب پڑھ لیا کرتے تھےاور ان دو کتب میں اس ایک سوال کے جواب کے علاوہ سینکڑوں دیگر چیزیں بھی سیکھنے کو مل جاتی تھیں۔ اب تقریباً ہر سوال کا شافی جواب گوگل اور وکی پیڈیا وغیرہ سے مل جاتا ہےاور کتب بینی کی مشقت سے نہیں گزرنا پڑتا۔
تیسری وجہ کتب کی فراوانی بھی ہے۔ بچپن میں ہم لوگ لائبریریوں سے کرائے پر کتب لایا کرتے تھے اور ایک وقت میں ایک ہی کتاب دستیاب ہوتی تھی اور اس کا بھی کرایہ چڑھ رہا ہوتا تھا تو اسے پڑھنا بھی فرض اور ضرورت بن جاتا تھا کیونکہ یہ ڈر لگا رہتا تھا کہ اگر نہ پڑھی تو مفت کا کرایہ بھرنا پڑے گا اور اگر پڑھنے میں دیر لگائی تو اضافی کرایہ پڑ جائے گا۔ :) اب عالم یہ ہے کہ الماریاں اور ہارڈ ڈسکیں بھری ہوئی ہیں کتابوں سے اور روزانہ سوچتا ہوں کہ کل سے پڑھنا شروع کرتا ہوں۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بڑی عمر بھی کہہ سکتی ہیں۔۔۔ میرے خیال میں تین بڑی وجوہات ہیں:
جیسے جیسے عمر بڑھتی ہے آپ کی ذمہ داریاں، مسائل اور مصروفیات بھی بڑھتی چلی جاتی ہیں اور ان سب کے ساتھ مکمل کتاب پڑھنے کی عیاشی کا متحمل نہیں رہتا انسان۔
دوسری وجہ انٹرنیٹ ہے۔ میرے بچپن اور لڑکپن میں جب ہمیں کوئی سوال درپیش ہوتا تو ہم لوگ لائبریریوں کا رخ کرتے تھے اور ایک سوال کا جواب پانے کے لیے ایک سے زائد کتب پڑھنی پڑتی تھیں تب اس ایک سوال کا جواب ملتا تھا لیکن بائے پراڈکٹ کے طور پر دو کتب پڑھ لیا کرتے تھےاور ان دو کتب میں اس ایک سوال کے جواب کے علاوہ سینکڑوں دیگر چیزیں بھی سیکھنے کو مل جاتی تھیں۔ اب تقریباً ہر سوال کا شافی جواب گوگل اور وکی پیڈیا وغیرہ سے مل جاتا ہےاور کتب بینی کی مشقت سے نہیں گزرنا پڑتا۔
تیسری وجہ کتب کی فراوانی بھی ہے۔ بچپن میں ہم لوگ لائبریریوں سے کرائے پر کتب لایا کرتے تھے اور ایک وقت میں ایک ہی کتاب دستیاب ہوتی تھی اور اس کا بھی کرایہ چڑھ رہا ہوتا تھا تو اسے پڑھنا بھی فرض اور ضرورت بن جاتا تھا کیونکہ یہ ڈر لگا رہتا تھا کہ اگر نہ پڑھی تو مفت کا کرایہ بھرنا پڑے گا اور اگر پڑھنے میں دیر لگائی تو اضافی کرایہ پڑ جائے گا۔ :) اب عالم یہ ہے کہ الماریاں اور ہارڈ ڈسکیں بھری ہوئی ہیں کتابوں سے اور روزانہ سوچتا ہوں کہ کل سے پڑھنا شروع کرتا ہوں۔

فاتح بھائی آپ نے بالکل درست تشخیص فرمائی ہے۔ تقریباً ساری ہی وجوہات لکھ دی ہیں ۔ سو بات کی ایک بات وہی ہے جو آپ نے کہی کہ گزرتے وقت کے ساتھ ترجیحات بدلتی جاتی ہیں ۔ اب تو یہ صورتحال ہے کہ اگر کبھی پڑھنے بیٹھ بھی جائیں تو ایک طرح کا احساسِ جرم سا ہوتا ہے کہ اس کے بدلے کئی اور زیادہ اہم کام کئے جاسکتے ہیں ۔ مطالعہ تو اب عیاشی لگتا ہے ۔ :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
مورس کوڈ میں یہ شاید JET لکھا ہے۔ :laughing:
ہا ہا ہا ہا !! واقعی یہ سطر تو جیٹ لائن کی طرح ہی لگ رہی ہے۔
یہ AOA لکھا تھا کہ آجکل Assalm O Alekum کے بجائے یہی لکھنے کی بدعت چل پڑی ہے ۔ پورے الفاظ مورس کوڈ میں لکھنے کی ہمت نہیں ہوئی ۔ :):):)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
عبید بھائی ، یہ ٹیلیگرام مرحوم کا کوڈ ہے ۔ یعنی جو پرانے زمانے میں ٹیلیگرام بھیجنے کی مشین پر ڈاٹ ڈیش ڈاٹ وغیرہ دبا کر لکھے جاتے تھے ۔ اسے اردو میں بے تاربرقی کہتے ہیں شاید۔
 
آخری تدوین:
کیوں بھئی ، کیا پیر گوگل علیہ ما علیہ نکل لئے کیا؟!
پیر گوگل مزید معلومات بتانے کے لیے پہلے کم از کم اتنی نذر ونیاز مانگتے ہیں جو آپ نے فراہم کی:
عبید بھائی ، یہ ٹیلیگرام مرحوم کا کوڈ ہے ۔ یعنی جو پرانے زمانے میں ٹیلیگرام بھیجنے کی مشین پر ڈاٹ ڈیش ڈاٹ وغیرہ دبا کر لکھے جاتے تھے ۔ اسے اردو میں تاربرقی کہتے ہیں شاید۔
شکریہ ظہیر بھائی۔ اب پیر صاحب کے پاس چلتے ییں۔
 

فاتح

لائبریرین
ہا ہا ہا ہا !! واقعی یہ سطر تو جیٹ لائن کی طرح ہی لگ رہی ہے۔
یہ AOA لکھا تھا کہ آجکل Assalm O Alekum کے بجائے یہی لکھنے کی بدعت چل پڑی ہے ۔ پورے الفاظ مورس کوڈ میں لکھنے کی ہمت نہیں ہوئی ۔ :):):)
اوہ معذرت۔۔۔ اردو کی دائیں سے بائیں جانب کی لکھائی اور نستعلیق میں مجھے ڈاٹ اور ڈیش میں سپیس کا اندازہ نہیں ہو پایا۔ اگر JET اور AOA کے مورس کوڈ کو دیکھیں تو ڈاٹس اور ڈیشز کی تعداد اور مقام ایک ہی ہے لیکن فرق صرف سپیسز کے مقامات کا ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
نوکیا کے مونوفونک ٹونز میں ۔ ایس ایم ایس کی معروف ٹون بھی ۔ مورس کوڈ کی sms ہے۔۔۔۔ ☺
نیوی کے ملازمین میں ۔ مورس کوڈ کی سپیڈ ٹائپ رائٹر کی سپیڈ کی طرح اہم سمجھی جاتی ہے۔ ۔ یا شاید تھی۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
بھائی ممدو کا املا
از شان الحق حقی

کچا ہے بھائی ممدو کا اِملا بہت ابھی
مِسطر کی طرح طوئے سے لکھتے ہیں مشتری

ظاہر ہے ایک شوشے سے بنتا ہے سر کا سین
اس میں بھی وہ بناتے ہیں دندانے تین تین

جس لفظ کو انھوں نے جو چاہا بنا دیا
بھینسا کو چھوٹی ہ سے بہینسا بنا دیا

اپنی نظر میں سارے مسلمان بھائی ہیں
ان کی نظر میں خیر سے ہم سب بہائی ہیں

ہم میں بھی وہ لگاتے ہیں ناحق دوچشمی ھ
آیت میں ڈال دیتے ہیں ہمزہ بجائے ے

وہ غیظ کو بھی فیض کا سمجھے ہیں قافیہ
لکھتے ہیں ذال سے زکریا کو کو ذکریا

کچھ فرق ہی نہیں نذیر اور نظیر میں
دونوں کو ظوئے سے تو کبھی ذال سے لکھیں

لکھا علیٰ الحساب اَلل ٹپ الف کے بن
حضرت تو مطمئن کو بھی لکھتے ہیں مطمَعِن

درخواست کو تو واؤ سے لکھتے ہیں خیر سب
برخاست میں بھی ڈالیں گے وہ واؤ بے سبب

کہتے ہیں چھوٹی اور بڑی ے میں فرق کیا
دیکھا ہے ہم نے دہلی کو دہلے لکھا ہوا

کتنا جناب ممدُو کے اِملا میں کھوٹ ہے
تحریر ان کی ساری لطیفوں کی پوٹ ہے



 
اس مصرع میں ایک "ہے" کی کمی لگ رہی ہے ۔ البتہ نظم اچھی ہے حقی صاحب کی ۔
درست کہتے ہیں جناب! "ہے" کی کمی ہے اس مصرع میں۔ ہم نے اوکسفرڈ پر بھروسہ کرتے ہوئے ان کی کتاب سے ٹائپ کردیا لیکن آپ کا قول کرسی نشین ہوا کہ اوکسفرڈ کا بھروسہ نہیں!
 

رابطہ

محفلین
بھائی ممدو کا املا
از شان الحق حقی

کچا ہے بھائی ممدو کا اِملا بہت ابھی
مِسطر کی طرح طوئے سے لکھتے ہیں مشتری

ظاہر ہے ایک شوشے سے بنتا ہے سر کا سین
اس میں بھی وہ بناتے ہیں دندانے تین تین

جس لفظ کو انھوں نے جو چاہا بنا دیا
بھینسا کو چھوٹی ہ سے بہینسا بنا دیا

اپنی نظر میں سارے مسلمان بھائی ہیں
ان کی نظر میں خیر سے ہم سب بہائی ہیں

ہم میں بھی وہ لگاتے ہیں ناحق دوچشمی ھ
آیت میں ڈال دیتے ہیں ہمزہ بجائے ے

وہ غیظ کو بھی فیض کا سمجھے ہیں قافیہ
لکھتے ہیں ذال سے زکریا کو کو ذکریا

کچھ فرق ہی نہیں نذیر اور نظیر میں
دونوں کو ظوئے سے تو کبھی ذال سے لکھیں

لکھا علیٰ الحساب اَلل ٹپ الف کے بن
حضرت تو مطمئن کو بھی لکھتے ہیں مطمَعِن

درخواست کو تو واؤ سے لکھتے ہیں خیر سب
برخاست میں بھی ڈالیں گے وہ واؤ بے سبب

کہتے ہیں چھوٹی اور بڑی ے میں فرق کیا
دیکھا ہے ہم نے دہلی کو دہلے لکھا ہوا

کتنا جناب ممدُو کے اِملا میں کھوٹ ہے
تحریر ان کی ساری لطیفوں کی پوٹ ہے



بہت شکریہ شراکت کا
 
Top