بھارتی فضائیہ کی ایل او سی کی خلاف ورزی، پاک فضائیہ کی جوابی کارروائی پر بھارتی طیارے بھاگ نکلے

فرقان احمد

محفلین
کسی نے اسلحہ فروخت کرنا ہے اور کسی نے آپس میں لڑنا ہے۔ ایٹم بم تک نوبت پہنچنے سے قبل ایک بار پھر دونوں ریسلرز کو میدان سے باہر کر دیا جاتا ہے۔ جب حالات اک ذرا سنبھلتے ہیں تو زور آزمائی پھر شروع ہو جاتی ہے۔ اسلحہ بیچنے والے بھی خوش، لڑنے والے بھی شاداں ۔۔۔! کون ہمیں سیانا کہے ۔۔۔!
 

جاسم محمد

محفلین
نواز نے ہمیں پہلے ہی ہوم پریکٹس کروا دی تھی اس کی۔
اتنے بڑے حملے کی پریکٹس کروائی تھی؟

بھارت کا اصل منصوبہ پاکستان میں پانچ مقامات پر حملہ کرنے کا تھا، وزیرخارجہ
اسلام آباد: وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پانچ سے زیادہ مقامات پر بھارتی حملوں کی پیشگی اطلاع ملنے کی تصدیق کردی۔

جیو نیوز کے پروگرام کیپیٹل ٹاک میں گفتگو کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ممکنہ بھارتی حملہ پانچ وجوہات کی بناء پر ناکام ہوا، افواج الرٹ تھیں، ہماری انٹیلی جنس اطلاعات پکی تھیں، سفارتی تعلقات اور ملٹری روابط نے بھارت کو حملے سے روکنے میں کردار ادا کیا اور سول اورملٹری قیادت آپس میں رابطے میں تھی۔

انہوں نے کہا کہ 27 فروری کو کشیدگی انتہا پر تھی اور خدشہ تھا بھارت مزید کارروائی کرسکتا ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ موجودہ صورت حال میں بہت متحرک رہے اور ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ کنٹرول لائن کی صورتحال بہتر ہورہی ہے اور پاک بھارت صورتحال پر امریکا ،چین اور برطانیہ سمیت اہم طاقتیں الرٹ ہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
اتنے بڑے حملے کی پریکٹس کروائی تھی؟

بھارت کا اصل منصوبہ پاکستان میں پانچ مقامات پر حملہ کرنے کا تھا، وزیرخارجہ
اسلام آباد: وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پانچ سے زیادہ مقامات پر بھارتی حملوں کی پیشگی اطلاع ملنے کی تصدیق کردی۔

جیو نیوز کے پروگرام کیپیٹل ٹاک میں گفتگو کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ممکنہ بھارتی حملہ پانچ وجوہات کی بناء پر ناکام ہوا، افواج الرٹ تھیں، ہماری انٹیلی جنس اطلاعات پکی تھیں، سفارتی تعلقات اور ملٹری روابط نے بھارت کو حملے سے روکنے میں کردار ادا کیا اور سول اورملٹری قیادت آپس میں رابطے میں تھی۔

انہوں نے کہا کہ 27 فروری کو کشیدگی انتہا پر تھی اور خدشہ تھا بھارت مزید کارروائی کرسکتا ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ موجودہ صورت حال میں بہت متحرک رہے اور ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ کنٹرول لائن کی صورتحال بہتر ہورہی ہے اور پاک بھارت صورتحال پر امریکا ،چین اور برطانیہ سمیت اہم طاقتیں الرٹ ہیں۔
یہ سدابہار کہانی ہے جس میں حقیقت کا شائبہ رہتا ہے۔ دراصل خفیہ ایجنسیاں ایک سو منصوبے بناتی ہیں اور ان میں سے ایک آدھ پر ہی عمل درآمد ہو پاتا ہے۔ ہمیں الرٹ رہنا چاہیے تاہم ان غیر مصدقہ اطلاعات پر صد فی صد یقین کرنے سے گریز کی روش اپنانی چاہیے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ان غیر مصدقہ اطلاعات
27 فروری کی شام اور اگلے د ن صبح تک پاکستان کی فضائی حدود مکمل بند تھی۔ یہ کوئی معمول کی بات نہیں ہے۔ بھارت اور اسرائیل کے پاکستان پر بڑے حملے کی انٹیلی جنس موصول ہوئی تھی۔ جبکہ کراچی میں بلیک آؤٹ اور ہائی الرٹ جاری تھا۔ ان خطرناک لمحات میں آرمی چیف، ایجنسیز اور سول حکومت نے ایک ساتھ کام کر کے پاکستان کو اس سخت بحران سے نکالا۔ اور اگلے ہی دن گرفتار بھارتی پائلٹ کو چھوڑنے کا اعلان کر کے مودی کی ساری الیکشن کمپین پر پانی پھیر دیا۔
 

فرقان احمد

محفلین
27 فروری کی شام اور اگلے د ن صبح تک پاکستان کی فضائی حدود مکمل بند تھی۔ یہ کوئی معمول کی بات نہیں ہے۔ بھارت اور اسرائیل کے پاکستان پر بڑے حملے کی انٹیلی جنس موصول ہوئی تھی۔ جبکہ کراچی میں بلیک آؤٹ اور ہائی الرٹ جاری تھا۔ ان خطرناک لمحات میں آرمی چیف، ایجنسیز اور سول حکومت نے ایک ساتھ کام کر کے پاکستان کو اس سخت بحران سے نکالا۔ اور اگلے ہی دن گرفتار بھارتی پائلٹ کو چھوڑنے کا اعلان کر کے مودی کی ساری الیکشن کمپین پر پانی پھیر دیا۔
پاکستان کی فضائی حدود بند ہونے کا تعلق صرف اس اطلاع سے نہیں ہو گا۔ اسرائیل ہندوستان کو یوں بھی خفیہ و اعلانیہ معاونت فراہم کرتا ہے تاہم پاکستان پر شاید وہ کبھی براہ راست حملہ نہیں کرے گا۔ اس سے اسرائیل کو کیا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔ بس کہانی میں یہی جھول ہے۔ ہندوستان نے پاکستان کا ناطقہ بند کرنا تھا جو کہ کئی روز تک کیا گیا اور یہ کھیل شاید اسی طرح جاری رہتا اگر ہندوستان کا طیارہ گرایا نہ جاتا؛ گو کہ اب بھی اس بات کے امکانات موجود ہیں تاہم اب معاملہ بوجوہ کافی حد تک بیلنس ہو گیا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
تاہم اب معاملہ بوجوہ کافی حد تک بیلنس ہو گیا ہے۔
متفق۔ اور جو مودی سرکار کو اسرائیل نے سرجیکل اسٹرائیک کے سبز باغ دکھائے تھے ان کی حقیقت بھی پوری دنیا پر عیاں ہو چکی ہے۔ اب مودی جی اگلا الیکشن جیتیں یا ہاریں۔ بھارت کی ساخت بہرحال اقوام عالم میں کمزور ہے۔ جبکہ پاکستان کو اس سارے معاملے سےبہت فائدہ ہوا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
خارجی و داخلی دباؤ، ملک کی سالمیت کو درپیش خطرات کے تحت اگر اسٹیبلشمنٹ اور ایجنسیاں اپنے "قومی اثاثوں" پر فی الفور ہاتھ ڈال کر قومی دھارے میں لانے پر رضامند ہو گئی ہیں تویہ پاکستان کے روشن مستقبل کیلئے فائدہ ہی فائدہ ہے۔ اوپر سے جنگی قیدی کو اس طرح اعلانیہ چھوڑنے پر پوری دنیا میں نئے پاکستان کی امن پسند پالیسیوں کی دھاک بیٹھ چکی ہے۔ جبکہ دوسری طرف مودی سرکار اور بھارتی میڈیا کے جارحانہ اور جنگ پسند عناصر کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
نواز شریف کاراستہ ہی بہتر راستہ نہیں تھا؟
تنویر قیصر شاہد پير 4 مارچ 2019
1576431-TanveerQaiserShahidNEW-1551671960-381-640x480.JPG


پاکستان نے بھارتی قیدی پائلٹ (ابھی نندن) کو زندہ سلامت واہگہ بارڈر پر بھارت کے حوالے کیا ہے جب کہ بھارت نے پاکستانی قیدی (شاکر اللہ) کی میت واہگہ بارڈر پر پاکستان کے حوالے کی ہے۔ وحشت و جنوں اورغیظ و غضب کے اِس ماحول میں محترمہ بینظیر بھٹو بھی یاد آ رہی ہیں اور میاں محمد نواز شریف بھی ۔ بھارت سے امن کے حوالے سے ترتیب دی گئیں ہمارے ان دونوں سابق وزرائے اعظم کی پالیسیاں بھی ذہن میں بازگشت بن کر گونج رہی ہیں ۔

محترمہ بینظیر بھٹو کو تو خیر سے ہم نے ’’سیکیورٹی رِسک‘‘ بھی کہہ ڈالا تھا، حالانکہ وہ توعالمی سطح پر ہمارا تعارف تھیں ۔نواز شریف کے دو ادوارِ حکومت میں دو بھارتی وزرائے اعظم (اٹل بہاری واجپائی اور نریندر مودی) خود چل کر لاہور آئے۔ یہ پاکستان کی سفارتی بالادستی تھی۔ ہمارے ہاں مگر نواز شریف کو مختلف النوع، نامناسب القابات سے نوازا گیا ۔ اس بیانئے کی گونج ابھی تک ہماری فضاؤں میں ہے ۔ نقصان مگرکس کا ہُوا؟

اور اب ہمارے وزیر اعظم جناب عمران خان قومی اسمبلی کے فلور پر ہمیں یہ کہتے ہُوئے سنائی دے رہے ہیں: ’’دو بار انڈین پرائم منسٹر کو فون کر چکا ہُوں مگر۔۔۔۔۔‘‘ کچھ عالمی طاقتیں مودی جی کو اس بات پر آمادہ کررہی ہیں کہ وہ مہربانی کرکے پاکستانی وزیر اعظم سے بات کریں ۔پاک بھارت کشیدگی کم کرنے کے لیے کئی عالمی سفارتی کاوشیں بھی بروئے کار ہیں۔مودی جی مگر راضی نہیں ہو رہے۔ اُن کے اپنے مقاصد اور اہداف ہیں۔ آج ہم بھارت سے کلام کرنا چاہتے ہیں، لیکن ایسی چاہت بھارت کی طرف نہیں ہے۔

بھارتی نخوت اور تکبر تو اِس انتہا پر ہے کہ اُس نے پاکستان کی طرف سے’’ بطورِ خیر سگالی‘‘ بھارتی پائلٹ قیدی واپس کیے جانے پر بھی شکریے میں ایک لفظ تک ادا نہیں کیا ۔لاریب بھارت نے پاکستان سے زیادتی بھی کی ہے ، ہمارے ملک پر حملہ بھی کیا ہے لیکن اِس فضائی خلاف ورزی اور زیادتی کے باوجود بدقسمتی سے عالمی برادری کا جھکاؤ بھارت کی طرف ہے ۔یہاں تک کہ عالمِ اسلام کی اپنی تنظیم ’’او آئی سی‘‘ نے بھی بھارت کے خلاف پاکستان کے احتجاج پر کان دھرنے سے صاف انکار کر دیا۔ یہ سانحہ ابھی تازہ تازہ یکم مارچ کو سامنے آیا ہے جب او آئی سی میں مسلم وزرائے خارجہ کی کانفرنس میں بھارتی وزیر خارجہ ، سشما سوراج ، کو دعوتِ خطاب دی گئی ۔

ہمارے وزیر خارجہ نے احتجاج کرتے ہُوئے کہا: اگر بھارتی وزیر خارجہ وہاں آئیں گی تو ہم نہیں آئیں گے ۔ او آئی سی کے ذمے داروں نے ہماری ناراضی کو کوئی اہمیت ہی نہیں دی اور اپنے عمل سے ثابت کیا : پاکستان نہیں آتا تو نہ آئے، ہم تو بھارتی وزیر خارجہ کا سواگت کریں گے۔البتہ اچھی خبر یہ ہے کہ اِسی او آئی سی کے اجلاس میں مقبوضہ کشمیر کے مظلومین کی حمائت اور ظالم بھارت کی مذمت کی گئی ہے۔

سوال یہ ہے کہ اگر نواز شریف کو امن چین سے حکومت کرنے دی جاتی تو کیا آج یہ مناظر ہمیں دیکھنا پڑتے؟ پنجابی زبان کا ایک محاورہ ہے: بزرگوں کی باتوں اور آملے کی لذت کا احساس وقت گزرنے کے بعد ہی ہوتا ہے ۔وقت گزراہے تو شدت سے احساس ستانے لگا ہے کہ میاںمحمد نواز شریف نے بطورِ وزیر اعظم پاکستان ، پائیدار امن کی خاطر، بھارت کی طرف دوستی کے لیے جو ہاتھ اور قدم بڑھائے اور اُٹھائے تھے، اگر اُن ہاتھوں اور قدموں کو مسلسل آگے بڑھنے دیا جاتا تو آج کشیدگی کے یہ دن بھی شائد ہمیں دیکھنا نہ پڑتے ۔ آج ہمیں قومی اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر بھارتی وزیر اعظم سے فون نہ سننے کا گلہ نہ کرنا پڑتا۔ بھارت سے عناد کی جگہ محبت اور دُوری کی جگہ قربت کا جو پیغام نواز شریف نے لاہور میںاین جی او کے ایک جلسے میں دیا تھا، آج اُس کی بازگشت اور یاد ہمیں سنائی دے رہی ہے۔ محض نواز شریف کی مخالفت میں،ہوا کے گھوڑے پر سوار ہم نے نواز شریف کے اس بیانئے کو مسترد کر دیا تھا۔

درست ہے کہ بھارت ہمارا دیرینہ اور ازلی دشمن ہے ۔ وہ ہمارے وجود اور نظرئیے کی تکذیب کرتا ہے ۔ اُس نے ہمارے ساتھ اور ہم نے اُس کے ساتھ کئی جنگیں لڑی ہیں ۔ وہ بھی جوہری طاقت ہے اور ہم بھی۔فائدے کا عالمی پلڑا مگر کس فریق کی جانب جھکا؟ انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ نے ہم دونوں میں سے کسے دل و جاں کے قریب جگہ دی ہے؟ محمد نواز شریف یہی توکہتے تھے کہ اِنہی حالات میں ہمیں بھارت سے معاملات طے کرتے ہُوئے آگے قدم بڑھانے ہیں ۔ بصورتِ دیگر ہم بند گلی میں پھنسے رہیں گے اور قافلہ آگے بڑھ جائے گا۔ اُن کی راہ میں مگر بار بار پہاڑ کھڑے کیے گئے ۔ بھارت کے ساتھ قیامِ امن کے لیے جس بیانئے کی اساس پر نواز شریف کو گردن زدنی قرار دیا جاتا تھا ، آج وہی بیانیہ خان صاحب کی حکومت کے لبوں پر ہے اور سبھی اتفاق و اتحاد میں سر ہلا رہے ہیں ۔

آج بھارت سے دوستی ، امن اور بھائی چارہ قائم کرنا ہمارا سب سے بڑا خواب اور قومی و سرکاری ایجنڈہ بن گیا ہے ۔سوال مگر یہ ہے کہ یہی بیانیہ اختیار کیے جانے پر نواز شریف کی مخالفت کیوں کی گئی ؟ وقت کا ضیاع کسے فائدہ پہنچا گیا؟آج ہم قومی سطح پر بھارت کی طرف بار بار دوستی اور شانتی کا ہاتھ بڑھا رہے ہیں تو بھارت یہ ہاتھ جھٹک رہا ہے ۔ رکن قومی اسمبلی اور سابق وزیرخارجہ ، خواجہ محمد آصف، نے بھی تاسف کے ساتھ کچھ یہی باتیںاسمبلی میں کہی ہیں ۔ یہ مبالغہ ہیں نہ محض نواز شریف کی تعریف ۔ پسِ دیوارِ زنداں پڑے نواز شریف نے بھارت کو انگیج کرنے کے لیے جو راستہ اختیار کیا تھا، وہی راستہ وطنِ عزیز کے لیے امن ، عدم تصادم اور استحکام کا راستہ تھا۔ اس راستے پر اب دھول اُڑ رہی ہے ۔ وسیع تر قومی مفاد میں نواز شریف اگر پیرول پر رہا کر دیے جائیں تو ممکن ہے یہ راستہ پھر سے آباد ہو سکے ۔

مستحسن امر یہ ہے کہ نواز شریف کی پارٹی نے پوری قوت کے ساتھ، پاکستان کو درپیش حالیہ بحران میں، وزیر اعظم عمران خان کا ساتھ نبھایا ہے ۔ خان صاحب کا رویہ اگرچہ نون لیگ اور اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے ساتھ مناسب نہیں ہے ۔اس کے باوجود مگر نون لیگ اور پیپلز پارٹی ایسی بڑی سیاسی جماعتوں نے حکومت کا ساتھ نبھایا ہے ۔ بھارتی یلغار کے مقابلے میں صرف وطنِ عزیز کی سلامتی اور عزت زیادہ مطلوب و مقصودہے ۔ حکومت کی مخالفت ہوگی تو ہمارے دشمن کو داؤ اور نقب لگانے کاموقع مل سکتا ہے ۔

شہباز شریف اور آصف زرداری بھی حکومتی زیادتیاں پسِ پشت ڈالتے ہُوئے حکومت کی دست گیری کرتے نظر آ رہے ہیں ۔ دونوں قومی رہنماؤں کا بڑے جذبوں کے ساتھ قومی اسمبلی میں خطاب ایک خوش کن اور اطمینان بخش منظر تھا۔ شہباز شریف نے دراصل اپنے قائد کے تتبع میں ہاتھ آگے بڑھایا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ دست گیری اور تعاون حکومت کے لیے نہیں بلکہ ملک کی محبت کی خاطر ہے ۔ افسوس کی بات ہے کہ نواز شریف، شہباز شریف، آصف زرداری ، بلاول بھٹو، اختر مینگل وغیرہ کی جانب سے قابلِ تحسین تعاون اور عملی اتحادی مظاہر کے باوجود حکومت اپنے اطوار میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکی ہے ۔

یہ اطوار قومی یکجہتی کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں ۔ مثال کے طور پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جب وزیر اعظم تشریف لائے تو انھوں نے قومی یکجہتی کی خاطر نہ تو حزبِ اختلاف کے ساتھ بیٹھنا پسند کیا اور نہ ہی اپوزیشن کے کسی رہنما سے مصافحہ ہی کیا۔ وہ قائدِ حزبِ اختلاف کے پاس گئے نہ آصف زرداری کو سلام کیا۔ اپوزیشن نے بجا طور پر خان صاحب کے اس اقدام پر نہائت مایوسی کا اظہار کیا ہے ۔ ا س سے قبل وہ حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کو سعودی ولی عہد کی آمد کے موقع پر وزیر اعظم ہاؤس میں دیے گئے ڈِنر پر مدعو نہ کرکے پہلے ہی ناراضیاں مول لے چکے ہیں ۔ پاکستان کے خلاف بھارتی زیادتیوں کے اس موقع پر تو عمران خان کو اپنے روئیے میں جوہری تبدیلی لانی چاہیے تھی۔ ایسا مگر نہیں ہو سکا ہے ۔ !!
 

جاسم محمد

محفلین
وسیع تر قومی مفاد میں نواز شریف اگر پیرول پر رہا کر دیے جائیں تو ممکن ہے یہ راستہ پھر سے آباد ہو سکے ۔
نواز شریف نے اگر واجپائی اور مودی سے وہی بات کرنی ہے جو آجکل عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کر رہی ہے تو پھر انہیں رہا کرنے کی کوئی توجیہہ نہیں بنتی۔ بھارت کا مسلسل مذاکرات سے انکار مودی حکومت کی انتخابی مہم کا حصہ ہے۔ امید ہے الیکشن کے بعد نئی سرکار اس حوالہ سے لچک کا مظاہرہ کرے گی۔
 
اس خبر کو دیکھئے، اس سے بی جے پی کی سوچ کا اندازہ ہوتا ہے۔
Professor in India made to kneel, apologise for criticising BJP-led government - World - DAWN.COM

ہم لوگ یہاں بہت سی بحث کرتے ہیں، سیاسی ، مذہبی وغیرہ وغیرہ ، اور دوسرے افراد کے بیانات پر سوچتے ہیں۔ لیکن بی جے پی نے 'نفرت' اپنا ایمان بنالیا ہے ۔ اور اگر کوئی امن کی فاختہ اڑاتا ہے تو اس کو یہ لوگ اپنے 'نفرت سے بھرے مذہب' کی توہین سمجھتے ہیں۔ جس طرح ان لوگوں نے اس پروفیسر کو زود و کوب کیا، معافی منگوائی ، اس کی توئٹس اور فیس بک کے میسیجز کو ڈیلیٹ کروایا، اس سے صاف طاہر ہے کہ نفرت کا شیطان ان لوگوں میں رچ و بس گیا ہے۔ ایسی نفرت کا نتیجہ کیا ہوتا ہے ؟ جنگ اور تباہی، ہندوستان کا موجودہ مائنڈ سیت ، ساری دنیا کے لئے الارم ہے۔ بہت ضروری ہے کہ ساری دنیا مل کر ہندوستان کو ہتھیاروں سے محروم کیا جائے اور ان کی معاشی بہبودی کے ساتھ ساتھ ان کے ذہنوں اور سوچ کو صاف کرنے پر کام کیا جائے۔ افسوسناک صورت حال ہے۔
 
اتنے بڑے حملے کی پریکٹس کروائی تھی؟

بھارت کا اصل منصوبہ پاکستان میں پانچ مقامات پر حملہ کرنے کا تھا، وزیرخارجہ
اسلام آباد: وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پانچ سے زیادہ مقامات پر بھارتی حملوں کی پیشگی اطلاع ملنے کی تصدیق کردی۔

جیو نیوز کے پروگرام کیپیٹل ٹاک میں گفتگو کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ممکنہ بھارتی حملہ پانچ وجوہات کی بناء پر ناکام ہوا، افواج الرٹ تھیں، ہماری انٹیلی جنس اطلاعات پکی تھیں، سفارتی تعلقات اور ملٹری روابط نے بھارت کو حملے سے روکنے میں کردار ادا کیا اور سول اورملٹری قیادت آپس میں رابطے میں تھی۔

انہوں نے کہا کہ 27 فروری کو کشیدگی انتہا پر تھی اور خدشہ تھا بھارت مزید کارروائی کرسکتا ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ موجودہ صورت حال میں بہت متحرک رہے اور ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ کنٹرول لائن کی صورتحال بہتر ہورہی ہے اور پاک بھارت صورتحال پر امریکا ،چین اور برطانیہ سمیت اہم طاقتیں الرٹ ہیں۔
نہیں۔۔۔
مطلب اس قسم کی گیڈر بھپکیوں کی۔
ہم اس کی بکواس سن کر اس کا مذاق اڑاتے تھے۔ اب مودی کا اڑا رہے ہیں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
نواز شریف کاراستہ ہی بہتر راستہ نہیں تھا؟
تنویر قیصر شاہد پير 4 مارچ 2019
1576431-TanveerQaiserShahidNEW-1551671960-381-640x480.JPG


پاکستان نے بھارتی قیدی پائلٹ (ابھی نندن) کو زندہ سلامت واہگہ بارڈر پر بھارت کے حوالے کیا ہے جب کہ بھارت نے پاکستانی قیدی (شاکر اللہ) کی میت واہگہ بارڈر پر پاکستان کے حوالے کی ہے۔ وحشت و جنوں اورغیظ و غضب کے اِس ماحول میں محترمہ بینظیر بھٹو بھی یاد آ رہی ہیں اور میاں محمد نواز شریف بھی ۔ بھارت سے امن کے حوالے سے ترتیب دی گئیں ہمارے ان دونوں سابق وزرائے اعظم کی پالیسیاں بھی ذہن میں بازگشت بن کر گونج رہی ہیں ۔

محترمہ بینظیر بھٹو کو تو خیر سے ہم نے ’’سیکیورٹی رِسک‘‘ بھی کہہ ڈالا تھا، حالانکہ وہ توعالمی سطح پر ہمارا تعارف تھیں ۔نواز شریف کے دو ادوارِ حکومت میں دو بھارتی وزرائے اعظم (اٹل بہاری واجپائی اور نریندر مودی) خود چل کر لاہور آئے۔ یہ پاکستان کی سفارتی بالادستی تھی۔ ہمارے ہاں مگر نواز شریف کو مختلف النوع، نامناسب القابات سے نوازا گیا ۔ اس بیانئے کی گونج ابھی تک ہماری فضاؤں میں ہے ۔ نقصان مگرکس کا ہُوا؟

اور اب ہمارے وزیر اعظم جناب عمران خان قومی اسمبلی کے فلور پر ہمیں یہ کہتے ہُوئے سنائی دے رہے ہیں: ’’دو بار انڈین پرائم منسٹر کو فون کر چکا ہُوں مگر۔۔۔۔۔‘‘ کچھ عالمی طاقتیں مودی جی کو اس بات پر آمادہ کررہی ہیں کہ وہ مہربانی کرکے پاکستانی وزیر اعظم سے بات کریں ۔پاک بھارت کشیدگی کم کرنے کے لیے کئی عالمی سفارتی کاوشیں بھی بروئے کار ہیں۔مودی جی مگر راضی نہیں ہو رہے۔ اُن کے اپنے مقاصد اور اہداف ہیں۔ آج ہم بھارت سے کلام کرنا چاہتے ہیں، لیکن ایسی چاہت بھارت کی طرف نہیں ہے۔

بھارتی نخوت اور تکبر تو اِس انتہا پر ہے کہ اُس نے پاکستان کی طرف سے’’ بطورِ خیر سگالی‘‘ بھارتی پائلٹ قیدی واپس کیے جانے پر بھی شکریے میں ایک لفظ تک ادا نہیں کیا ۔لاریب بھارت نے پاکستان سے زیادتی بھی کی ہے ، ہمارے ملک پر حملہ بھی کیا ہے لیکن اِس فضائی خلاف ورزی اور زیادتی کے باوجود بدقسمتی سے عالمی برادری کا جھکاؤ بھارت کی طرف ہے ۔یہاں تک کہ عالمِ اسلام کی اپنی تنظیم ’’او آئی سی‘‘ نے بھی بھارت کے خلاف پاکستان کے احتجاج پر کان دھرنے سے صاف انکار کر دیا۔ یہ سانحہ ابھی تازہ تازہ یکم مارچ کو سامنے آیا ہے جب او آئی سی میں مسلم وزرائے خارجہ کی کانفرنس میں بھارتی وزیر خارجہ ، سشما سوراج ، کو دعوتِ خطاب دی گئی ۔

ہمارے وزیر خارجہ نے احتجاج کرتے ہُوئے کہا: اگر بھارتی وزیر خارجہ وہاں آئیں گی تو ہم نہیں آئیں گے ۔ او آئی سی کے ذمے داروں نے ہماری ناراضی کو کوئی اہمیت ہی نہیں دی اور اپنے عمل سے ثابت کیا : پاکستان نہیں آتا تو نہ آئے، ہم تو بھارتی وزیر خارجہ کا سواگت کریں گے۔البتہ اچھی خبر یہ ہے کہ اِسی او آئی سی کے اجلاس میں مقبوضہ کشمیر کے مظلومین کی حمائت اور ظالم بھارت کی مذمت کی گئی ہے۔

سوال یہ ہے کہ اگر نواز شریف کو امن چین سے حکومت کرنے دی جاتی تو کیا آج یہ مناظر ہمیں دیکھنا پڑتے؟ پنجابی زبان کا ایک محاورہ ہے: بزرگوں کی باتوں اور آملے کی لذت کا احساس وقت گزرنے کے بعد ہی ہوتا ہے ۔وقت گزراہے تو شدت سے احساس ستانے لگا ہے کہ میاںمحمد نواز شریف نے بطورِ وزیر اعظم پاکستان ، پائیدار امن کی خاطر، بھارت کی طرف دوستی کے لیے جو ہاتھ اور قدم بڑھائے اور اُٹھائے تھے، اگر اُن ہاتھوں اور قدموں کو مسلسل آگے بڑھنے دیا جاتا تو آج کشیدگی کے یہ دن بھی شائد ہمیں دیکھنا نہ پڑتے ۔ آج ہمیں قومی اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر بھارتی وزیر اعظم سے فون نہ سننے کا گلہ نہ کرنا پڑتا۔ بھارت سے عناد کی جگہ محبت اور دُوری کی جگہ قربت کا جو پیغام نواز شریف نے لاہور میںاین جی او کے ایک جلسے میں دیا تھا، آج اُس کی بازگشت اور یاد ہمیں سنائی دے رہی ہے۔ محض نواز شریف کی مخالفت میں،ہوا کے گھوڑے پر سوار ہم نے نواز شریف کے اس بیانئے کو مسترد کر دیا تھا۔

درست ہے کہ بھارت ہمارا دیرینہ اور ازلی دشمن ہے ۔ وہ ہمارے وجود اور نظرئیے کی تکذیب کرتا ہے ۔ اُس نے ہمارے ساتھ اور ہم نے اُس کے ساتھ کئی جنگیں لڑی ہیں ۔ وہ بھی جوہری طاقت ہے اور ہم بھی۔فائدے کا عالمی پلڑا مگر کس فریق کی جانب جھکا؟ انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ نے ہم دونوں میں سے کسے دل و جاں کے قریب جگہ دی ہے؟ محمد نواز شریف یہی توکہتے تھے کہ اِنہی حالات میں ہمیں بھارت سے معاملات طے کرتے ہُوئے آگے قدم بڑھانے ہیں ۔ بصورتِ دیگر ہم بند گلی میں پھنسے رہیں گے اور قافلہ آگے بڑھ جائے گا۔ اُن کی راہ میں مگر بار بار پہاڑ کھڑے کیے گئے ۔ بھارت کے ساتھ قیامِ امن کے لیے جس بیانئے کی اساس پر نواز شریف کو گردن زدنی قرار دیا جاتا تھا ، آج وہی بیانیہ خان صاحب کی حکومت کے لبوں پر ہے اور سبھی اتفاق و اتحاد میں سر ہلا رہے ہیں ۔

آج بھارت سے دوستی ، امن اور بھائی چارہ قائم کرنا ہمارا سب سے بڑا خواب اور قومی و سرکاری ایجنڈہ بن گیا ہے ۔سوال مگر یہ ہے کہ یہی بیانیہ اختیار کیے جانے پر نواز شریف کی مخالفت کیوں کی گئی ؟ وقت کا ضیاع کسے فائدہ پہنچا گیا؟آج ہم قومی سطح پر بھارت کی طرف بار بار دوستی اور شانتی کا ہاتھ بڑھا رہے ہیں تو بھارت یہ ہاتھ جھٹک رہا ہے ۔ رکن قومی اسمبلی اور سابق وزیرخارجہ ، خواجہ محمد آصف، نے بھی تاسف کے ساتھ کچھ یہی باتیںاسمبلی میں کہی ہیں ۔ یہ مبالغہ ہیں نہ محض نواز شریف کی تعریف ۔ پسِ دیوارِ زنداں پڑے نواز شریف نے بھارت کو انگیج کرنے کے لیے جو راستہ اختیار کیا تھا، وہی راستہ وطنِ عزیز کے لیے امن ، عدم تصادم اور استحکام کا راستہ تھا۔ اس راستے پر اب دھول اُڑ رہی ہے ۔ وسیع تر قومی مفاد میں نواز شریف اگر پیرول پر رہا کر دیے جائیں تو ممکن ہے یہ راستہ پھر سے آباد ہو سکے ۔

مستحسن امر یہ ہے کہ نواز شریف کی پارٹی نے پوری قوت کے ساتھ، پاکستان کو درپیش حالیہ بحران میں، وزیر اعظم عمران خان کا ساتھ نبھایا ہے ۔ خان صاحب کا رویہ اگرچہ نون لیگ اور اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے ساتھ مناسب نہیں ہے ۔اس کے باوجود مگر نون لیگ اور پیپلز پارٹی ایسی بڑی سیاسی جماعتوں نے حکومت کا ساتھ نبھایا ہے ۔ بھارتی یلغار کے مقابلے میں صرف وطنِ عزیز کی سلامتی اور عزت زیادہ مطلوب و مقصودہے ۔ حکومت کی مخالفت ہوگی تو ہمارے دشمن کو داؤ اور نقب لگانے کاموقع مل سکتا ہے ۔

شہباز شریف اور آصف زرداری بھی حکومتی زیادتیاں پسِ پشت ڈالتے ہُوئے حکومت کی دست گیری کرتے نظر آ رہے ہیں ۔ دونوں قومی رہنماؤں کا بڑے جذبوں کے ساتھ قومی اسمبلی میں خطاب ایک خوش کن اور اطمینان بخش منظر تھا۔ شہباز شریف نے دراصل اپنے قائد کے تتبع میں ہاتھ آگے بڑھایا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ دست گیری اور تعاون حکومت کے لیے نہیں بلکہ ملک کی محبت کی خاطر ہے ۔ افسوس کی بات ہے کہ نواز شریف، شہباز شریف، آصف زرداری ، بلاول بھٹو، اختر مینگل وغیرہ کی جانب سے قابلِ تحسین تعاون اور عملی اتحادی مظاہر کے باوجود حکومت اپنے اطوار میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکی ہے ۔

یہ اطوار قومی یکجہتی کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں ۔ مثال کے طور پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جب وزیر اعظم تشریف لائے تو انھوں نے قومی یکجہتی کی خاطر نہ تو حزبِ اختلاف کے ساتھ بیٹھنا پسند کیا اور نہ ہی اپوزیشن کے کسی رہنما سے مصافحہ ہی کیا۔ وہ قائدِ حزبِ اختلاف کے پاس گئے نہ آصف زرداری کو سلام کیا۔ اپوزیشن نے بجا طور پر خان صاحب کے اس اقدام پر نہائت مایوسی کا اظہار کیا ہے ۔ ا س سے قبل وہ حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کو سعودی ولی عہد کی آمد کے موقع پر وزیر اعظم ہاؤس میں دیے گئے ڈِنر پر مدعو نہ کرکے پہلے ہی ناراضیاں مول لے چکے ہیں ۔ پاکستان کے خلاف بھارتی زیادتیوں کے اس موقع پر تو عمران خان کو اپنے روئیے میں جوہری تبدیلی لانی چاہیے تھی۔ ایسا مگر نہیں ہو سکا ہے ۔ !!

کچھ زیادہ ہی یکطرفہ ہو گیا۔

آدھے سے زیادہ پڑھ لیا۔ لیکن اس کے بعد پڑھا بھی نہیں گیا۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
پاکستان کو فراہم کیے جانے والے جسد خاکی کے بارے میں ایک اور انسانیت کو شرمسار کر نے والی بات بھی سامنے آئی کہ اس جسد میں سے جسمانی اعضاء دل دماغ غائب تھے۔
 
Top