تین طلاقوں کا مسئلہ! کتاب وسنت کی روشنی میں
مولانا محمد رمضان سلفی
طلاق دینا پسندیدہ فعل نہیں ہے۔ اسلام نے انتہائی کٹھن حالات میں طلاق کی اجازت دی ہے جبکہ صلح اور باہمی اتفاق کی کوئی صورت باقی نہ رہ جائے۔ معمولی بات پر طلاق، طلاق کہہ دینا با عزت اور باوقار لوگوں کا شیوہ نہیں ہے۔ میاں، بیوی میں جدائی اور تفریق ہی وہ جرم ہے جو کہ شیطان کو باقی تمام جرائم سے بڑھ کر پسند ہے۔
صحیح مسلم میں حضرت جابر بن عبداللہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ
’’ابلیس سمندر کے پانی پر اپنا تخت بچھاتا ہے اور لوگوں میں فساد اور بگاڑ ڈالنے کے لئے اپنے چیلوں کو بھیجتا ہے اور سب سے بڑے فتنہ باز کو شیطان کا سب سے بڑھ کر قرب حاصل ہوتا ہے اور ان میں ہر ایک آکر اپنی رپورٹ پیش کرتا ہے کہ میں نے فلاں جرم کروا دیا اور دوسرا کہتا ہے کہ میں نے فلاں شخص سے فلاں گناہ کروایا۔ شیطان کہتا ہے کہ تم نے کچھ بھی نہیں کیا، لیکن جو چیلا کہتا ہے کہ میں نے فلاں آدمی اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی ڈال دی اور اُن دونوں کے ازدواجی تعلق کو توڑ دیا، تو اس پر ابلیس اسے اپنے قریب کرتے ہوئے اس سے بغل گیر ہوجاتا ہے اور کہتا ہے : ’’تو نے بہت خوب کام کیا۔‘‘ (صحیح مسلم : ج۲؍ ص۳۷۶)
Click to expand...
اسلام نے کلی طور پر طلاق کے دروازے کو بند بھی نہیں کیا بلکہ انتہائی ناگزیر حالات میں اس کی اجازت دی ہے اور اس کیلئے طریق کار کا تعین بھی صحیح کردیا ہے۔
طلاق دینے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ عورت جب حیض سے فارغ ہو تو اسے طہر کی حالت میں بغیر مقاربت کئے ایک طلاق دی جائے، اور پوری عدت گزرنے دی جائے۔ عدت پوری ہونے پر عورت ، مرد سے جدا ہوجائے گی۔ اس کے بعد مرد اور عورت رضامند ہوں تو دوبارہ نکاح کی گنجائش موجود رہتی ہے۔
دوسری طرف شریعت ِمطہرہ نے ایک مجلس میں اکٹھی تین طلاقیں داغ دینے کی حوصلہ شکنی کی ہے اور اسے انتہائی قبیح فعل قرار دیا ہے۔ رسول اللہﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں ایک شخص نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دے دیں۔ رسولِ کریمﷺکو پتہ چلا تو آپﷺ غصے کی حالت میں کھڑے ہوگئے اور فرمایا:
’’کیا میری موجودگی میں اللہ تعالیٰ کی کتاب سے کھیلا جارہاہے؟‘‘ یہ سن کر ایک آدمی نے کہا: ’’اے اللہ کے رسولؐ ،کیا میں اسے قتل نہ کردوں؟‘‘ (سنن نسائی :۲؍۴۶۸)
اس شدید ڈانٹ کے باوجود طلاقِ ثلاثہ کا مسئلہ اختلافی بنا دیا گیا ہے، ایک گروہ کی رائے یہ ہے کہ اگر کوئی شخص یک بارگی تین طلاقیں دے دے تو تینوں ہی واقع ہوجائیں گی۔ یہ گروہ مقلدین حضرات کا ہے، اگرچہ اس گروہ کے وسیع النظر علماء اس رائے سے اختلاف رکھتے ہیں۔
دوسرے گروہ کے نزدیک ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی ہے، اس رائے کے حاملین اہل حدیث اور ظاہریہ ہیں۔ امام طحاوی، امام رازی، امام ابن تیمیہ، امام ابن قیم، علامہ ابن حجر، علامہ عینی، علامہ طحطاوی، امام شوکانی، عبدالحی لکھنوی اور نواب صدیق حسن خان رحمہم اللہ بھی اسی رائے کو اختیار کرتے ہیں۔
٭ امام طحاویؒ فرماتے ہیں:
’’ذھب قوم إلی أن الرجل إذا طلق امرأتہ ثلاثا معا فقد وقعت علیہا واحدة‘‘ (معانی الآثار:ج۲؍ص۳۱)
’’ایک قوم اس طرف گئی ہے کہ اگر اکٹھی تین طلاقیں دی جائیں تو ایک ہی واقع ہوتی ہے۔ ‘‘
٭ امام رازیؒ فرماتے ہیں:
’’ھذا اختیار کثیر من علماء الدین أنہ لو طلقھا اثنین أو ثلثا لا یقع إلا واحدة‘‘ (تفسیر کبیر: ج۶ ؍ص۹۶)
یعنی ’’بہت سے علماے دین کاپسندیدہ مسلک یہ ہے کہ جو شخص بیک وقت دو یا تین طلاقیں دے دے تو اس سے صرف ایک طلاق واقع ہوتی ہے۔ ‘‘
٭ امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:
’’اگر کوئی شخص طہر میں ایک کلمہ یا تین کلمات کے ساتھ طلاق دے دے تو جمہورعلما کے نزدیک یہ فعل حرام ہے لیکن ان کے واقع ہونے میں اختلاف ہے۔
ایک قول یہ ہے کہ تین واقع ہوں گی اور
ایک قول یہ ہے کہ ایک ہی طلاق واقع ہوگی اور
یہی وہ قول ہے جس پر کتاب و سنت دلالت کرتے ہیں۔ (مجموع الفتاویٰ: ج۳۳؍ ص۹)
٭ امام ابن قیمؒ نے تین طلاقوں کو ایک قرار دینے والوں کی یہ فہرست پیش فرمائی ہے:
صحابہؓ میں سے عبدالرحمن بن عوفؓ، زبیر بن عوامؓ اور ابوموسیٰ اشعریؓ جبکہ عبداللہ بن عباسؓ، حضرت علیؓ اور عبد اللہ بن مسعودؓ سے دونوں طرح کے اقوال منقول ہیں۔
اس کے بعد عکرمہ، طاؤس، محمد بن اسحق، خلاص بن عمرو، حارث عکلی، داؤد بن علی رحمہم اللہ، بعض مالکی اور بعض حنفی جیسے محمد بن مقاتلؒ اور بعض حنابلہ۔ (أعلام الموقعین مترجم: ص۸۰۳)
اس بارے میں امام ابوحنیفہؒ کا مذہب کیاہے؟ امام ابن قیمؒ فرماتے ہیں کہ اس کے متعلق ان سے دو روایتیں منقول ہیں:
ایک تو وہی جو مشہور ہے اور دوسری یہ کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک طلاقِ رجعی ہوتی ہے جیسا کہ محمد بن مقاتل نے امام ابوحنیفہؒ سے نقل کیا ہے۔ (إغاثۃ اللہفان:ج۱؍ ص۲۹۰)
٭ حافظ ابن حجرؒ نے فتح الباري میں تین طلاقوں کو ایک قرار دینے والوں کی جو فہرست دی ہے، وہ حسب ِذیل ہے:
حضرت علیؓ، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، عبدالرحمن بن عوفؓ، حضرت زبیرؓ اور غنویؒ نے اسی مسلک کو قرطبہ کے مشائخ کے ایک گروہ، مثلاً محمد بن تقی بن مخلد او رمحمد بن عبدالسلام خشنی وغیرہ سے نقل کیا ہے اور ابن منذرؒ نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے اصحاب، مثلاً عطا، طاؤس اور عمرو بن دینار سے نقل کیا ہے۔(فتح الباری: ج۹ ؍ص۳۶۳)
٭ امام شوکانیؒ فرماتے ہیں کہ ’’اہل علم کا ایک گروہ اس طرف گیا ہے کہ طلاق طلاق کے پیچھے واقع نہیں ہوتی بلکہ صرف ایک ہی طلاق واقع ہوگی۔‘‘ (نیل الاوطار: ج۴ ؍ص۳۵۵)
٭ نواب صدیق حسن خاں فرماتے ہیں:
’’اور یہ مذہب (تین طلاقوں کو ایک قرار دینے کا) ابن عباسؓ، ابن اسحق، عطا ، عکرمہ اور اکثر اہل بیت کا ہے۔ اور تمام اقوال میں یہی سب سے زیادہ صحیح ہے۔‘‘ (الروضۃ الندیۃ:ج۲؍ ص۵۰)
٭ علامہ عینی حنفی ؒ نے عمدۃ القاري میں کہا ہے کہ
طاؤسؒ، ابن اسحق ؒ، حجاج بن ارطاۃؒ، ابراہیم نخعیؒ وغیرہ، ابن مقاتل اور ظاہریہ اسی کے قائل ہیں کہ اگر شوہر اپنی بیوی کو تین طلاقیں اکٹھی دے دے تو ایک ہی واقع ہوگی۔ (عمدۃ القاری:ج۱۰؍ ص۲۳۳)
٭ امام طحطاوی حنفیؒ درّمختار کے حاشیہ پر لکھتے ہیں:
’’ دورِ اوّل میں جب کوئی شخص اکٹھی تین طلاقیں دیتا تو اس کے ایک ہونے کا فیصلہ دیا جاتا تھا۔ جب حضرت عمرؓ کا دور آیا تو لوگ چونکہ کثرت سے تین طلاقیں اکٹھی دینے لگ گئے تھے، لہٰذا آپؓ نے تینوں کے واقع ہونے کا فیصلہ کردیا۔‘‘ (درّ مختار: ج۲؍ ص۱۰۵)
٭ علامہ عبدالحی حنفی لکھنویؒ فرماتے ہیں:
’’دوسرا قول یہ ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو اگر تین طلاقیں دے دے تو وہ ایک ہی پڑے گی اوریہ قول بعض صحابہؓ سے بھی منقول ہے۔ داؤد ظاہری اور ان کے پیروکار اسی کے قائل ہیں، امام مالکؒ کا ایک قول بھی یہی ہے، امام احمدؒ کے بعض اصحاب کا بھی یہی مذہب ہے۔‘‘ (عمدۃ الرعایہ: ج۲ ؍ص۷۱)
٭ اوپر ان علما کے اقوال کا تذکرہ کیا گیا ہے جنہوں نے خود اور سلف صالحین میں تین طلاقوں کو ایک طلاق قرار دینے کے موقف کا تذکرہ کیا ہے۔ علما کی اس فہرست سے ان لوگوں کے دعوے کا پھسپھساپن ظاہر ہوجاتا ہے جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ
’’تین طلاقیں اکٹھی دی جائیں یا دو، ان کا شرعاً اعتبار کیا جائے گا اور دو کو دو اور تین کو تین ہی سمجھا جائے گا، تقریباً سو فیصد صحابہ کرامؓ، اکثر تابعینؒ، ائمہ اربعہؒ اور جمہور سلف ؒو خلفؒ اسی کے قائل ہیں اور ظاہر قرآن کریم اور صحیح و صریح احادیث بھی یہی بتلاتی ہیں اور یہی حق و صواب ہے لہٰذا جن بعض حضرات کے اقوال اور فتوے اس مسئلے میں جمہور کے اِجماع کے خلاف نقل کئے جاتے ہیں ان کی کوئی وقعت نہیں اور وہ سب کے سب شاذ ہیں جو قابل عمل نہیں۔‘‘ (ماہنامہ ’الشریعہ‘:ص۳۳، جولائی ۲۰۰۶ئ)
اس عبارت میں حسب ِذیل چار دعوے کئے گئے ہیں:
1۔سو فیصدی صحابہ کرامؓ اور اکثر تابعینؒ تین طلاقوں کو تین ہی شمار کرتے ہیں۔
2۔ جن حضرات کے اقوال ان کے خلاف نقل کئے جاتے ہیں، وہ شاذ اور ناقابل عمل ہیں۔
3۔ظاہر قرآن اور صحیح احادیث بھی تین طلاقوں کے تین ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔
4۔تین طلاقوں کو ایک قرار دینے والوں کے اقوال اور فتوے جمہور کے اجماع کے خلاف ہیں۔
یہ دعویٰ کہ سو فیصدی صحابہ کرامؓ اور اکثر تابعینؒ تین طلاقوں کو تین ہی شمار کرتے ہیں، تو یہ سوچ سراسر تقلیدی غلو کی پیداوار ہے، ورنہ جو حضرات تین طلاقوں کو ایک ہی قرار دیتے ہیں وہ تعداد میں کم نہیں ہیں۔ ان حضرات کی فہرست جن علما کے پیش نظر رہی، اُنہوں نے کبھی ایسا غیرمنصفانہ فیصلہ نہیں کیا جو ’الشریعہ‘ کے مضمون نگار نے کیا ہے، بلکہ جو لوگ تین طلاقوں کو ایک قرار دیتے ہیں، وہ اگر یہ دعویٰ کریں کہ سو فیصدی صحابہ کرامؓ بھی اسی موقف کے حامل تھے تو یہ بے جا نہ ہوگا جیسا کہ عنقریب اسے ثابت کیا جائے گا۔
رہا دوسرا دعویٰ کہ تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق بنانے والوں کامذہب شاذ اور منکر ہے تو یہ بھی جذباتی فیصلہ ہے جو حقیقت سے عاری ہے۔ کتاب وسنت کے دلائل سے ثابت شدہ مسئلے کو شاذ یا منکر نہیں کہناچاہئے اور اس سلسلہ میں عجلت سے کام نہیں لینا چاہئے بلکہ مسئلہ زیر بحث میں شاذ یا منکر کا استعمال ہی بے جا اوربے محل ہے، کیونکہ شاذ سے مراد یہ ہے کہ راوی خود تو ثقہ ہو لیکن وہ اپنے سے اَوثق یا اکثر راوۃ کی اس طرح مخالفت کرے کہ ان میں سے ایک کا صدق دوسرے کے کذب کو مستلزم ہو۔
زیر نظر مسئلہ میں شاذ کا اطلاق تب صحیح ہوسکتا ہے جب یہ کہا جائے کہ
تین طلاقیں دینے والے کی ایک طلاق بھی واقع نہیں ہوگی بلکہ اس کا یہ قول رائیگاں جائے گا۔ کیونکہ یہ رائے کلی طور پر دوسری رائے کے خلاف ہے جس میں تین طلاقوں کو تین ہی بنایا جاتا ہے۔ لیکن جب یہ کہا جائے کہ تین طلاق دینے سے ایک طلاق واقع ہوگی تو یہ ایک مستقل رائے ہے جو کلی طور پر تین طلاقوں کو تین بنانے کے خلاف نہیں ہے، لہٰذا اس پر شاذ کا اطلاق سرے سے درست ہی نہیں ہے۔
امام ابن قیمؒ فرماتے ہیں:
’’لیس ہذا ھو الشاذ وإنما الشذوذ أن یخالف الثقات فیما رووہ فیشذّ عنھم بروایتہ فأما إذا روی الثقة حدیثا منفردا بہ لم یرو الثقات خلافہ فإن ذلک لا یسمی شاذا‘‘ (إغاثة اللھفان: ج۱؍ ص۲۹۶)
’’یہ حدیث شاذ نہیں ہوسکتی کیونکہ شذوذ تو اسے کہتے ہیں کہ ثقہ راوی دیگر ثقہ راویوں کے خلاف روایت کرے لیکن جب ثقہ راوی ان سے الگ مستقل حدیث روایت کرے جسے ثقات نے روایت ہی نہ کیا ہو تو اس کا نام شاذ نہیں رکھا جاسکتا۔‘‘
یہی حال منکر کا ہے کیونکہ منکر سے مراد یہ ہے کہ ضعیف راوی ثقہ راویوں کے خلاف روایت کرے اور یہاں مخالفت کی کوئی بات ہی نہیں ہے۔ لہٰذا مضمون نگار کا تین طلاقوں کو ایک قرار دینے والوں کے مذہب پر شاذ یامنکر کا اطلاق غیر سوچی سمجھی رائے ہے جس کی کوئی وقعت نہیں۔
رہا یہ کہنا کہ ظاہر قرآن کریم اور صریح و صحیح احادیث بھی تین طلاق کے تین واقع ہونے پر دلالت کرتے ہیں تو یہ دعویٰ بھی حقیقت اور نفس الامر کے خلاف ہے۔
کیونکہ قرآنِ کریم اور صحیح و صریح احادیث بھی تین طلاقوں کو تین قرار دینے کی نفی کرتے ہیں بلکہ اس کے برعکس یکبار دی ہوئی تین طلاقوں کو ایک شمار کرنے پر دلالت کرتے ہیں،جیسا کہ درج ذیل آیت ِکریمہ اور احادیث ِصحیحہ سے واضح ہے :
دلائل قرآنِ کریم
قرآنِ کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ اَلطَّلاقُ مَرَّتَانِ َفاِمْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌ بِاِحْسَانٍ ‘‘ (البقرۃ :۲۲۹)
’’یہ طلاقیں دو مرتبہ ہیں پھر یا تو اچھائی سے روک لینا ہے یا عمدگی سے چھوڑ دینا ہے۔‘‘
یعنی وہ طلاق جس میں خاوند کو عدت کے اندر رجوع کا حق حاصل ہے، وہ دو مرتبہ ہے۔ پہلی مرتبہ طلاق دینے کے بعد رجوع ہوسکتا ہے اور دوسری مرتبہ طلاق دینے کے بعد بھی رجوع کی گنجائش ہے۔ یہ نہیں فرمایا کہ طلاق دو عدد ہیں کہ ایک آدمی یکبار متعدد طلاقیں دے دے۔ بلکہ مرّتان سے واضح کردیا گیا ہے کہ دو طلاقیں الگ الگ دو بار دی جائیں گی۔ اسی لئے آگے چل کر فرمایا:
’’ فَإِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَہُ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ ‘‘
’’یعنی دو دفعہ طلاق دینے کے بعد تیسری مرتبہ اگر پھر طلاق دے دے تو وہ اس کے لئے حلال نہیں،یہاں تک کہ وہ کسی اور سے(شرعی) نکاح کرے۔‘‘
اس میں اس بات کی صراحت ہے کہ تینوں طلاقیں قرآن کی رو سے الگ الگ دی جائیں گی۔
فإن طلقھا کی " ف"سے کسی کو غلط فہمی نہیں ہونا چاہئے کہ اس میں" ف" تعقیب کے لئے ہے جو فی الفور طلاق دینے پر دلالت کرتی ہے کیونکہ یہاں" ف" صرف ترتیب کے لئے ہے۔ اگر" ف" کویہاں تعقیب بلامہلت یعنی تیسری طلاق فی الفور دینے کے لئے سمجھ لیاجائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ قرآنِ کریم تین طلاقیں اکٹھی دینے کا حکم بیان کررہا ہے کہ جو شخص تینوں طلاقیں اکٹھی داغ دے تو وہ تینوں شمار ہوجائیں گی اور وہ عورت اس مرد پر حرام ہوجائے گی اور اسے تحلیل کی ضرورت ہوگی۔ حالانکہ تین طلاقیں اکٹھی دے ڈالنا احناف کے نزدیک بھی بدعت ہے تو کیا قرآنِ کریم بدعات کو جواز فراہم کرنے کے لئے نازل ہوا ہے؟ اور اگر اس آیت ِکریمہ میں" ف" کو تعقیب ِبلا مہلت کے لئے مان لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ قرآن کریم یکبارگی تین طلاقوں کے تین ہونے کا حکم بیان کررہا ہے اور اس کے برعکس اگر کوئی شخص تین طلاقیں وقفہ وقفہ سے تین مہینوں میں دے تو اس کا حکم قرآنِ کریم میں ذکر نہ ہوا کیونکہ" ف" کو تعقیب ِبلامہلت کے لئے مان لیا گیا ہے اور اس طرح تین مہینوں میں تین طلاقیں دینے والے کی طلاق بتۃ نہ سمجھی جائے اور نہ ہی اسے تحلیل کی ضرورت ہو۔ گویا" ف"کو تعقیبیہ ماننے والوں کے نزدیک طلاق کا جو حَسَن طریقہ ہے، اسے قرآن نے نظر انداز کردیا اور جو طریقہ طلاق بدعت کا ہے، اسے قرآن کریم نے جائز قرار دے دیا۔ (تعالیٰ اﷲ عن ذلک)
Click to expand...
یہ بھی یاد رہے کہ تین طلاقیں تین طہروں یا تین مہینوں میں دینے سے بھی" ف" تعقیب کے لئے ہوسکتی ہے کیونکہ ایک طہر میں ایک طلاق دینے کے بعد وہ طلاق معدوم نہیں ہوجاتی بلکہ اس کا اثر اگلے طہر تک جاری رہتا ہے تو دوسرے طہر میں دی جانے والی طلاق بھی پہلی طلاق کے پیچھے ہی واقع ہوگی۔ اسی طرح دوسرے طہر میں دی جانے والی طلاق بھی معدوم نہیں ہوجائے گی بلکہ اس کا اثر تیسرے طہر تک جاری رہے گا اور تیسرے طہر میں دی جانے والی طلاق دوسرے طہر میں دی جانے والی طلاق کے پیچھے ہی واقع ہوگی۔ اس طرح طلاق حَسَن طریقہ کے مطابق دی جائے گی اور" ف" کی تعقیب بھی باقی رہے گی۔ لہٰذا قرآنِ کریم کے الفاظ سے طلاق کا وہی طریقہ مراد لینا چاہئے جو جائز ہے۔ طلاقِ بدعت کو قرآن کریم کے الفاظ میں لپیٹ کر رائج کرنے سے بہرحال گریز کرنا چاہئے۔ اسی میں انسان کی عاقبت کی عافیت بھی ہے اور اس کے مذہب کی خیربھی۔ کیونکہ مذہب ِحنفی میں بھی یکبارگی تین طلاقیں دینے کو بدعت کہا گیا ہے۔ (الہدایۃ:۲؍۳۳۵، المطبع المجتبائي ،دہلی طبع ۱۳۷۵ھ)
دلائل احادیث ِمبارکہ
1۔حضرت عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ ’’رسولِ اکرمﷺ اور حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں اور حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں جب کوئی شخص اکٹھی تین طلاقیں دیتا تو وہ ایک ہی شمار کی جاتی تھیں۔ پھر حضرت عمرؓ نے کہا کہ لوگوں نے اس کام میں جلدی کرنا شروع کردی جس میں اُنہیں مہلت ملی تھی۔ تو اس کو ہم نافذ کردیں تو مناسب ہے۔ پھر اُنہوں نے اسے جاری کردیا۔( صحیح مسلم: ج۱؍ ص۴۷۷) (زیر نظر بحث اور مذکورہ حدیث کی تفصیل کےلیے دیکھیئے:تطلیقات ثلاثہ از مولانا عبدالرحمن کیلانی ؒ )
2۔ابوالصہباء نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے کہا: کیا آپ جانتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے زمانہ میں اور حضرت ابوبکرؓ کی خلافت ،حضرت عمرؓ کی خلافت میں بھی تین سال تک تین طلاقوں کو ایک بنایا جاتا تھا؟ تو عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا: ہاں۔( مسلم:ج۱ ؍ص۴۷۸)
3۔ابوالصہباء نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے کہا: ایک مسئلہ تو بتائیے کیا رسول اللہﷺ اور حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں تین طلاقیں ایک ہی شمار نہ ہوتی تھیں؟ حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے کہا: ہاں ایساہی تھا۔ پھر جب حضرت عمرؓ کا زمانہ آیا تو لوگ اکٹھی طلاقیں دینے لگے تو حضرت عمرؓ نے اُنہیں لوگوں پر نافذ کردیا۔‘‘ (صحیح مسلم : ج۱؍ ص۴۷۸)
یہ احادیث جو مفہوم کے اعتبار سے ایک جیسی ہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل امور پر روشنی پڑتی ہے
۱۔دورِ نبویؐ، دورِ صدیقیؓ اور فاروقی ؓدور کے ابتدائی دو یا تین سال تک بھی ایسے واقعات ملتے ہیں جن میں اکٹھی تین طلاقیں دی جاتی تھیں۔
ب۔تین طلاقیں اکٹھی دینے کاطریقہ چونکہ کتاب و سنت کے خلاف تھا، اس لئے اس پر لوگوں کو زجرو توبیخ کی جاتی تھی، تاہم تین طلاقوں کو ایک ہی قرار دیا جاتا تھا۔
ج۔حضرت عمرؓ کے یہ الفاظ ’’فلو أمضیناہ علیھم‘‘ اس بات پر واضح دلیل ہیں کہ آپ کا یہ فیصلہ ذاتی تھاجو تعزیر و تادیب کے لئے تھا تاکہ لوگ اس بری عادت سے باز آجائیں۔
Click to expand...
4۔حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ رکانہ بن عبد ِیزید نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دیں۔ پھر اس پر سخت پریشان ہوئے تو رسول اللہﷺ نے اس سے دریافت فرمایا کہ تو نے طلاق کس طرح دی ہے؟ اُس نے کہا: میں نے تینوںطلاقیں دے دے دی ہیں۔ آپؐ نے پوچھا: کیاایک ہی مجلس میں دی ہیں؟ اس نے کہا: ہاں( ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دی ہیں) آپؐ نے فرمایا: یہ توایک ہی طلاق ہوئی ہے۔ تو چاہے تو اس سے رجوع کرلے۔ اس نے کہا: میں نے رجوع کیا۔ (مسند احمد: ج۳ ؍ص۹۱)
اس حدیث سے یہ بات واضح ہوگئی کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک رجعی طلاق شمار ہوگی۔
کیا اکٹھی تین طلاقوں کو ایک قرار دینا اجماع کے خلاف ہے؟
رہا یہ دعویٰ کہ تین طلاقوں کو ایک قرار دینے والوں کا قول اجماع کے خلاف ہے تو یہ دعویٰ بھی خلاف ِحقیقت اور کئی اعتبار سے غلط ہے :
اوّلاً… اجماع کی تعریف اُصولِ فقہ کی کتابوں میں یہ کی گئی ہے:
’’ھو اتفاق المجتھدین من الأمۃ الإسلامیۃ في عصر من العصور علی حکم شرعي بعد وفاۃ النبي! (الوجیز في أصول الفقہ: ص۲۲۲)
یعنی ’’نبی کریمﷺ کی وفات کے بعد کسی دور میں امت ِ مسلمہ کے تمام مجتہدین کا کسی شرعی حکم پر متفق ہونا ’اجماع‘ کہلاتا ہے۔‘‘
’اجماع‘کی اس تعریف کے پیش نظر طلاقِ ثلاثہ کے تین واقع ہونے پر اجماع کا دعویٰ ہرگز نہیں کیاجاسکتا، کیونکہ بہت سے اہل علم نے اس سے اختلاف کیا ہے جن کی فہرست اس سے قبل دے دی گئی ہے جبکہ صرف ایک مجتہد کے اختلاف کرنے سے بھی اجماع ثابت نہیں ہوسکتا، تو اتنی کثیر تعداد کے اختلاف کی صورت میں اجماع کا دعویٰ کیسے کیا جاسکتا ہے؟
ثانیاً: امام ابن قیمؒ نے ذکر کیا ہے کہ طلاقِ ثلاثہ سے متعلق چار مذاہب پائے جاتے ہیں :
1۔یہ کہ تین طلاقیں دینے سے تینوں واقع ہوجاتی ہیں، اس گروہ میں اکثریت مقلدین کی ہے، جبکہ مقلدین میں سے بھی بعض وسیع النظر علما نے اس سے اختلاف کیا ہے۔
2۔یہ کہ تین طلاقیں دینے سے ایک بھی واقع نہیں ہوتی، ان کے نزدیک اکٹھی تین طلاقیں دے دینا بدعت ہے اور بدعت مردود ہوتی ہے اور یہ قول رافضہ کا ہے۔
3۔یہ کہ تین طلاقیں دینا بدعت ہے لہٰذا اس بدعت کو سنت کی طرف لوٹایا جائے گا اور سنت یہ ہے کہ ایک وقت میں ایک ہی طلاقِ رجعی دی جائے کیونکہ خاوند ایک وقت میں صر ف ایک ہی طلاق کا مالک ہوتاہے۔ اگر وہ تین طلاقیں یکبار دے گا تو اس سے ایک طلاقِ رجعی واقع ہوگی، یہ مذہب اہل حدیث اور اہل ظاہر کا ہے اور امام ابن قیمؒ اورامام ابن تیمیہؒ جیسے بلند پایہ علما بھی اسی کے قائل ہیں۔
4۔یہ کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں مدخولہ عورت کے لئے تین اور غیر مدخولہ کے لئے ایک شمار ہوگی۔ اس کے قائل اسحق بن راہویہ وغیرہ ہیں۔‘‘ (زادالمعاد: ج۴؍ ص۵۴)
Click to expand...
اندازہ فرمائیے زیر بحث مسئلہ میں چار مختلف مذاہب کے پائے جانے کے باوجود اجماع کا دعویٰ کیسے کیا جاسکتا ہے؟
ثالثاً : تین طلاقوں کے تین شمار ہونے پر اجماع کا دعویٰ تو بالکل خلافِ حقیقت ہے ، لیکن اس کے برعکس تین طلاقوں کو ایک طلاق شمار کرنے والے حضرات کا اپنے موقف پر اجماع کا دعویٰ کرنا بالکل برمحل اور برحق ہے، کیونکہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی مذکور حدیث کے مطابق رسول اللہﷺ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دورِ خلافت میں اور حضرت عمرؓ کی خلافت کے ابتدائی دو یا تین سال تک تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھیں۔ مسلم شریف کی اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ۱۵ہجری تک صحابہ کرامؓ میں ایک صحابیؓ بھی ایسا نہ تھا جس نے اس مسئلہ میں اختلاف کیا ہو، تمام صحابہ کرامؓ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک رجعی طلاق شمار کرتے تھے۔ اس لئے طلاقِ ثلاثہ کو ایک طلاق قراردینے والے اپنے اس موقف پر اجماع کا دعویٰ کرنے میں حق بجانب ہیں۔
علامہ ابن قیمؒ فرماتے ہیں:
’’فنحن أحق بدعوی الإجماع منکم لأنہ لایعرف في عھد الصدیق أحد ردّ ذلک ولا خالفہ فإن کان إجماع فھومن جانبنا أظھر ممن یدعیہ من نصف خلافۃ عمر وھلمّ جرا فإنہ لم یزل الاختلاف فیھا قائما‘‘ (إغاثۃ اللھفان:۱؍۲۸۹)
’’ طلاق ثلاثہ کو ایک بنانے والے حضرات تین بنانے والوں سے بڑھ کر اجماع کا دعویٰ کرنے کا حق رکھتے ہیں او ر ہمارے موقف پر اجماع کا پایا جانا زیادہ واضح ہے، جبکہ حضرت عمرؓ کے نصف دور میں تین طلاقوں کو تین قرار دینے سے لے کر اب تک اس مسئلہ میں اختلاف چلا آرہا ہے۔‘‘
رابعاً … اجماع کا دعویٰ کرنے والوں کا انحصار اس بات پر ہے کہ جب سے حضرت عمرؓ نے تین طلاقوں کو تین قرار دینے کا حکم دیاہے، تب سے اس پر اتفاق ہوگیا ہے۔ لہٰذا اس کی مخالفت جائز نہیں ہے۔
جبکہ صورتِ حال یہ ہے کہ خود حضرت عمرؓ نے اپنے اس فیصلے کو ترک کردیاتھا اور ایک مجلس میں تین طلاق کے وقوع کا جو حکم انہوں نے جاری کیا تھا، اس سے رجوع فرما لیا اور اس پر ندامت کا اظہار کیاتھا،
جیسا کہ امام ابن قیمؒ إغاثۃ اللھفان میں فرماتے ہیں:
’’قال الحافظ أبوبکر الإسماعیلي في مسند عمر أخبرنا أبو یعلی حدثنا صالح بن مالک حدثنا خالد بن یزید بن أبي مالک عن أبیہ قال قال عمر بن الخطاب: ما ندمت علی شیئ ندامتی علی ثلاث أن لا أکون حرمت الطلاق وعلی أن لا أکون أنکحت الموالي وعلی أن لا أکون قتلت النوائح‘‘ (إغاثۃ اللھفان: ج۱؍ ص۳۳۶)
’’حضرت عمرؓ نے فرمایا جو ندامت مجھے تین کاموں پر ہوئی ہے وہ کسی او رکام پر نہیں ہوئی: ایک یہ کہ میں تین طلاقوں کو طلاقِ تحریم نہ بناتا، دوسرا یہ کہ غلاموں کو نکاح کرنے کا حکم صادر نہ کرتا، اور تیسرا یہ کہ نوحہ کرنے والیوںکو قتل کرنے کا حکم نہ دیتا۔‘‘
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ نے جو تین طلاقوں کے تین ہونے کا حکم دیا تھا، وہ شرعی حکم نہ تھا بلکہ تعزیری اور وقتی آرڈیننس تھا، جو یکبار تین طلاقیں دینے والوں کے لئے سزا کے طور پر نافذ کیا تھا۔ جب دیکھا کہ اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ لوگوں کا یکبارگی طلاقیں دینے کا فساد اوربڑھا ہے تو آپؓ نے اس ذاتی فیصلے سے رجوع فرما لیا، اور اس پر ندامت کا اظہار بھی کیا۔ تو دیکھئے جب حضرت عمرؓ ہی اپنے اس فیصلے پر ندامت کااظہار فرماچکے ہیں تو اب اسے بنیاد بنا کر اجماع کا دعویٰ کیسے کیاجاسکتا ہے؟
بعض لوگوں نے مسند ِعمرؓ کے اس اثر پر یہ اعتراض کیاہے کہ اس کی سند میں خالد بن یزید بن ابی مالک راوی ضعیف ہے، اس لئے یہ ناقابل اعتبار ہے۔
اگرچہ بعض علما نے اس راوی پر جرح کی ہے لیکن کبارائمہ مثلاً ولیدبن مسلم، عبداللہ بن مبارک، سلیمان بن عبدالرحمن، ہشام بن عمار، ہشام بن خالد، سوید بن سعید، ابوزرعہ اور ابن صالح وغیرہ نے اس راوی کو ثقہ اور قابل اعتماد قرار دیا ہے۔ ابن حبانؒ نے اسے فقہاے شام میں شمار کیا ہے او ریہ بھی کہاہے کہ یہ صدوق في الروایۃ ہے۔ عجلی نے بھی اسے ثقہ کہا ہے۔(تہذیب التہذیب: ج۳ ص۱۲۶)
تین طلاقوں کا مسئلہ! کتاب وسنت کی روشنی میں