جناب ربیع-م صاحب،، میں نے آپ کے سب مراسلے دوبارہ پڑھےاوار ان مراسلات سے درج ذیل نکات اخذ کئے
1۔ شادی میں مہر کی مقدار 50 ہو یا جو بھی ، مرد کم سے کم رقم مقرر کرسکتا ہے ، اگر عورت چاہے تو یہ قبول کرلے ورنہ دروازہ ادھر ہے۔
2۔ شادی یا نکاحموقت یعنی عارضی نکاح ایک رات کا بھی ہو سکتا ہے۔
2۔ ناچاقی کی صورت میں عورت کو ضرورت ہے کہ وہ قانونی کاروائی کرکے 'چھوڑ سکے' لیکن مرد تین طلاق کی توپ چلا کر نکال باہر کرسکتا ہے۔
3۔ مہر کی ادائیگی معجل (فوری ) ہو یا غیر معجل (بعد میں) ، مرد کی مرضی پر ہے کہ جب چاہے ادا کرے۔ اور طلاق کی صورت میں یہی مہر کی رقم ، بچوں کو ماں کو دینے کی مد مین بلیک میل کے لئے استعمال ہو سکتی ہے
4۔ طلاق یافتہ عورت کا کسی قسم کے 'مال و متاع' پر بہت ہی تھوڑاسا حق ہے۔ تین طلاق دی، مہر ادا کیا اور تھوڑا سا ساز و سامان دیا یا نا دیا۔ عورت کو نکال باہر کیا۔
سرکار ، آپ کا کوئی قصور نہیں ہے۔ اس لئے کہ ملاء یہی پاٹ زمانے سے پڑھا رہے ہیں کہ شاہزادیوں کو بھی شب زادیوں کے برابر رکھا جائے۔
ایک شاہزادی اور ایک شب زادی میں کیا فرق رہ گیا؟؟ 50 روپے مہر کے طے کئے ، ایک رات کا نکاح کیا، اور بغیر کسی ذمہ داری کے اگلے دن نکال باہر کیا۔ ملاء شادی کو نہیں طوائف بازی کو فوغ دے رہے ہیں۔ ان کے نظریات، قرآن کے خلاف اور صرف اور صرف شب زادیوں کے فروٍغ کے لئے ہیں نا کہ شاہزادیوں کو گھر بنانے کا موقع دینے کے لئے۔
والسلام