بھارتی کابینہ نے بیک وقت تین طلاق دینے پر تین سال قید کے بل کی منظوری دے دی!

ربیع م

محفلین
اپنا نکتہ نظر ہے آپ کے پاس کوئی؟
جی الحمد للہ موقف ہے.
موسی علیہ السلام نے جو دس سال یا آٹھ سال خدمت کی وہ فریقین کا باہمی معاہدہ تھا جس پر دونوں راضی تھے
اور یاد رہے یہ حق مہر تھا جبکہ حق مہر کی بنیادی شرط ہی یہ ہوتی ہے کہ فریقین جس پر راضی ہو جائیں.
ہمارا یہ موقف ہے اور یہ قرآن سے ثابت ہے اب چاہے وہ پچاس کروڑ پر راضی ہوں یا پچاس روپے پر
آٹھ یا دس سال کے کام کی آمدنی ، جی
وہی کہہ رہا ہوں جو آٹھ یا دس سال خدمت نہیں کرے گا اس کا نکاح باطل ہے؟
دیکھیں جب قرآنی حکم پر عمل کرنا ہے تو پھر پورا پورا کریں نا یہ کیا کہ من پسند لے لیا اور باقی اگل ڈالا.
موسی علیہ السلام نے دس سال یا آٹھ سال خدمت کی اس کے بغیر اب ہر کسی کا نکاح باطل ہو گا؟
آمدنی کی بات نہیں کرنی
 

ربیع م

محفلین
آپ کے سوال کیا ہیں، نکتہ نظر کیا یے، بیان فرمائٰے، میری پیش کردہ کس آیت سے اپ کو اختلاف ہے؟
شکریہ
اگر آپ وہ مراسلہ بغور پڑھنے کی زحمت فرما لیں تو آپ کو سمجھ آ جائے گی ورنہ دوبارہ بیان کرنا شاید سود مند نہ ہو.
 
آخری تدوین:
وہی کہہ رہا ہوں جو آٹھ یا دس سال خدمت نہیں کرے گا اس کا نکاح باطل ہے؟
دیکھیں جب قرآنی حکم پر عمل کرنا ہے تو پھر پورا پورا کریں نا یہ کیا کہ من پسند لے لیا اور باقی اگل ڈالا.
موسی علیہ السلام نے دس سال یا آٹھ سال خدمت کی اس کے بغیر اب ہر کسی کا نکاح باطل ہو گا؟
آمدنی کی بات نہیں کرنی

28:27 قَالَ إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُنكِحَكَ إِحْدَى ابْنَتَيَّ هَاتَيْنِ عَلَى أَن تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ فَإِنْ أَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِندِكَ وَمَا أُرِيدُ أَنْ أَشُقَّ عَلَيْكَ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّالِحِينَ
انہوں نے (موسٰی علیہ السلام سے) کہا: میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دو لڑکیوں میں سے ایک کا نکاح آپ سے کردوں اس (مَہر) پر کہ آپ آٹھ سال تک میرے پاس اُجرت پر کام کریں، پھر اگر آپ نے دس (سال) پور ے کردیئے تو آپ کی طرف سے (احسان) ہوگا اور میں آپ پر مشقت نہیں ڈالنا چاہتا، اگر اللہ نے چاہا تو آپ مجھے نیک لوگوں میں سے پائیں گے

اللہ تعالی نے یہاں کیا لفظ استعمال کیا ہے؟
تَأْجُرَنِي

سوال نمبر 1: آپ بتئیے کہ اس تَأْجُرَنِي کے کیا معانی ہوئے؟

ہم من پسند نہیں لے رہے، نا اس کے معانی یہ ہیں کہ جو 8 یا دس سال خدمت نہیں کرے گا اس کا نکاح باطل ہے۔

اس آیت میں کہا کیا جارہا ہے، میں آپ کیا سمجھے یہ بات جاننا چاہتا ہوں۔

والسلامِ
 
شکریہ
اگر آپ وہ مراسلہ بغور پڑھنے کی زحمت فرما لیں تو آپ کو سمجھ آ جائے گی ورنہ دوبارہ بیان کرنا شاید سود مند نہ ہو.

جی ایک بار پھر بغور پڑھوں گا اور اگر کوئی نکتہ رہ گیا ہے تو جواب میرا فرض ہے۔ آپ اگر تکلیف کرکے اپنے سوالات دوبارہ واضح کردیجئے تو آسانی ہوگی۔

والسلام
 

ربیع م

محفلین
28:27 قَالَ إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُنكِحَكَ إِحْدَى ابْنَتَيَّ هَاتَيْنِ عَلَى أَن تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ فَإِنْ أَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِندِكَ وَمَا أُرِيدُ أَنْ أَشُقَّ عَلَيْكَ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّالِحِينَ
انہوں نے (موسٰی علیہ السلام سے) کہا: میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دو لڑکیوں میں سے ایک کا نکاح آپ سے کردوں اس (مَہر) پر کہ آپ آٹھ سال تک میرے پاس اُجرت پر کام کریں، پھر اگر آپ نے دس (سال) پور ے کردیئے تو آپ کی طرف سے (احسان) ہوگا اور میں آپ پر مشقت نہیں ڈالنا چاہتا، اگر اللہ نے چاہا تو آپ مجھے نیک لوگوں میں سے پائیں گے

اللہ تعالی نے یہاں کیا لفظ استعمال کیا ہے؟
تَأْجُرَنِي

سوال نمبر 1: آپ بتئیے کہ اس تَأْجُرَنِي کے کیا معانی ہوئے؟

ہم من پسند نہیں لے رہے، نا اس کے معانی یہ ہیں کہ جو 8 یا دس سال خدمت نہیں کرے گا اس کا نکاح باطل ہے۔


اس آیت میں کہا کیا جارہا ہے، میں آپ کیا سمجھے یہ بات جاننا چاہتا ہوں۔


والسلامِ
فریقین عقد نکاح کے وقت اس معاہدہ پر راضی تھے اب بھی اگر فریقین باہمی رضا مندی سے عقد نکاح کے موقع پر دس کے بجائے بیس سال کی ملازمت مہر میں لکھ لیں تو کوئی حرج نہیں.
 
فریقین عقد نکاح کے وقت اس معاہدہ پر راضی تھے اب بھی اگر فریقین باہمی رضا مندی سے عقد نکاح کے موقع پر دس کے بجائے بیس سال کی ملازمت مہر میں لکھ لیں تو کوئی حرج نہیں.

سوال نمبر 1: آپ بتئیے کہ اس تَأْجُرَنِي کے کیا معانی ہوئے؟

سوال میرا تھا تَأْجُرَنِي کے بارے میں ۔ اس کے معانی ہوئے 'تیری جو اجرت میری طرف بنتی ہے' جی؟

اس کے ممکنہ معانی یہ بھی ہوتے ہیں کہ میں تجھے کرایہ پر لے لوں،

کوئی بھی فرد جو بھی کام کرتا ہے اس کی اجرت تو کچھ نا کچھ بنتی ہے ؟ یا نہیں؟
اس صورت حال میں موسیٰ علیہ السلام کا نکاح کم از کم آٹھ سال اور زیادہ سے زیادہ دس سال کی اجرت کے مساوی مہر پر ہوا؟

یہاں تک تو اتفاق ہے ہم میں یا نہیں کہ باہمی سمجھوتہ کی مقدار، تعداد، آٹھ تا دس سال کی اجرت رہی؟؟

آپ درست فرما رہے ہیں کہ نکاح کے لئے مہر کا یہ باہمی سمجھوتہ تھا ۔ میں یہاں سے یہ نکتہ اٹھا رہا ہوں کہ باہمی سمجھوتہ میں مقدار کتنی بنتی ہے۔ جب یہاں تک ہم دونوں اتفاق کرلیں گے تو آٹھ تا دس سال کی یہ اجرت کتنی بنتی ہے اس کا حساب ہم آج کے اور آپ کے ہی پہلے سے مانے ہوئے فارمولے سے کرلیں گے۔

آپ کے اتفاق کرنے کا انتظار کروں گا۔ پھر اس مقدار یا تعداد کے بارے میں عرض کروں گا جو جناب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اجرت بنتی ہے۔
 
آخری تدوین:
اب تو لگتا ہے اس لڑی کو اکٹھی تین طلاقیں دینی پڑیں گی
ااس سابقہ مراسلے میں جس میں میں نے طلاق کے معانی والی آیات کا حوالہ دیا، میں اپنا نکتہ نگاہ مکمل کرچکا ہوں برادر محترم۔ اب لوگ صرف کھیل رہےہیں الفاظ کے ساتھ۔ قرآن حکیم کے فراہم کردہ پراسیس کے علاوہ نا کوئی مربوط نکتہ نظر میرے سامنے آیا ہے اور نا ہی کوئی دلیل۔ آپ اس لڑی کو تین بار چھوڑ کر جائیے :) یا تین سو بار۔ بنیادی طور پر آپ ایک بار ہی چھوڑیں گے :) خوش رہئے

والسلام
 
آخری تدوین:

ربیع م

محفلین
سوال میرا تھا تَأْجُرَنِي کے بارے میں ۔ اس کے معانی ہوئے 'تیری جو اجرت میری طرف بنتی ہے' جی؟

اس کے ممکنہ معانی یہ بھی ہوتے ہیں کہ میں تجھے کرایہ پر لے لوں،

کوئی بھی فرد جو بھی کام کرتا ہے اس کی اجرت تو کچھ نا کچھ بنتی ہے ؟ یا نہیں؟
اس صورت حال میں موسیٰ علیہ السلام کا نکاح کم از کم آٹھ سال اور زیادہ سے زیادہ دس سال کی اجرت کے مساوی مہر پر ہوا؟

یہاں تک تو اتفاق ہے ہم میں یا نہیں کہ باہمی سمجھوتہ کی مقدار، تعداد، آٹھ تا دس سال کی اجرت رہی؟؟

آپ درست فرما رہے ہیں کہ نکاح کے لئے مہر کا یہ باہمی سمجھوتہ تھا ۔ میں یہاں سے یہ نکتہ اٹھا رہا ہوں کہ باہمی سمجھوتہ میں مقدار کتنی بنتی ہے۔ جب یہاں تک ہم دونوں اتفاق کرلیں گے تو آٹھ تا دس سال کی یہ اجرت کتنی بنتی ہے اس کا حساب ہم آج کے اور آپ کے ہی پہلے سے مانے ہوئے فارمولے سے کرلیں گے۔

آپ کے اتفاق کرنے کا انتظار کروں گا۔ پھر اس مقدار یا تعداد کے بارے میں عرض کروں گا جو جناب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اجرت بنتی ہے۔
فاروق صاحب!
آپ خوامخواہ بچگانہ انداز میں بحث کو بڑھا رہے ہیں، اپنا صاف موقف بیان کیجئے کہ کیا آٹھ سال یا دس سال کی ملازمت آپ کے نزدیک فرض حق مہر ہے؟
جیسا کہ میں نے پیچھے صاف انداز میں اپنا موقف ذکر کیا کہ حق مہر کا تقرر فریقین کی باہمی رضامندی سے ہوتا ہے چاہے وہ ایک روپے پر راضی ہوں یا ایک کروڑ پر اور چاہے ایک سال کی أجرت ہو یا ساری زندگی کی.
سوال آپ سے ہے کہ آپ کھل کر بتائیں آپ کا کیا موقف ہے کیا آپ آٹھ یا دس سال کی مزدوری جیسا کہ موسی علیہ السلام نے کی اس کو فرض حق مہر سمجھتے ہیں؟
 
اپنا صاف موقف بیان کیجئے کہ کیا آٹھ سال یا دس سال کی ملازمت آپ کے نزدیک فرض حق مہر ہے؟
نہیں، جو لوگ یہ نہیں مانتےکہ چھوڑ کر چلے جانے یعنی طلاق دینے کے بعد بھی سابقہ بیوی کا نان نفقہ اور گھر کا کرایہ ان کے ذمے اس وقت تک ہے جب تککوئی دوسرا کفالت نا کرنے لگے، تو نکاح کے کنٹریکٹ میں یہ شرط لکھی جاسکتی ہے کہ مہر ، شوہر کی آت تا دس سال کی آمدنی ہوگی۔

میں اپنے نکات مکمل کر چکا ہوں اور اس ضمن میں بیشتر آیات کا حوالہ فراہم کر چکا ہوں۔ اس مقام کے بعد ، اب آپ ہدایت ، اللہ تعالی کے فرمان قرآن حکیم سے لیجئے، ان آیات کا مطالعہ کیجئے اور تدبر فرمائیے، آپ ماشاء اللہ کافی سمجھدار ہیں۔

والسلام
 

ربیع م

محفلین
تو نکاح کے کنٹریکٹ میں یہ شرط لکھی جاسکتی ہے
لکھی جا سکتی ہے سے تو کسی نے اختلاف کیا ہی نہیں جناب عالی!
اختلاف آپ کی اس بات سے تھا جو آپ ہر صورت میں مطلقہ عورت کا نان نفقہ اور رہائش ہمیشہ کیلئے سابق شوہر کی ذمہ داری وجوب کے ساتھ قرار دے رہے تھے.
 
اختلاف آپ کی اس بات سے تھا جو آپ ہر صورت میں مطلقہ عورت کا نان نفقہ اور رہائش ہمیشہ کیلئے سابق شوہر کی ذمہ داری وجوب کے ساتھ قرار دے رہے تھے.

آیات پہلے فراہم کرچکا ہوں۔ آپ دیکھ لیجئے میرا وہ مراسلہ جس میں سورۃ البقرہ اور سورۃ الطلاق سے ایسا حوالہ دیا ہے۔ جو لوگ ایسا نہیں مانتے ہیں، اس کا علاج پھر طویل عرصے کی سپورٹ مہر میں شامل کرکے کیا جاسکتا ہے۔ آپ درج ذیل آیت سےکیا معانی لیں گے ۔ تدبر کیجئے۔ اس آیت کی روح اتنے سارے مترجمین کے ترجمے سے واضح ہے، ہم کیا معروف کریں گے اپنے ملک و قوم میں کہ تین طلاق دو اور نکال کر گھر سے باہر کرو اور کچھ نا دو اس خاتون کو جس نے قوم بنانے کے لئے اپنی پیداوار اولاد پیدا کی۔ اب کوئی حق نہیں اس عورت کا جینے کا کہ اس کے شوہر نے تین بار اس کو کہہ دیا کہ 'چھوڑ کے جا رہا ہوں' ؟؟ اب تم جاؤ سڑک پر؟ کسی مال پر کوئی حق نہیں؟ کچھ سوچو یار۔

یا پھر ایک طلاق یافتہ عورت کو قوم کی اولاد کی ماں سمجھ کر سہارا دیا جائے کہ جب تک اس کا انتظام نا ہوجائے اس وقت تک اس کا شوہر اس مطلقہ عورت کا ذمہ دار رہے؟ مہر تو شوہر ادا کرے گا ہی، وہ اس کا حق 'متاع' نان نفقہ بھی ادا کرے گا۔ مہر اپنی جگہ ہے اور 'متاع' جسے alimony یا نان نفقہ کہا جاتا ہے ، عام طور پر طلاق کے بعد قاضی یا کورٹ آرڈر کرتی ہے۔ مطلقہ عورت کا 'متاع' یا alimony یا نان نفقہ کا یہحق آپ کو فقہ کی کتب میں بھی ملے، کتب روایات میں بھی، اسلامی اور غیر اسلامی قانون میں بھی اور اللہ تعالی کے فرمان قرآن حکیم میں بھی۔

طلاق یافتہ عورتوں کو خرچہ کی ادائیگی، اللہ تعالی کا فرمان ، اللہ سے ڈرنے والوں کے لئے؟
2:241 وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ
طاہر القادری: اور طلاق یافتہ عورتوں کو بھی مناسب طریقے سے خرچہ دیا جائے، یہ پرہیزگاروں پر واجب ہے
احمد علی : اور طلاق دی ہوئی عورتوں کے واسطے دستور کے موافق خرچ دینا پرہیزگارو ں پر یہ لازم ہے
احمد رضا خان: اور طلاق والیوں کے لئے بھی مناسب طور پر نان و نفقہ ہے، یہ واجب ہے پرہیزگاروں پر،
شبیر احمد ۔ اور طلاق یافتہ عورتوں کو بھی کچھ نہ کچھ دینا چاہیے دستور کے مطابق یہ حق ہے اللہ سے ڈرنے والوں پر۔
فتح محمد جالندھری : اور مطلقہ عورتوں کو بھی دستور کے مطابق نان و نفقہ دینا چاہیئے پرہیزگاروں پر (یہ بھی) حق ہے
محمود الحسن : اور طلاق دی ہوئی عورتوں کے واسطے خرچ دینا ہے قاعدہ کے موافق لازم ہے پرہیزگاروں پر
مودودی : اسی طرح جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو، انہیں بھی مناسب طور پر کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کیا جائے یہ حق ہے متقی لوگوں پر
فاروق سرور خان : اور مطلقہ عورتوں کو معروف طریقہ سے نان نفقہ، فرض ہے اللہ سے ڈرنے والوں پر۔

والسلام
 
آخری تدوین:
میرا آپ سے سوال ہے جب آپ کا نکاح ہوا تھا آپ نے دس سال یا 8 سال اپنے سسرال
رہ کر بیوی کے اہل خانہ کی بکریاں چرائی تھیں یا نہیں؟
اگر نہیں تو آپ نے تو حق مہر ادا نہیں کیا نکاح آپ کا آپ کے نقطہ نظر سے باطل ہے اسے حلال کرنے کی فی الفور تدبیر کیجئے.

مطلقہ عور ت کے نان نفقہ کے حق یعنی 'متاع' کے حق اور اس کے طے شدہ مہر کے حق کے بارے میں آپ کنفیوژ ہیں۔ فراہم کردہ آیات کے عربی متن میں لفظ 'متاع' اور مہر کو غور سے دیکھئے۔

میرا آپ سے سوال ہے جب آپ کا نکاح ہوا تھا آپ نے دس سال یا 8 سال اپنے سسرال
رہ کر بیوی کے اہل خانہ کی بکریاں چرائی تھیں یا نہیں؟

آپ کا کمنٹ کی بنیادی وجہ آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالی کے بزرگ نبی اکرم حضرت موسی علیہ السلام نے آٹھ سال بکریاں چرائی تھی۔ جی؟

درج ذیل کہانی درست ہے یا نہیں ، مجھے نہیں پتہ لیکن اس کے سب حصے ایک سے زائید کتب میں دیکھ چکا ہوں۔
تو آپ کہ سوچوں کے ارتقاء کے لئے یہ عرض ہے کہ ایک بندہ جسے میں اور آپ محمد علی جناح کے نام سے جانتے ہیں، انگلینڈ میں ڈگلس گراہم اینڈ کمپنی میں کام کرتا تھا۔ جناح نے ایک دن اپنے ایمپلائر کو بتایا کہ وہ ہندوستان جانا چاہتا ہے۔ ایمپلائر نے کہا ، وہاں کیا کروگے؟ اور کیا کمالوگے؟ جناح نے کہا کہ میں ایک دن میں اتنا کماؤں گا جتنا تم مجھے مہینے ( یا سال) بھر میں دیتے ہو۔

فطری سوال اٹھتا ہے کہ ایسا کام کیا ہوسکتا ہے کہ اتنی بڑی اجرت ملے؟
تو جناح نے ایسا کونسا کام کیا؟
سٹینلے والپرٹ کے الفاظ میں، "کچھ لوگ تاریخ کا دھارا موڑ سکے، اور ان میں سے بہت تھوڑے سے دنیا کا نقشہ بدل سکے اور ان میں سے بہت ہی تھوڑے سے ایک قوم تعمیر کرسکے، جناح نے یہ سب کچھ کیا"

ٰ in the words of Stanley Wolpert, “Few individuals significantly alter the course of history. Fewer still modify the map of the world. Hardly anyone can be credited with creating a nation state. Muhammad Ali Jinnah did all three”.

اس کام کی اجرت جناح کو کیا ملی؟ جناح کی دولت کا اندازہ ، اس سے کرلیجئے کہ اس کے ہی سکے سے آج سارا پاکستان چلتا ہے۔

جناح اتنا بڑا لیڈر نہیں جتنے بڑے لیڈر، حضرت موسی علیہ السلام، کہ آج یہودی، عیسائی اور مسلمان تینوں بڑے مذہب کے کوئی ساڑھے تین بلین لوگ ان کو احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، انہی کا لائے ہوئے قانون پر عمل کرتے ہیں۔

جناح کے مقابلے میں موسی علیہ السلام نے اسلام کی بنیاد مظبوط کی، اللہ تعالی سے کلام کیا اور سچائی کی قوم کی بنیاد ڈالی کہ آج 3761 + 2018 = 5779 سال بعد بھی وہی قانون چلا آرہا ہے جسے دنیا کے بیشتر افراد مانتے ہیں۔ اگر جناح کی اجرت کا معاوضہ سے ، جناح کے سکے سے، پاکستان چل رہا ہے تو موسی علیہ السلام کی آٹھ سال کی اجرت کیا بنتی ہے؟

سرکار، ایک جلیل القدر نبی کو محض بکری چلانے والا تو نا گردانو۔ پہلے اللہ تعالی کے فرمان پر تدبر کرو پھر کچھ بولو۔

والسلام
 

ربیع م

محفلین
2:241 وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ
متاع سے مراد معروف طریقے کے مطابق کچھ سازوسامان یا مال و متاع دینا ہے. مستقل خرچ اس کا ہرگز مطلب نہیں جیسا کہ بہت سی جگہوں پر متاع کے استعمال سے واضح ہوتا ہے.
سورۃ الطلاق کی جن آیات سے آپ نے مطلب کشید کیا ان پر کچھ گزارشات پہلے عرض کر چکا ہوں.
 
بھارت، تین طلاقوں کے خلاف آرڈیننس کے اجرا کا فیصلہ

l_432771_113749_updates.jpg
راجیہ سبھا میں تین طلاق بل کی منظوری میں تاخیر پر مودی حکومت نے اب تین طلاقوں کیخلاف آرڈیننس جاری کرنے کا فیصلہ کیاہے۔ امکان ہے کہ یہ آرڈی نینس پارلیمنٹ کے مشترکہ بجٹ اجلاس کے موقع پر جاری کیا جائے گا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت ٹرپل طلاق آرڈیننس لانے سمیت تمام آپشنز کا بغورجائزہ لے رہی ہے جسے بجٹ سیشن کے دوران پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔
ٹرپل طلاق بل گزشتہ ماہ دسمبر میں لوک سبھا سے پہلے ہی منظور ہوچکاہے لیکن راجیہ سبھا میں حزب اختلاف کی جماعتوں کے تحفظات کے سبب بل کی منظوری تاخیر کا شکار ہے۔
ایوان بالا کے کچھ ارکان نے تجویزدی ہےکہ بل کو نظر ثانی کیلئے پارلیمانی کمیٹی کو سونپا جائے۔آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اور خواتین کے کئی گروپس کی جانب سے بھی اس بل کی مخالفت کی جارہی ہے۔
 
متاع سے مراد معروف طریقے کے مطابق کچھ سازوسامان یا مال و متاع دینا ہے. مستقل خرچ اس کا ہرگز مطلب نہیں جیسا کہ بہت سی جگہوں پر متاع کے استعمال سے واضح ہوتا ہے.
سورۃ الطلاق کی جن آیات سے آپ نے مطلب کشید کیا ان پر کچھ گزارشات پہلے عرض کر چکا ہوں.

بہت شکریہ ککہ آپ نے کم از کم ، طلاق کے بعد مطلقہ خاتون کا مال و متاع پر حق تو تسلیم کیا۔ ملاء عام طور پر صرف اور صرف حق مہر کی بات کرتے ہیں، حق متاع کی بات نہیں کرتے۔

ایک گھروندہ ، مرد اور عورت دنوں نے مل کر تعمیر کیا ہوتا ہے۔ دونوں نے اپنی اپنی طرح کا حصہ ڈالا ہوتا ہے۔ لہذا یہ حق تو بالکل بنتا ہے۔ اب دو نکات رہ گئے کہ، متاع کیا ہے اور مطلقہ خاتون کو کتنے عرصہ دینا ہے؟ ایک بار یا جب تک کوئی دوسرا انتظام نہیں ہو جاتا۔

متاع کیا ہے؟ قرآن حکیم سے متاع کی تعریف۔
3:14 زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ذَلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَاللّهُ عِندَهُ حُسْنُ الْمَآبِ
لوگوں کے لئے ان خواہشات کی محبت (خوب) آراستہ کر دی گئی ہے (جن میں) عورتیں اور اولاد اور سونے اور چاندی کے جمع کئے ہوئے خزانے اور نشان کئے ہوئے خوبصورت گھوڑے اور مویشی اور کھیتی (شامل ہیں)، یہ (سب) دنیوی زندگی کا سامان ہے، اور اﷲ کے پاس بہتر ٹھکانا ہے

10:70 مَتَاعٌ فِي الدُّنْيَا ثُمَّ إِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ ثُمَّ نُذِيقُهُمُ الْعَذَابَ الشَّدِيدَ بِمَا كَانُواْ يَكْفُرُونَ
دنیا میں لطف اندوزی ہے پھر انہیں ہماری ہی طرف پلٹنا ہے پھر ہم انہیں سخت عذاب کا مزہ چکھائیں گے اس کے بدلے میں جو وہ کفر کیا کرتے تھے

ان آیاتگ سے صاف ااور واضح ہے کہ متاع ، ہر وہ شے ہے جس سے آسائش ہو، لطف و نشاط ہو۔

تو مطلقہ عورت کا حق، مال، آسائش، لطف و نشاط پر کتنا ؟ اور کب تک ؟
65:6 تم اُن (مطلّقہ) عورتوں کو وہیں رکھو جہاں تم اپنی وسعت کے مطابق رہتے ہو اور انہیں تکلیف مت پہنچاؤ کہ اُن پر (رہنے کا ٹھکانا) تنگ کر دو، اور اگر وہ حاملہ ہوں تو اُن پر خرچ کرتے رہو یہاں تک کہ وہ اپنا بچہ جَن لیں، پھر اگر وہ تمہاری خاطر (بچے کو) دودھ پلائیں تو انہیں اُن کا معاوضہ ادا کرتے رہو، اور آپس میں (ایک دوسرے سے) نیک بات کا مشورہ (حسبِ دستور) کر لیا کرو، اور اگر تم باہم دشواری محسوس کرو تو اسے (اب کوئی) دوسری عورت دودھ پلائے گی

65:7 صاحبِ وسعت کو اپنی وسعت (کے لحاظ) سے خرچ کرنا چاہئے، اور جس شخص پر اُس کا رِزق تنگ کر دیا گیا ہو تو وہ اُسی (روزی) میں سے (بطورِ نفقہ) خرچ کرے جو اُسے اللہ نے عطا فرمائی ہے۔ اللہ کسی شخص کو مکلّف نہیں ٹھہراتا مگر اسی قدر جتنا کہ اُس نے اسے عطا فرما رکھا ہے، اللہ عنقریب تنگی کے بعد کشائش پیدا فرما دے گا

آپ پہلے ان آیات کو مہر کے حق سے جوڑ رہے تھے۔ یہ آیات مطلقہ خاتون کے متاع پر حق کے لئے ہیں۔ ان دونوں آیات سے یہ صاف اور واضھ ہے کہ آسائش پر مطلقہ خاتون کا حق اس کے سابقہ شوہر کی وسعت کے مطابق ہے۔ یہاں وقت کی کوئی قیند نہیں لگائی گئی ہے لہذا ، مطلقہ عورت کی آسائش کی ذمہ داری جب تک اس کا کوئی دوسرا انتظام نا ہوجائے ، مرد پر ہے۔ اس میں وقت کی کوئی قید ہیں۔

آپ سے عرض ہے کہ آپ ہمیں قرآں حکیم سے وہ دلیل فراہم فرمائیے جس سے یہ صاف اور واضح طے پاتا ہو کہ ، آسائش فراہم کرنے کی ذمے دارری ایک محدود مدت کے لئے ہے؟

والسلام
 

ربیع م

محفلین
آپ سے عرض ہے کہ آپ ہمیں قرآں حکیم سے وہ دلیل فراہم فرمائیے جس سے یہ صاف اور واضح طے پاتا ہو کہ ، آسائش فراہم کرنے کی ذمے دارری ایک محدود مدت کے لئے ہے؟
اس کی وضاحت پچھلے مراسلے میں کر چکا ہوں.
یہاں دیکھیں!
محترم فاروق سرور صاحب!
آپ کے مراسلے کافی دلچسپ ہوتے ہیں ۔بسا اوقات ان پر ہنسی بھی آتی ہے ۔
مندرجہ بالا مراسلے کے حوالے سے کچھ گزارشات رکھنا چاہتا ہوں امید ہے کہ آپ غور فرمائیں گے ۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ کی املا میں کافی غلطیاں ہوتی ہیں وہ تو شاید اتنا بڑا مسئلہ نہیں ، لیکن ایک گزارش ہے کہ قرآن کریم کی آیات کو کاپی پیسٹ کرتے وقت کچھ خیال رکھا کریں کہ ان میں غلطی نہ باقی نہ رہے جیسا کہ آپ اپنے مراسلے میں دیکھ سکتے ہیں :







یقینا انسان ہونے کے ناطے ایسی غلطیاں سرزد ہوتی رہتی ہیں لیکن کلام اللہ کے سلسلے میں ہمیں خصوصی طور پر محتاط رہنا چاہئے ۔

دوسری بات: ابھی پچھلا مکالمہ ہی کسی نتیجے پر پہنچائے بغیر آپ اسے ادھورا چھوڑ گئے ، ہم بھی آپ کی بزرگی کے احترام میں خاموش رہے کہ آپ نے نئے سرے سے ایک اور موضوع چھیڑ دیا۔

تیسری بات : مہر معجل اور مؤجل:



کیا آپ کا سوال یہ ہے کہ قرآن کی رو سے مہر مؤجل درست نہیں ؟مہر عقد نکاح کے وقت ہی ادا کر دینا چاہئے ؟

تو قرآن خود کہتا ہے :

لَّا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِن طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنَّ أَوْ تَفْرِضُوا لَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَ ﴿٢٣٦

تم پر اس سلسلے میں کوئی گناہ نہیں کہ اگر تم ایسی عورتوں کو طلاق دو جنہیں تم نے ابھی تک چھوا نہ ہو یا ان کیلئے حق مہر مقرر نہ کیا ہو ،( ایسی صورت میں طلاق کے وقت) انھیں کچھ سازوسامان دے دو وسعت والے کے اوپر اس کی طاقت کے مطابق اور تنگی والے پر اس کی طاقت کے مطابق ہے ، سامان معروف طریقے کے مطابق دینا نیکی کرنے والوں پر یہ حق ہے ۔

چہارم:کیا نفقہ اور رہائش ہمیشہ کیلئے سابق شوہر کی ذمہ داری ہے ؟





فاروق صاحب آپ کا دعوی ہے کہ طلاق کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق مطلقہ عورتیں اور بچے ہمیشہ کیلئے مرد کی ذمہ داری ہیں اور مرد اس کو گھر سے نہیں نکال سکتا ۔یہاں تک کہ آپ کا دعویٰ ہے کہ عدت پوری ہونے اور مرد کی جانب سے رجوع نہ کرنے کی صورت میں بھی اس کی رہائش کا بندوبست اب مرد کی ذمہ داری ہے ۔

اس سلسلے میں پہلے آپ نے جو دلائل پیش کئے ہیں ان کا جائزہ لیتے ہیں اور پھر اس معاملے کو مختلف پہلوؤں سے دیکھتے ہیں ۔

کیا طلاق کے بعد عورت کی رہائش اس کے سابق خاوند کی ذمہ داری ہے ؟

آپ کی پہلی دلیل :

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ ۖ وَاتَّقُوا اللَّ۔هَ رَبَّكُمْ ۖ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ ۚ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّ۔هِ ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّ۔هِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ ۚ لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّ۔هَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَٰلِكَ أَمْرًا ﴿١

اے نبی !جب تم عورتوں کو طلاق دو تو انھیں ان کی عدت کے وقت میں طلاق دو اور عدت کو خوب اچھی طرح گنو اور اللہ سے ڈرو جو تمہار ا رب ہے ، نہ تم انھیں ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ نکلیں مگریہ کہ کوئی کھلی بے حیائی (عمل میں ) لائیں ۔ اور یہ اللہ کی حدیں ہیں اور جو اللہ کی حدوں سے آگے بڑھے تو یقینا اس نے اپنے آپ پر ظلم کیا ۔ تو نہیں جانتا شاید اللہ اس کے بعد کوئی نئی بات پیدا کر دے ۔

اگلی آیت دیکھیں :

فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فَارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنكُمْ وَأَقِيمُوا الشَّهَادَةَ لِلَّ۔هِ ۚ

پھر جب وہ اپنی میعاد کو پہنچنے لگیں تو انھیں اچھے طریقے سے روک لو ، یا اچھے طریقے سے ان سے جدا ہوا جاؤ اور اپنوں میں سے دو صاحب عدل آدمی گواہ بنا لو اور شہادت اللہ کیلئے قائم کرو۔

اب یہاں غور فرمائیے ! یہ اس صورت میں حکم ہو رہا ہے جب طلاق رجعی ہے یعنی مر دکے پاس رجوع کا حق موجود ہے طلاق بائنہ کا بیان نہیں ہو رہا۔

جیسا کہ اللہ رب العزت نے فرما دیا کہ " تو نہیں جانتا شاید اللہ اس کے بعد کوئی نئی بات پیدا کردے ۔"

اور آپ نے اپنے ترجمہ میں بریکٹس کے اندر مفہوم واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ شاید اللہ رب العزت رجوع کی کوئی صورت پیدا کردیں ۔

اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ طلاق رجعی کی صورت میں حکم ہے ۔

اچھا اب اگلی آیت ملاحظہ کریں تو معاملہ مزید صاف ہو جاتا ہے کہ " جب ان کی عدت مکمل ہونے لگے تو یا اچھے طریقے سے روک لو یا جد اکر لو ، اب اگر طلاق بائنہ ہو ( فی الحال ہم اس بحث میں نہیں داخل ہوتے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں طلاق رجعی ہو گی یا طلاق بائن ) اچھے طریقے سے روک لینے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔

اب آپ نے اگلی دلیل یہ دی کہ :

أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنتُم مِّن وُجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ ۚ

انھیں وہاں ٹھہراؤ جہاں تم رہتے ہو اپنی طاقت کے مطابق ، اور انھیں اس لئے تکلیف نہ دو کہ ان پر تنگی کرو۔

اب ان آیات پر غور کیجئے !

پہلی ذکر کردہ دو آیات میں اللہ نے فرمایا کہ طلاق دینے کے بعد عدت شمار کرو نہ تم انھیں اپنے گھروں سے نکالو اور نہ ہی وہ اپنے گھروں سے نکلیں آخر میں حکمت بیان فرمادی کہ شاید اللہ تعالیٰ رجوع یا صلح کی کوئی صورت پیدا فرما دیں ۔ اگلی آیت میں فرمایا کہ جب عدت کا وقت گزر جائے تویا اچھے طریقے سے روک رکھو یا جدا ہو جاؤ

درمیان کی کچھ آیات میں اللہ نے وعظ و نصیحت کی اور پھر فرمایا کہ انھیں وہاں ٹھہرانا ہے جہاں تم رہائش پذیر ہو۔

اب دیکھئے !

· اگر اللہ رب العزت نے ہمیشہ کیلئے اس کی رہائش اس کے سابق خاوند کی ذمہ داری بنائی ہوتی تو کیا یہ حکم ہوتا کہ انھیں وہاں ٹھہراؤ جہاں تم رہتے ہو؟ بلکہ حکم یہ ہوتا کہ ان کیلئے الگ سے رہائش کا بندوبست کرو۔

· اگر ہمیشہ کیلئے رہائش سابق خاوند کی ذمہ داری ہوتی تو یہاں محض طلاق رجعی والی صورت کا ذکر کیوں؟ طلاق بائن کا ذکر ہی نہیں ۔

· کیا کسی کی عقل یہ بات تسلیم کرتی ہے کہ اللہ رب العزت ایک ہی گھر میں عورت اور اس کے سابق خاوند کو رہنے کا حکم دے رہے ہیں جبکہ وہ دونوں ایک دوسرے کیلئے نامحرم ہو چکے ہیں ؟

· اور کیا اس کا سابق خاوند اگر آگے شادی کرے گا اور اس کے پاس ایک ہی گھر ہے تو اس کی سابق بیوی بھی یہاں رہائش پذیر ہے اس سے خاندان بچےگا یا مزیددو خاندان تباہ ہوں گے ۔

· اگر آپ کے اس دعویٰ کو تسلیم کیا جائے تو یہاں اللہ رب العزت تو عورت کو بھی حکم دے رہے ہیں کہ وہ خاوند کے گھر سے باہر نہ نکلے تو ایسا ظالمانہ قانون کسی کی عقل تسلیم کرتی ہے کہ اللہ رب العزت نے بنایا ہے ؟

· اگر آپ کے اس دعوی کو تسلیم کیا جائے کہ رہائش اور نفقہ ہمیشہ کیلئے سابق خاوند کی ذمہ داری ہےاور ساتھ ہی آگے آپ یہ بھی فرما رہے ہیں



· تو اس صورت میں رہائش و نفقہ کی ذمہ داری کس دلیل کی رو سے ساقط ہو جاتی ہے ؟

اب آپ کے دعویٰ کے دوسرے جزو کو دیکھئے !

کیامطلقہ عورت کا نفقہ ہمیشہ کیلئے سابق خاوند کے ذمہ ہے ۔

آپ نے دلیل میں آیات پیش کیں کہ :

أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنتُم مِّن وُجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ ۚ وَإِن كُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ فَأَنفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّىٰ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ ۖ وَأْتَمِرُوا بَيْنَكُم بِمَعْرُوفٍ ۖ وَإِن تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهُ أُخْرَىٰ ﴿٦﴾ لِيُنفِقْ ذُو سَعَةٍ مِّن سَعَتِهِ ۖ وَمَن قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ فَلْيُنفِقْ مِمَّا آتَاهُ اللَّ۔هُ ۚ لَا يُكَلِّفُ اللَّ۔هُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَا ۚ سَيَجْعَلُ اللَّ۔هُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًا ﴿٧

انھیں وہاں ٹھہراؤ جہاں تم رہتے ہو، اپنی طاقت کے مطابق اور انھیں اس لئے تکلیف نہ دو کہ ان پر تنگی کرو اور اگر وہ حمل والی ہوں تو ان پر خرچ کرو ، یہاں تک کہ وہ اپنا حمل وضع کر لیں ، پھر اگر وہ تمہارے لئے دودھ پلائیں تو انھیں ان کی اجرتیں دو اور آپس میں اچھے طریقے سے مشورہ کرو اور اگر تم آپس میں تنگی کرو تو عنقریب اسے کوئی اور عورت دودھ پلادے گی

وسعت والے کو چاہئے کہ اپنی وسعت میں سے خرچ کرے اور جس پر اس کا رزق تنگ کیا گیا ہو تو وہ اس میں سے خرچ کرے جو اللہ نے اسے دیا ہے ۔ اللہ کسی شخص کو تکلیف نہیں دیتا مگر اسی کی جو اس نے اسے دیا ہے ، عنقریب اللہ تنگی کے بعد آسانی پیدا کردے گا۔

اب ان دونون آیات کو جو اسی ترتیب سے اللہ نے قرآن میں ذکر کیں اور آپ نے انھیں الگ الگ ذکر کرکے اپنی مرضی کو مفہوم زبردستی کشید کرنے کی کوشش کی بغور جائزہ لیجئے !

اللہ نے فرمایا:اگر وہ حمل والی ہوں تو ان پر خرچ کرو یہاں تک کہ وہ اپنا حمل وضع کر لیں ۔

اگر وہ تمہارے لئے دودھ پلائیں تو انھیں ان کی اجرتیں دو۔

اب کتنا خرچ کرنا ہے کتنی اجرت ہے وہ ایک خاص مقدار مقرر نہیں فرمائی بلکہ فرما دیا کہ وسعت والا اپنی وسعت کے مطابق اور تنگی والا اپنی گنجائش کے مطابق خرچ کرے ۔
غور فرمائیں جملہ شرطیہ ہے کہ اگر ایسا ہو تب تمہاری یہ ذمہ داری ہے اگر تمہارے بچوں کو دودھ پلائیں تب تم نے یہ کرنا ہے ۔
یہاں یہ کہاں ذکر ہے کہ کسی شخص کی مطلقہ بیوی کا نفقہ ہمیشہ کیلئے اس کی ذمہ داری ہے ؟

باقی ہر بات میں ملا کو مطعون کرنے سے ہمیں اسی محفل کے ہی ایک رکن حسیب احمد حسیب بھائی کی ایک تحریر "مولویریا کے مریض"یاد آ جاتی ہے



بھئی !ہمیں مولوی کی بے جا حمایت کا قطعی کوئی شوق نہیں اگر مولوی کسی جرم میں ملوث ہے تو آپ مدلل اسے واضح کیجئے ہم آپ سے زیادہ اس کی مخالفت کریں گے البتہ اندھا دھند تعصب سے گریز کیجئے ۔
متاع کیا ہے؟ قرآن حکیم سے متاع کی تعریف۔
متاع کی تعریف میں وہی آیات کیوں؟
متاع کا لفظ تو قرآن میں 34 بار آیا ہے کہیں دنیا کے سازوسامان کیلئے، کہیں سمندر کے شکار کیلئے کہیں کھانے کیلئے، کہیں چوری شدہ سامان کیلئے تو کہیں جانوروں کی خوراک کیلئے.
﴿لا جُناحَ عَلَيكُم إِن طَلَّقتُمُ النِّساءَ ما لَم تَمَسّوهُنَّ أَو تَفرِضوا لَهُنَّ فَريضَةً وَمَتِّعوهُنَّ عَلَى الموسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى المُقتِرِ قَدَرُهُ مَتاعًا بِالمَعروفِ حَقًّا عَلَى المُحسِنينَ﴾
[Al-Baqarah: 236]
اب یہاں اس آیت میں دخول یا صحبت سے پہلے اور حق مہر مقرر نہیں(جبکہ آپ اسے زبردستی منگنی کے بعد والی علیحدگی بنانے پر تلے ہیں) اس صورت میں بھی متاع کا ذکر ہے جس کا مطلب خود آپ نے سازوسامان ہی کیا.
چنانچہ آپ کی پیش کردہ آیت کا مفہوم بھی یہی ہے کہ مطلقہ عورت کو کچھ سازوسامان یا فائدہ دیا جائے گا ہمیشہ کیلئے نان و نفقہ اور رہائش نہیں.
مزید تفصیل کیلئے میرا یہی مراسلہ بغور پڑھیں اور ان نکات کا جواب دیں.
محترم فاروق سرور صاحب!
آپ کے مراسلے کافی دلچسپ ہوتے ہیں ۔بسا اوقات ان پر ہنسی بھی آتی ہے ۔
مندرجہ بالا مراسلے کے حوالے سے کچھ گزارشات رکھنا چاہتا ہوں امید ہے کہ آپ غور فرمائیں گے ۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ کی املا میں کافی غلطیاں ہوتی ہیں وہ تو شاید اتنا بڑا مسئلہ نہیں ، لیکن ایک گزارش ہے کہ قرآن کریم کی آیات کو کاپی پیسٹ کرتے وقت کچھ خیال رکھا کریں کہ ان میں غلطی نہ باقی نہ رہے جیسا کہ آپ اپنے مراسلے میں دیکھ سکتے ہیں :







یقینا انسان ہونے کے ناطے ایسی غلطیاں سرزد ہوتی رہتی ہیں لیکن کلام اللہ کے سلسلے میں ہمیں خصوصی طور پر محتاط رہنا چاہئے ۔

دوسری بات: ابھی پچھلا مکالمہ ہی کسی نتیجے پر پہنچائے بغیر آپ اسے ادھورا چھوڑ گئے ، ہم بھی آپ کی بزرگی کے احترام میں خاموش رہے کہ آپ نے نئے سرے سے ایک اور موضوع چھیڑ دیا۔

تیسری بات : مہر معجل اور مؤجل:



کیا آپ کا سوال یہ ہے کہ قرآن کی رو سے مہر مؤجل درست نہیں ؟مہر عقد نکاح کے وقت ہی ادا کر دینا چاہئے ؟

تو قرآن خود کہتا ہے :

لَّا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِن طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنَّ أَوْ تَفْرِضُوا لَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَ ﴿٢٣٦

تم پر اس سلسلے میں کوئی گناہ نہیں کہ اگر تم ایسی عورتوں کو طلاق دو جنہیں تم نے ابھی تک چھوا نہ ہو یا ان کیلئے حق مہر مقرر نہ کیا ہو ،( ایسی صورت میں طلاق کے وقت) انھیں کچھ سازوسامان دے دو وسعت والے کے اوپر اس کی طاقت کے مطابق اور تنگی والے پر اس کی طاقت کے مطابق ہے ، سامان معروف طریقے کے مطابق دینا نیکی کرنے والوں پر یہ حق ہے ۔

چہارم:کیا نفقہ اور رہائش ہمیشہ کیلئے سابق شوہر کی ذمہ داری ہے ؟





فاروق صاحب آپ کا دعوی ہے کہ طلاق کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق مطلقہ عورتیں اور بچے ہمیشہ کیلئے مرد کی ذمہ داری ہیں اور مرد اس کو گھر سے نہیں نکال سکتا ۔یہاں تک کہ آپ کا دعویٰ ہے کہ عدت پوری ہونے اور مرد کی جانب سے رجوع نہ کرنے کی صورت میں بھی اس کی رہائش کا بندوبست اب مرد کی ذمہ داری ہے ۔

اس سلسلے میں پہلے آپ نے جو دلائل پیش کئے ہیں ان کا جائزہ لیتے ہیں اور پھر اس معاملے کو مختلف پہلوؤں سے دیکھتے ہیں ۔

کیا طلاق کے بعد عورت کی رہائش اس کے سابق خاوند کی ذمہ داری ہے ؟

آپ کی پہلی دلیل :

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ ۖ وَاتَّقُوا اللَّ۔هَ رَبَّكُمْ ۖ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ ۚ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّ۔هِ ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّ۔هِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ ۚ لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّ۔هَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَٰلِكَ أَمْرًا ﴿١

اے نبی !جب تم عورتوں کو طلاق دو تو انھیں ان کی عدت کے وقت میں طلاق دو اور عدت کو خوب اچھی طرح گنو اور اللہ سے ڈرو جو تمہار ا رب ہے ، نہ تم انھیں ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ نکلیں مگریہ کہ کوئی کھلی بے حیائی (عمل میں ) لائیں ۔ اور یہ اللہ کی حدیں ہیں اور جو اللہ کی حدوں سے آگے بڑھے تو یقینا اس نے اپنے آپ پر ظلم کیا ۔ تو نہیں جانتا شاید اللہ اس کے بعد کوئی نئی بات پیدا کر دے ۔

اگلی آیت دیکھیں :

فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فَارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنكُمْ وَأَقِيمُوا الشَّهَادَةَ لِلَّ۔هِ ۚ

پھر جب وہ اپنی میعاد کو پہنچنے لگیں تو انھیں اچھے طریقے سے روک لو ، یا اچھے طریقے سے ان سے جدا ہوا جاؤ اور اپنوں میں سے دو صاحب عدل آدمی گواہ بنا لو اور شہادت اللہ کیلئے قائم کرو۔

اب یہاں غور فرمائیے ! یہ اس صورت میں حکم ہو رہا ہے جب طلاق رجعی ہے یعنی مر دکے پاس رجوع کا حق موجود ہے طلاق بائنہ کا بیان نہیں ہو رہا۔

جیسا کہ اللہ رب العزت نے فرما دیا کہ " تو نہیں جانتا شاید اللہ اس کے بعد کوئی نئی بات پیدا کردے ۔"

اور آپ نے اپنے ترجمہ میں بریکٹس کے اندر مفہوم واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ شاید اللہ رب العزت رجوع کی کوئی صورت پیدا کردیں ۔

اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ طلاق رجعی کی صورت میں حکم ہے ۔

اچھا اب اگلی آیت ملاحظہ کریں تو معاملہ مزید صاف ہو جاتا ہے کہ " جب ان کی عدت مکمل ہونے لگے تو یا اچھے طریقے سے روک لو یا جد اکر لو ، اب اگر طلاق بائنہ ہو ( فی الحال ہم اس بحث میں نہیں داخل ہوتے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں طلاق رجعی ہو گی یا طلاق بائن ) اچھے طریقے سے روک لینے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔

اب آپ نے اگلی دلیل یہ دی کہ :

أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنتُم مِّن وُجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ ۚ

انھیں وہاں ٹھہراؤ جہاں تم رہتے ہو اپنی طاقت کے مطابق ، اور انھیں اس لئے تکلیف نہ دو کہ ان پر تنگی کرو۔

اب ان آیات پر غور کیجئے !

پہلی ذکر کردہ دو آیات میں اللہ نے فرمایا کہ طلاق دینے کے بعد عدت شمار کرو نہ تم انھیں اپنے گھروں سے نکالو اور نہ ہی وہ اپنے گھروں سے نکلیں آخر میں حکمت بیان فرمادی کہ شاید اللہ تعالیٰ رجوع یا صلح کی کوئی صورت پیدا فرما دیں ۔ اگلی آیت میں فرمایا کہ جب عدت کا وقت گزر جائے تویا اچھے طریقے سے روک رکھو یا جدا ہو جاؤ

درمیان کی کچھ آیات میں اللہ نے وعظ و نصیحت کی اور پھر فرمایا کہ انھیں وہاں ٹھہرانا ہے جہاں تم رہائش پذیر ہو۔

اب دیکھئے !

· اگر اللہ رب العزت نے ہمیشہ کیلئے اس کی رہائش اس کے سابق خاوند کی ذمہ داری بنائی ہوتی تو کیا یہ حکم ہوتا کہ انھیں وہاں ٹھہراؤ جہاں تم رہتے ہو؟ بلکہ حکم یہ ہوتا کہ ان کیلئے الگ سے رہائش کا بندوبست کرو۔

· اگر ہمیشہ کیلئے رہائش سابق خاوند کی ذمہ داری ہوتی تو یہاں محض طلاق رجعی والی صورت کا ذکر کیوں؟ طلاق بائن کا ذکر ہی نہیں ۔

· کیا کسی کی عقل یہ بات تسلیم کرتی ہے کہ اللہ رب العزت ایک ہی گھر میں عورت اور اس کے سابق خاوند کو رہنے کا حکم دے رہے ہیں جبکہ وہ دونوں ایک دوسرے کیلئے نامحرم ہو چکے ہیں ؟

· اور کیا اس کا سابق خاوند اگر آگے شادی کرے گا اور اس کے پاس ایک ہی گھر ہے تو اس کی سابق بیوی بھی یہاں رہائش پذیر ہے اس سے خاندان بچےگا یا مزیددو خاندان تباہ ہوں گے ۔

· اگر آپ کے اس دعویٰ کو تسلیم کیا جائے تو یہاں اللہ رب العزت تو عورت کو بھی حکم دے رہے ہیں کہ وہ خاوند کے گھر سے باہر نہ نکلے تو ایسا ظالمانہ قانون کسی کی عقل تسلیم کرتی ہے کہ اللہ رب العزت نے بنایا ہے ؟

· اگر آپ کے اس دعوی کو تسلیم کیا جائے کہ رہائش اور نفقہ ہمیشہ کیلئے سابق خاوند کی ذمہ داری ہےاور ساتھ ہی آگے آپ یہ بھی فرما رہے ہیں



· تو اس صورت میں رہائش و نفقہ کی ذمہ داری کس دلیل کی رو سے ساقط ہو جاتی ہے ؟

اب آپ کے دعویٰ کے دوسرے جزو کو دیکھئے !

کیامطلقہ عورت کا نفقہ ہمیشہ کیلئے سابق خاوند کے ذمہ ہے ۔

آپ نے دلیل میں آیات پیش کیں کہ :

أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنتُم مِّن وُجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ ۚ وَإِن كُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ فَأَنفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّىٰ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ ۖ وَأْتَمِرُوا بَيْنَكُم بِمَعْرُوفٍ ۖ وَإِن تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهُ أُخْرَىٰ ﴿٦﴾ لِيُنفِقْ ذُو سَعَةٍ مِّن سَعَتِهِ ۖ وَمَن قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ فَلْيُنفِقْ مِمَّا آتَاهُ اللَّ۔هُ ۚ لَا يُكَلِّفُ اللَّ۔هُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَا ۚ سَيَجْعَلُ اللَّ۔هُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًا ﴿٧

انھیں وہاں ٹھہراؤ جہاں تم رہتے ہو، اپنی طاقت کے مطابق اور انھیں اس لئے تکلیف نہ دو کہ ان پر تنگی کرو اور اگر وہ حمل والی ہوں تو ان پر خرچ کرو ، یہاں تک کہ وہ اپنا حمل وضع کر لیں ، پھر اگر وہ تمہارے لئے دودھ پلائیں تو انھیں ان کی اجرتیں دو اور آپس میں اچھے طریقے سے مشورہ کرو اور اگر تم آپس میں تنگی کرو تو عنقریب اسے کوئی اور عورت دودھ پلادے گی

وسعت والے کو چاہئے کہ اپنی وسعت میں سے خرچ کرے اور جس پر اس کا رزق تنگ کیا گیا ہو تو وہ اس میں سے خرچ کرے جو اللہ نے اسے دیا ہے ۔ اللہ کسی شخص کو تکلیف نہیں دیتا مگر اسی کی جو اس نے اسے دیا ہے ، عنقریب اللہ تنگی کے بعد آسانی پیدا کردے گا۔

اب ان دونون آیات کو جو اسی ترتیب سے اللہ نے قرآن میں ذکر کیں اور آپ نے انھیں الگ الگ ذکر کرکے اپنی مرضی کو مفہوم زبردستی کشید کرنے کی کوشش کی بغور جائزہ لیجئے !

اللہ نے فرمایا:اگر وہ حمل والی ہوں تو ان پر خرچ کرو یہاں تک کہ وہ اپنا حمل وضع کر لیں ۔

اگر وہ تمہارے لئے دودھ پلائیں تو انھیں ان کی اجرتیں دو۔

اب کتنا خرچ کرنا ہے کتنی اجرت ہے وہ ایک خاص مقدار مقرر نہیں فرمائی بلکہ فرما دیا کہ وسعت والا اپنی وسعت کے مطابق اور تنگی والا اپنی گنجائش کے مطابق خرچ کرے ۔
غور فرمائیں جملہ شرطیہ ہے کہ اگر ایسا ہو تب تمہاری یہ ذمہ داری ہے اگر تمہارے بچوں کو دودھ پلائیں تب تم نے یہ کرنا ہے ۔
یہاں یہ کہاں ذکر ہے کہ کسی شخص کی مطلقہ بیوی کا نفقہ ہمیشہ کیلئے اس کی ذمہ داری ہے ؟

باقی ہر بات میں ملا کو مطعون کرنے سے ہمیں اسی محفل کے ہی ایک رکن حسیب احمد حسیب بھائی کی ایک تحریر "مولویریا کے مریض"یاد آ جاتی ہے



بھئی !ہمیں مولوی کی بے جا حمایت کا قطعی کوئی شوق نہیں اگر مولوی کسی جرم میں ملوث ہے تو آپ مدلل اسے واضح کیجئے ہم آپ سے زیادہ اس کی مخالفت کریں گے البتہ اندھا دھند تعصب سے گریز کیجئے ۔
 
برادر من ربیع، بات بنیادی وہی ہے کہ یا تو لوگ طلاق کے بعد مطلقہ عورت کا حق متاع پر مانیں یا پھر مہر میں لمبے عرصے کی اجرت لکھوائی جائے۔

جہاں تک متاع پر حق کا تعلق ہے، یہ آج کل عدالتیں طے کرتی ہیں۔ جو کہ حق مہر کے علاوہ ہوتا ہے۔ میرا ووٹ حق متاع کے حق میں ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں ۔ اس کی وجہ وہ آیات ہیں جن کا حوالہ فراہم کیا۔ آپ کو حق ہے اپنا نظریہ رکھنے کا لیکن مجھے آپ حق متاع یعنی خرچے کو صرف ایک بار دینے کی کوئی دلیل فراہم نہیں کرسکے ہیں۔ آپ کا جواب میں نے پڑھ لیا ہے ، افسوس یہ ہے کہ اس میں کوئی تذکرہ نہیں ملتا کہ کتنی مدت تک خرچہ ادا کیا جانا ہے ۔ لہذا یہ کوئی تشفی بخش جواب نہیہں ۔

فی الحال اس بھث کو بند کرتے ہیں۔ اس نکتے پر کہ ہمارا اس نکتے پر کوئی اتفاق نہیں۔

والسلام
 
Top