محترم فاروق سرور صاحب!
آپ کے مراسلے کافی دلچسپ ہوتے ہیں ۔بسا اوقات ان پر ہنسی بھی آتی ہے ۔
مندرجہ بالا مراسلے کے حوالے سے کچھ گزارشات رکھنا چاہتا ہوں امید ہے کہ آپ غور فرمائیں گے ۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ کی املا میں کافی غلطیاں ہوتی ہیں وہ تو شاید اتنا بڑا مسئلہ نہیں ، لیکن ایک گزارش ہے کہ قرآن کریم کی آیات کو کاپی پیسٹ کرتے وقت کچھ خیال رکھا کریں کہ ان میں غلطی نہ باقی نہ رہے جیسا کہ آپ اپنے مراسلے میں دیکھ سکتے ہیں :
یقینا انسان ہونے کے ناطے ایسی غلطیاں سرزد ہوتی رہتی ہیں لیکن کلام اللہ کے سلسلے میں ہمیں خصوصی طور پر محتاط رہنا چاہئے ۔
دوسری بات: ابھی پچھلا مکالمہ ہی کسی نتیجے پر پہنچائے بغیر آپ اسے ادھورا چھوڑ گئے ، ہم بھی آپ کی بزرگی کے احترام میں خاموش رہے کہ آپ نے نئے سرے سے ایک اور موضوع چھیڑ دیا۔
تیسری بات : مہر معجل اور مؤجل:
کیا آپ کا سوال یہ ہے کہ قرآن کی رو سے مہر مؤجل درست نہیں ؟مہر عقد نکاح کے وقت ہی ادا کر دینا چاہئے ؟
تو قرآن خود کہتا ہے :
لَّا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِن طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنَّ أَوْ تَفْرِضُوا لَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَ ﴿
٢٣٦﴾
تم پر اس سلسلے میں کوئی گناہ نہیں کہ اگر تم ایسی عورتوں کو طلاق دو جنہیں تم نے ابھی تک چھوا نہ ہو یا ان کیلئے حق مہر مقرر نہ کیا ہو ،( ایسی صورت میں طلاق کے وقت) انھیں کچھ سازوسامان دے دو وسعت والے کے اوپر اس کی طاقت کے مطابق اور تنگی والے پر اس کی طاقت کے مطابق ہے ، سامان معروف طریقے کے مطابق دینا نیکی کرنے والوں پر یہ حق ہے ۔
چہارم:کیا نفقہ اور رہائش ہمیشہ کیلئے سابق شوہر کی ذمہ داری ہے ؟
فاروق صاحب آپ کا دعوی ہے کہ طلاق کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق مطلقہ عورتیں اور بچے ہمیشہ کیلئے مرد کی ذمہ داری ہیں اور مرد اس کو گھر سے نہیں نکال سکتا ۔یہاں تک کہ آپ کا دعویٰ ہے کہ عدت پوری ہونے اور مرد کی جانب سے رجوع نہ کرنے کی صورت میں بھی اس کی رہائش کا بندوبست اب مرد کی ذمہ داری ہے ۔
اس سلسلے میں پہلے آپ نے جو دلائل پیش کئے ہیں ان کا جائزہ لیتے ہیں اور پھر اس معاملے کو مختلف پہلوؤں سے دیکھتے ہیں ۔
کیا طلاق کے بعد عورت کی رہائش اس کے سابق خاوند کی ذمہ داری ہے ؟
آپ کی پہلی دلیل :
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ ۖ وَاتَّقُوا اللَّ۔هَ رَبَّكُمْ ۖ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ ۚ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّ۔هِ ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّ۔هِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ ۚ لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّ۔هَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَٰلِكَ أَمْرًا ﴿
١﴾
اے نبی !جب تم عورتوں کو طلاق دو تو انھیں ان کی عدت کے وقت میں طلاق دو اور عدت کو خوب اچھی طرح گنو اور اللہ سے ڈرو جو تمہار ا رب ہے ، نہ تم انھیں ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ نکلیں مگریہ کہ کوئی کھلی بے حیائی (عمل میں ) لائیں ۔ اور یہ اللہ کی حدیں ہیں اور جو اللہ کی حدوں سے آگے بڑھے تو یقینا اس نے اپنے آپ پر ظلم کیا ۔ تو نہیں جانتا شاید اللہ اس کے بعد کوئی نئی بات پیدا کر دے ۔
اگلی آیت دیکھیں :
فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فَارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنكُمْ وَأَقِيمُوا الشَّهَادَةَ لِلَّ۔هِ ۚ
پھر جب وہ اپنی میعاد کو پہنچنے لگیں تو انھیں اچھے طریقے سے روک لو ، یا اچھے طریقے سے ان سے جدا ہوا جاؤ اور اپنوں میں سے دو صاحب عدل آدمی گواہ بنا لو اور شہادت اللہ کیلئے قائم کرو۔
اب یہاں غور فرمائیے ! یہ اس صورت میں حکم ہو رہا ہے جب طلاق رجعی ہے یعنی مر دکے پاس رجوع کا حق موجود ہے طلاق بائنہ کا بیان نہیں ہو رہا۔
جیسا کہ اللہ رب العزت نے فرما دیا کہ " تو نہیں جانتا شاید اللہ اس کے بعد کوئی نئی بات پیدا کردے ۔"
اور آپ نے اپنے ترجمہ میں بریکٹس کے اندر مفہوم واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ شاید اللہ رب العزت رجوع کی کوئی صورت پیدا کردیں ۔
اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ طلاق رجعی کی صورت میں حکم ہے ۔
اچھا اب اگلی آیت ملاحظہ کریں تو معاملہ مزید صاف ہو جاتا ہے کہ " جب ان کی عدت مکمل ہونے لگے تو یا اچھے طریقے سے روک لو یا جد اکر لو ، اب اگر طلاق بائنہ ہو ( فی الحال ہم اس بحث میں نہیں داخل ہوتے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں طلاق رجعی ہو گی یا طلاق بائن ) اچھے طریقے سے روک لینے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔
اب آپ نے اگلی دلیل یہ دی کہ :
أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنتُم مِّن وُجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ ۚ
انھیں وہاں ٹھہراؤ جہاں تم رہتے ہو اپنی طاقت کے مطابق ، اور انھیں اس لئے تکلیف نہ دو کہ ان پر تنگی کرو۔
اب ان آیات پر غور کیجئے !
پہلی ذکر کردہ دو آیات میں اللہ نے فرمایا کہ طلاق دینے کے بعد عدت شمار کرو نہ تم انھیں اپنے گھروں سے نکالو اور نہ ہی وہ اپنے گھروں سے نکلیں آخر میں حکمت بیان فرمادی کہ شاید اللہ تعالیٰ رجوع یا صلح کی کوئی صورت پیدا فرما دیں ۔ اگلی آیت میں فرمایا کہ جب عدت کا وقت گزر جائے تویا اچھے طریقے سے روک رکھو یا جدا ہو جاؤ
درمیان کی کچھ آیات میں اللہ نے وعظ و نصیحت کی اور پھر فرمایا کہ انھیں وہاں ٹھہرانا ہے جہاں تم رہائش پذیر ہو۔
اب دیکھئے !
· اگر اللہ رب العزت نے ہمیشہ کیلئے اس کی رہائش اس کے سابق خاوند کی ذمہ داری بنائی ہوتی تو کیا یہ حکم ہوتا کہ انھیں وہاں ٹھہراؤ جہاں تم رہتے ہو؟ بلکہ حکم یہ ہوتا کہ ان کیلئے الگ سے رہائش کا بندوبست کرو۔
· اگر ہمیشہ کیلئے رہائش سابق خاوند کی ذمہ داری ہوتی تو یہاں محض طلاق رجعی والی صورت کا ذکر کیوں؟ طلاق بائن کا ذکر ہی نہیں ۔
· کیا کسی کی عقل یہ بات تسلیم کرتی ہے کہ اللہ رب العزت ایک ہی گھر میں عورت اور اس کے سابق خاوند کو رہنے کا حکم دے رہے ہیں جبکہ وہ دونوں ایک دوسرے کیلئے نامحرم ہو چکے ہیں ؟
· اور کیا اس کا سابق خاوند اگر آگے شادی کرے گا اور اس کے پاس ایک ہی گھر ہے تو اس کی سابق بیوی بھی یہاں رہائش پذیر ہے اس سے خاندان بچےگا یا مزیددو خاندان تباہ ہوں گے ۔
· اگر آپ کے اس دعویٰ کو تسلیم کیا جائے تو یہاں اللہ رب العزت تو عورت کو بھی حکم دے رہے ہیں کہ وہ خاوند کے گھر سے باہر نہ نکلے تو ایسا ظالمانہ قانون کسی کی عقل تسلیم کرتی ہے کہ اللہ رب العزت نے بنایا ہے ؟
· اگر آپ کے اس دعوی کو تسلیم کیا جائے کہ رہائش اور نفقہ ہمیشہ کیلئے سابق خاوند کی ذمہ داری ہےاور ساتھ ہی آگے آپ یہ بھی فرما رہے ہیں
· تو اس صورت میں رہائش و نفقہ کی ذمہ داری کس دلیل کی رو سے ساقط ہو جاتی ہے ؟
اب آپ کے دعویٰ کے دوسرے جزو کو دیکھئے !
کیامطلقہ عورت کا نفقہ ہمیشہ کیلئے سابق خاوند کے ذمہ ہے ۔
آپ نے دلیل میں آیات پیش کیں کہ :
أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنتُم مِّن وُجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ ۚ وَإِن كُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ فَأَنفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّىٰ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ ۖ وَأْتَمِرُوا بَيْنَكُم بِمَعْرُوفٍ ۖ وَإِن تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهُ أُخْرَىٰ ﴿٦﴾ لِيُنفِقْ ذُو سَعَةٍ مِّن سَعَتِهِ ۖ وَمَن قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ فَلْيُنفِقْ مِمَّا آتَاهُ اللَّ۔هُ ۚ لَا يُكَلِّفُ اللَّ۔هُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَا ۚ سَيَجْعَلُ اللَّ۔هُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًا ﴿٧﴾
انھیں وہاں ٹھہراؤ جہاں تم رہتے ہو، اپنی طاقت کے مطابق اور انھیں اس لئے تکلیف نہ دو کہ ان پر تنگی کرو اور اگر وہ حمل والی ہوں تو ان پر خرچ کرو ، یہاں تک کہ وہ اپنا حمل وضع کر لیں ، پھر اگر وہ تمہارے لئے دودھ پلائیں تو انھیں ان کی اجرتیں دو اور آپس میں اچھے طریقے سے مشورہ کرو اور اگر تم آپس میں تنگی کرو تو عنقریب اسے کوئی اور عورت دودھ پلادے گی
وسعت والے کو چاہئے کہ اپنی وسعت میں سے خرچ کرے اور جس پر اس کا رزق تنگ کیا گیا ہو تو وہ اس میں سے خرچ کرے جو اللہ نے اسے دیا ہے ۔ اللہ کسی شخص کو تکلیف نہیں دیتا مگر اسی کی جو اس نے اسے دیا ہے ، عنقریب اللہ تنگی کے بعد آسانی پیدا کردے گا۔
اب ان دونون آیات کو جو اسی ترتیب سے اللہ نے قرآن میں ذکر کیں اور آپ نے انھیں الگ الگ ذکر کرکے اپنی مرضی کو مفہوم زبردستی کشید کرنے کی کوشش کی بغور جائزہ لیجئے !
اللہ نے فرمایا:اگر وہ حمل والی ہوں تو ان پر خرچ کرو یہاں تک کہ وہ اپنا حمل وضع کر لیں ۔
اگر وہ تمہارے لئے دودھ پلائیں تو انھیں ان کی اجرتیں دو۔
اب کتنا خرچ کرنا ہے کتنی اجرت ہے وہ ایک خاص مقدار مقرر نہیں فرمائی بلکہ فرما دیا کہ وسعت والا اپنی وسعت کے مطابق اور تنگی والا اپنی گنجائش کے مطابق خرچ کرے ۔
غور فرمائیں جملہ شرطیہ ہے کہ اگر ایسا ہو تب تمہاری یہ ذمہ داری ہے اگر تمہارے بچوں کو دودھ پلائیں تب تم نے یہ کرنا ہے ۔
یہاں یہ کہاں ذکر ہے کہ کسی شخص کی مطلقہ بیوی کا نفقہ ہمیشہ کیلئے اس کی ذمہ داری ہے ؟
باقی ہر بات میں ملا کو مطعون کرنے سے ہمیں اسی محفل کے ہی ایک رکن حسیب احمد حسیب بھائی کی ایک تحریر "مولویریا کے مریض"یاد آ جاتی ہے
بھئی !ہمیں مولوی کی بے جا حمایت کا قطعی کوئی شوق نہیں اگر مولوی کسی جرم میں ملوث ہے تو آپ مدلل اسے واضح کیجئے ہم آپ سے زیادہ اس کی مخالفت کریں گے البتہ اندھا دھند تعصب سے گریز کیجئے ۔