بھارت میں مسلم کش فسادات

جاسم محمد

محفلین
دونوں ہی غلط ہیں لیکن پھر بھی حیران ہوں کہ ایسے چھوٹے مجمعے کی نسبت ملک کی ایک کثیر آبادی کو کیسے اس ہسٹیریا میں مبتلا کیا جا سکتا ہے۔
ہر ملک کے مذہبی انتہا پسند ان ہندو-مسلم، مسلم-قادیانی، شیعہ-سنی فسادات کو صرف اپنی سیاست چمکانے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
آخر کیا وجہ ہے کہ مغرب میں اس قسم کے کمیونل فسادات ناپید ہو چکے ہیں؟ کیونکہ وہاں سخت سیکولر آئین اور قانون سازی کی وجہ سے تمام اقلیتوں کو اکثریت کے جبر سے تحفظ حاصل ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
اگر محفل پر کوئی کسی فرقے کا نمائندہ بن کر کسی دوسرے فرقے کے خلاف طنز ، غصہ ، لیبلنگ پر مبنی "اصلاحی" پوسٹ کرنا شروع ہو جائے تو خوش ہونے کی ضرورت نہیں کیوں کہ وہ امت مسلمہ کے اتحاد کو ختم کرنے کے لیے آیا ہے۔
مصلح ہمیشہ امت کا خیر خواہ ہوگا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
آخر کیا وجہ ہے کہ مغرب میں اس قسم کے کمیونل فسادات ناپید ہو چکے ہیں؟ کیونکہ وہاں سخت سیکولر آئین اور قانون سازی کی وجہ سے تمام اقلیتوں کو اکثریت کے جبر سے تحفظ حاصل ہے۔

--
ایک مجلس میں یونہی عمومی گفتگو چل رہی تھی کہ ایک صاحب نے پاکستان کے بعض دیہاتی علاقوں کے "بڑوں" (وڈیروں و سرداروں وغیرہ) کا شکوہ شروع کردیا کہ یہ لوگ اپنے علاقے میں سکول نہیں پنپنے دیتے کیونکہ ان کے خیال میں سکول پڑھنے والا بچہ پھر سرکار کی نوکری کرتا ہے ان کی نہیں اور اس سے ان کی چودھراھٹ ختم ہوتی ہے۔
عرض کیا کہ اس رویے کے مطلوب و غیر مطلوب ہونے کی بحث کو ایک طرف رکھ کر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ "بڑے" اس معاملے میں انوکھے نہیں ہیں، بعینہہ یہی رویہ جدید ریاستیں بھی بچے کے حوالے سے رکھتی ہیں، فرق دائرہ اختیار کے سائز کا ہے۔ چنانچہ سرمایہ دارانہ ریاست اس بڑے سے تو چھوڑئیے ماں باپ سے بھی بچہ چھین کر اپنے قائم کردہ سکول بھجواتی ہے جہاں اس کی مرضی کا نصاب پڑھایا جاتا ہے کیونکہ وہ چاہتی ہے کہ بچہ اس کے قائم کردہ نظام (سرمائے میں مسلسل بڑھوتری) کی خدمت کرنے لائق ہوسکے تاکہ اس ریاست کا وجہ جواز و اقتدار قائم و دائم رہ سکے۔ جس طرح یہ ریاست اپنے مقصد کو بچے کا مقصد بتا کر پیش کرتی ہے وہ بڑا بھی اسکول کو بچے اور اپنے معاشرتی نظم کے لئے مہلک سمجھ کر اس کی مخالفت کرتا ہے۔ فرق بس اتنا ہے کہ ہم ایک جبر کو ناجائز و غیرمعقول سمجھتے ہیں اور دوسرے کو جائز جبکہ اپنی وضع میں دونوں جبر ہی ہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ مغرب میں مذھب پر عمل کرنے کی جیسی آزادی ہے ویسی تو خود مذھبی ممالک میں بھی نہیں، ان ممالک میں مذھبی اقلیتوں کے ساتھ وہ امتیازی سلوک روا نہیں رکھا جاتا جو مذھبی ریاست میں ہوتا ہے، مذھب تبدیل کروانے کے لئے جبر کا تصور بھی نہیں ہے، وہاں پاکستان کی طرح آبادی میں اقلیتی مذھب والوں کی گرتی ہوئی شرح کا کوئی خطرہ نہیں وغیرہ۔ یہ وہ غلط العام تصورات ہیں جو سیکولر مفکرین نے اپنی دھریہ فکر کے پردے میں پھیلا دئیے ہیں اور عام لوگ تو کجا پڑھے لکھے لوگ بھی اس پراپیگنڈہ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس قسم کی باتوں کا تفصیلی تجزیہ ہم نے اپنی کتاب "مقالات تفہیم مغرب: کلامیات و علمیات" کے مختلف ابواب میں پیش کیا ہے اور یہاں وہ تفصیلات پیش کرنا ممکن نہیں۔ سردست چند باتوں کو نوٹ کیجئے جنہیں یہ حضرات بڑی مہارت کے ساتھ گول کرجاتے ہیں:
- کیا مغرب میں کسی مذھب والے کو یہ اجازت ہے کہ وہ اجتماعی نظم (پالیسی میکنگ پراسس) میں مذھب کی بنیاد پر کسی عمل کے جواز و عدم جواز کا تقاضا کرسکے؟
نہیں اور ہرگز نہیں۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر مذھب والے پر "قانونا لازم ہے" کہ وہ اجتماعی نظم میں مذھب کے لئے "چھوٹا بن کر رہنے" کی حیثیت قبول کرے چاہے مذھب کیسے ہی ضروری اور کتنے ہی تقاضے کیوں نہ کرتا ہو۔ جبر اور کس بلا کا نام ہے؟ یعنی زندگی کے عظیم ترین دائرے میں ہر مذھب والے پر اپنا نظریہ مسلط کرکے تم ان کے ساتھ امتیازی سلوک کرتے ہو اور پوچھتے ہو کہ امتیازی سلوک کہاں ہوا؟
- کبھی غور کیا کہ بیسویں صدی کے آغاز میں مغربی ممالک میں دھریت نہ ہونے کے برابر تھی (سن 1900 میں دنیا کی کل آبادی میں ان کی شرح اعشاریہ صفر ایک فیصد تھی، یعنی ایک فیصد کا بھی ایک فیصد) لیکن پچھلی پانچ چھ دھائیوں میں مغرب کے اندر دھریت میں بے تحاشا اضافہ ہوگیا (اب یہ نہ کہئے گا کہ وہاں دھریت نے مذھب ہر "علمی فتح" حاصل کرلی)۔ یورپ کے بعض ممالک میں تو تقریبا پچاس فیصد لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہمارا کوئی مذھب نہیں۔ تو آپ کو پاکستان میں اقلیتوں کی گرتی ہوئی شرح کی تو فکر لاحق رہتی ہے لیکن کبھی آپ کو یہ فکر لاحق ہوئی کہ یورپ میں غالب اکثریت والا عیسائی مذھب آج اقلیت میں تبدیل ہونے کے خطرات سے کیسے دوچار ہوگیا؟ یہ اس لئے ہوا کیونکہ آپ کی من پسند سیکولر ریاست نے لوگوں پر ایسا تعلیمی و اجتماعی نظام مسلط کیا جس میں مذھب کا کوئی عمل دخل نہیں، اس نے لوگوں سے کہا سکول میں بچوں کو مذھب نہیں پڑھانے دیں گے، بچوں کو کیا پڑھانا ہے یہ میں طے کروں گی اور پھر مذھب مخالف نظریات معصوم ذھنوں میں انڈیلنا شروع کردئیے، وہ بھی "معروضیت" اور "نیوٹریلٹی" کے پردوں میں۔
اس نے کہا
سکول، کالج اور جامعات (جنہیں میں اپنے مقاصد کے لئے پبلک ٹیکس سے فنڈ کروں گی) کا مقابلہ اپنی مسجد اور گرجے کے چندے سے کرسکتے ہو تو کرلو، اس نے اعلان کیا کہ پبلک لائف میں مذھب خاموش ہوجائے کیونکہ یہاں میری دھریت کا راج ہوگا نتیجتا مذھب نجی زندگیوں میں بھی خاموش ہوگیا!
- کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ کتنے ہی مسلمان ہیں جب ان کے بچے جوان ہوگئے تو وہ مغربی ممالک چھوڑ کر اپنے آبائی وطنوں کی طرف لوٹ گئے کیونکہ انہیں وہاں اپنے بچوں کا ایمان و اخرت محفوظ محسوس نہیں ہوتا تھا؟ جبری بے دخلی بھلا اس کے سواء اور کیا ہوتی ہے کہ "یہ ہمارا نظام ہے، اس میں رنگ کے رہ سکتے ہو تو رہو ورنہ جاؤ یہاں سے"!

جس نظام نے اس کائنات کی سب سے بڑی حقیقت (مذھب) کو کھیل تماشا بنا کر رکھ دیا ہے کم از کم اس کی ایسی ثنا خوانی کرکے حیران تو نہ کریں۔
 

ایم اے

معطل
یہ بات درست ہے۔ ان کے ہاں ریاست کا نظریہ پایا جاتاہے۔ پہلے ریاست کے امور اپنے ہاتھ میں لےلیے جائیں پھر اس کو ماں کا درجہ دے کر سرپرست کا کردار ادا کیاجائے۔ اس طرح عوام آپ کے قابو میں رہیں گے۔
البتہ مسلمان ممالک میں ہمیشہ ریاست کو عوام سے ٹھکرایا جاتاہے۔ یہ کام وہ اس طرح کرتے ہیں کہ پہلے ریاست اور اداروں میں بتدریج اس ملک میں موجود ایسی اقلیتوں کو داخل کرایا جاتاہے، جن میں یہ خوف جڑ پکڑ چکی ہو کہ اگر ہم نے اقتدار (یہاں مراد حکومت نہیں ہے) حاصل نہیں کیا تو یہاں کی اکثریت ہمیں کھاجائےگی۔ اگرچہ ایسا نہیں ہوتا لیکن یہ خوف ان میں پروان چڑھایا جاتاہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد وہ ان غیرملکی طاقتوں کے ساتھ حتی الممکن تعاون کرنے پر آمادہ ہوتی ہیں تاکہ اقتدار مضبوط رہے، ورنہ اقلیت میں ہونے کی وجہ سے ان کے اقتدار کے لیے ہر وقت خطرہ موجود رہتا ہے۔ پاکستان اس کی ایک بہترین مثال ہے۔ یعنی اکثریتی طبقے پر اقلیتوں کو مسلط کرنا، تاکہ وہ ملک ہمیشہ کشمکش میں رہے۔
ایران جیسی پابندیاں اگر کسی دوسرے ملک پر لگائی جاتی تو وہ کب کا دیوالیہ ہوچکا ہوتا، لیکن ایران کی قیام پذیری کے پیچھے یہی دو وجوہات ہے۔ امریکا کے ساتھ ان تمام معاملات میں تعاون کرنا جہاں ان کی اقتدار کو امریکا سے خطرہ لاحق نہ ہو، اور اکثریتی نظریے پر ان ہی کے نظریےکے حامل طبقے کا اقتدار۔
 

جاسم محمد

محفلین
فرق بس اتنا ہے کہ ہم ایک جبر کو ناجائز و غیرمعقول سمجھتے ہیں اور دوسرے کو جائز جبکہ اپنی وضع میں دونوں جبر ہی ہیں۔
ریاست اگر اپنے شہریوں سے جبرا ٹیکس اکٹھا نہ کرے تو دیوالیہ ہو جائے یا عالمی مالیاتی اداروں کی غلام بن جائے جیسا کہ ریاست پاکستان بن چکی ہے۔
ریاست اگر اپنے شہریوں پر یکساں قانون کاجبرا اطلاق نہ کرے تو وہ بانانا رپبلک بن جائے جہاں امیر و طاقتور کیلئے قانون اور جبکہ غریب و کمزور کیلئے قانون اور ہوتا ہے، جیسا کہ ریاست پاکستان۔
ریاست اگر جبرا اپنے تمام شہریوں کو یکساں حقوق نہ دے تو وہاں اکثریت کا جبر نافذ ہو جائے جیسا کہ آجکل بھارت میں تمام اقلیتیں ہندو اکثریت کا جبر سہہ رہی ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
حقیقت یہ ہے کہ لبرل سٹیٹ ھمیشہ سے Paternalistic کردار ادا کرتی رہی ہے
(جسکی واضح ترین مثال سٹیٹ سپانسرڈ اور لازمی ایجوکیشن ہے)
لبرل ازم اور Paternalism

تعلیم حاصل کرنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
البتہ مسلمان ممالک میں ہمیشہ ریاست کو عوام سے ٹھکرایا جاتاہے۔ یہ کام وہ اس طرح کرتے ہیں کہ پہلے ریاست اور اداروں میں بتدریج اس ملک میں موجود ایسی اقلیتوں کو داخل کرایا جاتاہے، جن میں یہ خوف جڑ پکڑ چکی ہو کہ اگر ہم نے اقتدار (یہاں مراد حکومت نہیں ہے) حاصل نہیں کیا تو یہاں کی اکثریت ہمیں کھاجائےگی۔ اگرچہ ایسا نہیں ہوتا لیکن یہ خوف ان میں پروان چڑھایا جاتاہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد وہ ان غیرملکی طاقتوں کے ساتھ حتی الممکن تعاون کرنے پر آمادہ ہوتی ہیں تاکہ اقتدار مضبوط رہے، ورنہ اقلیت میں ہونے کی وجہ سے ان کے اقتدار کے لیے ہر وقت خطرہ موجود رہتا ہے۔ پاکستان اس کی ایک بہترین مثال ہے۔ یعنی اکثریتی طبقے پر اقلیتوں کو مسلط کرنا، تاکہ وہ ملک ہمیشہ کشمکش میں رہے۔
پاکستانی اداروں میں کتنے قادیانی، ہندو، مسیحی وغیرہ کام کر رہے ہیں؟ آٹے میں نمک کے برابر
 
Top