بھارت کا مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم، 2 حصوں میں تقسیم کرنے کا اعلان

فرقان احمد

محفلین
ایک میان میں دو تلواریں نہیں رہ سکتی۔ اگر نواز شریف نے اپنے اچھے کاموں سے ملک و قوم کی خدمت کی ہے۔ تو اپنے برے کاموں سے اسے ناقابل تلافی نقصان بھی پہنچایا ہے:
1992 میں اپنے پہلے دور حکومت میں اکانمک ریفارمز ایکٹ پاس کر کے منی لانڈرنگ کو لیگلائیز کرنا ۔ 1997 اپنے دوسرے دور حکومت میں 13 ویں اور 14 ویں آئینی ترامیم پاس کر کے امیرالمومنین بننے کی کوشش کرنا۔ سپریم کورٹ کی عمارت پر اپنے غنڈوں سے حملہ کروا کر چیف جسٹس کو اپنے خلاف فیصلہ سنانے سے رکوانا۔ اور بعد میں صوبائی ججوں کو خرید کر چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو ملازمت سے ہی نکلوا دینا وہ کارنامے ہیں۔ جو ہمیشہ ن لیگ کی تاریخ میں "سنہری" حروف سے لکھے جائیں گے۔ :)
ان کے اعمال نامہ میں اچھے کام کم اور برے کام بہت ہی زیادہ ہیں۔ اور جب برے کاموں کا پلڑا بھاری ہو جائے تو عموما انسان کی جائے پناہ جیل ہی ہوتی ہے :)
اس کا جواب آپ اُن سے ہی لیجیے۔ :) ہماری ایسی کوئی مجبوری نہیں کہ اُن کا دفاع کریں۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
سابق کشمیر کمیٹی والوں کی بھی سن لو۔

عمران خان نے کشمیر کو ٹرمپ کے ہاتھوں بیچ دیا ہے، مولانا فضل الرحمان
منگل 6 اگست 2019
1770042-fazalurrehmanx-1565101734-754-640x480.jpg

یہ عوام کی نمائندہ حکومت نہیں ہے اس لئے ان سے امید کی بھی توقع نہیں ہے، سربراہ جے یو آئی (فوٹو: فائل)


جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ عمران خان نے کشمیر کو ٹرمپ کے ہاتھو بیچ دیا ہے، اور امریکا سے بھی خالی ہاتھ آگئے۔

اسلام آباد میں کشمیر کی صورتحال پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے سربراہ جمعیت علماء اسلام (ف) مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ مودی سرکار نے جو کچھ بھی کیا یہ اچانک نہیں ہوا، نریندرا مودی نے انتخابی مہم میں کشمیر کی حیثیت ختم کرنے کا کہا تھا اور گزشتہ انتخابات میں مودی کی پارٹی بی جے پی کا یہ واضح منشور بھی تھا۔

مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ کشمیر کا معاملہ اب عالمی فورم سے نکل گیا ہے، بھارت عالمی قراردادوں کو رد کرتے ہوئے یکطرفہ طور پر کشمیر کو ہندوستان کے جغرافیہ میں داخل کرلیا اور ہمارے حکمران تماشہ دیکھتے رہے، اب بھی مسئلہ کشمیر پر ہماری حکومت سنجیدہ نہیں نظر آرہی، کور کمانڈر کانفرنس میں بھی مسئلہ کشمیر پر حکومت کی پالیسی کی حمایت کی گئی حالانکہ حکومت کی ابھی تک کوئی پالیسی واضح نہیں ہے، سلیکٹیڈ وزیراعظم بھی مسئلہ کشمیر پر خاموش ہیں۔

سربراہ جے یو آئی نے وزیراعظم عمران خان پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے کشمیر کو ٹرمپ کے ہاتھو بیچ دیا ہے، سلیکٹیڈ وزیراعظم ٹرمپ کے پاس سے بھی خالی ہاتھ واپس لوٹ کر آئے، سر نڈر ہونا عمران خان کے خاندان کا خاندانی معاملہ ہے۔

مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ یہ عوام کی نمائندہ حکومت نہیں ہے اس لئے ان سے امید کی بھی توقع نہیں ہے، میں قوم سے گزارش کروگا یہْ ہماراہ متحد ہونے کا وقت ہے، آزادی کی جنگ میں ہمیں کشمیریوں کی مدد کرنی چاہئے، قوم نے براہ راست کشمیریوں کو یقین دلانا ہے کہ ہم ان کے ساتھ ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
چین نے مقبوضہ کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے عمل کو ناقابل قبول قرار دیدیا
ویب ڈیسک منگل 6 اگست 2019
1769784-chinaforiegnspokepersonoverkashmir-1565098388-606-640x480.jpg

مسئلہ کشمیر دو طرفہ معاملہ ہے جسے باہمی رضامندی اور پر امن طریقے سے حل کیا جانا چاہیئے۔ چین فوٹو : فائل


بیجنگ: چین نے بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے دو حصوں میں تقسیم کرنے کے عمل کو ناقابل قبول قرار دے دیا۔

بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق چین نے مقبوضہ کشمیر کی جغرافیائی تقسیم کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے لداخ کی بھارتی یونین میں شمولیت پر اعتراض اُٹھایا اور اس اقدام کو ناقابل قبول قرار دیا ہے۔

چین نے اپنے بیان میں بھارت کو لداخ کے علاقے میں سرحد کی خلاف ورزی سے باز رہنے پر تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ بھارت چین کے ساتھ طے پانے والے معاہدوں کی پاسداری کرنی چاہیئے بصورت دیگر چین ردعمل کا حق محفوظ رکھتا ہے۔

یہ خبر بھی پڑھیں : بھارت کا مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم اور 2 حصوں میں تقسیم کرنے کا اعلان
چین کے ترجمان وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مسئلہ کشمیر دو طرفہ معاملہ ہے جسے پاکستان اور بھارت کو باہمی رضامندی اور پُرامن طریقے سے حل کرنا چاہیے۔

واضح رہے کہ مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرکے سے دو ریاستوں جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کردیا ہے جب کہ لداخ کے چند علاقوں پر چین ملکیت کا دعویٰ رکھتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
وزیر اعظم عمران خان کا فوری اقدام

وزیر اعظم عمران خان نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی تشویشناک صورتحال کے پیش نظر ،مجوزہ ردعمل ترتیب دینے کے لیے، سیاسی، سفارتی اور قانون پہلوؤں کا جائزہ لینے اور تجاویز مرتب کرنے کے لیے سات رکنی کمیٹی تشکیل دے دی

یہ کمیٹی وزیر خارجہ، اٹارنی جنرل آف پاکستان، سیکریٹری خارجہ، ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی (ملٹری آپریشنز)،ڈی جی (آئی ایس پی آر) اور وزیر اعظم کے نمائندہ ء خصوصی احمر بلال صوفی پر مشتمل ہو گی

اس کمیٹی کی تشکیل کا باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے
67514458_10156764752029527_683539780255875072_n.jpg
 

فرقان احمد

محفلین
چین نے مقبوضہ کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے عمل کو ناقابل قبول قرار دیدیا
ویب ڈیسک منگل 6 اگست 2019
1769784-chinaforiegnspokepersonoverkashmir-1565098388-606-640x480.jpg

مسئلہ کشمیر دو طرفہ معاملہ ہے جسے باہمی رضامندی اور پر امن طریقے سے حل کیا جانا چاہیئے۔ چین فوٹو : فائل


بیجنگ: چین نے بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے دو حصوں میں تقسیم کرنے کے عمل کو ناقابل قبول قرار دے دیا۔

بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق چین نے مقبوضہ کشمیر کی جغرافیائی تقسیم کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے لداخ کی بھارتی یونین میں شمولیت پر اعتراض اُٹھایا اور اس اقدام کو ناقابل قبول قرار دیا ہے۔

چین نے اپنے بیان میں بھارت کو لداخ کے علاقے میں سرحد کی خلاف ورزی سے باز رہنے پر تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ بھارت چین کے ساتھ طے پانے والے معاہدوں کی پاسداری کرنی چاہیئے بصورت دیگر چین ردعمل کا حق محفوظ رکھتا ہے۔

یہ خبر بھی پڑھیں : بھارت کا مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم اور 2 حصوں میں تقسیم کرنے کا اعلان
چین کے ترجمان وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مسئلہ کشمیر دو طرفہ معاملہ ہے جسے پاکستان اور بھارت کو باہمی رضامندی اور پُرامن طریقے سے حل کرنا چاہیے۔

واضح رہے کہ مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرکے سے دو ریاستوں جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کردیا ہے جب کہ لداخ کے چند علاقوں پر چین ملکیت کا دعویٰ رکھتا ہے۔
بہتر ہو گا کہ چین، امریکا اور چند عالمی طاقتوں کو گھیر کر اس مسئلے کا دائمی حل نکالنے کے حوالے سے کوششیں کی جائیں۔ یہ کچھ ایسا ناممکن کام بھی نہیں ہے۔ ہندوستان بظاہر اٹوٹ انگ کی گردان کرتا ہے، تاہم، درحقیقت اسے کشمیر میں بسنے والی مسلم اکثریت کی جانب سے کافی حد تک مزاحمت کا سامنا بھی ہے اسی لیے کبھی کبھار وہ اپنے موقف سے انحراف کر کے مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
وزیر اعظم عمران خان کا فوری اقدام

وزیر اعظم عمران خان نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی تشویشناک صورتحال کے پیش نظر ،مجوزہ ردعمل ترتیب دینے کے لیے، سیاسی، سفارتی اور قانون پہلوؤں کا جائزہ لینے اور تجاویز مرتب کرنے کے لیے سات رکنی کمیٹی تشکیل دے دی

یہ کمیٹی وزیر خارجہ، اٹارنی جنرل آف پاکستان، سیکریٹری خارجہ، ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی (ملٹری آپریشنز)،ڈی جی (آئی ایس پی آر) اور وزیر اعظم کے نمائندہ ء خصوصی احمر بلال صوفی پر مشتمل ہو گی

اس کمیٹی کی تشکیل کا باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے
67514458_10156764752029527_683539780255875072_n.jpg
اس ڈرافٹ میں پولیٹکس کا لفظ کس حساب سے شامل کیا گیا ہے۔ :)
 

فرقان احمد

محفلین
ملک کے اندر موجود بھارت کے حامی "غداروں" کو پکڑا جائے گا (غالبا) :)
احمر بلال صوفی یہ کام کرنے سے رہے۔ شاہ محمود قریشی اور فارن سیکرٹری بھی سفارتی محاذ پر مقابلہ کریں گے۔ اٹارنی جنرل؟ نہیں نہیں! اچھا تو، وہ، یعنی کہ، وہی! :) اوکے، یعنی وہ سیاسی بیان دیں گے اور ۔۔۔! اچھا، اوکے! ٹھیک ہے، ٹھیک ہے! اور لائن کٹ گئی!
 

جاسم محمد

محفلین
مشہور کتاب "اور لائن کٹ گئی" میں ملک کے سب سے بڑے نام نہاد جمہوریے کی انتخابات میں دھاندلی کا ذکر بھی موجود ہے:
’’انتخابات کے دو دن بعد حکمران جماعت کے انتہائی اہم افراد اجلاس میں شریک تھے۔ سب خوش تھے کیونکہ اکیلے ان کی پارٹی نے نو پارٹیوں کو شکست دی تھی۔ وہ سب مسکراتے چہروں کے ساتھ پی ایم ہاؤس میں موجود بھٹو کی طرف دیکھ رہے تھے اور اس انتظار میں تھے کہ کب وہ کچھ بول کر خاموشی توڑ دیں۔ کچھ ہی لمحوں بعد بھٹو نے حفیظ پیرزادہ کی طرف دیکھا اور گویا ہوکر خاموشی توڑ ہی دی ’ ”حفیظ کتنی سیٹوں پر گڑ بڑ ہوئی ہوگی“؟
حفیظ پیرزادہ نے برجستہ جواب دیا ”سر تیس سے چالیس تک۔
بھٹو نے یہ سنا تو وہاں موجود تمام افراد سے پوچھا۔ ”کیا پی این اے والوں سے بات نہیں ہوسکتی کہ وہ ان تمام سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کردیں ہم ضمنی انتخابات میں حصہ ہی نہیں لیں گے؟
اس کہانی کا ذکر بھٹو مرحوم کے دست راست اور انتہائی قابل اعتماد ساتھی مولانا کوثر نیازی نے اپنی کتاب ”اور لائن کٹ گئی“ میں کیا ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ یہ سن کر میرے چودہ طبق روش ہوگئے کیونکہ میں پورے الیکشن کمپین کے دوران اس بات سے بے خبر رہا کہ بھٹو صاحب نے دھاندلی کا منصوبہ بھی بنایا ہے جس کی قطعاً ضرورت نہ تھی۔ ‘‘
بس نظام ہی پٹڑی سے اتر جاتا ہے - ہم سب
 

جاسم محمد

محفلین
کشمیر کی اصل کہانی
تاریخی اعتبار سے ریاست کشمیر جموں، لداخ، وادی کشمیر سے لے کر گلگت بلتستان تک کے علاقوں پر مشتمل ہوا کرتی تھی۔ پھر 1948 میں قبائلیوں اور پاک فوج نے مل کر گلگت بلتستان اور وادی کشمیر کا ایک حصہ آزاد کرا لیا۔ بعد میں 1962 میں چین کے ساتھ جنگ کے بعد کچھ حصہ چین کے پاس چلا گیا جسے پاکستان کے ساتھ چین کی بارڈر سیٹلمنٹ معاہدے کی وجہ سے اسے آپ پاکستان کا حصہ بھی کہہ سکتے ہیں۔

ریاست کشمیر کا مجموعی رقبہ 86 ہزار مربع میل سے کچھ کم ہے اور اسے رقبے کے اعتبار سے آپ مندرجہ ذیل حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں:
پاکستان 30 ہزار مربع میل سے کچھ زیادہ کا رقبہ کنٹرول کرتا ہے، چین ساڑھے 16 ہزار مربع میل پر کنٹرول رکھتا ہے جسے وہ پاکستان کے ساتھ بارڈر سیٹلمنٹ معاہدے کے ساتھ شیئر کرتا ہے۔

اور بھارت کے پاس تقریباً چالیس ہزار مربع میل کا رقبہ ہے۔

یوں انڈیا کے پاس تقریباً 47 فیصد جبکہ پاکستان کے پاس تقریباً 35 فیصد ڈائریکٹ اور مزید 19 فیصد ان ڈائریکٹ حصے کا کنٹرول ہے جو کہ کل ملا کر 53 فیصد بنتا ہے۔

اب آجائیں بھارت کے زیرتسلط کشمیر پر۔

جموں، وادی اور لداخ پر مشتمل اس حصے کی مجموعی سوا کروڑ آبادی کا 67 فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے، 30 فیصد ہندوؤں پر اور باقی سکھوں اور بدھ مت کے پیروکاروں پر مشتمل ہے۔

اس میں مزید نیچے جائیں تو وادی میں مسلمانوں کی اکثریت ہے جو کہ 90 فیصد سے زائد بنتی ہے، جموں میں ہندوؤں کی اکثریت ہے، اور لداخ میں ویسے تو شیعوں کی تعداد 46 فیصد ہے جو کہ اکثریت ہے لیکن وہاں سکھوں اور بدھ مت کو ملا کر ان اکثریت دکھا دی جاتی ہے اور یہی وہ وہ نکتہ ہے جو پاکستان کی اگلی سٹریٹیجی کی بنیاد ہے۔

یہ تو آپ سب جان ہی چکے ہیں کہ تقسیم کے وقت بھارت نے آرٹیکل 370 کے ذریعے ریاست کشمیر کو آزاد حیثیت دیتے ہوئے اپنے ساتھ شامل ہونے کیلئے رضامند کرلیا تھا اور گزشتہ روز آرٹیکل ختم کرکے باضابطہ طور پر جموں و کشمیر اور لداخ کو دو علیحدہ یونٹس میں تقسیم کرکے اپنا حصہ بنا لیا۔

اس سے بظاہر زمینی صورتحال تبدیل نہیں ہوتی کیونکہ انڈیا پہلے ہی وہاں پر قابض ہے، صرف یہی ایک اضافہ ہوا ہے کہ اب عام بھارتیوں کو کشمیر میں زمین خریدنے کی اجازت مل گئی جو کہ پہلے نہیں تھی۔ اس سے آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگلے چند سالوں میں وہاں ہندوؤں کی آبادی بڑھنے کا امکان ہے۔

عمران خان کے امریکی دورے کے موقع پر ٹرمپ نے اچانک یہ کہہ کر سب کو چونکا دیا تھا کہ وہ کشمیر کے مسئلے پر ثالث کا کردار ادا کرنے کو تیار ہے اور یہ بات مودی نے خود اسے کال کرکے کہی تھی۔ عمران خان نے اسے ویلکم کیا لیکن مودی نے اپنی شرمندگی چھپانے کیلئے اس کی تردید کردی جس کے جواب میں ٹرمپ کے ترجمان نے واشگاف الفاظ میں دہرایا کہ ٹرمپ کو غلط بیانی کی عادت نہیں، اس نے وہی کہا جو مودی نے اپنی درخواست میں کہا تھا۔

مودی کی درخواست کے خدوخال کچھ یوں تھے:
پاکستان گلگت اور بلتستان کو اپنا حصہ بنا لے،
بھارت ہندو اکثریت والے علاقے جموں کو اپنا حصہ بنا لے،
اس کے ساتھ ساتھ لداخ جہاں غیر مسلم اکثریت میں ہیں، وہ بھی انڈیا کے پاس چلا جائے،
پیچھے بچے آزاد کشمیر اور سری نگر - یا تو آزاد کشمیر پاکستان اور سری نگر انڈیا لے جائے، یا پھر ان دونوں کو اکٹھا کرکے ایک کنٹرولڈ سٹیٹ بنا دی جائے جس کا سرحدی اختیار بھارتی فوج کے پاس ہو تاکہ وہ اپنی سرحدوں کو محفوظ بنا سکے۔

اس منصوبے کی آؤٹ لائن پاکستان کو بہت پہلے دی جا چکی تھی جو کہ ہم نے چپ چاپ سائیڈ پر رکھ دی تھی کیونکہ اب یہی نظر آرہا تھا کہ بھارت کمزور پڑ رہا ہے۔

امریکہ میں جب یہ منصوبہ دوبارہ شئیر کیا گیا تو عمران خان نے اس کے آخری حصے کو مسترد کرتے ہوئے کہ اگر آزاد کشمیر اور سری نگر پر مشتمل ایک ریاست بنتی ہے تو یہ مکمل آزاد ہوگی اور اس میں مسلم ممالک کی فوج موجود رہے گی جو کہ بھارت کو سرحدی تحفظ کی ضمانت دے گی۔

عمران خان نے دوسرا اعتراض لداخ پر کیا کیونکہ وہاں مسلم شیعہ آبادی کی دوسرے مذاہب کے مقابلے میں اکثریت ہے، چنانچہ لداخ بھی سری نگر، مظفرآباد کا حصہ بنا کر آزاد کیا جائے۔

یہ تجویز بھارت کو پسند نہ آئی۔

آپ کو یاد ہوگا کہ اپنے امریکی دورے کے آخری دن جب عمران خان تھنک ٹینک کے پروگرام میں شرکت کی تو ایک سوال کے جواب میں اس نے کہا تھا کہ شیعوں میں جہاد اور شہادت کا جذبہ زیادہ ہوتا ہے۔

آپ کے خیال میں عمران خان نے یہ بات ایران کے حوالے سے کی تھی؟ ہرگز نہیں۔ خان نے یہ بات بالواسطہ طور پر امریکیوں سے کہی تھی کہ لداخ کو اگر بھارت کا حصہ بنایا گیا تو وہاں کی شیعہ آبادی کی تحریک اسی طرح جاری رہے گی جس طرح کشمیر میں مجموعی تحریک چل رہی ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ کو یہ نکتہ پوری طرح سمجھ آگیا تھا اور اسی لئے انہوں نے بھارت کو بھی یہی پٹی پڑھائی۔ بھارت لیکن آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے چکر میں ایک بنیادی غلطی کرچکا ہے۔ اس نے جموں و کشمیر کو ایک یونٹ اور لداخ کو دوسرا یونٹ بنا دیا ہے۔ اب یا تو اسے ان تینوں سے ہاتھ دھونے پڑیں گے، یا پھر انتظامی طور پر وادی اور لداخ کو علیحدہ کرکے جموں اس میں سے نکال کر اپنا حصہ بنانا ہوگا۔ بھارت کی پلاننگ یہ تھی کہ لداخ تو پہلے ہی اس کے پاس آجائے گا، نیگوشی ایٹ کرنے کے بعد وہ جموں کے بہانے وادی بھی ہتھیا لے گا۔ عمران خان نے لیکن شیعہ جہادی عنصر کی بات کرکے واضح اشارہ دے دیا کہ بھارت کی ابھی جان نہیں چھوٹنے والی۔

اب آجائیں پاکستان کی سٹریٹیجی کی طرف۔

پچھلے ستر برسوں میں ہم انڈیا کو کھینچ کھانچ کر اس مقام پر لے آئے ہیں کہ اب وہ اپنے کشمیر کا تصفیہ کرنا چاہتا ہے۔ ریاست کشمیر کا 53 فیصد تو اللہ کی مہربانی سے پہلے ہی ہمارے کنڑول میں ہے، اب ہم وادی کشمیر کے ساتھ ساتھ لداخ بھی لینا چاہتے ہیں۔

پہلے مرحلے میں وادی آزاد ہوگی جو کہ اللہ کی مہربانی سے پوری امید ہے کہ جلد ہی ہونے جارہی ہے ۔ ۔ ۔ لیکن ہم اسی پر اکتفا نہیں کریں گے بلکہ اگلے مرحلے میں لداخ مانگیں گے، نہ ملنے کی صورت میں وہی کچھ دوبارہ ہوگا جو پچھلے ستر برس میں ہوتا آیا۔

جس طرح روس جیسے طاقتورملک کا کئی حصوں میں بٹوارا ہوگیا، اگلے پچاس برس میں بھارت کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوگا، بشرطیکہ وہ خود ان علاقوں پر اپنا تسلط ختم نہیں کردیتا۔

پاکستانی قوم تسلی رکھے اور اپنی قیادت پر اعتماد رکھے۔ فوج تو کشمیر کے معاملے میں 1948 میں بھی پیچھے نہیں ہٹی تھی جب اس کے پاس وسائل نہ تھے، اب تو اللہ کا کرم ہے، نہ اسلحے کی کمی ہے اور نہ ایٹمی مواد کی۔

دوسری طرف پاکستان کا حکمران ایک شدید قسم کا وطن پرست لیڈر ہے جو اپنے خون کے آخری قطرے تک ملک کیلئے لڑنے کا فن جانتا ہے۔

پاک فوج اور عمران خان کی شکل میں جو لیتھل کمبی نیشن اس وقت دستیاب ہے، اس کے ثمرات انشا اللہ آپ اگلے تین سے چار برسوں میں دیکھنا شروع ہوجائیں گے
(منقول) باباکوڈا
 

جاسم محمد

محفلین
کیا ہم جناح کی تقلید کریں گے؟
یاسر پیر زادہ
سن 47میں ہندوستان کا بٹوارہ ہوا، اصول یہ طے ہوا کہ مسلم اکثریتی علاقے پاکستان کے پاس جائیں گے جبکہ نواب اور مہاراجے اپنی ریاستوں کے الحاق کا معاملہ عوام کی خواہش کے مطابق خود طے کریں گے۔ تین ریاستیں ایسی تھیں جو آزاد رہنا چاہتی تھیں سو ان سے یہ فیصلہ بروقت نہ ہو سکا، جونا گڑھ، حیدرآباد اور جموں کشمیر۔ جونا گڑھ اور حیدر آباد ہندو اکثریتی ریاستیں تھیں جن کے حکمران مسلمان تھے جبکہ کشمیر مسلم اکثریت تھی جس کا حکمران ہندو تھا، مہا راجہ ہری سنگھ۔ جونا گڑھ اور حیدر آباد کو بھارت نے اس بنیاد پر اپنا حصہ بنا لیا کہ وہ ہندو اکثریتی علاقے ہیں مگر یہ اصول جموں کشمیر پر لاگو نہیں کیا، کشمیر میں بغاوت پھوٹ پڑی اور اس دوران پاکستان سے قبائلی عوام نے کشمیر کو مہاراجہ کے چنگل سے آزاد کروانے کے لئے حملہ کر دیا، اس سے نمٹنے کے لئے ہری سنگھ نے کشمیری لیڈر شیخ عبداللہ کی حمایت سے بھارت کے ساتھ الحاق کا معاہدہ کر لیا جس کے بدلے میں یہ طے پایا کہ بھارتی فوج کشمیر میں امن و امان بحال کروائے گی اور الحاق کا معاملہ بعد ازاں کشمیریوں کی مرضی کے مطابق حل کیا جائے گا۔ بھارت سلامتی کونسل میں پاکستان کے خلاف شکایت لے کر چلا گیا کہ پاکستان حملہ آواروں کی پشت پناہی کر رہا ہے، سلامتی کونسل نے کشمیر کو ’’حملہ آوروں‘‘ سے پاک کرنے کی سفارش کی اور پاکستان اور بھارت کو علاقے میں استصواب رائے کروانے کے لئے کہا تاکہ کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق الحاق کا معاملہ طے ہو سکے، دونوں ممالک نے یہ سفارشات قبول کر لیں۔ جواہر لعل نہرو اس وقت ہندوستان کے وزیراعظم تھے، کشمیر میں ایک آئین ساز اسمبلی وجود میں لائی گئی اور شیخ عبداللہ کشمیر کے وزیراعظم بن گئے۔ ہندوستانی نقطہ نظر سے اس سارے معاملے کو آئینی اور قانونی بنانے کے لئے طے کیا گیا کہ ہندوستانی سرکار کو کشمیر میں صرف مواصلات، دفاع اور خارجہ امور سے متعلق محدود اختیارات حاصل ہوں گے، اس غرض سے بھارتی آئین میں شق 370/35Aشامل کی گئی جس کے تحت کشمیر کو خصوصی حیثیت دی گئی تاکہ کشمیریوں کا تشخص بحال رہے اور اس مسلم اکثریتی علاقے کی آبادی کو محفوظ رکھا جا سکے، اس مقصد کے لئے یہ قانون وضع کیا گیا کہ کوئی بھی غیر کشمیری ریاست جموں و کشمیر میں جائیداد خرید سکے گا اور نہ ملازمت حاصل کر سکے گا، یوں کشمیر کو ایک ایسی حیثیت دی گئی جو دیگر ہندوستانی صوبوں کو حاصل نہیں تھی، شق 370کے تحت یہ انتظام اُس وقت تک کے لئے تھا جب تک کشمیر کے الحاق کا معاملہ حتمی طور پر طے نہیں پا جاتا، گویا آرٹیکل 370نے ہندوستان اور کشمیر کے باہمی تعلق کی تشریح کردی اور ہندوستان کو ایک عارضی قانونی جواز فراہم کر دیا جبکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کا کہنا تھا کہ پورے ہندوستان میں ایک سرکار اور ایک آئین ہونا چاہئے، سو اس مرتبہ جب اسے بھرپور اکثریت ملی تو اس نے ایک آرٹیکل 370کو اٹھا کر باہر پھینک دیا، بی جے پی کے حمایتیوں کے نزدیک یہ انقلابی اقدام ہے، جبکہ سیاسی مخالفین اسے ہندوستانی آئین پر شب خون مارنے کے مترادف کہہ رہے جبکہ اصل مسئلہ کچھ اور ہے۔


مہاراجہ ہری سنگھ کشمیر کا حکمران تھا، اقتدار اعلیٰ اس کے پاس تھا، بٹوارے کے وقت اس کے پاس یہ اختیار موجود تھا کہ وہ پاکستان یا ہندوستان میں سے کسی کے ساتھ الحاق کر لے مگر 26اکتوبر 1947تک اس نے یہ فیصلہ نہیں کیا، 26اکتوبر کو اس نے عارضی طور پر جب ہندوستانی سرکار کے ساتھ چند شرائط کے تحت معاہدہ کیا تو اس عارضی الحاق کے بدلے میں اس نے کشمیر کی خصوصی حیثیت حاصل کی تھی جسے بھارت نے ایک آئینی شق(370) کے ذریعے تحفظ دیا، 5اگست 2019کو جب ہندوستان نے وہ خصوصی حیثیت ختم کر کے کشمیر کو بھارتی یونین کا حصہ قرار دیا تو گویا ہندوستان نے اس معاہدے کو ہی ختم کر ڈالا جس کے تحت کشمیر کا عارضی الحاق ہوا تھا، جس کے تحت آئین ساز اسمبلی وجود میں آئی تھی اور جس کے تحت بھارت کی کشمیر میں موجودگی کا(سچا جھوٹا) قانونی جواز بنتا تھا۔ اب چونکہ خود ہندوستان نے کشمیر کے ساتھ کیا گیا عارضی الحاق کا معاہدہ ختم کر دیا ہے تو اس کے ساتھ ہی جموں کشمیر کی وہ حیثیت بحال ہو گئی جو 26اکتوبر 1947سے پہلے تھی۔ یوں سمجھیں کہ اُس وقت دو فریقین میں معاہدہ ہوا، ایک فریق (کشمیر/مہاراجہ) نے چند مخصوص شرائط کے عوض دوسرے فریق (انڈین یونین) کو کشمیر میں دفاع، مواصلات اور خارجی معاملات کے محدود اختیارات دیے اور یہ اس وقت تک تھا جب تک کشمیریوں کو ان کی خواہش کے مطابق الحاق یا آزادی کا حق نہیں ملتا، چونکہ یہ حق ابھی نہیں ملا تھا سو 5اگست 2019کو آرٹیکل 370ختم کرنے بعد جموں کشمیر پر ہندوستانی سرکار کا اگر کوئی قانونی دعویٰ تھا بھی تو وہ دفن ہو چکا۔ آج بھارتی جموں کشمیر ایک ریاست بھی نہیں رہی، بھارت اب باقاعدہ طور پر اسے اپنی کالونی بنا چکا ہے، اس پر غیر قانونی طریقے سے قابض ہو چکا ہے، وہاں کوئی بھی ہندوستانی جائیداد خرید سکتا ہے، کشمیر کے پاس وہ حقوق بھی نہیں رہے جو ہندوستان کی باقی ریاستوں کے شہریوں کے پاس ہیں، کشمیر میں اس وقت اگر واحد آئینی اور قانونی حکومت موجود ہے تو وہ آزاد کشمیر کی ہے۔ یقیناً بہت سے لوگ، خاص طور سے ہندوستانی، یہ کہیں گے کہ یہ تو خالصتاً پاکستانی موقف ہے مگر ان کی خدمت میں عرض ہے کہ وہ کسی بھی بین الاقوامی قانون سے اس کے برخلاف سند لادیں تو فدوی اپنے موقف سے دستبردار ہو جائے گا۔ ہاں، مہاراجہ ہری سنگھ کے بعد کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کے پاس اقتدار اعلیٰ منتقل ہو گیا تھا اور یوں آئین ساز اسمبلی ہی ہندوستان سے کیے گئے معاہدے کو تبدیل کر سکتی تھی مگر یہ آئین ساز اسمبلی بھی ختم ہو چکی، یوں عملاً ہندوستانی سرکار کے پاس سوائے کشمیر میں استصواب رائے کروانے کے کوئی قانونی راستہ نہیں تھا مگر طاقت کسی قانون کو نہیں مانتی، بی جے پی کے پاس طاقت ہے، اس نے یہ کر ڈالا ہے اور شاید بھارتی عدالت عظمیٰ بھی اسے غیر آئینی قرار نہیں دے پائے گی۔

اب ہم کیا کریں؟ ہم وہ کریں جو محمد علی جناح نے اس وقت کیا جب وہ ایک لٹی پٹی مملکت کا سربراہ تھا، جب انگریز کمانڈر نے اس کی بات ماننے سے انکار کر دیا تھا اور جب اس کا نوزائیدہ ملک ایٹمی طاقت بھی نہیں تھا۔ اب دوبارہ وہی وقت ہے۔ بھارت نے ایک ایسے علاقے کو انڈین یونین میں ضم کر لیا ہے، گویا ہندوستان نے عملاً ایک پوری ریاست پر قبضہ کر لیا ہے جس پر پاکستان کا دعویٰ تھا۔ ہم اس مقدمے کے مدعی ہیں، جو کرنا ہے ہم نے کرنا ہے کسی اقوام متحدہ، کسی او آئی سی، کسی ترکی کسی ملائیشیا کسی ادار ے نے کچھ نہیں کرنا۔ آج ہمارا وہی فرض بنتا ہے جو کمزور ہونے کے باوجود قائداعظم نے نبھایا تھا سو کیا ہم جناح کی تقلید کر پائیں گے؟معلوم نہیں مگر کچھ نمازیں قضا کرنے کی اجازت نہیں ہوتی، وہ اپنے وقت پر پڑھی جاتی ہیں، یہ وہ نماز ہے جو آج کی تاریخ میں پڑھی جانی ہے، قضا ہو گئی تو وقت گزر جائے گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
بےشرم اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کشمیر جیسے اہم موضوع پر بات کرتے وقت بھی وزیر اعظم سے این آر او ہی مانگتے رہے :)
 

جاسم محمد

محفلین
کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا صدارتی حکم نامہ بھارتی سپریم کورٹ میں چیلنج
203377_6133777_updates.jpg

پٹیشن میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ صدارتی حکم نامہ غیرقانونی ہے کیونکہ اس کی منظوری متعلقہ ریاستی اسمبلی سے نہیں لی گئی— فوٹو: فائل
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا صدارتی حکم نامہ بھارتی سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا۔

بھارتی میڈیا کے مطابق صدارتی حکم نامے کے خلاف پٹیشن ایڈووکیٹ ایم ایل شرما نے دائر کی۔

پٹیشن میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ صدارتی حکم نامہ غیرقانونی ہے کیونکہ اس کی منظوری متعلقہ ریاستی اسمبلی سے نہیں لی گئی۔

درخواست گزار نے سپریم کورٹ سے اپیل کی ہے کہ پٹیشن کی سماعت ہنگامی بنیاد پرکرنے کی جائے۔

یاد رہے کہ 5 اگست کو بھارتی حکومت کی جانب سے صدارتی حکم نامے کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کے خصوصی اختیارات سے متعلق آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے احکامات جاری کیے گئے جس کے تحت مقبوضہ کشمیر اب ریاست نہیں کہلائے گی اور لداخ بھی بھارتی یونین کا حصہ ہوگا۔

مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرنے کے بھارتی اقدام کو پاکستان نے مسترد کردیا ہے، اس صورتحال میں پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بھی جاری ہے۔

دوسری جانب اس معاملے پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیر صدارت کور کمانڈرز کانفرنس بھی ہوئی جس میں شرکاء نے بھارتی اقدامات مسترد کرنے کے حکومتی فیصلے کی بھرپور تائید کی اور مسئلہ کشمیر پر بھارتی اقدامات مسترد کرنے کے حکومتی اقدامات کی مکمل حمایت کی گئی۔
 
کاش آج بھی کوئی عہدے دار میچ دیکھنے کےلئے ہی انڈیا جا سکے اور مودی کو سائیڈ پر لے جا کر وہ جملہ بول سکے جو ایک جنرل نے بول کر بارڈر صاف کروا لیا تھا۔
ایسے موقعے پر بہادر شاہ ظفر کا نام لینا بھی اپنوں کی امیدوں پر کیسے پانی پھیر سکتا ہے اور غیروں کے حوصلوں کو کس قدر بڑھا سکتا ہے، اس کا اندازہ شاید صحیح معنوں میں نہیں کیا جا سکا۔
سنا تھا کہ اب تقریریں تحریر شدہ ہونے لگی ہیں، اگر تحریر کے باوجود یہ نام استعمال کیا گیا ہے تو صد حیف کے سوا کیا کر سکتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
کاش آج بھی کوئی عہدے دار میچ دیکھنے کےلئے ہی انڈیا جا سکے اور مودی کو سائیڈ پر لے جا کر وہ جملہ بول سکے جو ایک جنرل نے بول کر بارڈر صاف کروا لیا تھا۔
ایسے موقعے پر بہادر شاہ ظفر کا نام لینا بھی اپنوں کی امیدوں پر کیسے پانی پھیر سکتا ہے اور غیروں کے حوصلوں کو کس قدر بڑھا سکتا ہے، اس کا اندازہ شاید صحیح معنوں میں نہیں کیا جا سکا۔
سنا تھا کہ اب تقریریں تحریر شدہ ہونے لگی ہیں، اگر تحریر کے باوجود یہ نام استعمال کیا گیا ہے تو صد حیف کے سوا کیا کر سکتے ہیں۔
ٹیپو سلطان کا نام بھی تو لیا ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
ٹیپو سلطان کا نام بھی تو لیا ہے۔
وہ بہادر اور جری ضرور تھے، مگر اُن کی مثال بھی دینا بنتی نہیں تھی کیونکہ وہ آخری جنگ میں کون سا کامیاب ٹھہرے تھے! شاید یہاں بھی وہ اپوزیشن کو میر جعفر، میر صادق ظاہر کرنا چاہتے تھے۔ :)
 
Top