فرقان احمد
محفلین
اپنے مطلب کی ہر بات پڑھ رکھی ہے۔اور لائن کٹ گئی
آخری تدوین:
اپنے مطلب کی ہر بات پڑھ رکھی ہے۔اور لائن کٹ گئی
یہی تو گزارش ہے کہ صرف اس ایک نام پر ہی اکتفا کر لیا ہوتا۔ زخموں پر نمک چھڑکنے کے کچھ مواقع ضائع بھی ہوجائیں تو مضائقہ نہیں ہوتا۔ٹیپو سلطان کا نام بھی تو لیا ہے۔
آپ یہ پڑھتے بھی ہیں یا صرف پیسٹ کرتے ہیں مجھ سے تو ایک سطر تک نہیں پڑھی جاتیکشمیر کی اصل کہانی
تاریخی اعتبار سے ریاست کشمیر جموں، لداخ، وادی کشمیر سے لے کر گلگت بلتستان تک کے علاقوں پر مشتمل ہوا کرتی تھی۔ پھر 1948 میں قبائلیوں اور پاک فوج نے مل کر گلگت بلتستان اور وادی کشمیر کا ایک حصہ آزاد کرا لیا۔ بعد میں 1962 میں چین کے ساتھ جنگ کے بعد کچھ حصہ چین کے پاس چلا گیا جسے پاکستان کے ساتھ چین کی بارڈر سیٹلمنٹ معاہدے کی وجہ سے اسے آپ پاکستان کا حصہ بھی کہہ سکتے ہیں۔
ریاست کشمیر کا مجموعی رقبہ 86 ہزار مربع میل سے کچھ کم ہے اور اسے رقبے کے اعتبار سے آپ مندرجہ ذیل حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں:
پاکستان 30 ہزار مربع میل سے کچھ زیادہ کا رقبہ کنٹرول کرتا ہے، چین ساڑھے 16 ہزار مربع میل پر کنٹرول رکھتا ہے جسے وہ پاکستان کے ساتھ بارڈر سیٹلمنٹ معاہدے کے ساتھ شیئر کرتا ہے۔
اور بھارت کے پاس تقریباً چالیس ہزار مربع میل کا رقبہ ہے۔
یوں انڈیا کے پاس تقریباً 47 فیصد جبکہ پاکستان کے پاس تقریباً 35 فیصد ڈائریکٹ اور مزید 19 فیصد ان ڈائریکٹ حصے کا کنٹرول ہے جو کہ کل ملا کر 53 فیصد بنتا ہے۔
اب آجائیں بھارت کے زیرتسلط کشمیر پر۔
جموں، وادی اور لداخ پر مشتمل اس حصے کی مجموعی سوا کروڑ آبادی کا 67 فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے، 30 فیصد ہندوؤں پر اور باقی سکھوں اور بدھ مت کے پیروکاروں پر مشتمل ہے۔
اس میں مزید نیچے جائیں تو وادی میں مسلمانوں کی اکثریت ہے جو کہ 90 فیصد سے زائد بنتی ہے، جموں میں ہندوؤں کی اکثریت ہے، اور لداخ میں ویسے تو شیعوں کی تعداد 46 فیصد ہے جو کہ اکثریت ہے لیکن وہاں سکھوں اور بدھ مت کو ملا کر ان اکثریت دکھا دی جاتی ہے اور یہی وہ وہ نکتہ ہے جو پاکستان کی اگلی سٹریٹیجی کی بنیاد ہے۔
یہ تو آپ سب جان ہی چکے ہیں کہ تقسیم کے وقت بھارت نے آرٹیکل 370 کے ذریعے ریاست کشمیر کو آزاد حیثیت دیتے ہوئے اپنے ساتھ شامل ہونے کیلئے رضامند کرلیا تھا اور گزشتہ روز آرٹیکل ختم کرکے باضابطہ طور پر جموں و کشمیر اور لداخ کو دو علیحدہ یونٹس میں تقسیم کرکے اپنا حصہ بنا لیا۔
اس سے بظاہر زمینی صورتحال تبدیل نہیں ہوتی کیونکہ انڈیا پہلے ہی وہاں پر قابض ہے، صرف یہی ایک اضافہ ہوا ہے کہ اب عام بھارتیوں کو کشمیر میں زمین خریدنے کی اجازت مل گئی جو کہ پہلے نہیں تھی۔ اس سے آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگلے چند سالوں میں وہاں ہندوؤں کی آبادی بڑھنے کا امکان ہے۔
عمران خان کے امریکی دورے کے موقع پر ٹرمپ نے اچانک یہ کہہ کر سب کو چونکا دیا تھا کہ وہ کشمیر کے مسئلے پر ثالث کا کردار ادا کرنے کو تیار ہے اور یہ بات مودی نے خود اسے کال کرکے کہی تھی۔ عمران خان نے اسے ویلکم کیا لیکن مودی نے اپنی شرمندگی چھپانے کیلئے اس کی تردید کردی جس کے جواب میں ٹرمپ کے ترجمان نے واشگاف الفاظ میں دہرایا کہ ٹرمپ کو غلط بیانی کی عادت نہیں، اس نے وہی کہا جو مودی نے اپنی درخواست میں کہا تھا۔
مودی کی درخواست کے خدوخال کچھ یوں تھے:
پاکستان گلگت اور بلتستان کو اپنا حصہ بنا لے،
بھارت ہندو اکثریت والے علاقے جموں کو اپنا حصہ بنا لے،
اس کے ساتھ ساتھ لداخ جہاں غیر مسلم اکثریت میں ہیں، وہ بھی انڈیا کے پاس چلا جائے،
پیچھے بچے آزاد کشمیر اور سری نگر - یا تو آزاد کشمیر پاکستان اور سری نگر انڈیا لے جائے، یا پھر ان دونوں کو اکٹھا کرکے ایک کنٹرولڈ سٹیٹ بنا دی جائے جس کا سرحدی اختیار بھارتی فوج کے پاس ہو تاکہ وہ اپنی سرحدوں کو محفوظ بنا سکے۔
اس منصوبے کی آؤٹ لائن پاکستان کو بہت پہلے دی جا چکی تھی جو کہ ہم نے چپ چاپ سائیڈ پر رکھ دی تھی کیونکہ اب یہی نظر آرہا تھا کہ بھارت کمزور پڑ رہا ہے۔
امریکہ میں جب یہ منصوبہ دوبارہ شئیر کیا گیا تو عمران خان نے اس کے آخری حصے کو مسترد کرتے ہوئے کہ اگر آزاد کشمیر اور سری نگر پر مشتمل ایک ریاست بنتی ہے تو یہ مکمل آزاد ہوگی اور اس میں مسلم ممالک کی فوج موجود رہے گی جو کہ بھارت کو سرحدی تحفظ کی ضمانت دے گی۔
عمران خان نے دوسرا اعتراض لداخ پر کیا کیونکہ وہاں مسلم شیعہ آبادی کی دوسرے مذاہب کے مقابلے میں اکثریت ہے، چنانچہ لداخ بھی سری نگر، مظفرآباد کا حصہ بنا کر آزاد کیا جائے۔
یہ تجویز بھارت کو پسند نہ آئی۔
آپ کو یاد ہوگا کہ اپنے امریکی دورے کے آخری دن جب عمران خان تھنک ٹینک کے پروگرام میں شرکت کی تو ایک سوال کے جواب میں اس نے کہا تھا کہ شیعوں میں جہاد اور شہادت کا جذبہ زیادہ ہوتا ہے۔
آپ کے خیال میں عمران خان نے یہ بات ایران کے حوالے سے کی تھی؟ ہرگز نہیں۔ خان نے یہ بات بالواسطہ طور پر امریکیوں سے کہی تھی کہ لداخ کو اگر بھارت کا حصہ بنایا گیا تو وہاں کی شیعہ آبادی کی تحریک اسی طرح جاری رہے گی جس طرح کشمیر میں مجموعی تحریک چل رہی ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کو یہ نکتہ پوری طرح سمجھ آگیا تھا اور اسی لئے انہوں نے بھارت کو بھی یہی پٹی پڑھائی۔ بھارت لیکن آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے چکر میں ایک بنیادی غلطی کرچکا ہے۔ اس نے جموں و کشمیر کو ایک یونٹ اور لداخ کو دوسرا یونٹ بنا دیا ہے۔ اب یا تو اسے ان تینوں سے ہاتھ دھونے پڑیں گے، یا پھر انتظامی طور پر وادی اور لداخ کو علیحدہ کرکے جموں اس میں سے نکال کر اپنا حصہ بنانا ہوگا۔ بھارت کی پلاننگ یہ تھی کہ لداخ تو پہلے ہی اس کے پاس آجائے گا، نیگوشی ایٹ کرنے کے بعد وہ جموں کے بہانے وادی بھی ہتھیا لے گا۔ عمران خان نے لیکن شیعہ جہادی عنصر کی بات کرکے واضح اشارہ دے دیا کہ بھارت کی ابھی جان نہیں چھوٹنے والی۔
اب آجائیں پاکستان کی سٹریٹیجی کی طرف۔
پچھلے ستر برسوں میں ہم انڈیا کو کھینچ کھانچ کر اس مقام پر لے آئے ہیں کہ اب وہ اپنے کشمیر کا تصفیہ کرنا چاہتا ہے۔ ریاست کشمیر کا 53 فیصد تو اللہ کی مہربانی سے پہلے ہی ہمارے کنڑول میں ہے، اب ہم وادی کشمیر کے ساتھ ساتھ لداخ بھی لینا چاہتے ہیں۔
پہلے مرحلے میں وادی آزاد ہوگی جو کہ اللہ کی مہربانی سے پوری امید ہے کہ جلد ہی ہونے جارہی ہے ۔ ۔ ۔ لیکن ہم اسی پر اکتفا نہیں کریں گے بلکہ اگلے مرحلے میں لداخ مانگیں گے، نہ ملنے کی صورت میں وہی کچھ دوبارہ ہوگا جو پچھلے ستر برس میں ہوتا آیا۔
جس طرح روس جیسے طاقتورملک کا کئی حصوں میں بٹوارا ہوگیا، اگلے پچاس برس میں بھارت کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوگا، بشرطیکہ وہ خود ان علاقوں پر اپنا تسلط ختم نہیں کردیتا۔
پاکستانی قوم تسلی رکھے اور اپنی قیادت پر اعتماد رکھے۔ فوج تو کشمیر کے معاملے میں 1948 میں بھی پیچھے نہیں ہٹی تھی جب اس کے پاس وسائل نہ تھے، اب تو اللہ کا کرم ہے، نہ اسلحے کی کمی ہے اور نہ ایٹمی مواد کی۔
دوسری طرف پاکستان کا حکمران ایک شدید قسم کا وطن پرست لیڈر ہے جو اپنے خون کے آخری قطرے تک ملک کیلئے لڑنے کا فن جانتا ہے۔
پاک فوج اور عمران خان کی شکل میں جو لیتھل کمبی نیشن اس وقت دستیاب ہے، اس کے ثمرات انشا اللہ آپ اگلے تین سے چار برسوں میں دیکھنا شروع ہوجائیں گے
(منقول) باباکوڈا
کاپی پیسٹ کرنا اور محبوبہ کی گلی کے چکر لگانا بھی ایک آرٹ ہے مسٹر خان!آپ یہ پڑھتے بھی ہیں یا صرف پیسٹ کرتے ہیں مجھ سے تو ایک سطر تک نہیں پڑھی جاتی
20 کروڑ 95 لاکھ تسبیحوں کا آرڈر بھی جاری کر دیا گیا ہے۔پاکستان کا ابتدائی طور پر فوری ردعمل:
ہمیں سُرخ دانوں والی چاہیے۔ امریکا سے امپورٹڈ ہو؛ نہ ملے تو چائنا سے درآمد شدہ بھی چلے گی۔20 کروڑ 95 لاکھ تسبیحوں کا آرڈر بھی جاری کر دیا گیا ہے۔
جی آ۔ہمیں سُرخ دانوں والی چاہیے۔ امریکا سے امپورٹڈ ہو؛ نہ ملے تو چائنا سے درآمد شدہ بھی چلے گی۔
مع روحانی فیض از حضرت بابا کوڈوی سرکار!جی آ۔
حکومتی غزوہ ہند کی ابتدا ہو چکی ہے۔ جناب حمزہ علی عباسی کی قیادت میں تیر انداز دستوں کی دشمن کے مورچوں کی طرف پیش قدمی جاری ہے جبکہ مِحلاؤں کے نیزہ بردار دستےوینا ملک کی سربراہی میں ہمراہ چل رہے ہیں۔
بلاشبہ۔مع روحانی فیض از حضرت بابا کوڈوی سرکار!
پاکستان کا بھارت سے دوطرفہ تجارت معطل اور سفارتی تعلقات محدود کرنے کا فیصلہ20 کروڑ 95 لاکھ تسبیحوں کا آرڈر بھی جاری کر دیا گیا ہے۔
ہر قسم کی تجارت ملا کر شاید کروڑوں ڈالر کی ہو گی اور سفارتی تعلقات تو خیر کافی عرصہ سے سرد مہری کا شکار ہیں۔ یہ سب رسمی فیصلے ہیں اور بدقسمتی سے ہم فی الوقت اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتے ہیں۔ یہ مان کر آگے بڑھنا ہو گا کہ ہمارے بس میں بہت کچھ نہیں ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں ہماری پالیسیاں درست نہ تھیں۔ ہم نواز و مشرف دور سے بھی بہت پیچھے جا چکے ہیں۔ بہتر ہو گا کہ کشمیر کے مسئلے کے کسی ممکنہ حل کی طرف بڑھا جائے وگرنہ معاملات مزید خراب ہوتے جائیں گے۔بھارت سے ہر قسم کی تجارت فوری طور پر معطل اور سفارتی تعلقات محدود
تو کیا آپ کے خیال میں یہ گورنمنٹ ایل او سی کو انٹرنیشنل بارڈر مان سکتی ہے اور پھر "زندہ" بھی رہ سکتی ہے؟ خان صاحب کیا بیچتے ہیں، بھٹو صاحب سا "دبنگ" اور ہر دلعزیز لیڈر بھی اس فیصلے کو نہیں مان سکا تھا! شملہ معاہدے کے وقت اندرا گاندھی کی یہ آفر ریکارڈ پر ہے ۔ اور اس سے بہتر موقع شاید ہی پھر ملا ہوتب تو جَن سَنگھ (موجودہ بی جے پی) کی تو انڈین سیاست میں کوئی حیثیت ہی نہیں تھی۔ اور پاکستان میں فوج اپنے مورال کے انتہائی نچلے درجے پر تھی، نوے ہزار فوجی انڈیا کی قید میں تھے لیکن بھٹو صاحب یہ فیصلہ نہ کر سکے۔ ان کا خیال تھا کہ ان کو پاکستان میں زندہ اترنے نہیں دیا جائے گا!بہتر ہو گا کہ کشمیر کے مسئلے کے کسی ممکنہ حل کی طرف بڑھا جائے وگرنہ معاملات مزید خراب ہوتے جائیں گے۔
مشکل ہے، بڑا مشکل ہے۔تو کیا آپ کے خیال میں یہ گورنمنٹ ایل او سی کو انٹرنیشنل بارڈر مان سکتی ہے اور پھر "زندہ" بھی رہ سکتی ہے؟ خان صاحب کیا بیچتے ہیں، بھٹو صاحب سا "دبنگ" اور ہر دلعزیز لیڈر بھی اس فیصلے کو نہیں مان سکا تھا! شملہ معاہدے کے وقت اندرا گاندھی کی یہ آفر ریکارڈ پر ہے ۔ اور اس سے بہتر موقع شاید ہی پھر ملا ہوتب تو جَن سَنگھ (موجودہ بی جے پی) کی تو انڈین سیاست میں کوئی حیثیت ہی نہیں تھی۔ اور پاکستان میں فوج اپنے مورال کے انتہائی نچلے درجے پر تھی، نوے ہزار فوجی انڈیا کی قید میں تھے لیکن بھٹو صاحب یہ فیصلہ نہ کر سکے۔ ان کا خیال تھا کہ ان کو پاکستان میں زندہ اترنے نہیں دیا جائے گا!
شملہ معاہدے کے وقت اندرا کی آفر کی سب سے بڑی مخالفت موجودہ بھاج پا ہی نے کئی تھی کہ "پاکستانی مقبوضہ" کشمیر ان کو دینے کی بات کر دی۔ ابھی بھی بھاج پا نے اپنے کشمیر کو چھوڑ کو "مقبوضہ" کشمیر کے لیے جان دینےکی بات کی ہے۔ اس "مانترے" میں تیزی بھی آ سکتی ہے۔ جنابِ صدر کی ثالثی سے اگر حاتم طائی کی اولاد، اندرا گاندھی والی آفر ہی دے دے تو شاید ادھر بھی ماتھے پر ہاتھ رکھ کر "بھاگ لگے رین" ہو جائے!مشکل ہے، بڑا مشکل ہے۔
تاہم، یوں لگ رہا ہے، جیسے پھونک پھونک کر قدم آگے بڑھائے جا رہے ہیں۔ کہیں نہ کہیں، کچھ نہ کچھ بات چیت ہو رہی ہے۔ حالات و واقعات تو یہی نشان دہی کرتے ہیں۔ دیکھتے ہیں، آگے آگے کیا ہوتا ہے، جناب!
42 کروڑ ڈالر پچھلے سال اور 31 کروڑ اس سال۔ یہ برآمدات ہیں۔ پلوامہ کے بعد سے تجارت پہلے ہی تقریباً بند ہے۔ اس سال یہ کل برآمدات کا 1.3 فیصد بنتا ہےہر قسم کی تجارت ملا کر شاید کروڑوں ڈالر کی ہو گی
سودے بازی کہیں نہ کہیں چل رہی ہے۔ یہ جو ہماری معاشی حالت ہے، اس کے بعد، جس طرح سے ہم آئی ایم ایف کے ساتھ گھٹنے ٹیک چکے، اور، جس انداز میں، ہمارے وزیراعظم صاحب کو امریکا کا پھیرا لگوایا گیا ہے، ٹرمپ صاحب بار بار جس طرح ثالثی کا تذکرہ کرتے جا رہے ہیں، افغانستان میں جس طرح ڈویلپمنٹس ہو رہی ہیں، اس سے تو لگتا ہے کہ کچھ ہو بھی سکتا ہے، تاہم، یہ دھیرے دھیرے ہی ہو گا۔ ابھی تو گرد بیٹھے گی تو معلوم پڑے گا کہ کیا بننا ہے۔ ویسے، تاریخ یہی بتلاتی ہے کہ عین وقت پر کچھ ایسا ہو جاتا ہے کہ 'بنا بنایا معاملہ' بگڑ جاتا ہے۔شملہ معاہدے کے وقت اندرا کی آفر کی سب سے بڑی مخالفت موجودہ بھاج پا ہی نے کئی تھی کہ "پاکستانی مقبوضہ" کشمیر ان کو دینے کی بات کر دی۔ ابھی بھی بھاج پا نے اپنے کشمیر کو چھوڑ کو "مقبوضہ" کشمیر کے لیے جان دینےکی بات کی ہے۔ اس "مانترے" میں تیزی بھی آ سکتی ہے۔ جنابِ صدر کی ثالثی سے اگر حاتم طائی کی اولاد، اندرا گاندھی والی آفر ہی دے دے تو شاید ادھر بھی ماتھے پر ہاتھ رکھ کر "بھاگ لگے رین" ہو جائے!
ویسے تو پٹیل کی کشمیر اور حیدرآباد والی بات بھی کہی جاتی ہے لیکن وہ شاید باقاعدہ آفر نہیں تھی۔شملہ معاہدے کے وقت اندرا گاندھی کی یہ آفر ریکارڈ پر ہے ۔ اور اس سے بہتر موقع شاید ہی پھر ملا ہو
یہ تو خوش قسمتی تھی جو ایک ہی بار دستک دیتی ہے۔ سیاست میں غلط اندازے کیسے دہائیوں اور صدیوں تک پیچھا نہیں چھوڑتے۔ویسے تو پٹیل کی کشمیر اور حیدرآباد والی بات بھی کہی جاتی ہے لیکن وہ شاید باقاعدہ آفر نہیں تھی۔