فرقان احمد
محفلین
چلیں، یہ تو ٹھیک ہو گیا۔ اس سے زیادہ کیا توقع رکھی جا سکتی ہے، فی الوقت!کور کمیٹی میٹنگ کے بعد ترجمان فوج کا بیان:
چلیں، یہ تو ٹھیک ہو گیا۔ اس سے زیادہ کیا توقع رکھی جا سکتی ہے، فی الوقت!کور کمیٹی میٹنگ کے بعد ترجمان فوج کا بیان:
اب قسمت قسمت کی بات ہے، کسی کے دور میں موٹرویز، ایٹمی دھماکے اور سی پیکس وجود میں آ جاتے ہیں، اور کسی کے دور میں حملے، جرمانے اور قبضے ہو جاتے ہیں۔ہماری پوسٹ صرف ان کے لئے تھی جو آرٹکل 370 اور 35 اے ختم ہونے کا ذمہ دار عمران خان کو قرار دے رہے ہیں۔
موٹرویز: جی وہی موٹر ویز جنہیں گروی رکھ کر پچھلی حکومت میں مزید بیرونی قرضے لئے گئےاب قسمت قسمت کی بات ہے، کسی کے دور میں موٹرویز، ایٹمی دھماکے اور سی پیکس وجود میں آ جاتے ہیں، اور کسی کے دور میں حملے، جرمانے اور قبضے ہو جاتے ہیں۔
آپ کے تین زاویے تو سامنے آ گئے؛ اب ذرا ایک اور زاویہء نظر دیکھیے:موٹرویز: جی وہی موٹر ویز جنہیں گروی رکھ کر پچھلی حکومت میں مزید بیرونی قرضے لئے گئے
ایٹمی دھماکے: جی وہی ایٹمی دھماکے جس کے بعد پاکستان پر اقتصادی پابندیاں لگی
سی پیک: جی وہی سی پیک جس کی وجہ سے آج ملک کا خسارہ آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا ہے
کیا اس مراسلے کو نہلے پر دھلا سمجھا جا سکتا ہے ۔آپ کے تین زاویے تو سامنے آ گئے؛ اب ذرا ایک اور زاویہء نظر دیکھیے:
موٹر ویز تھیں تو گروی رکھوائی گئیں!
ایٹم بم تھا تو جنگ رکی تھی!
سی پیک نہ ہوتا تو پانچ سال ہم کیا کرتے!
اس مراسلے سے لطف اٹھائیے۔ اور اس کا کوئی مقصد شریف نہ ہے!
تقریر اچھی ہے اور یہ کام ہم یوں بھی اچھا کر لیتے ہیں۔ جامع تقریر ہے؛ ویل ڈن۔ تاہم، یہاں بہادر شاہ ظفر کا حوالہ دینے کی ضرورت نہیں تھی۔ اگر تو بہادر شاہ ظفر اور ٹیپو سلطان والا جملہ صحیح طرح سے آپ نے لکھا ہے، تو اس میں ابہام ہے۔ یوں کہنا بہتر تھا، کہ یقینی طور پر، ہم ٹیپو سلطان کی راہ لیں گے۔ ہار جانے کی باتیں ہی کیوں؟ فتح کی بات کرنی چاہیے تھی بھئی، یہ تو یوں بھی تقریر ہے!بھارت نے پاکستان کے خلاف کارروائی کی تو پھر جنگ ہوگی، وزیراعظم
ویب ڈیسک 32 منٹ پہلے
وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں جو کررہا ہے اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ بھارت نے جو فیصلہ کیا اس کے اثرات پوری دنیا پر ہوں گے، پارلیمانی اجلاس کو پوری دنیا اور کشمیری دیکھ رہے ہیں، یہاں سے بھارت نے جو غلط فیصلہ کیا اس پر بڑا مثبت پیغام جانا ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ جنگ و جدل کا سب سے بڑا اثر معیشت پر پڑتا ہے، ہماری حکومت کی پہلی ترجیح پاکستان سے غربت کا خاتمہ تھا، اس لیے ہم چاہتے تھے کہ پڑوسیوں سے بہتر تعلقات ہوں، پلواما واقعے کے بعد بھارت کو سمجھایا کہ پاکستان کا کوئی ہاتھ نہیں تھا، بھارت کا پائلٹ پکڑا ، فوری واپس کردیا کیونکہ ہمارا جنگ کا کوئی ارادہ نہیں تھا، بھارت ہماری امن کی کوشش کو ہماری کمزوری سمجھ رہا تھا۔
عمران خان نے کہا کہ مودی نے الیکشن مہم کے لیے ایسے حالات پیدا کیے۔ اپنے ملک میں جنگی جنون پیدا کیا تاکہ اینٹی پاکستان مہم چلاکر الیکشن جیت سکیں، ہم نے سوچا کےبھارت میں الیکشن کے بعداس سےبات کریں گے، بھارت نے پہلے سے ہی مقبوضہ کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے کی منصوبہ بندی کی تھی، بھارت نے کل جو اقدام اٹھایا وہ ان کا انتخابی منشور کا حصہ تھا۔
وزیراعظم نے کہا کہ قائد اعظم محمدعلی جناح ہندو مسلم اتحاد کے حامی تھے، وہ انگریز سے آزادی چاہتے تھے لیکن بعد میں اسے ہندو راج کا علم ہوا، قائد اعظم پہلے آدمی تھے جنہوں نے بھارت کا نظریہ دیکھ لیاتھا، آج ہم قائداعظم کو سلام پیش کرتے ہیں، بھارت میں مسلمانوں کے لیے ایک تعصب ہے، آر ایس ایس کی آئیڈیالوجی یہ تھی کہ ہندوستان صرف ہندوؤں کا ہوگا۔ ماضی میں پاکستان کی آزادی کو غلط کہنے والے کشمیری لیڈر آج قائد کے دو قومی نظریے کو درست سمجھ رہے ہیں۔
وزیر اعظم نے مزید کہا کہا پلوامہ واقعے کے بعد بھارت نے اپنے طیارے بھیجے تو ہم نے صورت حال کو دیکھا، ہمیں پتہ چلا کہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تو فیصلہ کیا گیا کہ وہی کیا جائے گا جو انہوں نے کیا، اگر بھارت کے حملے میں کوئی جانی نقصان ہوا ہوتا تو پاک فضائیہ نے بھی ایسے اہداف نشانے پر رکھے تھے جس سے انہیں بھی اتنا ہی نقصان ہوتا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ بھارت نے پاکستان کے خلاف کارروائی کی تو پھر جنگ ہوگی، یہ ہو نہیں سکتا کہ بھارت حملہ کرے اور اہم ان کا جواب نہ دیں، اگر ایسا ہوا تو جنگ ہوگی، اس جنگ کا نتیجہ ہمارے حق میں ہوگا یا خلاف جائے گا۔ اگر ہمارے خلاف فیصلہ آیا تو ہمارے پاس دو ہی راستے ہیں ، ایک بہادر شاہ ظفر کا اور دوسرا ٹیپو سلطان کا۔ ہم بہادرشاہ ظفر کی طرح ہار مان لیں گے یا ٹیپوسلطان کی طرح آخری دم تک لڑیں گے۔
پلواما واقعے کے بعد بھارت کو باربارکہا دو ایٹمی قوتیں جنگ کی طرف نہیں جاسکتیں، کشمیر میں یہ جدوجہد اب اور شدت اختیار کرے گی، دوبارہ پلواما جیسا واقعہ ہوا تو بھارت پھر ہم پر الزام لگائے گا، سب جانتےہیں کہ پلواما واقعے میں پاکستان کا کوئی لینا دینا نہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ بھارت نے آزاد کشمیر میں کچھ کیا تو ردعمل آئے گا، اہل ایمان موت سے نہیں ڈرتا، مسلمان رب کو خوش کرنے کیلیے انسانیت کا سوچتا ہے، ہم اس لیے امن کی کوشش کرتے ہیں کہ ہمارا دین انسانیت کا سبق دیتا ہے، اگر اب دنیا کچھ نہیں کرے گی تو اس کے سنگین نتائج ہوں گے،میں نیوکلیئر بلیک میل نہیں کررہا لیکن دنیا نے اس معاملے پر کچھ نہ کیا تو حالات مزید خراب ہوں گے اور سب کا نقصان ہوگا۔ ہم بھارت کے خلاف جرائم کی عالمی عدالت جانے کی تیاری کررہے ہیں۔
محترم وزیر اعظم کی جو تقریر شئیر کی ہے
افسوس کا مقام ہے حالیہ واقعات کا اس پوری تقریر میں کوئی ذکر نہیں 370 پر کوئی تبصرہ نہیں ، انڈیا کا فوج میں اضافہ کرنے پر کوئی بات نہیں ۔کشمیری قیادت کی گرفتاریوں پر اور سید علی گیلانی کی SOS کا کوئی ذکر نہیں
کہا یہ گیا کہ اگر آزاد کشمیر کو چھیڑا گیا تو پھر ہم کچھ کریں گے لیکن یہ جو پچھلے دنوں سے کلسٹر بمباری کی تصاویر نکے کے ابا شئیر فرما رہے ہیں تو یہ والا آزاد کشمیر جرمنی کے بارڈر پر ہے؟
اپوزیشن کو این آر او چاہئے تھا۔ وہ نہیں ملا اس لئے شور مچا رہے ہیں۔کپتان تقریر سے پہلے: جنابِ اسپیکر آج کی یہ کاروائی کشمیر بلکہ تمام دُنیا دیکھ رہی ہے اور ہمیں یہاں سے ایک ہونے کا پیغام بھیجنا ہے۔
آپ اپوزیشن کو چھوڑیں کہ انہیں کیا چاہیے، آپ اس بات پر توجہ دیں کہ جو وعدے آپ نے عوام سے کیے تھے وہ کہاں تک پہنچے ہیں اور کشمیر کا مسئلہ کب حل کرنا ہے؟اپوزیشن کو این آر او چاہئے تھا۔ وہ نہیں ملا اس لئے شور مچا رہے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کے باسیوں کی طرف سے زیادہ مزاحمت کے امکانات کم ہیں بلکہ موجودہ مزاحمت بھی اگلے چند سالوں تک زائل ہوتی جائی گی۔ لمحہ فکریہ مقبوضہ کشمیر کے لیے نہیں بلکہ آزاد کشمیر کے لیے ہے، یہ صورت حال یکسر بدل سکتی ہے کیونکہ امکانات موجود ہیں کہ پاکستان آزاد کشمیر کو اپنے ساتھ ضم کرنے کی کوشش کرے جس سے عین ممکن ہے کہ موجودہ آزادہ کشمیر مقبوضہ کشمیر میں بدل جائے۔ میری دانست میں پاکستان چار ممکنہ اقدامات کر سکتا ہے، اول معاملہ کو انٹرنیشنل فورم پہ اٹھائے لیکن اس سے کامیابی ملنا کم و بیش نا ممکن ہے۔ دوم کشمیر میں پلوامہ طرز کا کوئی حملہ ہو، اس سے پاکستان کے معاملات مزید خراب ہوں گے۔ سوم پاکستان موجودہ آزاد کشمیر کو اسی بہانے اپنے ساتھ ضم کرنے کی کوشش کرے اس سے آزاد کشمیر میں حالات بگڑ سکتے ہیں اور آزاد کشمیر مقبوضہ کشمیر کی نوعیت اختیار کر سکتا ہے۔ چہارم تھوڑے بہت احتجاج کے بعد خاموشی اختیار کرے، اور اسی کے امکانات زیادہ ہیں۔ آگے دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے!یہ اطلاعات کافی عرصہ سے گردش میں تھیں۔ اصل معاملہ دیکھنے کا یہ ہے کہ کیا کشمیری اس فیصلے کو تسلیم کر لیں گے؟ ہماری دانست میں، شاید وہ اس وقت زیادہ مزاحمت نہ دکھا پائیں۔ یہ بات تو قریب قریب طے شدہ ہے کہ پاکستان بھی سفارتی و اخلاقی مدد کے علاوہ اس وقت 'کچھ اور کرنے' کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
سال تو آپ کی حکومت کو بھی ہو گیا ہے، جو شکوہ آپ کر رہے ہیں اسے اپنی گریبان میں بھی جھانک کر دیکھیں۔ آپ نے اقتدار میں آنے کے بعد سے اب تک کتنی سنجیدہ کوششیں کیں اس قانون کو ختم ہونے سے روکنے کی؟ نواز شریف کو کب تک مورد الزام ٹھہراتے رہیں گے؟ نواز شریف کی نا اہلی ثابت کرنے سے آپ کی اہلیت ثابت نہیں ہو جائے گی۔ ایک بار یاد دہانی ضروری ہے کہ اب آپ اقتدار میں ہیں، اپوزیشن میں نہیں!جو لوگ آج یہ کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کے آنے کے بعد بھارت نے آرٹیکل 370 ختم کردیا، انہیں خبر ہو کہ بھارت نے 2015 سے اس پر کام شروع کررکھا تھا لیکن زرداری، نوازشریف اور فضل الرحمان آنکھیں بند کئے بیٹھے رہے
اس آرٹیکل 35 اے کو ختم کرنے پر کام کئی سالوں سے جاری تھا۔ 2015 میں انڈیا نے پبلک انٹرسٹ لٹیگیشن فائل کی جس کے تحت سپریم کورٹ سے اپیل کی گئی کہ وہ 35 اے کو ختم کردے۔ اس وقت نوازشریف کی حکومت تھی، مزے کی بات یہ ہے اس وقت نوازشریف نہ صرف وزیراعظم تھا، بلکہ وزیرخارجہ کا قلمدان بھی اسی کے پاس تھا۔
نوازشریف کا کوئی ایک بیان، یا سفارتی حوالے سے کوئی ایک ایسی کوشش کہ جس سے پتہ چلے کہ وہ بھارت کے اس اقدام کو روکنے میں سجنیدہ تھا؟
2015 میں بھارت نے یہ اپیل دائر کی، سپریم کورٹ معاملے کی حساس نوعیت کو بھانپ چکی تھی، اس لئے لمبی تاریخیں دیتی رہی لیکن اگلے دو سال تک اس پر بھارتی میڈیا، پارلیمنٹ اور تھنک ٹینکس میں ڈسکشن ہوتی رہیں۔
اس وقت فضل الرحمان کشمیر کمیٹی کا سربراہ تھا اور اس کا سارا وقت اپنی جماعت کیلئے مزید مراعات حاصل کرنے میں صرف ہوتا۔ مولانا کا کوئی ایک ایسا بیان کہ جس سے پتہ چلتا ہو کہ وہ بھارت کے اس اقدام سے واقف تھا اور اسکے خلاف آواز اٹھانے میں سنجیدہ تھا؟
تحریر بابا کوڈا
چین نے بھارت کےاس فیصلہ کو رد کیا ہے۔کسی نامور اور طاقتور عالمی لیڈر بشمول چائنہ نے کوئی سٹیٹمنٹ نہیں دی
امت مسلمہ فی الوقت چاند سورج، شیعہ سںی، یہودی قادیانی کھیل رہی ہے، اس کھیل سے فرصت ملے گی تو کچھ کرے گی۔ امت کے ایمان کا معیار عرصہ دراز سے انہی کھوکھلے نعروں اور اسی کھیل تک محدود معلوم پڑتا ہے۔امت مسلمہ کیلئے ایک چلو پانی کہیں سے ملے گا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟