بھارت کا مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم، 2 حصوں میں تقسیم کرنے کا اعلان

جاسم محمد

محفلین
کبھی ہٹلر سے تشبیہ دینا
اب بھی کہہ دیں کہ عمران خان نے تاریخ نہیں پڑھی :)

مودی اور ہٹلر میں کیا باتیں مشترک ہیں؟
296_051835_reporter.jpg
زرغون شاہ
203522_3003377_updates.JPG

—فائل فوٹو

کشمیریوں کا قاتل، گجرات کا قصائی اور ہٹلر کا نائب نریندر مودی نہ صرف خطے کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے بلکہ انسانیت کے لیے بھی تشویش کی علامت بن چکا ہے، ہٹلر کے نقش قدم پر چلنے والی ہندو انتہا تنظیم آر ایس ایس کے پیروکار نریندر مودی کے کرتوتوں اور ارادوں سے پردہ اٹھ گیا۔

ستمبر 1950 کو بھارتی ریاست گجرات کے علاقے وادنگر میں پیدا ہونے والے نریندر مودی کو اگر نازی ہٹلر کا بھارت میں نائب سمجھا جائے تو بے جا نہ ہوگا، ہٹلر کے نزدیک صرف جرمن قوم کے علاوہ کسی اور کو جینے نہ ہی مراعات کا حق تھا۔

ہٹلر کی طرح مودی کے نزدیک بھی ہندو توا کے تحت ہندوؤں کے علاوہ بھارت میں کسی دوسرے مذہب کے پیروکار خصوصاً مسلمانوں اور دلیتوں کو جینے کا حق ہے نہ مراعات حاصل کرنے کا حق ہے۔

نازی جرمنی میں غیر جرمنوں کی نسل کشی کرنے والے ہٹلر کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی نے بھی 2002 میں گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کی پشت پناہی کی، کئی ہزار مسلمانوں کو زندہ جلایا گیا، مسلمانوں خواتین کے ساتھ اجتماعی زیادتیاں کی گئیں، حاملہ مسلمان خواتین کے پیٹوں میں خنجر گھونپے گئے، مسلمان بچوں کو پٹرول پلا کر زندہ جلا دیا گیا۔

اپنےعزائم کی تکمیل کے لیے تصادم کرانا اور فوجیوں کو مروانا بھی نازی ہٹلر اور انتہا پسند مودی کی قدر مشترک ہے۔

ہٹلر نے اپنے عہد سے پھرتے ہوئے پولینڈ پر قبضہ اور روس پہ حملہ کیا، تو مودی نے بھی جواہر لال نہرو کے عہد سے پھرتے ہوئے، مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی، مقبوضہ کشمیر میں آج 9 لاکھ بھارتی فوج نہتے کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے۔

واضح رہے کہ گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کی پشت پناہی کی وجہ سے ہی 2005 میں امریکہ نے مودی کو ویزا دینے سے انکار کیا۔

نریندر مودی کے زیر حکمرانی بھارت نہ صرف 1930 تا 1945 کے نازی جرمنی کی طرف جارہا ہے، بلکہ جا چکا ہے، ہٹلر 30 جنوری کو رائخ چانسلر بنا تو جرمن قوم کو صرف اور صرف زندہ رہنے اور باقیوں کو غلام بنانا اس کا نصب العین ٹھرا، اس نصب العین کے تحت غیر جرمن اقوام کو تاراج کرتا ہوا ایک طرف فرانس پہ قبضہ کرتا تو دوسری طرف روس کے دروازے پہ دستک دیتا دکھائی دیا۔

نازی ہٹلر نے تو پارلیمنٹ نہیں بلکہ ریڈیو پر قبضہ کرتے ہوئے قوم سے خطاب کیا لیکن نازی مودی نے بھارتی نازیوں یعنی آر ایس ایس کے پیروکاروں اور جمہوریت کے دشمنوں کے زریعے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا

ہٹلر نے بھی کبھی رائخ سٹیگ یعنی جرمن پارلیمنٹ کا احترام نہیں نیا، انیبلنگ ایکٹ پاس کروایا، جس کے تحت چانسلر کہ وہ بنائے اور دستخط کرے کہ کسی بھی ایسے قانون کو نام نہاد قومی مفاد میں جرمنی کے تھرڈ رائخ، یعنی جرمن پارلیمنٹ صرف تب بلایا جاتا جب اسی اینیبلنگ ایکٹ کو توسیع چاہے ہوتی۔

مودی بھی بطور وزیر اعظم بھارتی پارلیمنٹ سے تقریباً غائب رہا ہے، مودی نے ہمیشہ پارلیمانی اداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایگزیکٹو آرڈیننسز نافذ کرنے پر اتفاق کیا، بھارتی پارلیمنٹ اور جمہوریت پر نازی مودی کا تازہ ترین وار آرٹیکل تھری سیون ٹی کا خاتم اور مقبوضہ کشمیرکا خصوصی اسٹیٹس ختم کرنا ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
اب بھی کہہ دیں کہ عمران خان نے تاریخ نہیں پڑھی :)

مودی اور ہٹلر میں کیا باتیں مشترک ہیں؟
296_051835_reporter.jpg
زرغون شاہ
203522_3003377_updates.JPG

—فائل فوٹو

کشمیریوں کا قاتل، گجرات کا قصائی اور ہٹلر کا نائب نریندر مودی نہ صرف خطے کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے بلکہ انسانیت کے لیے بھی تشویش کی علامت بن چکا ہے، ہٹلر کے نقش قدم پر چلنے والی ہندو انتہا تنظیم آر ایس ایس کے پیروکار نریندر مودی کے کرتوتوں اور ارادوں سے پردہ اٹھ گیا۔

ستمبر 1950 کو بھارتی ریاست گجرات کے علاقے وادنگر میں پیدا ہونے والے نریندر مودی کو اگر نازی ہٹلر کا بھارت میں نائب سمجھا جائے تو بے جا نہ ہوگا، ہٹلر کے نزدیک صرف جرمن قوم کے علاوہ کسی اور کو جینے نہ ہی مراعات کا حق تھا۔

ہٹلر کی طرح مودی کے نزدیک بھی ہندو توا کے تحت ہندوؤں کے علاوہ بھارت میں کسی دوسرے مذہب کے پیروکار خصوصاً مسلمانوں اور دلیتوں کو جینے کا حق ہے نہ مراعات حاصل کرنے کا حق ہے۔

نازی جرمنی میں غیر جرمنوں کی نسل کشی کرنے والے ہٹلر کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی نے بھی 2002 میں گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کی پشت پناہی کی، کئی ہزار مسلمانوں کو زندہ جلایا گیا، مسلمانوں خواتین کے ساتھ اجتماعی زیادتیاں کی گئیں، حاملہ مسلمان خواتین کے پیٹوں میں خنجر گھونپے گئے، مسلمان بچوں کو پٹرول پلا کر زندہ جلا دیا گیا۔

اپنےعزائم کی تکمیل کے لیے تصادم کرانا اور فوجیوں کو مروانا بھی نازی ہٹلر اور انتہا پسند مودی کی قدر مشترک ہے۔

ہٹلر نے اپنے عہد سے پھرتے ہوئے پولینڈ پر قبضہ اور روس پہ حملہ کیا، تو مودی نے بھی جواہر لال نہرو کے عہد سے پھرتے ہوئے، مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی، مقبوضہ کشمیر میں آج 9 لاکھ بھارتی فوج نہتے کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے۔

واضح رہے کہ گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کی پشت پناہی کی وجہ سے ہی 2005 میں امریکہ نے مودی کو ویزا دینے سے انکار کیا۔

نریندر مودی کے زیر حکمرانی بھارت نہ صرف 1930 تا 1945 کے نازی جرمنی کی طرف جارہا ہے، بلکہ جا چکا ہے، ہٹلر 30 جنوری کو رائخ چانسلر بنا تو جرمن قوم کو صرف اور صرف زندہ رہنے اور باقیوں کو غلام بنانا اس کا نصب العین ٹھرا، اس نصب العین کے تحت غیر جرمن اقوام کو تاراج کرتا ہوا ایک طرف فرانس پہ قبضہ کرتا تو دوسری طرف روس کے دروازے پہ دستک دیتا دکھائی دیا۔

نازی ہٹلر نے تو پارلیمنٹ نہیں بلکہ ریڈیو پر قبضہ کرتے ہوئے قوم سے خطاب کیا لیکن نازی مودی نے بھارتی نازیوں یعنی آر ایس ایس کے پیروکاروں اور جمہوریت کے دشمنوں کے زریعے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا

ہٹلر نے بھی کبھی رائخ سٹیگ یعنی جرمن پارلیمنٹ کا احترام نہیں نیا، انیبلنگ ایکٹ پاس کروایا، جس کے تحت چانسلر کہ وہ بنائے اور دستخط کرے کہ کسی بھی ایسے قانون کو نام نہاد قومی مفاد میں جرمنی کے تھرڈ رائخ، یعنی جرمن پارلیمنٹ صرف تب بلایا جاتا جب اسی اینیبلنگ ایکٹ کو توسیع چاہے ہوتی۔

مودی بھی بطور وزیر اعظم بھارتی پارلیمنٹ سے تقریباً غائب رہا ہے، مودی نے ہمیشہ پارلیمانی اداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایگزیکٹو آرڈیننسز نافذ کرنے پر اتفاق کیا، بھارتی پارلیمنٹ اور جمہوریت پر نازی مودی کا تازہ ترین وار آرٹیکل تھری سیون ٹی کا خاتم اور مقبوضہ کشمیرکا خصوصی اسٹیٹس ختم کرنا ہے۔
بات عمران خان کے موقف کی نہیں، وزیراعظم کے عہدے اور اس سے جڑے ہوئے موقف اور بعد ازاں ہونے والی ممکنہ پیش رفت سے ہے۔ تاہم، جذباتیت کے ماحول میں یہ باتیں پاپولسٹ لیڈرز کو کہاں اچھی لگیں گی! :) اک ذرا گرد بیٹھنے دیجیے۔ :) اس کے بعد، یہی الفاظ باہمی اعتماد کی بحالی میں آڑے آئیں گے۔ کون سمجھے!
 

فرقان احمد

محفلین
ہندوتواکا زعفرانی جھنڈا
JOhzsVd4_KzCJB0nZB-Bv5b5GwKuRFD0adl3sFRpWx8.jpg

جرمن نازیون کا جھنڈا
486168.jpg
یہی تو ہمارا المیہ ہے۔ کل کلاں ہمیں یہ ٹاسک دیا جائے کہ دنیا کی بہترین تحریکوں کا بی جے پی سے ربط تلاش کیا جائے تو ہم بڑی مستعدی سے یہ کارنامہ بھی سرانجام دے دیں گے۔ ہمیں مودی صاحب کی پالیسیوں سے شدید اختلاف ہے تاہم یہ اشتراکات تلاش کرنا ذہنی عیاشی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
بات عمران خان کے موقف کی نہیں، وزیراعظم کے عہدے اور اس سے جڑے ہوئے موقف اور بعد ازاں ہونے والی ممکنہ پیش رفت سے ہے۔ تاہم، جذباتیت کے ماحول میں یہ باتیں پاپولسٹ لیڈرز کو کہاں اچھی لگیں گی! :) اک ذرا گرد بیٹھنے دیجیے۔ :) اس کے بعد، یہی الفاظ باہمی اعتماد کی بحالی میں آڑے آئیں گے۔ کون سمجھے!
مخالف کے خلاف تین طرح کی پالیسیاں ہو سکتی ہیں: طمانیت پسند، جارحانہ، غیرجانبدارانہ
مودی کو امن کی بارہا آفر کر کے دیکھ لیا۔ اس کا پائٹ جو پاکستان پر حملہ آور ہوا تھا وہ بھی بغیر کسی شرط کے واپس کر دیا۔ مودی کو الیکشن میں سپورٹ بھی کیا اس امید پر کہ وہ الیکشن جیت کر مسئلہ کشمیر پر امن طریقہ سے حل کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس طمانیت پسند پالیسی کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔
کشمیر کے حوالہ سے پاکستان غیرجانبدار نہیں رہ سکتا اس لئے یہ پالیسی بھی بیکار گئی۔
اب صرف جارحیت پسندانہ پالیسی باقی بچی ہے جس پر چلنا ناگزیر ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
مخالف کے خلاف تین طرح کی پالیسیاں ہو سکتی ہیں: طمانیت پسند، جارحانہ، غیرجانبدارانہ
مودی کو امن کی بارہا آفر کر کے دیکھ لیا۔ اس کا پائٹ جو پاکستان پر حملہ آور ہوا تھا وہ بھی بغیر کسی شرط کے واپس کر دیا۔ مودی کو الیکشن میں سپورٹ بھی کیا اس امید پر کہ وہ الیکشن جیت کر مسئلہ کشمیر پر امن طریقہ سے حل کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس طمانیت پسند پالیسی کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔
کشمیر کے حوالہ سے پاکستان غیرجانبدار نہیں رہ سکتا اس لئے یہ پالیسی بھی بیکار گئی۔
اب صرف جارحیت پسندانہ پالیسی باقی بچی ہے جس پر چلنا ناگزیر ہے۔
جارحیت پسندی کا رویہ سب سے آخر میں اپنانے والی شخصیت وزیراعظم کی ہونی چاہیے۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہی تو ہمارا المیہ ہے۔ کل کلاں ہمیں یہ ٹاسک دیا جائے کہ دنیا کی بہترین تحریکوں کا بی جے پی سے ربط تلاش کیا جائے تو ہم بڑی مستعدی سے یہ کارنامہ بھی سرانجام دے دیں گے۔ ہمیں مودی صاحب کی پالیسیوں سے شدید اختلاف ہے تاہم یہ اشتراکات تلاش کرنا ذہنی عیاشی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
ہٹلر بھارتی بچوں کی کتب میں ہیرو ہے: نیورک ٹائمز
Indian Children’s Book Lists Hitler as Leader ‘Who Will Inspire You’
بھارت میں ہٹلر کو برا نہیں سمجھا جاتا، ٹائمز آف انڈیا
Why Hitler is not a dirty word in India | India News - Times of India
اندرا گاندھی نے آر ایس ایس کو جرمن نازیوں سے تشبیہ دی تھی
On Emergency, Indira Gandhi drew comparison between Nazis and RSS
آر ایس ایس اور فسطائیت کا تقابلی جائزہ
 

فرقان احمد

محفلین
ہٹلر بھارتی بچوں کی کتب میں ہیرو ہے: نیورک ٹائمز
Indian Children’s Book Lists Hitler as Leader ‘Who Will Inspire You’
بھارت میں ہٹلر کو برا نہیں سمجھا جاتا، ٹائمز آف انڈیا
Why Hitler is not a dirty word in India | India News - Times of India
اندرا گاندھی نے آر ایس ایس کو جرمن نازیوں سے تشبیہ دی تھی
On Emergency, Indira Gandhi drew comparison between Nazis and RSS
ہم کچھ اور کہہ رہے ہیں۔ آپ کچھ اور فرما رہے ہیں۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
ہم کچھ اور کہہ رہے ہیں۔ آپ کچھ اور فرما رہے ہیں۔ :)
جب ہندوتواتحریک اور جرمن نازیوں کی فسطائیت میں اشتراکات موجود ہیں تو ان کو کیونکر جھٹلایا جائے؟
ہمیں مودی صاحب کی پالیسیوں سے شدید اختلاف ہے تاہم یہ اشتراکات تلاش کرنا ذہنی عیاشی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
جب ہندوتواتحریک اور جرمن نازیوں کی فسطائیت میں اشتراکات موجود ہیں تو ان کو کیونکر جھٹلایا جائے؟
کب جھٹلایا گیا؛ ہم نے تو یہ سب اشتراکات نہ پڑھے اور اس کی ضرورت بھی محسوس نہ کی۔ مودی صاحب جو کچھ کرتے چلے جا رہے ہیں، وہ یوں بھی قابل مذمت ہے۔ یہ ہماری غلطی ہے کہ آپ کو بات سمجھا نہ پائے۔ معذرت قبول کیجیے۔ ہمارا موقف شاید باریک اذہان کے لیے تھا۔
 

جاسم محمد

محفلین
جارحیت پسندی کا رویہ سب سے آخر میں اپنانے والی شخصیت وزیراعظم کی ہونی چاہیے۔
بات دراصل یہ ہے کہ آپ بھی غلط نہیں کر رہے۔ جب ہٹلر کا عروج ہوا تھا تو برطانوی وزیر اعظم چمبرلین بجائے اس کی جارحانہ پالیسیوں کا مقابلہ کرنے اس سے جا کر ڈیل کر آئے تھے۔ اور وطن واپس آکر اسے لہرا لہرا کر دنیا کو دکھا تے تھے کہ دیکھو ہم نے اس معاہدہ کے ذریعہ یورپ میں دوسری جنگ عظیم روک دی!
FF87D8_LEAD-e23f88d.jpg

اس appeasement policy کا نتیجہ کیا نکلا؟ ہٹلر کو اپنی افواج مضبوط کرنے کا مزید وقت مل گیا اور اس نے ایک ایک کر کے یورپ کے دیگر ممالک جرمنی میں ضم کرنا شروع کر دیئے۔ بالکل ویسے ہی جیسے مودی نے پاکستان کی طمانیت پسند پالیسی کے نتیجہ میں مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کیا ہے :)
 

فرقان احمد

محفلین
بات دراصل یہ ہے کہ آپ بھی غلط نہیں کر رہے۔ جب ہٹلر کا عروج ہوا تھا تو برطانوی وزیر اعظم چمبرلین بجائے اس کی جارحانہ پالیسیوں کا مقابلہ کرنے اس سے جا کر ڈیل کر آئے تھے۔ اور وطن واپس آکر اسے لہرا لہرا کر دنیا کو دکھا تے تھے کہ دیکھو ہم نے اس معاہدہ کے ذریعہ یورپ میں دوسری جنگ عظیم روک دی!
FF87D8_LEAD-e23f88d.jpg

اس appeasement policy کا نتیجہ کیا نکلا؟ ہٹلر کو اپنی افواج مضبوط کرنے کا مزید وقت مل گیا اور اس نے ایک ایک کر کے یورپ کے دیگر ممالک جرمنی میں ضم کرنا شروع کر دیئے۔ بالکل ویسے ہی جیسے مودی نے پاکستان کی طمانیت پسند پالیسی کے نتیجہ میں مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کیا ہے :)
:heehee:
 

شکیب

محفلین
ہندوتواکا زعفرانی جھنڈا
JOhzsVd4_KzCJB0nZB-Bv5b5GwKuRFD0adl3sFRpWx8.jpg

جرمن نازیون کا جھنڈا
486168.jpg
حد کر رہے ہو بھیا۔ سواستک اتنا پرانا نشان ہے کہ ہٹلر سو بار مر جائے۔

ایک چھوٹی سی دلیل آپ کی شیئر کردہ اس گمت کے خلاف:
مذکورہ نشان ہٹلر کی مناسبت سے یہود مخالفت anti-Semitism کے لیے بھی مشہور ہے جبکہ مودی جی کے اسرائیل کے ساتھ چومنے چاٹنے والے تعلقات اظہر من الشمس ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
مذکورہ نشان ہٹلر کی مناسبت سے یہود مخالفت anti-Semitism کے لیے بھی مشہور ہے جبکہ مودی جی کے اسرائیل کے ساتھ چومنے چاٹنے والے تعلقات اظہر من الشمس ہیں۔
اسرائیل میں 2008 سے دائیں بازو کی انتہا پسند صیہونی جماعتوں کی حکومت ہے۔ جو فلسطینی اقلیت کو دبا کر رکھنے اور ان کے مقبوضہ علاقوں پر ناحق قبضہ قائم رکھنے پرعمل پیرا ہے۔
اس لئے مودی کو یہودیوں سے نہیں بلکہ اسرائیل کی ہم فطرت سیاسی جماعتوں سے پیار ہے۔ اس کا خیال ہے کہ مسلم اقلیت کو ٹھیک سے دبا نا اور اس پر عالمی حمایت بھی برقرار رکھنا صرف اسرائیل کو آتا ہے۔ اسی لئے وہ اسرائیلی پالیسیاں اب ہندوستان میں لاگو کر رہا ہے۔
یہ سرجیکل اسٹرائیک کی اصطلاح اسرائیل کی ایجاد ہے۔ اسی طرح اپنی آبادیاں مقبوضہ علاقوں میں زور زبردستی قائم کرنا بھی معروف اسرائیلی پالیسی ہے۔
 

رانا

محفلین
وسعت اللہ خان صاحب نے کچھ نظمیں اپنے کالم میں شئیر کی ہیں جو فلسطینی شعراء کی ہیں۔ ان میں سے ایک ذیل میں شئیر کررہا ہوں۔

’کیا دعا کو بھی عرش تک پہنچنے کے لیے عسکری اجازت درکار ہے؟
کیا لگن کو بھی سمندر پار کرنے کے لیے خصوصی پرمٹ چاہیے؟
کیا نفرت کو بھی آنکھوں سے باہر آنے کے لیے شناختی کارڈ کی ضرورت ہے؟
کیا نعرۂ بغاوت کی آماجگاہ دل پر بھی بلڈوزر چل سکتا ہے؟
ایک میں ہی تو قید نہیں
تم بھی تو میرے قیدی ہو
میں اندر قید ہوں اور تم میرا پہرہ دیتے ہوئے باہر قید‘
(سما صباوی)
 

جاسم محمد

محفلین
مودی اور ٹرمپ جیسے لوگ عمران خان کی امن پسندی کو نہیں سمجھ سکے،امرجیت سنگھ
وہ اندازہ نہیں لگا سکے کہ عمران خان اگر امن پسند ہیں تو اس کے ساتھ ساتھ وہ پٹھان بھی ہیں۔سکھ رہنما
pic_98ab9_1543558933.jpg._1
سید فاخر عباس پیر 25 فروری 2019 22:59
pic_57e7c_1550139020.jpg._3


نئی دہلی(اردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار-25 فروری 2019ء) :معروف سکھ رہنما ڈاکٹر امرجیت سنگھ کا کہنا تھا کہ مودی اور ٹرمپ جیسے لوگ عمران خان کی امن پسندی کو نہیں سمجھ سکے،وہ اندازہ نہیں لگا سکے کہ عمران خان اگر امن پسند ہیں تو اس کے ساتھ ساتھ وہ پٹھان بھی ہیں۔تفصیلات کے مطابق حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں جہاں بھارت کی جانب سے جارحانہ رویہ اختیار کیا گیا اور مبالغہ آرائی پر مبنی بیان بازی کی وہیں وزیر اعظم عمران خان کے ایک خطاب نے بھارت کے امن دشمن عناصر کی بولتی بند کر دی یہی وجہ تھی کہ وزیر اعظم عمران خان کے خطاب کے بعد نریندر مودی کو بھی اپنا لہجہ تبدیل کرنا پڑا۔بڑھ چڑھ کر باتیں کرنے والے نریندر مودی کا کہنا تھا کہ ہمیں غربت اور ناخواندگی کے خلاف جنگ کرنی چاہیے۔

انہوں نے راجستھان میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب پاکستان کے نئے وزیر اعظم عمران خان نے کرسی سنبھالی تو میں نے مبارک باد دی ،اس پر عمران خان نے مجھے سے کہا کہ وہ پٹھان کی اولاد ہیں اور اپنی بات پر قائم رہیں گے ،اس لئیے وقت آگیا ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم اپنے الفاظ کا پاس رکھیں اور غربت اور جہالت کے خلاف جنگ میں ہمارا ساتھ دیں۔

وزیر اعظم عمران خان کی تقریر پر ردعمل دیتے ہوئے معروف سکھ رہنما ڈاکٹر امرجیت سنگھ کا کہنا تھا کہمودی ، ٹرمپ اور دیگر نے عمران خان کو سمجھنے میں غلطی کی، عمران خان امن پسند تو ہیں مگر یہ لوگ بھول گئے کہ وہ پٹھان بھی ہیں اور پٹھان گھر سے نکلتے ہوے کندھے پر چادر کی جگہ AK-47 رکھتا ہے ۔انکا کہنا تھا کہ عمران خان ایک حقیقی کپتان ہے جس نے پوری ٹیم کو جوڑے رکھا ہے۔انکا مزید کیا کہنا تھا ویڈیو ملاحظہ کریں۔
 

رانا

محفلین
کوئی ایک بات ایسی بتاسکتے ہیں جس پر حضرتِ یو ٹرن قائم رہے ہوں
کتنی ہی باتیں بتائی جاسکتی ہیں۔ انہوں نے کہا میں نے ورلڈکپ جیتا، اس پر اب تک قائم ہیں۔ کہا یونیورسٹی بنائی اس پر قائم ہیں۔ کہا اسپتال بنایا اس پر قائم ہیں۔ اور تو اور یہ کہا کہ ان سب کو رلاؤں گا، اس پر تو جی جان سے قائم ہیں اور ہر روز ایک نئی شان سے قائم ہوتے ہیں۔ اب آپ نہ ماننا چاہیں تو جاسم صاحب بیچارے زبردستی تو نہیں منوا سکتے نا آپ سے۔:)
 
Top