یاز
محفلین
کچھ عرصہ قبل ایک لڑی میں مہاتما گاندھی کے بارے میں بات چیت ہوئی تھی۔ اسی میں بات کرتے ہوئے میں نے بھگت سنگھ کا ذکر کیا تھا اور سارہ خان بہن کے استفسار پہ وعدہ کیا تھا کہ 23 مارچ یا اس سے پہلے اس بارے میں الگ لڑی میں تفصیلات لکھوں گا۔ اس معاملے میں 23 مارچ کی اہمیت اس لئے ہے کہ 23 مارچ 1931 وہ تاریخ ہے جب بھگت سنگھ کو لاہور میں پھانسی پہ لٹکا دیا گیا تھا۔
سو آج کچھ کوشش کرتا ہوں کہ بھگت سنگھ سے متعلق کچھ معلومات اس لڑی میں شیئر کر سکوں۔ یہ عرض کرتا چلوں کہ میں نے خود بھی بھگت سنگھ کے متعلق زیادہ نہیں پڑھا ہے۔ زیادہ تر مواد مختلف ویب سائٹس سے دیکھا ہے، سو وہیں سے شیئر کر رہا ہوں۔ اس پہ اعتراض اٹھایا جا سکتا ہے کہ اس میں کافی حد تک مبالغہ آرائی ہو۔ اس سے انکار نہیں کہ ہیروز کی گلوریفائی کرنے کے لئے زیبِ داستان کی خاطر واقعات کو بڑھا چڑھا کے پیش کیا جاتا ہے، لیکن اس سے بچنا کافی مشکل بلکہ کسی حد تک ناممکن سا ہے۔ کیا آپ کے خیال میں قائداعظم یا دیگر مشہور رہنماؤں کے متعلق جو کچھ ہمارے سامنے پیش کیا جاتا ہے، وہ سب کچھ سچ اور حقیقت پر مبنی ہی ہے۔ یقیناََ نہیں۔ اسی طرح بھگت سنگھ کو بھی اس مبینہ مبالغہ آرائی سے اسشتنا نہیں ہو گا۔
مقصد اس لڑی کا بھگت سنگھ کی زیادہ حمدوثنا نہیں ہے۔ بلکہ اس چیز کو ہائی لائٹ کرنا ہے کہ وہ بھی ہمارا ہی ہیرو تھا۔ اس نے بھی ہماری ہی خاطر جان دی تھی، اور وہ بھی صرف 23 سال کی عمر میں۔ لیکن بدقسمتی سے تاریخی حقائق کو تسلیم یا بیان کرنے میں ہماری سمت ایسی بگڑی کہ غیرمسلم ہونے کی وجہ سے اس کا ذکر تک آپ کو کہیں نہیں ملتا۔
رہِ آزادی کے بے شمار دیگر جانثاروں کی طرح بھگت سنگھ کا بھی اس مٹی پہ، ہم سب پہ ایک قرض ہے۔ میں اپنی سی کوشش کر رہا ہوں کہ اس قرض کو کسی حد تک چکایا جائے۔
سو آج کچھ کوشش کرتا ہوں کہ بھگت سنگھ سے متعلق کچھ معلومات اس لڑی میں شیئر کر سکوں۔ یہ عرض کرتا چلوں کہ میں نے خود بھی بھگت سنگھ کے متعلق زیادہ نہیں پڑھا ہے۔ زیادہ تر مواد مختلف ویب سائٹس سے دیکھا ہے، سو وہیں سے شیئر کر رہا ہوں۔ اس پہ اعتراض اٹھایا جا سکتا ہے کہ اس میں کافی حد تک مبالغہ آرائی ہو۔ اس سے انکار نہیں کہ ہیروز کی گلوریفائی کرنے کے لئے زیبِ داستان کی خاطر واقعات کو بڑھا چڑھا کے پیش کیا جاتا ہے، لیکن اس سے بچنا کافی مشکل بلکہ کسی حد تک ناممکن سا ہے۔ کیا آپ کے خیال میں قائداعظم یا دیگر مشہور رہنماؤں کے متعلق جو کچھ ہمارے سامنے پیش کیا جاتا ہے، وہ سب کچھ سچ اور حقیقت پر مبنی ہی ہے۔ یقیناََ نہیں۔ اسی طرح بھگت سنگھ کو بھی اس مبینہ مبالغہ آرائی سے اسشتنا نہیں ہو گا۔
مقصد اس لڑی کا بھگت سنگھ کی زیادہ حمدوثنا نہیں ہے۔ بلکہ اس چیز کو ہائی لائٹ کرنا ہے کہ وہ بھی ہمارا ہی ہیرو تھا۔ اس نے بھی ہماری ہی خاطر جان دی تھی، اور وہ بھی صرف 23 سال کی عمر میں۔ لیکن بدقسمتی سے تاریخی حقائق کو تسلیم یا بیان کرنے میں ہماری سمت ایسی بگڑی کہ غیرمسلم ہونے کی وجہ سے اس کا ذکر تک آپ کو کہیں نہیں ملتا۔
رہِ آزادی کے بے شمار دیگر جانثاروں کی طرح بھگت سنگھ کا بھی اس مٹی پہ، ہم سب پہ ایک قرض ہے۔ میں اپنی سی کوشش کر رہا ہوں کہ اس قرض کو کسی حد تک چکایا جائے۔
پھانسی سے چند دن قبل جیل میں لی گئی بھگت سنگھ کی تصویر

آخری تدوین: