بیت بازی سے لطف اٹھائیں (5)

شمشاد

لائبریرین
یا بارش سنگ اب کے مسلسل نہ ہوئی تھی
یا پھر میں ترے شہر کی راہ بھول گیا تھا
(محسن نقوی)
 

شیزان

لائبریرین
اب اپنے دوسرے پھیرے کے انتظار میں ہوں
جہاں جہاں مرے دشمن ہیں تاڑ آیا ہوں

میں اُس گلی میں گیا اور دل و نگاہ سمیت
جمال جیب میں جو کچھ تھا جھاڑ آیا ہوں

جمال احسانی
 

شمشاد

لائبریرین
نہ دل میں غیر آتا ہے، نہ صاحب خانہ آتا ہے
نظر چاروں طرف ویرانہ ہے، ویرانہ آتا ہے
(داغ دہلوی)
 

شیزان

لائبریرین
وُہ توبہ کر چکے روزوں میں یا اِلٰہی کیا؟
کیا ہے پردے کا خوب اِنتظام عید کے دِن

بس اَپنے چاند پہ نظریں جمائے رَکھنا ہے
کہاں ہے عاشقوں کو اور کام عید کے دِن

شہزاد قیس
 

شمشاد

لائبریرین
نکتۂ رازِ دل نشیں کون زماں کہاں زمیں
تو بھی تو بے کنار ہو تہہ سے کبھی اچھل کے چل
(محسن نقوی)
 

شیزان

لائبریرین
لفظ کو "مرتبے" پہ رکھنا ہے
بے مثال عدل کا نظام غزل

سنگِ مرمر کا پھول ، تاج محل
عشق کا حُسنِ اہتمام غزل

شہزاد قیس
 

شمشاد

لائبریرین
لغزشوں سے ماورا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
دونوں انساں ہیں خدا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
(محسن نقوی)
 

شیزان

لائبریرین
نہ چھیڑ اےنکہت ِ بادِ بہاری ، راہ لگ اپنی
تُجھے اٹھکیلیاں سُوجھی ہیں ،ہم بیزار بیٹھے ہیں
 
آخری تدوین:

شمشاد

لائبریرین
شیزان بھائی یہ لفظ "نکہت" ہے، نگہت نہیں۔ انشاء اللہ انشاء کا کلام ہے۔
------------------------------------------------------------------

نئی یہ وضع شرمانے کی سیکھی آج ہے تم نے
ہمارے پاس صاحب ورنہ یوں سو بار بیٹھے ہیں
(انشاء اللہ انشاء)
 

شیزان

لائبریرین
شکریہ شمشاد بھائی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نا زیبا گفتگو کو بھی ہم سن کے چپ رہے
شیشے کے گھر نے ، طیش میں آنے نہیں دیا

رخصت تو کر رہے تھے خوشی سے انھیں، مگر
آنکھوں نے ، آنسوؤں کو چھپانے نہیں دیا
 

شیزان

لائبریرین
آج ہم ناگہاں کسی سے ملے
مدتوں بعد زندگی سے ملے

غم بھی ہم سے بڑی خوشی سے ملا
ہم بھی غم سے بڑی خوشی سے ملے

خمار بارہ بنکوی
 

شیزان

لائبریرین
کہنے بھی دو سُکوں سے مجھے داستانِ غم
یہ کیا کہ بات بات پہ شرما رہے ہو تم

اپنی جفا ہے یا کہ ہیں میری تباہیاں
کیا یاد آ گیا ہے، جو گھبرا رہے ہو تم

بہزاد لکھنوی
 

شمشاد

لائبریرین
مجھ سے ملتے ہوئے یہ بات تو سوچی ہوتی
میں ترے دل میں سما جاؤں گا دھڑکن کی طرح
(مرتضیٰ برلاس بیگ)
 

شمشاد

لائبریرین
نامرادی کا دلِ زار کو شکوا ہے عبث
اور کچھ اس کے سوا اُن سے تمنّا ہے عبث
(مولانا حسرت موہانی)
 
Top