بیت بازی سے لطف اٹھائیں (5)

شیزان

لائبریرین
نظریں ملا رہے ہو زمانہ کے سامنے
کچھ تو کرو خیال، غضب ڈھا رہے ہو تم

یا خود ہی بڑھ گئی ہے یہ تابانیء جہاں
یا گوشہء نقاب کو سرکا رہے ہو تم

بہزاد لکھنوی
 
محسن نقوی کا کلام ہے۔ پوری غزل حاضر ہے

یہ دِل یہ پاگل دِل میرا کیوں بجھ گیا آوارگی
اِس دشت میں اِک شہر تھا وہ کیا ہُوا آوارگی

کل شب مجھے بے شکل کی آواز نے چونکا دیا
میں نے کہا تُو کون ہے اُس نے کہا ’آوارگی

لوگو بھلا اُس شہر میں کیسے جئیں گے ہم جہاں
ہو جرم تنہا سوچنا لیکن سزا آوارگی

یہ درد کی تنہائیاں یہ دشت کا ویراں سفر
ہم لوگ تو اُکتا گئے اپنی سُنا آوارگی

اِک اجنبی جھونکے نے جب پوچھا میرے غم کا سبب
صحرا کی بھیگی ریت پر مَیں نے لکھا آوارگی

اُس سمت وحشی خواہشوں کی زد میں پیمانِ وفا
اِس سمت لہروں کی دھمک کچا گھڑا آوارگی

کل رات تنہا چاند کو دیکھا تھا مَیں نے خواب میں
محسنؔ مجھے راس آئے گی شاید سدا آوارگی




سر جی میں نے غلام علی کی آواز میں یہ غزل اوپر لنک کی ہے۔ اس میں اسی طرح ہے جیسے آپ نے بیان کی ہے
 
نہ سلیقہ مجھ میں کلیم کا، نہ قرینہ تجھ میں خلیل کا
میں ہلاکِ جادوئے سامری، تُو قتیلِ شیوہء آزری

(شاعرِ مشرق)
 

شمشاد

لائبریرین
یہ سکوتِ ناز، یہ دل کی رگوں کا ٹُوٹنا
خامشی میں کچھ شکستِ ساز کی باتیں کرو
(فراق گورکھپوری)
 

شمشاد

لائبریرین
اب اس کے شہر میں‌ٹھہریں کہ کوچ کر جائیں
فراز آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں‌‌
(فراز)
 

یونس

محفلین
نہ سوالِ وصل، نہ عرضِ غم، نہ حکایتیں نہ شکایتیں
ترے عہد میں دلِ زار کے سبھی اختیار چلے گئے ۔ !
 

شمشاد

لائبریرین
ادھر کوئی نہیں آ رہا تو میں خود ہی اس کھیل کو آگے بڑھا دیتا ہوں۔

آس اُس در سے ٹوٹتی ہی نہیں
جا کے دیکھا ، نہ جا کے دیکھ لیا
(فیض احمد فیض)
 
آخری تدوین:
Top