قمر رضوان قمر
محفلین
یہ دل ہے کہ بہکتا ہی جائے ہے۔نازک مزاج ہیں وہ پری رخ کچھ اس قدر
پائل جو پہنی پا میں تو چھم چھم سے ڈر گئے
وہ بھی حد سے بڑھتا ہی جائے ہے
یہ دل ہے کہ بہکتا ہی جائے ہے۔نازک مزاج ہیں وہ پری رخ کچھ اس قدر
پائل جو پہنی پا میں تو چھم چھم سے ڈر گئے
امید وصل نے دھوکے دئیے ہیں اس قدر حسرت
کہ اس کافر کی ‘ہاں’ بھی اب ‘نہیں’ معلوم ہوتی ہے
یہ رتجگوں کا کسی طور سلسلہ نہ رہے
ملو تو یوں بچھڑنے کا شائبہ نہ رہے
اسی سے روشنی پھیلی ہے ہر سو بزم امکاں میںیہ بھی تو اک مشغلہ تھا اسکا
مسکرانا اپنا بنانا اور ٹھکرانا
رہِ طلب میں کسی کو کسی کا دھیان نہیںاسی سے روشنی پھیلی ہے ہر سو بزم امکاں میں
محبت اک بڑا احسان ہے تاریخ انساں پر
یوں مسائل سے زندگی الجھیامید وصل نے دھوکے دئیے ہیں اس قدر حسرت
کہ اس کافر کی ‘ہاں’ بھی اب ‘نہیں’ معلوم ہوتی ہے
یے
ادائے عشق و مستی باعثِ تعزیر ہوتی ہےیہ بھی تو اک مشغلہ تھا اسکا
مسکرانا اپنا بنانا اور ٹھکرانا
راستوں کی دھول میں کوئی اٹا رہ جائے گااسی سے روشنی پھیلی ہے ہر سو بزم امکاں میں
محبت اک بڑا احسان ہے تاریخ انساں پر
شہرِ گل کے خس و خاشاک سے خو ف آتا ہےاب کہاں کی گفت گو یا ناؤ نوش
زندگی کے ہاتھ گم کردہ ہیں ہوش
ہنستے ہنستے ہم تو مر ہی جائیں گے
چار دن کی یاد ہے پھر فراموش
فیصل عظیم فیصل
شین سے
یہ غم کیا دل کی عادت ہے؟ نہیں تویہ ادائے بے نیازی تجھے بے وفا مبارک
مگر ایسی بے رخی کیا کہ سلام تک نہ پہنچے
شکیل بدایونی
وصل کا دن اور اتنا مختصریہ غم کیا دل کی عادت ہے؟ نہیں تو
کسی سے کچھ شکایت ہے؟ نہیں تو
یہ آرزو ھے تجھے خود سے زیادہ چاھوںوصل کا دن اور اتنا مختصر
دن گنے جاتے تھے اس دن کے لیے
وابستہ میری ذات سے کچھ تلخیاں بھی تھیںیہ غم کیا دل کی عادت ہے؟ نہیں تو
کسی سے کچھ شکایت ہے؟ نہیں تو
ابھی تشخیصِ مرض میں ہے طبیبوں کو کلاموابستہ میری ذات سے کچھ تلخیاں بھی تھیں
اچھا کیا جو مجھ کو فراموش کر دیا
یہ سب داغ ہیں یا کوئی نقشِ کندہ
ہے دل یا عدو کی عداوت کا تعویذ
حقیر
نادم ہیں وہ بھی اب مرے دل کی شکست سےزاویے بہاروں کے سب حسین ہوتے ہیں
جھوٹ کے سبھی موسم بے یقین ہوتے ہیں
استوار رکھتے ہیں زندگی سے سب رشتے
عشق کرنے والے بھی کیا ذہین ہوتے ہیں