توجہ ہٹانے کے لیے القاعدہ کا نام
پاکستان پیپلز پارٹی نے القاعدہ کی جانب سے مبینہ طور پر بینظیر بھٹو پر حملے کی ذمے داری قبول کرنے والی اطلاعات کو مسترد کر دیا ہے۔
پارٹی کا کہنا ہے کہ اس طرح کی باتیں ممکن ہے اس لیے کہی جارہی ہوں تاکہ اصل چہروں کو چھپایا جاسکے۔
پارٹی کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے بی بی سی کو بتایا کہ اٹھارہ اکتوبر کو کراچی میں ہونے والے بم دھماکے کے بعد بھی اسی طرح کا ایک بیان جاری ہوا تھا اور قبائلی علاقے کے ایک گروہ کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ اس نے ذمہ داری قبول کی ہے لیکن اگلے ہی روز اسی گروہ نے اس کی تردید کردی تھی۔
صرف چند لوگ نہیں۔ اب ایک اور آگ بھڑک اٹھی ہے وہ ہے نفرت کی۔ یہ دلوں میں ہے۔ آپ سندھیوں کے مزاج کو نہیں۔ جانتے۔ وہ بھٹو کو نہیں بھول پائے تو بینظیر کو کیسے بھول پائیں گے۔یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ قاتل کون ہے اور قتل کی منصوبہ بندی کرنے والے کون ہیں۔ لیکن یہ تو طے ہے کہ یہ کیس بھی گزشتہ کیسوں کی طرح کچھ ہی دنوں میں سرد خانے میں چلا جائے گا۔
چند لوگوں کے سوا باقی سب بھول بھال جائیں گے اور زندگی روزمرہ کی طرح رواں دواں ہو جائے گی۔
3) جس جگہ خود کش حملہ آور نےدھماکہ کیا، وہ جلسہ گاہ سے باہر تھی۔ وہاں بینظیر کو رکنا بھی نہیں تھا۔ وہ کون لوگ تھے جن کے نعروں کا جواب دینے کے لیے بینظیر اپنی گاڑی کی سن روف سے باہر نکلیں؟
پیپلز پارٹی کے رہناؤں کی جانب سے متضاد بیانات کیوں آرہے ہیں۔ مخدوم امین فہیم اسی گاڑی میں موجود تھے، انہوں نے کیا دیکھا؟ شیری رحمان نے میت کو غسل کرایا، اگر واقعی بینظیر کے سر میں گولی لگی تھی تو جو لوگ گاڑی میں تھے انہیں کیسے پتا نہیں چلا؟