زبانِ خلق کو نقارہ خدا سمجھو۔بے نظیر بھٹو کی واپسی کے سلسلے میں بی بی سی اردو پر کئے گئے لوگوں کے تبصرے
1- بی بی کو جمہوريت پسند ليڈر نہيں مانا جا سکتا کيوں کہ وہ ملک کی سب سے بڑی کرپٹ سياست دان ہے اور امريکہ کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے ايک آمر شحص کے ذريعے پاکستانی عوام پہ مسلط ہونا چاہتی ہے۔ يہ سب کچھ وہ اپنی ذات کے لیے کر رہی ہے۔ اگر اس کو پاکستان اور اس کی عوام سے محبت ہوتی تو وہ چوروں کی طرح مفاہمتی آ رڈيننس کے ذريعے اپنے رستے کے کانٹوں کو صاف کرنے کی معصوم سي غلطی کبھی نہ کرتي۔ جو لوگ س کا استقبال کر رہے ہيں وہ اعلی درجے کے بےوقوف یا آمريت پسند ہيں۔
Muhammad Tahir Javed، Göteborg
2۔ فوجی چھتری ميں پرورش پانے اور ايجينسيوں کی بيساکھيوں کے سہارے لفافوں کے بل بوتے پر اور خفيہ ملکی اور غير ملک سہاروں پر قصر حکومت ميں بيٹھے کب چاہيں گے کہ عوامی قيادت ملکی باگ دوڑ عوام کے اپنے ليڈروں کے ہاتھوں ميں ميں آئے۔ شيدا ٹّلی، محمد علی درانی و ديگر مارشل لاء کی دھمکياں دينے والں کی راتوں کی نيند گئی اور دن کا چين نا پيد ہوا جاتا ہے۔ کچھ دير جمہوری دور رہا تو لوگ وردی والوں کو ان کے مخصوص آئينی کردار تک محدود کر ديں گے، اسی ميں بچت ہے۔
Mian Asif Mahmood، Frederick, MD - U.S.A
3۔ اقتدار کی ہوس نے ديوانہ کرديا ہے ورنہ خاتون تھيں وہ کبھی بڑے کمال کي۔ کھيلتے کھيلتے اس بات پہ راضی ہو گئی ہيں کہ چلو کنگ ميکنگ ميں ہی حصہ مل جائے، پھر بھی مزے، نہ کسی کرپشن کے الزام کا خطرہ نہ عزت جانےکا ڈر؟ شايد يہ سبق چوہدری شجاعت اور مشرف اسے سمجھانے ميں کامياب ہوگئے ہيں۔ ان کا ذاتی تجربہ بھی ہے کہ وہ رگڈ اليکشن کو منصفانہ ہونے کا تاثر دينے کے لیے عوام میں سے اتنے بےوقوف اور لٹيرے اکھٹے کرہی ليں گي۔ پھر جاتی دفعہ کہيں گی سناؤ کيسا لگا ميرا کرتب؟
فياض کوروٹانہ، London، برطانیہ
4۔ 86 ميں بی بی مظلوم بن کر آئی تھيں۔ ايک ايسی خاتون کی حيثيت سے جس کے والد کو پھانسی دے دی گئی تھی اور پارٹی کے کارکنوں کو کوڑے مارے گئے تھے۔ اس وقت اور اس کے بعد 88 ميں ہونے والے انتخابات ميں محترمہ نے اپنے والد کی موت کو کيش کروايا لیکن اب محترمہ کے پاس مظلوميت کی کوئی سند ہے نہ ہی معصوميت کي۔ بلکہ وہ اپنے گلے ميں آمر سے معافی لينے کا ہار ڈالے ہوئے ہيں اس جواز کے ساتھ کہ ’پہلے دوسروں کو بھی تو معافی مل چکی ہے‘۔
محمد خالد جا نگڈ ا، Karachi، پاکستان
مزید یہاں
ہیرا پھیری اور جھرلو سے تو کچھ بھی ممکن ہو جائے گا لیکن عوام کی "عوام کی آواز بھی سُن میرے بتانے پہ نہ جا"۔