گھریلو تشدد
گھریلو تشدد نا صرف اسلامی دنیا میں، بالکہ پوری دنیا کا ایک بے حد سنجیدہ مسلہ ہے۔ اس واسطے آپ دوستوں سے درخواست ہے کہ اس موضوع کو گپ شپ کی نظر نہ کریں۔ اور غور و فکر کے بعد اس پرسیرحاصل گفتگو ہونی چاہیئے۔
میں نے ذاتی طور پر گھریلو تشدد قریب سے دیکھا ہے، مجھے معلوم ہے گھریلو تشدد ایک ہنستے کھیلتے گھر کو جہنّم میں تبدیل کردیتا ہے، اس سے خاندان کے ہر فرد کی روح زخمی ہوجاتی ہے، اسی پر بس نہیں، یہ زخم وقت کے ساتھ بھرنے کے بجائے تلخ یادوں کی صورت میں ایک ناسور بن جاتا ہے۔
جہاں تک سعودی جج کا بیان ہے، میرا خیال ہے یہاں سوال غلطی پر سزا کا نہیں ہے۔ غلطی عورت بھی کرسکتی ہے اور مرد بھی ۔ سوال بالکہ سوالات یہ پیدا ہوتے ہیں کہ مرد کو کیسے حق حاصل ہوا کہ وہ عورت کو سزا دے؟ کیا اسلیئے کے وہ جسمانی لحاظ سے عورت سے زیادہ طاقت ور ہے؟ اگر عورت پر یہی قانون لاگو ہوتا ہے تو معاشرے کے کمزور طبقے کے بارے میں کیا خیال ہے؟ تو کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ معاشرے میں جو بھی جسمانی لحاظ سے طاقتور ہے وہ کمزور کو صرف اسلیئے سزا دینے کا حق رکھتا ہے کہ وہ طاقت ور ہے؟ کیا یہ جنگل کا قانون نہیں؟
میرا اس بات پر پختہ ایمان ہے کہ All human beings are born free and equal in dignity and rights اور میں سمجھتا ہوں ہر مرد وعورت جو اپنے آپ کو انسان سمجھتی ہے اسے بھی اس پر پختہ ایمان رکھنا چاہیئے، کیونکہ زندگی میں کبھی نہ کبھی چاہے آپ جسمانی لحاظ سے، سماجی رتبے، دولت و شہرت کے لحاظ سے کتنے ہی طاقت ور کیوں نا ہوں، ایک دن آپ دوسرے انسان کے آگے محتاج ہوں گیں۔ اور اس دن اگر کوئی چیز آپ کی حفاظت کرسکتی ہے تو وہ ہے کیا آپ نے دوسرں کے ساتھ جو برتاؤ کیا وہ اسی قانون All human beings are born free and equal in dignity and rights کے مطابق کیا یا نہیں ۔
میری صرف بیٹیاں ہیں اور ہر باپ کی طرح مجھے بھی ان سے بے انتہا پیار ہے، اللہ تعالٰی گواہ ہے کہ مجھے ایک دن بھی یہ خیال نہیں آیا کہ کاش ان بیٹیوں کی جگہ میرے بیٹے ہوتے۔ اور اگر اسلامی قانون میری بیٹیوں سے ان کا پیدائشی بنیادی انسانی حق صرف اس لیے چھین رہا ہے کہ وہ لڑکیا ں ہے تو میں اسلامی قانون سے بخاوت کرتا ہوں۔