محمد تابش صدیقی
منتظم
پرسوں گزرے لاہور کے سانحے میں ایک دل کو چیر دینے والی تصویر نظر سے گزری، کہ جس میں دہشت گردی کی شکار ایک شہید کے موبائل پر اس کی ماں کی کال آ رہی تھی۔
ماں کی پریشانی کی ہلکی سی جھلک جو ذہن میں آئی وہ اس نظم کی صورت میں اصلاح کے لئے پیش کر رہا ہوں۔ اگرچہ یہ نظم ماں کے کرب کا عشرِ عشیر بیان کرنے سے بھی قاصر ہے۔
اساتذہ اور دیگر شعراء سے توجہ کی درخواست۔
ماں کی پریشانی کی ہلکی سی جھلک جو ذہن میں آئی وہ اس نظم کی صورت میں اصلاح کے لئے پیش کر رہا ہوں۔ اگرچہ یہ نظم ماں کے کرب کا عشرِ عشیر بیان کرنے سے بھی قاصر ہے۔
اساتذہ اور دیگر شعراء سے توجہ کی درخواست۔
بیٹا! فون تو اٹھا
مجھ کو اتنا مت ستا
کب سے فون کرتی ہوں
تیری راہ تکتی ہوں
چار سو اندھیرا ہے
خوف کا ہی ڈیرہ ہے
تم نے تو کہا تھا نا
جلد واپس آؤں گی
کتنی دیر سے تم نے
کھانا بھی نہیں کھایا
کیسا شور برپا ہے
ہر طرف ہنگامہ ہے
تو کہاں ہے میری جاں
ڈر رہی ہے تیری ماں
مجھ کو اتنا مت ستا
بیٹا! فون تو اٹھا
مجھ کو اتنا مت ستا
کب سے فون کرتی ہوں
تیری راہ تکتی ہوں
چار سو اندھیرا ہے
خوف کا ہی ڈیرہ ہے
تم نے تو کہا تھا نا
جلد واپس آؤں گی
کتنی دیر سے تم نے
کھانا بھی نہیں کھایا
کیسا شور برپا ہے
ہر طرف ہنگامہ ہے
تو کہاں ہے میری جاں
ڈر رہی ہے تیری ماں
مجھ کو اتنا مت ستا
بیٹا! فون تو اٹھا
آخری تدوین: