امجد میانداد
محفلین
السلام علیکم،
ماں پھر بہن، دوست اس کے بعد بیوی اور پھر بیٹی۔
یہ وہ روپ ہیں عورت کے جن سے میں آشنا ہوا۔ ان تمام رشتوں کی صورت وہ اللہ کی رحمت ہی نظر آئی ہے، سرچشمہ رحمت۔
میں نے جتنا پڑھا دیکھا اور پرکھا تو اس نتیجے پر پہنچا کہ کم از کم ہمارے معاشرے میں عورت کو انتہائی آسانی سے بیوقوف بنایا جا سکتا ہے۔ اور وہ جتنی بھی ماڈرن ہو جائے پر اب بھی استحصال کا شکار ہے۔
اور کس کس طرح اس کا استحصال ہوتا رہتا ہے اسے خود بھی اندازہ نہیں ہوتا۔ یا اندازہ ہوتا بھی ہے تو اس کے پاس اس سے فرار کا کوئی راستہ نہیں ہوتا اور یہاں تک کہ وہ پابندیوں کے اندیشوں سے اپنے اوپر بِیتے اکثر مظالم چپ چاپ سہہ جاتی ہے اور کسی ہمدرد کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہو پاتی۔
اسکول کالج میں رویے۔ بسوں، ویگنوں اور دوسرے پبلک مقامات پر ہونے والے سلوک، اور کتنے ہی ایسے واقعات پڑھنے اور سننے کو ملے جن میں گھر سے ہی کوئی عزیز تر رشتہ استحصال کا نشانہ بنا رہا ہوتا ہے خواہ وہ جنسی استحصال ہو یا معاشی یا معاشرتی۔
بحثیتِ بھائی میں نے دیکھا کہ بہن ڈرتی ہے شکایت لگاتے کہ بھائی اور ابو ایک دم سے غصہ میں آجاتے ہیں اگر بہن یا بیٹی کسی کے رویے کی شکایت ان سے کریں۔ اور اکثر یہی ہوتا ہے کہ وہ غلط برتاؤ کرنے والے کو تو کچھ نہیں کہہ سکتے اس وقت بس بدلے میں بیچاری بہن یا بیٹی کو ہی سننی پڑتی ہیں اور پھر پابندیاں بھی کبھی کبھی لگ جاتی ہیں کہ اب کیا کر سکتے ہیں کمینگی بڑھتی جا رہی ہے معاشرے میں بس چھوڑ دو ٹیوشن، کالج یا اکیڈمی وغیرہ۔
یہی حال بیچاری کے ساتھ ٹرانسپورٹ یا بازار میں پیش آنے والے واقعات میں ہوتا ہے اکثر بیویاں بھی اپنے شوہروں سے ایسے واقعات چھپا لیتی ہیں۔ وجہ صرف یہی کہ قصور وار تو سامنے ہوتا نہیں بے عزتی ان کی ہی ہونی ہے۔
پھر کچھ ایسے واقعات بھی سننے اور پڑھنے کو ملے جس میں کسی کزن، عزیز یہاں تک کہ بھائیوں، چچاؤں اور ماموؤں تک نے بیحرمتی کی ہوتی ہے پر وہ کسی سے کہہ نہیں پاتی کچھ نا سمجھی کی وجہ سے اور کچھ ڈر کی وجہ سے اور کچھ یقین نہ کیئے جانے کی وجہ سے۔
وجہ صرف اور صرف عدم تحفظ ہے، کہ بہت طاقت ہے تو اس کے لیئے اسٹینڈ لیا جائے گا ورنہ چپ اور پابندیاں۔
میرے ذہن میں ایک سوال گونجا کہ مرد اگر جاگیر سمجھ کر اونر شپ رکھے گا تو یہ مسئلے کبھی حل نہیں ہوں گے اور یہ خلیج رہے گی۔
اس کا آغاز میں نے کچھ اس طرح کیا کہ سب سے پہلے اپنی بیوی کی ہمت بندھائی کہ وہ اپنے پرابلمز مجھ سے بحثیتِ دوست کے بھی شئیر کر سکے۔ اور پھر میں نے اسے کچھ اختیارات بھی سونپے اور ان کا نتیجہ میں نے ایک دن اپنے سامنے دیکھا جب ایک وین میں اسے لگا کہ کسی نے پچھلی سیٹ سے اسے چھیڑا اور وہ عورت جو چھوٹی چھوٹی باتوں پر آنسو بہاتی تھی گھومی اور اپنے شوہر کے ہوتے ہوئے ایک زناٹے دار تھپڑ رکھ کر دیا پچھلی سیٹ پر بیٹھے واحد لڑکے کو۔ اور میرے منہ سے نکلا زبردست۔ (عزت داروں سے معذرت، اگر اسے بے عزتی سمجھیں تو) اور میں نے گھر آکر بھی اسے داد دی۔
میں آج کل ان خطوط پر سوچ رہا ہوں کہ استحصالی خطرات کی آگاہی کا کون سا طریقہ اختیار کروں یا رائج کروں۔
میری ایک بیٹی 5 سال کی اور ایک 4 سال کی ہے، اور میں سوچ میں ہوں کہ کیا طریقہ اختیار کروں کہ بیٹیوں کو یہ شعور اور تعلیم دے سکوں کہ ہر پیار کرنے والا باپ، نانا یا دادا ایسی سوچ نہیں رکھتا۔
گھر کے اندر اگر اسے کسی سے خطرہ ہو تو وہ بے خطر کسی سے کہہ سکیں۔
باہر ہو کوئی مسئلہ تو وہ خود کو قصور وار سمجھے بغیر مدد کے لیئے کہہ سکیں۔
وہ کوئی بات چھپائیں نہ بلکہ شئیر کرنے میں بہتری محسوس کریں۔
وہ فخر سے بتائیں کہ ان کے کون کون سے دوست ہیں۔ اور اپنا حلقہ احباب بتانے میں انہیں کوئی ہچکچاہٹ نہ ہو۔
اب وقت یہ نہیں رہا کہ ایسا کہا جائے کہ بیٹیاں آج یا کل دوست نہیں رکھ سکتں اور اجازت نہیں۔ ان کو فون نہیں آ سکتے اور یہ اور وہ۔ یہ سب کچھ نہیں ہوتا ہو گا پر صرف آپ کے سامنے ۔
ضرورت اس امر کی محسوس کر رہا ہوں کہ وہ چھپ چھپا کر دوستیاں کرنے کے بجائے ہمیں شامل حال رکھیں اپنی خوشی سے ایسا رویہ اپنانا ہو گا۔
میں سوچ رہا تھا کہ مینا کی کہانی جیسی کچھ کہانیاں ترتیب دوں کچھ انیمیٹڈ مویز بناؤں تاکہ استحصالی خطرات سے آگاہی اور تحفظ کی تعلیم بھی عام کی جا سکے۔
ماں پھر بہن، دوست اس کے بعد بیوی اور پھر بیٹی۔
یہ وہ روپ ہیں عورت کے جن سے میں آشنا ہوا۔ ان تمام رشتوں کی صورت وہ اللہ کی رحمت ہی نظر آئی ہے، سرچشمہ رحمت۔
میں نے جتنا پڑھا دیکھا اور پرکھا تو اس نتیجے پر پہنچا کہ کم از کم ہمارے معاشرے میں عورت کو انتہائی آسانی سے بیوقوف بنایا جا سکتا ہے۔ اور وہ جتنی بھی ماڈرن ہو جائے پر اب بھی استحصال کا شکار ہے۔
اور کس کس طرح اس کا استحصال ہوتا رہتا ہے اسے خود بھی اندازہ نہیں ہوتا۔ یا اندازہ ہوتا بھی ہے تو اس کے پاس اس سے فرار کا کوئی راستہ نہیں ہوتا اور یہاں تک کہ وہ پابندیوں کے اندیشوں سے اپنے اوپر بِیتے اکثر مظالم چپ چاپ سہہ جاتی ہے اور کسی ہمدرد کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہو پاتی۔
اسکول کالج میں رویے۔ بسوں، ویگنوں اور دوسرے پبلک مقامات پر ہونے والے سلوک، اور کتنے ہی ایسے واقعات پڑھنے اور سننے کو ملے جن میں گھر سے ہی کوئی عزیز تر رشتہ استحصال کا نشانہ بنا رہا ہوتا ہے خواہ وہ جنسی استحصال ہو یا معاشی یا معاشرتی۔
بحثیتِ بھائی میں نے دیکھا کہ بہن ڈرتی ہے شکایت لگاتے کہ بھائی اور ابو ایک دم سے غصہ میں آجاتے ہیں اگر بہن یا بیٹی کسی کے رویے کی شکایت ان سے کریں۔ اور اکثر یہی ہوتا ہے کہ وہ غلط برتاؤ کرنے والے کو تو کچھ نہیں کہہ سکتے اس وقت بس بدلے میں بیچاری بہن یا بیٹی کو ہی سننی پڑتی ہیں اور پھر پابندیاں بھی کبھی کبھی لگ جاتی ہیں کہ اب کیا کر سکتے ہیں کمینگی بڑھتی جا رہی ہے معاشرے میں بس چھوڑ دو ٹیوشن، کالج یا اکیڈمی وغیرہ۔
یہی حال بیچاری کے ساتھ ٹرانسپورٹ یا بازار میں پیش آنے والے واقعات میں ہوتا ہے اکثر بیویاں بھی اپنے شوہروں سے ایسے واقعات چھپا لیتی ہیں۔ وجہ صرف یہی کہ قصور وار تو سامنے ہوتا نہیں بے عزتی ان کی ہی ہونی ہے۔
پھر کچھ ایسے واقعات بھی سننے اور پڑھنے کو ملے جس میں کسی کزن، عزیز یہاں تک کہ بھائیوں، چچاؤں اور ماموؤں تک نے بیحرمتی کی ہوتی ہے پر وہ کسی سے کہہ نہیں پاتی کچھ نا سمجھی کی وجہ سے اور کچھ ڈر کی وجہ سے اور کچھ یقین نہ کیئے جانے کی وجہ سے۔
وجہ صرف اور صرف عدم تحفظ ہے، کہ بہت طاقت ہے تو اس کے لیئے اسٹینڈ لیا جائے گا ورنہ چپ اور پابندیاں۔
میرے ذہن میں ایک سوال گونجا کہ مرد اگر جاگیر سمجھ کر اونر شپ رکھے گا تو یہ مسئلے کبھی حل نہیں ہوں گے اور یہ خلیج رہے گی۔
اس کا آغاز میں نے کچھ اس طرح کیا کہ سب سے پہلے اپنی بیوی کی ہمت بندھائی کہ وہ اپنے پرابلمز مجھ سے بحثیتِ دوست کے بھی شئیر کر سکے۔ اور پھر میں نے اسے کچھ اختیارات بھی سونپے اور ان کا نتیجہ میں نے ایک دن اپنے سامنے دیکھا جب ایک وین میں اسے لگا کہ کسی نے پچھلی سیٹ سے اسے چھیڑا اور وہ عورت جو چھوٹی چھوٹی باتوں پر آنسو بہاتی تھی گھومی اور اپنے شوہر کے ہوتے ہوئے ایک زناٹے دار تھپڑ رکھ کر دیا پچھلی سیٹ پر بیٹھے واحد لڑکے کو۔ اور میرے منہ سے نکلا زبردست۔ (عزت داروں سے معذرت، اگر اسے بے عزتی سمجھیں تو) اور میں نے گھر آکر بھی اسے داد دی۔
میں آج کل ان خطوط پر سوچ رہا ہوں کہ استحصالی خطرات کی آگاہی کا کون سا طریقہ اختیار کروں یا رائج کروں۔
میری ایک بیٹی 5 سال کی اور ایک 4 سال کی ہے، اور میں سوچ میں ہوں کہ کیا طریقہ اختیار کروں کہ بیٹیوں کو یہ شعور اور تعلیم دے سکوں کہ ہر پیار کرنے والا باپ، نانا یا دادا ایسی سوچ نہیں رکھتا۔
گھر کے اندر اگر اسے کسی سے خطرہ ہو تو وہ بے خطر کسی سے کہہ سکیں۔
باہر ہو کوئی مسئلہ تو وہ خود کو قصور وار سمجھے بغیر مدد کے لیئے کہہ سکیں۔
وہ کوئی بات چھپائیں نہ بلکہ شئیر کرنے میں بہتری محسوس کریں۔
وہ فخر سے بتائیں کہ ان کے کون کون سے دوست ہیں۔ اور اپنا حلقہ احباب بتانے میں انہیں کوئی ہچکچاہٹ نہ ہو۔
اب وقت یہ نہیں رہا کہ ایسا کہا جائے کہ بیٹیاں آج یا کل دوست نہیں رکھ سکتں اور اجازت نہیں۔ ان کو فون نہیں آ سکتے اور یہ اور وہ۔ یہ سب کچھ نہیں ہوتا ہو گا پر صرف آپ کے سامنے ۔
ضرورت اس امر کی محسوس کر رہا ہوں کہ وہ چھپ چھپا کر دوستیاں کرنے کے بجائے ہمیں شامل حال رکھیں اپنی خوشی سے ایسا رویہ اپنانا ہو گا۔
میں سوچ رہا تھا کہ مینا کی کہانی جیسی کچھ کہانیاں ترتیب دوں کچھ انیمیٹڈ مویز بناؤں تاکہ استحصالی خطرات سے آگاہی اور تحفظ کی تعلیم بھی عام کی جا سکے۔