عرفان سعید
محفلین
بیٹی کی ہڈیاں تک نہ مل سکیں!
(ماخوذ)آج پورے 74 سال گزر گئے!
لیکن اتنی دہائیاں گزرنے کے باوجود وہ ہولناک اور اندوہناک ساعتیں جب لوحِ خیال پر مرتسم ہونا شروع ہوتی ہیں تو ایک غیر معمولی رنج و الم، ایک بھیانک حزن و ملال اور ایک اندوہناک اذیت و تکلیف سے میرا دم گھٹنا شروع ہو جاتا ہے!
جیسے دکھ اور درد کا کوہِ گراں میرے سینے پر لاد دیا گیا ہو!
جیسے تعذیب و عقوبت کے آہنی وحشت ناک ہاتھ میرا گلا دبا رہے ہوں!
جیسے جذبات و احساسات کے قلزم میں قلق و اضطراب اور اضمحال و اختلال کی اٹھنے والی بلند و بالا موجیں میرے ساحلِ حیات کی خوبصورتی و رعنائی کو تاخت و تاراج کرنے کے درپے ہوں!
ایٹم بم سے ہونے والی تباہ کاری و غارت گری، اپنی وسعت، ضخامت ، دبازت اور دیرپا و طویل المدت نتائج کی ہولناکیوں کے اعتبار سے، ایک ایسا واقعہ ہے کہ چشمِ فلک نے جس کا مشاہدہ اس سے پہلے کبھی نہ کیا تھا۔
6 اگست 1945 کا آغاز ایک خوبصورت دن کے طور پر ہوتا ہے، مطلع بالکل صاف ہے اور بادلوں کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں ہے کہ یکایک نیلگوں آسمان تلے نگاہوں کو خیرہ کرنے والی ایک روشنی نمودار ہوتی ہے اور حرارت و تمازت کے تھپیڑے اور تابکاری شعاعیں فضا کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ ہیروشیما شہر کا وسط ہولناک شعلوں کے حصار میں گھِر چُکا ہے، جو دیکھتے ہی دیکھتے ایک وسیع و عریض جابر و خونخوار آتش زدگی کا روپ دھار لیتے ہیں اور انسان اس جہنم میں جل جل کر جنوں اور بھوتوں سے بھی زیادہ بھیانک ہوتے جارہے ہیں۔
جس جگہ پر ایٹم بم گرا اور پھٹا، میرا گھر وہاں سے کوئی ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر تھا، جہاں میں اپنے شوہر اور اپنی سترہ سالہ بیٹی کے ساتھ قیام پذیر تھی۔ اپنی بیٹی کو ہم پیار سے سُگی چان کہہ کر بلایا کرتے تھے۔ ان دنوں سکول کے امتحانات سے فراغت کے باعث سُگی عارضی طور پر ہیروشیما کے مرکزی ٹیلفون دفتر میں کام کر رہی تھی۔ 5 اگست کو اسکی شفٹ کا آغاز دوپہر دو بجے ہونا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس دن جانے سے پہلے سُگی نے مجھے کہا: "امی! سات یا آٹھ تاریخ کو ایک بہت بڑا فضائی حملہ متوقع ہے، اس لیے اپنا خاص خیال رکھیے گا"
یہ کہنے کے بعد اس نے مجھے خدا حافظ کہا اور بہت پر اعتماد قدم اٹھاتے ہوئے اپنے کام کی جانب خراماں خراماں چل دی۔ عام طور پر میں سُگی کو گھر کے اندر سے ہی الوداع کرتی تھی، لیکن اس دن نجانے کیوں میرے قدم خود بخود گھر کی دہلیز تک مجھے لے آئے اور میں اس وقت تک اپنی لختِ جگر کو جاتے ہوئے تکتی رہی جب تک وہ میری نگاہوں سے اوجھل نہیں ہو گئی۔
اس رات فضا سے انسانی بستیوں کو نشانہ بنانے والے جنگی طیاروں کی چنگھاڑ، فضائی حملوں کے خطرے کی اطلاع دیتے ہوئے سائرن اور فوجی ہیڈ کواٹر سے ہونے والے اعلانات کے باعث ایک بے ہنگم سا شور و غوغا برپا تھا۔ دل و دماغ کو بہت سے اوہام و خدشات نے اپنے شکنجے میں جکڑا ہوا تھا اورچھٹی حس کسی بہت بڑی بد بختی کی بار بار اطلاع دے رہی تھی۔ رات اسی کشمکش میں گزر گئی۔ علی الصبح دوبارہ جنگی طیاروں کی کانوں کو پھاڑنے والی آوازیں فضا میں گونجنے لگیں اور مجھے دوبارہ یہ احساس ہونا شروع ہوا کہ بہت جلد ہیروشیما شدید بمباری کی زد میں آنے والا ہے۔ لیکن کچھ دیر بعد یہ طیارے واپس چلے گئے اور صبح سات بجے فضائی حملے کی وارننگ بھی اٹھا لی گئی۔ اس وقت میں نے اپنے آپ سے کہا: "خدا کا شکر ہے کہ ہم کم از کم اس وقت ٹھیک ہیں"۔ سات بجے ہی میرے شوہر ناشتہ کرنے کے بعد ایک قریبی کارخانے میں اپنی نوکری کے لیے گھر سے نکل گئے۔ سُگی کی نائٹ شفٹ تھی اور اب وہ گھر آنے ہی والی تھی۔ میں بیٹی کے انتظار میں اس کا ناشتہ تیار کرنے باورچی خانے تک آئی ہی تھی کہ فضا میں فضائی حملے کی وارننگ کے سائرن دوبارہ گونجنے لگے۔ میں نے کہا: "خدا خیر کرے"۔ تھوڑی دیر بعد یہ وارننگ بھی اٹھا لی گئی تو کچھ جان میں جان آئی۔ سُگی ابھی واپس نہیں لوٹی تھی اور میں اس کی راہ دیکھنے کے لیے دروازے تک جانے ہی والی تھی کہ اچانک ایک انتہائی ہولناک اور قیامت خیز دھماکے کی آواز سے میرا کلیجہ حلق تک آگیا، اور میں ہوش و حواس کھوتے ہوئے فرش پر گر گئی۔
جب مجھے کچھ ہوش آیا تو میں اپنے گھر کے تباہ شدہ ملبے تلے دبی ہوئی تھی۔ میرے ارد گرد مکمل اندھیرا تھا اور لکڑی کا ایک بہت بھاری شہتیر میرے کندھے کو مسلسل دبا رہا تھا۔ میں شدید درد اور تکلیف میں تھی اور اپنی پوری کوشش کے باوجود اس شہتیر کو معمولی سی حرکت دینے میں ناکام تھی۔ اندھیر اس قدر شدید تھا کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا، میں اپنے ہاتھوں سے اپنے اوپر پڑے ہوئے ملبے کو محسوس کرتے ہوئے کچھ معمولی سی حرکت کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ ناامیدی مجھے چاروں طرف سے گھیرے ہوئے تھی اور موت سامنے دکھائی دے رہی تھی۔ زندگی کی خاطر لڑنے کا حوصلہ گو دم توڑ رہا تھا، لیکن ایک موہوم سی امید مجھے ہمت نہ ہارنے پر مجبور کیے ہوئے تھی۔ آخر خدا نے کرم کیا اور میرے اوپر ملبے میں ایک باریک سی درز نمودار ہونا شروع ہوئی، جس میں کچھ روشنی چھن چھن کر آنے لگی اور میں کچھ دیکھنے کے قابل ہو سکی۔ اپنی ساری قوت اور توانائی کو مجتمع کرتے ہوئے میں ملبہ اپنے اوپر سے ہٹانے میں کامیاب ہو گئی اور رینگتے ہوئے گھر سے باہر آگئی۔
(جاری ہے)
آخری تدوین: