فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
ہيروشيما / ناگاساکی – کچھ تاريخی حقائق اور امريکی موقف
دوسری جنگ عظيم کے دوران امريکہ کی جانب سے جاپان پر کيے جانے والے حملے کی وجوہات کے ضمن ميں پيش کی جانے والی بعض عمومی آراء ميرے نزديک خاصی حيران کن ہيں۔ اس سے محض تاريخی واقعات کے حوالے سے کم علمی اور محدود سوچ کی عکاسی ہوتی ہے۔
يہ بات حقائق کے منافی ہے کہ امريکی ايٹمی ہتھياروں کو استعمال کر کے محض تجربہ کرنا چاہتا تھا يا اپنی فوجی دھاک بٹھانے کی خواہش رکھتا تھا۔
بعض رائے دہندگان کے دلائل کے برعکس حقيقت يہ ہے کہ سال 1941 سے امريکہ جنگ عظيم دوئم ميں شموليت سے سخت گريزاں تھا۔ بلکہ امريکہ ميں بڑے پيمانے پر ايک سوچ کا غلبہ تھا جس کے ماننے والوں کو "آئ سوليشنسٹس" کہا جاتا تھا۔ ان کے نزديک جنگ عظيم اول ميں شرکت کی امريکہ نے بڑی بھاری قيمت ادا کی تھی اس ليے امريکہ کو معاشی استحکام پر اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہیے اور امريکی صدر روزويلٹ کے "نيو ڈيلز پروگرامز" کو نافذ کرنا چاہيے۔ آئ سوليشنسٹس امريکی ايک مزيد مہنگی اور طويل جنگ ميں شموليت کے سخت مخالف تھے۔ ان امريکی شہريوں کی تحريک اور لابنگ اتنی متحرک اور مقبول تھی کہ اس وقت کی امريکی خارجہ پاليسی ميں بھی اس کی واضح جھلک موجود تھی۔ يہاں تک کہ کانگريس نے "نيوٹريلی ايکٹ آف 1935" کے نام سے باقاعدہ ايک قانون کی منظوری بھی تھی جس کے تحت جنگ ميں شامل ممالک کو فنڈز اور مال واسباب کی ترسيل کے عمل کو غير قانونی قرار دے ديا گيا تھا۔
اس حوالے سے مزيد تفصيل آپ اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہيں۔
Milestones: 1937–1945 - Office of the Historian
انيس سو تيس کی دہائ ميں امريکی کانگريس کی جانب سے جو "نيوٹريليٹی ايکٹس" منظور کيے گئے تھے وہ براہراست ايشيا اور يورپ ميں ان منفی عوامل کے ردعمل ميں تھے جو دوسری جنگ عظيم کا سبب بنے تھے۔ ان قوانين کی منظوری کا محرک پہلی جنگ عظيم ميں امريکی شرکت کے منفی معاشی اثرات اور اس کے نتيجے ميں امريکہ ميں بتدريج پروان چڑھتی ہوئ يہ سوچ تھی کہ امريکہ کو لاتعلق رہنا چاہيےاور کنارہ کشی کی روش اپنانی چاہيے تا کہ اس بات کو يقینی بنايا جائے کہ امريکہ بيرونی تنازعات ميں شامل نہ ہو۔
مثال کے طور پر "نيوٹريليٹی ايکٹ" ميں يہ شق بھی شامل تھی کہ امريکی کسی ايسے بحری جہاز پر سوار نہيں ہوں گے جس پر ايسے ملک کا جھنڈا ہو گا جو يا تو خود جنگ ميں شامل ہو يا جنگ ميں ملوث ممالک کے ساتھ اسلحے کے لين دين ميں ملوث ہو۔
يہ وہ عمومی صورت حال اور مقبول رائے عامہ تھی جو دوسری جنگ کے دوران امريکہ ميں پائ جاتی تھی۔ اس تناظر ميں يہ دعوی کرنا کہ امريکہ جان بوجھ کر اپنے جنگی عزائم کی تسکين يا اپنی جارح پسندی کی وجہ سے دوسری جنگ عظيم ميں شامل ہوا، سراسر لغو اور غلط بيانی ہے۔
حقيقت يہ ہے کہ اس زمانے ميں امريکہ کی لاتعلق رہنے کی پاليسی اور بڑے بڑے عالمی تنازعات ميں مداخلت نہ کرنے کی روش کے سبب اکثر عالمی سطح پر ہميں شديد تنقيد کا نشانہ بنايا جاتا تھا۔ يہ حقيقت اس دور کے بے شمار کالمز، جرنلز اور لٹريچر سے عياں ہے۔ اس ضمن ميں ايک مثال
دوسری جنگ عظيم کے دور کے اب بھی ايسے بے شمار افراد موجود ہيں جو اس حقيقت کی گواہی دے سکتے ہيں کہ امريکہ سال 1939 ميں شروع ہونے والی دوسری جنگ عظيم ميں اس وقت تک شامل نہيں ہوا تھا جب تک کہ دسمبر 7 1941 کو جاپان نے پرل ہاربر کے مقام پر امريکہ پر حملہ نہيں کر ديا تھا۔ اس کے چار روز کے بعد ہٹلر نے باقاعدہ امريکہ کے خلاف اعلان جنگ کر ديا تھا۔ امريکہ کی جانب سے ايٹم بم کے استعمال کا فيصلہ يقينی طور پر ايک انتہائ دشوار فيصلہ تھا اور اس کا بنيادی مقصد اس مت۔بادل صورت حال کو روکنا تھا جس ميں جاپان پر زمينی حملہ کيا جاتا اور جس کے نتيجے ميں دونوں جانب بے پناہ جانی نقصان ہوتا جو برسا برس جاری رہتا۔ يہ نقطہ بھی قابل توجہ ہے کہ جولائ 1945 ميں اتحادی افواج کی جانب سے جاپان کو ہتھيار ڈال کر شکست تسليم کرنے کا موقع فراہم کيا گيا تھا جسے جاپان کی حکومت نے مسترد کر ديا تھا۔
سال 1945 ميں امريکہ کے سامنے صرف دو آپشنز تھے ، يا تو جاپان ميں ايک بڑی فوج اتار کر باقاعدہ ايک طويل جنگ کا آغاز کيا جائے يا ايٹمی ہتھيار کا استعمال کر کے جاپان کو فوری طور پر شکست پر مجبور کيا جائے۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ ہيروشيما اور ناگاساکی ميں بے گناہ انسانوں کی ہلاکت ايک بہت بڑا سانحہ تھا ليکن يہ بھی ايک حقيقت ہے کہ طويل المدت زمينی جنگ کی صورت ميں انسانی جانوں کا نقصان اس سے کہيں زيادہ ہوتا۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ