اوپن ہائمر کا تاریخی جملہ
زاہدہ حنا اتوار 11 اگست 2019
سانحہ کتناہی بڑا کیوں نہ ہو، اس پر وقت کی گرد پڑتی رہتی ہے اور آہستہ آہستہ وہ لوگوں کی یاد میں پسِ پشت چلا جاتا ہے۔ بیسویں صدی کے نصف آخر میں دوسری جنگ عظیم جاپان کے دو جیتے جاگتے شہروں کی بھینٹ لے کر بند ہوئی۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ایک ایسا قتال عظیم تھا جس کی کوئی ضرورت نہ تھی، ان 2 شہروں کو نوالہ بنائے بغیر بھی جاپان ہتھیار ڈالنے والا تھا۔کچھ لوگ یہ نقطہ نظر رکھتے ہیںکہ امریکا اپنے اس نئے ہتھیارکو آزمانا چاہتا تھا اور اس کے ساتھ ہی دنیا پر اپنی دھاک بٹھانا چاہتا تھا ، اس لیے اس نے یہ شرم ناک حرکت کی۔ وجہ کچھ بھی ہو، حقیقت یہی ہے کہ اگست 1945 میں ہیرو شیمااور ناگا ساکی کے لاکھوں لوگ بھاپ بن کر اڑ گئے۔ان کے سائے راکھ بن کر دونوں شہروں کے درودیوار پر بچھ گئے۔
اب ہرسال ان کی یاد میں جلسے ہوتے ہیں۔ تقریریں ہوتی ہیں ، بچے شمعیں اورکاغذ کی قندیلیں جلاتے ہیں اور یہی کہا جاتا ہے کہ آیندہ ہم کبھی ایٹمی ہتھیاروں کی طرف نہیں دیکھیں گے، لیکن جیسے ہی دو ایسے ملکوں کے درمیان تنا تنی ہوتی ہے جو ایٹم بم رکھتے ہوں تو دونوں ایک دوسرے کو دھمکانے لگتے ہیں۔ان جلسوں کی روداد پڑھ کر اور تصویریں دیکھ کر مجھے 1818 میں شائع ہونے والا میری شیلے کا ناول ’’فرنکنسٹائین‘‘ یاد آتا ہے۔
اس ناول کی کہانی کچھ یوں ہے کہ ایک سائنس دان کوکچھ بہت پرانی ہڈیاں ملتی ہیں جنھیں یکجا کرکے وہ انھیں زندگی دیتا ہے، اس سائنسی تجربے کے نتیجے میں ایک عفریت جنم لیتا ہے۔اس عفریت کو وہ پلوٹارک کی ’’تاریخ مشاہیر یونان وروما‘‘ ، گوئٹے کا ’’فاؤسٹ‘‘، ملٹن کی ’’فردوس گم شدہ‘‘ اور دوسرا کلاسیکی ادب پڑھاتا ہے۔ وہ عفریت سوچ سکتا ہے، محسوس کرسکتا ہے، اس کے اندر نیکی اور بدی کی کشمکش جاری رہتی ہے، طیش کی حالت میں وہ اپنے خالق، اس کی دلہن اور اس کے دوست کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے، اس کے بعد اس کے اندر پچھتاوا جاگتا ہے۔ وہ خود کو انسان اور تہذیب انسانی کے لیے ایک خطرہ سمجھتا ہے اسی لیے خودکشی کا راستہ اختیارکرتا ہے اور قطب شمالی کے برفانی طوفان میں نکل جاتا ہے، جہاں کچھ لوگوں کو اس کے نقش قدم نظر آتے ہیں لیکن اس کا نام و نشان نہیں ملتا۔
میری شیلے کی یہ کہانی مجھے اس لیے یاد آئی کہ انسان نے بیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں جوہری ہتھیاروں کی صورت میں جس عفریت کو زندہ کیا، اس نے نہ ’’پیرا ڈائز لاسٹ‘‘ پڑھی ہے اور نہ ’’فاؤسٹ‘‘، وہ عفریت نہ سوچ سکتاہے اور نہ محسوس کرسکتا ہے، اس کے اندر نیکی اور بدی کی کشمکش بھی نہیں ہوتی، اسے ہیروشیما اور ناگاساکی کے شہروں کو تہس نہس کر دینے کا پچھتاوا بھی نہیں ہے۔ اس کی نسل تیزی سے بڑھ رہی ہے، وہ عفریت جس نے امریکا کے ایک صحرا میں جنم لیا تھا، اس کی نسل اب ہمارے برصغیر کے صحرا اور پہاڑوں تک آپہنچی ہے۔ یہ عفریت ہمیں صفحۂ ہستی سے مٹانے کے لیے بے تاب ہے اور ہم ہیں کہ اپنی آنے والی نسلوں کے اس دشمن کی پیدائش پر بھنگڑا ڈالتے ہیں، مٹھائیاں بانٹتے ہیں اور چراغاں کرتے ہیں۔
ایک جاپانی دانشور ڈاکٹرکٹیانو اس وقت لاہور میں تھیں جب انھوںنے لوگوں کے نام ایک کھلے خط میں لکھا تھا ’’آپ نے ایٹمی ہتھیاروں کی تباہی کو دیکھنا تو دورکی بات ہے شاید اس بارے میں کبھی سوچا بھی نہ ہوگا۔ میں نے ایٹم بم کے اثرات دیکھے ہیں۔ انھیں اپنے بدن پر محسوس کیا ہے۔ ناگاساکی پر اترنے والی قیامت کا شکار ہونے والی عورتوں میں سے ایک میری نانی بھی تھیں۔ مجھے اپنے مسخ شدہ چہرے پر اپنی نانی اور ان جیسی سیکڑوں عورتوں کے زخموں کی جلن محسوس ہوتی ہے۔ میری ایک آنکھ بصارت سے محروم ہے اور میرا بایاں ہاتھ مردہ ہے۔ میں نے اسی مسخ شدہ بدن کے ساتھ جنم لیا۔ انسانیت نے مجھے ورثے میں یہی کچھ دیا۔ میری ماں بھی معذور تھی کیونکہ اسے ناگاساکی میں ایٹمی تابکاری کا شکار ہونے والی عورت نے جنم دیا تھا۔ یہ سب کچھ اسی ایٹمی ’’معجزے‘‘ کی مہربانی ہے جس پر آپ جشن منا رہے ہیں ۔ کیا ہر لمحہ ایٹمی جنگ کے دہانے پرکھڑے رہنے کا مطلب ملکی تحفظ ہے؟ میری دعا ہے کہ ایسا وقت کبھی نہ آئے کہ کوئی پاکستانی یا ہندوستانی اپنے نومولود بچے کو پہلی مرتبہ گود میں اٹھائے اور دیکھے کہ جہاں اس کی آنکھیں ہونا چاہیے تھیں وہاں صرف دو سوراخ ہیں۔ خدا نہ کرے کہ آپ کے بچے بے نور آنکھوں، مردہ ہاتھوں اور مسخ چہروں کے ساتھ اس دنیا میں آئیں۔‘‘
ڈاکٹرکٹیانوکے اس خط کا حوالہ میں اپنی کئی تحریروں میں پہلے بھی دے چکی ہوں، اس لیے کہ یہ ایک ایسی عورت کاخط ہے جس نے اور جس کی نسل نے ایٹمی تباہی کو خود بھوگا ہے۔
یہ سطریں لکھتے ہوئے مجھے ایک فلم Planet of the Apes بھی یاد آئی۔آپ میں سے اکثر نے یہ فلم دیکھی ہوگی،اس کا اختتام رونگٹے کھڑے کردیتا ہے۔ ستاروں پرکمند ڈالنے والے کن پستیوں میں اترتے ہیں، ارتقا کے سفر سے گزر کر دنیا کی عظیم تہذیبوں کے خالق اور وارث جو ہزاروں برس بندروں اور بن مانسوں کو پنجروں میں قید کرتے رہے،اور ان کی ہنسی اڑاتے رہے، پھر کس طرح ان کے قیدی اور ان کے غلام ہوتے ہیں اور ان کا توہین آمیز سلوک برداشت کرتے ہیں، یہ ایک تخیلاتی فلم کے منظر سہی لیکن یہ سوچنے والے ذہنوں میں بہت سے سوال اٹھاتے ہیں۔
انسان، اپنی نسل کا کیسا دشمن اور اپنی ہی تہذیب کا کیسا اندھا شکاری ہے، انیسویں صدی سے اکیسویں صدی تک اس موضوع پر ان گنت کہانیاں لکھی گئیں، فلمیں بنیں، تحقیق ہوئی، وقت نے ہیروشیما اور ناگاساکی کو دنیا بھرکے لیے عبرت کے نشان کے طور پر ہمارے سامنے رکھ دیا۔
امن کی تحریک نے انیسویں صدی میں جنم لیا تھا، بیسویں صدی میں عالمی سطح پر ہونے والی دو بڑی جنگوں اور بے شمار خونیں جنگوں، لڑائیوں اور مسلح تصادم نے عالمی امن تحریک کو دنیا کے تمام خطوں تک پھیلادیا۔ یہ تحریک عالمی امن کے حق میں لاکھوں افراد کے جلسے اور جلوس منظم کرنے تک ہی محدود نہیں رہی ہے۔ یہ مہلک ہتھیاروں میں تخفیف اور جوہری ہتھیاروں میں مرحلہ وارکمی کے ساتھ ساتھ جوہری ہتھیاروں کے مکمل خاتمے کی بات کرتی ہے۔
میں ذاتی طور پر International Pacifist Movement کے اسی مکتبۂ فکر سے تعلق رکھتی ہوں۔ میں سمجھتی ہوں کہ دنیا کے تمام امن دوست افراد کو اس کرئہ ارض سے جوہری ہتھیاروں کے مکمل خاتمے کے لیے جدوجہد کرنا چاہیے۔ امریکا، روس، چین، برطانیہ، فرانس کی حکومتوں پر بیرونی امن تحریکوں اور خود ان ملکوں کی Pacifistتنظیموں کو اس بارے میں دباؤ بنانا چاہیے تاکہ جوہری ہتھیار رکھنے والے ملکوں سے اس عفریت کا خاتمہ ہوسکے۔اس کے ساتھ ہی ہمیں اپنے برصغیرکی فکر کرنی چاہیے جہاں دونوں طرف شعلہ بیانی اور دشمنی میں حد سے گزر جانے والوں کی کمی نہیں۔ دونوں ملکوں میں غربت اور بھک مری اپنی انتہا کو چھو رہی ہے۔ بیروزگاری اور جہالت میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن برصغیر کے عوام کو زیادہ دردناک اجتماعی موت کی طرف دھکیلنے کا کھیل اب بھی جاری ہے، اس ہولناک کھیل کو دونوں ملکوں کے عوام مل کر ہی روک سکتے ہیں۔
آئن اسٹائن نے نازی جرمنی کے جنگی جنون سے گھبرا کر امریکی صدرکو ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری پر اکسایا تھا، لیکن اسے جب ان ہتھیاروں کی ہولناک تباہ کاریوں کا اندازہ ہوا تو وہ فوراً ہی اس کے خلاف متحرک اور فعال ہوگیا تھا، ناگاساکی اور ہیرو شیما کی تباہی کے بعد اس کی پشیمانی اور احساسِ جرم انتہا کو پہنچا اور اس نے اپنی باقی تمام زندگی امن اور تخفیف اسلحہ کے لیے لڑتے ہوئے گزاردی ۔اسی حوالے سے اس نے لکھا:’’ ہمارے سامنے دو راستے ہیں، یا تو ہم جوہری اسلحے سے نجات حاصل کرلیں یا نسل انسانی کی مکمل تباہی اور اس کے نیست و نابود ہونے کے لیے تیار ہوجائیں۔‘‘
وقت کا کیسا الم ناک مذاق ہے کہ وہ شخص جو ہیروشیما اور ناگاساکی پرگرائے جانے والے بموں کا باپ کہا جاتا ہے اور جس کا نام جے آر اوپن ہائمر تھا، آخرکار وہ اس جوہری عفریت کے بارے میں یہ تاریخی جملہ کہنے پر مجبور ہوا تھا کہ:
’’(ان ہتھیاروں کے خلاف) تمام دنیا کے عوام کو ہر قیمت پر متحد ہونا پڑے گا، ورنہ ہم سب کے سب صفحۂ ہستی سے نیست و نابود ہوجائیں گے۔‘‘