محمد وارث
آپ کا مطالعہ اس بارے میں کیا کہتا ہے؟؟ اگر ممکن ہو تو اس موضوع پر کچھ اشتراک کیجیے۔
کافی متنازعہ سا موضوع ہے جس میں جذباتی عوامل زیادہ کار فرما ہو جاتے ہیں۔
ایک مثالی (یا خیالی یوٹوپین دنیا) میں کسی انسان کو دوسرے انسان کے ہاتھوں مرنا نہیں چاہیئے، کوئی جنگ نہیں ہونی چاہیئے، لیکن ایسا نہیں ہے۔ دنیا میں 'مائٹ از رائٹ'، جس کی لاٹھی اسکی بھینس اور جنگل کا قانون رائج ہے۔ ایٹم بم کا استعمال بھی اس قسم کی کڑی ہے، جس کی کچھ وجوہات یہ ہو سکتی ہیں:
ہتھیاروں کا عملی مظاہرہ اور کارکردگی
دنیا میں کوئی ہتھیار میوزیم میں سجانے کے لیے نہیں بنتا بلکہ دشمنوں کے خلاف استعمال ہونے کے لیے بنتا ہے۔ ایٹم بم اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ ہر جنگ میں نئے ہتھیار استعمال ہوتے ہیں، ان کی کارکردگی جانچی جاتی ہے۔ ہزاروں سالوں سے ایسا ہی ہو رہا ہے۔ عراق اور افغانستان میں کتنے ہی نئے ہتھیار جانچے گئے۔ پہلی اور دوسری جنگِ عظیم میں نئے سے نئے ہتھیار بنائے اور استعمال کیے گئے سو ایٹم بم بھی استعمال کیا گیا۔ دور کیوں جائیں، ابھی اسی سال فروری میں انڈیا پاکستان کی ایک معمولی سی جھڑپ میں جے ایف 17 تھنڈر کی عملی کارکردگی جانچی گئی، نتیجے کے طور پر اسکی مارکیٹ ویلیو بڑھ گئی۔
جنگ میں برتری
نیا اور مہلک ہتھیار جنگوں میں فتح دلاتا ہے۔ آرینز جب گھوڑوں کی پشت پر سوار ہو کر حملہ آور ہوتے تھے تو وہ گھوڑے صرف انکی سواریاں نہیں تھے بلکہ جنگی ہتھیار بھی تھے۔ دراوڑوں نے اس وقت گھوڑے دیکھے بھی نہیں تھے۔ سو ان سواروں کے مقابلے میں پیادے فوجی مٹ گئے۔ لوہے کے ہتھیاروں کا اولین استعمال، یا توپوں کا اولین استعمال یا دور تک مار کرنے والی بندوقوں کا اولین استعمال، یا ہوائی جہازوں کا اولین جنگی استعمال، جنگ میں برتری اور فتح حاصل کرنے اور دشمنوں کو ختم کرنے کے لیے ہی تھا۔ ایٹم بم کا استعمال بھی اسی سلسلے میں آتا ہے۔ اس کے استعمال نے امریکہ کو نہ صرف جاپان کے خلاف بلکہ پوری دنیا میں ایک ناقابلِ شکست سی برتری دلا دی۔ دوسری طرف جنگ میں "پہل" یا "سرپرائز" بھی ایک انتہائی اہم ایڈوانٹج ہوتا ہے۔ اس زمانے میں امریکہ کے ساتھ ساتھ سوویت یونین اور نازی جرمنی بھی ایٹمی ہتھیار کے چکر میں تھے۔ امریکہ نے پہل کر کے ایک اہم جنگی برتری حاصل کر لی۔
ایمپیرئیل جاپان کو شکست دینا
آج جاپان ایک مظلوم ملک ہے جس کے لاکھوں شہری مار دیئے گئے لیکن دوسری جنگ عظیم اور اس سے پہلے جاپان ایک خطرناک اور خوفناک عالمی طاقت تھا۔ یورپ میں جنگ ختم ہونے کے بعد بھی جاپان جنگ ختم کرنے کو تیار نہیں تھا۔ اب ایک آدھ خود کش حملہ آور سے دنیا لرزتی ہے لیکن جاپان کا ہر سپاہی ایک خود کش حملہ آور تھا۔ ایمپیریئل جاپان کی تاریخ پڑھیے، زیادتیوں اور وار کرائمز سے بھری پڑی ہے۔ چین، کوریا اور دوسرے مشرقِ بعید کے ملکوں میں جاپانی ایمپیرئیل فوج نے کچھ اندازوں کے مطابق تیس لاکھ سے لے کر ایک کروڑ چالیس لاکھ تک عام شہری مار دیئے تھے۔ یہ پروپیگنڈہ نہیں ہے بلکہ ایک تلخ حقیقت ہے، جس پر دوسری جنگ عظیم کے بعد سے جاپانی حکام بار بار معافی مانگتے رہے ہیں اور اب تک مانگتے ہیں۔ خاص طور پر چین میں کئے جانے والی جاپانی 'وار کرائمز' ناقابل یقین حد تک خوفناک ہیں جو کہ جاپان پر ایٹم بم کے استعمال کے بعد سے پس منظر میں جا چکے ہیں لیکن جاپانیوں ہی کی طرح کبھی ان (چینیوں) سے پوچھیں جن پر جاپان نے یہ ظلم کئے تھے اور جن کے زخم بھی آج تک تازہ ہیں۔
اوپر درج کیے گئے کچھ عوامل "غیر انسانی" سے لگتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہی حقیقت ہے اور جب تک دنیا میں "مائٹ از رائٹ" کا قانون ہے تب تک یہ ہوتا رہے گا۔ باقی رہا ایٹم بم کے استعمال کو امریکہ کا ایک "وار کرائم" سمجھنا تو عرض ہے کہ وار کرائمز صرف مفتوح پر لاگو ہوتے ہیں۔ فاتح اس سے بری الذمہ ہوتا ہے۔ ابھی تک بڑے بڑے مجرموں میں سے نازی جرمنی اور ایمپیرئیل جاپان ہی وار کرائمز کے کٹہرے میں کھڑے کیے گئے ہیں کیونکہ وہ فتح کر لیے گئے تھے۔
یہ غیر جذباتی سے عوامل میں نے آپ کے کہنے پر لکھ دیئے، جہاں تک جذبات کی بات ہے، تو میرا ایک بہت پرانا شعر ہے:
اس جہاں میں ایسی کوئی بات ہو
جیت ہو اور نے کسی کی مات ہو