عرفان سعید
محفلین
بیگم نے ہمیں کیا کھلایا؟
ہمیں یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں کہ ہمیں کھانا پکانے سے کبھی کوئی رغبت نہیں ہوئی۔ ایم۔ایس۔سی کے بعد تک ہماری زندگی یوں گزری کہ جس شہرِ لاہور میں پیدا ہوئے، وہیں تعلیم حاصل کی، کبھی گھر سے دور اکیلے رہنے کی نوبت نہیں آئی۔ ان حالات میں جب امی جان گھر نہیں ہوتیں تھی تو فقط مرغی کے انڈوں کو اپنے ہاتھوں سے فرائی کرنے کا اعزاز کبھی کبھار بخش دیا کرتے تھے۔
ایم۔ایس۔سی کے دو سال بعد ہمیں جاپانی حکومت کی جانب سے پی۔ایچ۔ڈی کرنے کا وظیفہ ملا، جس کی ایک وجہ غالبا یہ بھی ہو کہ کسی طرح اس نااہل انسان کو خود سے زندگی گزارنے کا ڈھب بھی سکھایا جائے۔ وظیفہ کی تصدیق ہو جانے کے بعد، یونیورسٹی میں داخلے اور سفر کے انتظامات کر کے، جاپان پہنچنے تک قریبا آٹھ ماہ کا عرصہ تھا۔ تنِ تنہا زندگی کے سارے کام خود سے کرنے سے ایک انجانا سا خوف ضرور تھا لیکن خود سے کھانا پکانے کا خیال بھی ذہن میں آتا تو ایک جھرجھری سی آ جاتی۔ پھر ہم یہ سوچتے کہ انڈا تو فرائی کرنا آتا ہی ہے تو کیوں نا جاپانی مرغیوں کے انڈوں کو بھی اپنے ہاتھوں سے فرائی کرنے کا اعزاز عطا کیا جائے۔ ایک موہوم سا خیال آتا کہ پی۔ایچ۔ڈی میں روز انڈے کھاتے رہے تو آخر میں ڈگری کے بجائے انڈہ ہی نہ مل جائے۔
امی اکثر دہائی دیتیں کہ کچھ چیزیں پکانا سیکھ لو، وہاں تمہاری کون سی جاپانی ماں بیٹھی ہے جو تمہیں پکا کر کھلائے گی۔ لیکن مجال ہے کہ ہم جاپانی مرغیوں، ان کے انڈوں، اور ان انڈوں کو فرائی کرنے کے سحر سے باہر آئے ہوں۔ وقت گزرتا گیا، یہاں تک کہ پاکستان سے جانے میں ایک ہفتے سے بھی کم وقت رہ گیا۔ ہم نے اپنی ساری صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے، جہاں جہاں ہماری فہم و فراست اور قوتِ ارادی بکھری ہوئی تھی کو مجتمع کر کے، خود کو کچھ پکوان سیکھنے پر مائل کرنے کی کوشش کی۔ یہ کوشش کچھ حد تک کامیاب رہی اور ہم امی جان کو پلاؤ ، دال اور آلو کی بھجیا بناتے ، باوری خانے سے فرار ہوئے بغیر، دیکھتے رہے۔ ان محدود مشاہدات کے دوران مجال ہے کہ ہم نے کسی ڈوئی، چھری، پیاز کو ہاتھ بھی لگایا ہو، لیکن پھر بھی اپنے زعم میں ہم خود کو شاہی باورچی سمجھتے ہوئے تنِ تنہا جاپان چل دیے۔
جاپان جا کر کچھ دن تو جاپانی مرغیوں کے انڈوں کی عزت افزائی کر کے گزارہ چلتا رہا، لیکن جب دل تنگ پڑا تو سوچا پلاؤ بناتے ہیں۔ ادھر امی سے کہا کہ ایک عدد ریسیپی لکھ کر فورا ای۔میل کریں۔ پیاز کاٹنا شروع کیے تو ہمارے حساس دیدوں سے پانی کے چشمے پھوٹ پڑے۔ ایک دو بار چھری پیاز پر چلاتے، اور پھر تازہ ہوا میں چشمِ تر کو خشک کرتے۔ پورا پیاز کاٹتے کاٹتے تو ہمارے ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے اور بے بسی کےآنسو بھی بہہ نکلے۔ بہرحال کچا پکا، جلا سڑا پلاؤ تیار ہوا اور کھا کر دردِ شکم ہوا۔ بعینہ یہ موقع تھا کہ اقبال کا یہ مصرعہ ہمارے ذہن میں گونجا اور اُن لمحوں میں اس کے معانی کا جو ادراک ہمیں ہوا، اقبال کو بھی کیا ہوا ہوگا!
وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
ہم نے کہا کہ تصویرِ کائنات میں رنگ آئے نہ آئے، ہمارے پلاؤ میں تو ذائقہ آئے۔ اب ہم نے پوری دلجمعی سے اپنی تنہائی، اداسی اور کھانے پینے کی دردناک داستانیں اپنی چھوٹی بہن کو سنائیں اور ساتھ ساتھ تاکید کی ساری باتیں امی حضور کے بھی گوش گزار کیا کریں، جس پر چند تحفوں کی رشوت کے بدلے مقدور بھر عمل ہوتا رہا۔ آخر امی ہمارے دل کے حال سے واقف ہو گئیں اور انہوں نے کہا کہ جب پاکستان آؤ گے تو تمہاری شادی کردیں گے۔ ہم تو اتنے تنگ پڑ چکے تھے کہ ایک سال بعد فوری پاکستان جانے کا فیصلہ کیا تاکہ تصویرِ کائنات میں رنگ اور ہمارے پلاؤ میں ذائقہ آئے۔
پاکستان جا کر ہماری شادی بخوشی انجام پائی۔ بیگم کا میدانِ تعلیم کیمیا تھا اور تحقیق کی دھنی تھیں سو پی۔ایچ۔ڈی کی تعلیم جاپان میں شروع کریں گی، اس شرط پر فوری جاپان آ گئیں۔ اب اس کے بعد ہماری تصویرِ کائنات میں کیا رنگ اور کھانے میں کیا ذائقہ آیا، وہ اس لڑی میں ہم عیاں کریں گے۔