بی بی سی: پاکستان سر کاٹ کر 'طوایفوں' کو سزا

فاتح

لائبریرین
فاتح بھائی ،
ہمیں بے حد قلق ہے کہ ہم ، مابدولت ہو کر بھی آپ کو کوئی خطاب عطا نہ کر سکے ۔ :grin:
ملاحظہ فرمائی ہماری بے بسی؟؟؟ :)

حضور اس بے بسی کو آپ کے ایمان میں کمی پر بھی محمول کیا جا سکتا ہے۔;)
کہیے کہیے مجھے برا کہیے۔:grin:
 

فاتح

لائبریرین
عزیز بھائی فاتح نے میری کمزور انگریزی کی طرف توجہ دلائی، گویا بیچ چورا ہے میں ہنڈیا پھوڑ دی۔ اب تو منہ چھپانے کو بھی جگہ نہیں مل رہی، کاش چلو بھر پانی ہو تا اور میں۔۔۔۔آ اے عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں۔ کانوں میں سرگوشیاں سنائی دے رہی ہیں اے میرے ہمنشیں چل کہیں اور چل، اس چمن میں اب اپنا گزارہ نہیں۔ لیکن معاف کیجیے گا غیر مصدقہ باتوں کو آگے بڑھانے کا شغل کسی زمانے میں ہمارے محلے کی خالہ لاؤڈ اسپیکر کرتی تھیں۔ سنی سنائی خبروں کو اس طرح بیان کرنا گویا یہ آنکھوں دیکھا واقعہ ہو۔ آپ چاہیں تو اسی بنیاد پر فاتح صاحب کو اردو محفل کی خالہ لاؤڈ اسپیکر قرار دے سکتے ہیں۔ افواہوں کے انجکشنوں پر پلنے بڑھنے والے لوگ افواہوں کو ایسی لذت اور چٹخارے لے لے کر بیان کرتے ہیں کہ توبہ توبہ۔ ارے بھائی اور کچھ نہیں تو دروغ گوئی کے پیشہ ورانہ تقاضے ہی پورے کرلیے ہوتے۔ ظاہر ہے یہاں ٹافیوں اور چیونگم کے ذائقوں پر بات نہیں ہورہی بلکہ ایک حساس موضوع پر بات ہورہی ہے، لہٰذا ضروری تھا کہ آپ اپنے تبصرے میں واضح کردیتے کہ یہ آپکا نہیں بلکہ پولیس کا کہنا ہے۔ اچھا خاصہ پولیس کا بیان آپ کے تبصرے میں پہنچتے پہنچتے آپ کا بیان ہوگیا۔ گویا آپ نے اپنے اور پولیس میں فرق کرنا ضروری نہیں سمجھا؟ یہ ضروری بھی نہیں۔ خیر سے ہماری پولیس بے ضمیری کی علامت ہے اور کیوں نہ ہو، حرام مال سے اور کیا توقع کی جاسکتی ہے؟

پولیس کے مطابق یہ کام اسلامی عسکریت پسندوں کا ہے۔ مگر فاتح صاحب کے تجزیے کے کیا کہنے۔ ان کے تبصرے میں کہیں ذکر نہیں کہ یہ پولیس کی رپورٹ ہے۔ اس رپورٹ کی تصدیق کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ پولیس کی رپورٹ ہے۔ پولیس کا نام آتے ہی ہماری قوم کے ایماندار حضرات کی ٹانگیں تھر تھر کانپنے اور جیبیں انااللہ وانا الیہ پڑھنے لگتی ہیں۔ اور اب تو پولیس کی نسبت گلی کا کتا زیادہ فرض شناس معلوم ہوتا ہے۔ کم از کم کسی کوبلاوجہ تو نہیں کاٹتا۔اگر اس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے پولیس کا ذکر ہی نہ کیا جائے تو خبر کا زاویہ ہی تبدیل ہوجائے گا۔ جسے دیکھو چور دل میں لیے پھرتا ہے۔ سوچتا کچھ ہے کہتا کچھ ہے۔ فاتح صاحب کی یہ اچھی بات ہے کہ انہوں نے جو سوچا وہی بیان کردیا۔ یہ بجائے خود ایک قیمتی بات ہے۔ البتہ انسان کی رائے کو بازار اور منڈی سے نہیں آنا چاہئیے۔ بہر حال یہ طے ہے زندگی غیرت کا نام ہے اور اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ زندہ ہونے کی اداکاری ہے۔

حق کی راہ میں آزمائشیں اٹھانا اور وقت پڑے تو راہِ خدا میں جان دینا کس کے نفس کو عزیز ہے؟ اگر اس کا جواب مل جائے تو مذکورہ حدیث کا جواب خود سے خود مل جائے گا (اسکے لیے کامن سینس کو زحمت دینی پڑے گی)۔

میرا اختلاف ذاتی نہیں تھا اسی لیے میں اپنی ذات کیلیے فاتح کی معذرت قبول کروں یہ ممکن نہیں۔ البتہ اگر فاتح بھائی اپنی غلطی سے رجوع کرکے پہلے صفحے پر موجود اپنا تبصرہ حذف کرلیں تو میں اپنا اختلاف بھلاکر اپنے سگنیچر میں بھی معافی نامہ ڈالنے کیلئے تیار ہوں۔ اس سے زیادہ کیا انکساری کا مظاہرہ کروں؟

آخر میں فاتح بھائی کا وہ تبصرہ جس سے مجھے اختلاف ہے
انا للہ و انا الیہ راجعون
یہ جہاد کے نام پر سراسر بہیمانہ قتل ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت عطا فرمائے۔ آمین!
فاروق صاحب! درست فرمایا آپ نے کہ اگر وہ فحاشی کی مرتکب تھیں تو وہ مرد حضرات کہاں ہیں جو اس فعل میں ان کے ساتھ شریک تھے۔
شاید ان قاتلوں کو گھاس نہ ڈالی ہو گی ان "فاحشات" نے "اور قوّامُون" ہونے کا فائدہ اٹھا کر ان "مجاہدین" نے عورت پر ظلم کی تاریخ میں ایک اور مثال کا اضافہ کر دیا۔
اگر آپ کے عقیدہ کے مطابق نظریاتی اختلاف رکھنے والوں کو گالیوں سے نوازنا بھی جہاد ہے تو۔۔۔
لگے رہو منّا بھائی;)
اللہ آپ کو مزید توفیق عطا فرمائے! آمین
 

خاور بلال

محفلین
فاتح بھائی!
السلام علیکم

پہلی بات تو یہ کہ میں کسی کو گالی نہیں دیتا البتہ کوئی سخت بات کہنی ہوتو طنزیہ جملے سے گذارا کرلیتا ہوں اس میں بھی کوشش ہوتی ہے کہ براہِ راست نام لیکر طنز نہ کروں۔ خالہ لاؤڈ اسپیکر والی بات براہِ راست آپ سے ٹکرا گئی جس کیلئے معذرت۔ :grin:

دوم یہ کہ دشمنانِ اسلام نے جہاد کی تعلیمات اور مجاہدین کو بدنام کرنے کی عالمی مہم شروع کر رکھی ہے لیکن افسوس تب ہوتا ہے جب اپنے بھی غیروں کی اس مہم سے متاثر ہوکر جہاد اور مجاہدین کی تحقیر کرتے ہیں۔ اس بات کا میں اعتراف کرتا ہوں کہ کچھ لوگ جہاد کی تعلیم غلط انداز سے پیش کرتے ہیں جس سے انتہا پسندی کا تاثر جھلکتا ہے، اس ایلیمنٹ کی مخالفت خود مجاہدین بھی کرتے ہیں۔ لیکن کیا ایسے لوگوں کی غلط کاریوں کی وجہ سے تعلیماتِ جہاد معطل ہوجائیں گی؟ ظاہر ہے ہر ہتھیار اٹھانے والا مجاہد نہیں، جہاد کے نام پر اگر کوئی غلط عنصر سرگرم ہے تو اسکا حل یہی ہے کہ بحیثیتِ امت تصورِ جہاد کو زندہ کیا جائے۔ اگر جہاد کی تعلیمات حق ہیں تو یہ ہم سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اسکا غلط تاثر زائل کرنے کی کوشش کریں نہ کہ غیر مصدقہ باتیں پھیلا کر مزید غلط تاثر پیدا کریں۔

اگر آپ اپنا تبصرہ حذف کرنے کیلئے سنجیدہ ہیں جس میں مجاہدین کے لیے سخت طنز موجود ہے تو جوابا اس تھریڈ سے اپنی تمام پوسٹس حذف کرنے میں مجھے ذرہ برابر تامل نہیں ہوگا اور اتنی تلخیوں کے بعد بھی تعمیری پہلو نِکل آئیگا، جس کے لیے میں آپکا مشکور ہوں گا۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
مییں اس پورے دھاگے میں کہیں بھی شریک گفتگو نہیں رہا لیکن اس کو نہایت غور سے پڑھتا رہا ہوں میں سمجھتا ہوں جہاں جہاد ایک اہم اسلامی رکن ہے وہاں اسلامی اخلاقی اقدار کی اہمیت سے کسی طور انکار نہیں کیا جا سکتا ذرا تصور کیجئے کہ اسلام کا اشاعت کے بالکل ابتدائی دور میں جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تن تنہا اشاعت اسلام کا آغاز کیا تو آپ کے پاس کونسی تلوار تھی جس کی کاٹ نے وہ کام کر دکھایا جو ناممکنات میں سے تھا۔۔۔۔۔ اور یہ ہتھیار جس کا میں نے ذکر کیا ہے وہ تھا نبی رحمت کا وہ خلق عظیم جس کو قرآن عظیم نے اسوہ حسنہ کا نام دیا ہے افسوس ہے کہ انتہا پسندی عام ہو گئی ہے کسی نے پورے کا پورا اسلام جہاد کو سمجھ لیا اور کسی نے پورے کا پورا اسلام ذکر فکر اور مراقبہ کو سمجھ لیا کسی نے نے ااسلام کو بس اتنا ہی سمجھا کہ بستر کندھے پر رکھو او تبلیغ کے لیے نکل کھڑے ہو ۔۔۔۔ بھائی اسلام ایک مکمل صابطہ حیات ہے ۘ اس میں عائلی زندگی بھی ہے، عبادات بھی ہیں معیشت اور معاشرت بھی ہے، سفارتی تعلقات بھی ہیں ، دفاع بھی ہے اور اخلاقیاتی نظام بھی ہے اور یہ اسلام کی سب سے بڑی خوبی ہے کہ دفاعی نظام بھرپور اور مکمل نہ ہو تب بھی اسلامی اخلاقیات کا نظام مکمل متبادل کے طور پر موجود ہے قولوا للناس حسنا کا قرآنی اصول صرف اپنوں کے لیے نہیں بلکہ تمام انسانوں کے لیے ہے میں نے محسوس کیا ہے کہ نظریاتی اختلافات جن کو باعث رحمت ہونا چاہیے محض غیر محتاط الفاظ اور قابل گرفت اخلاقیات کی وجہ سے باعث زحمت قرار پاتے ہیں اور جگ ہنسائی کا باعث بنتے ہیں میرے خیال میں دونوں فریقوں کو ایک دوسرے کے گلے شکوے دور کرنے میں کوئی شرمندگی محسوس نہیں کرنا چاہیے ورنہ اس دھاگے کی طویل بحث محض انشاء پردازی اور طنز نگاری اور دل آزاری پر مبنی تحاریر سے زیادہ حیثیت کی حامل قرار نہ پائے گی
ایسی آنکھوں کے تصدق میری آنکھیں بے دم
کے جنہ۔۔۔۔۔یں آت۔۔۔۔۔۔ا ہے اغی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ار کو اپنا کرنا
 

فاتح

لائبریرین
شاکر القادری صاحب!
اس خوبصورت مراسلہ پر آپ کا بہت شکریہ۔ میں نے یہی کوشش کی تھی اور کوئی بد زبانی نہ کرنے کے با وجود معذرت بھی کی تھی کہ شاید جواباً میرا لہجہ کچھ سخت ہو گیا تھا مگر۔۔۔ آپ پڑھ ہی چکے ہیں تمام مراسلات۔
 

Muhammad Naeem

محفلین
جہاد پر طعن و تشنیع کیوں ؟؟؟؟

س تھریڈ میں پوسٹ کی گئی تمام آراء کسی نہ کسی پہلو کی طرف اشارہ ضرور کرتی تھیں ۔ تا ہم ایک بات جو کہ انتہائی حد تک غیر ذمہ دارانہ ہے وہ محترم فاتح صاحب کی آراء میں جہاد کو تحقیر و تذلیل کا نشانہ بنانا تھا۔ مجھے یہ بات کہنے میں خدا کی قسم مجھے یہ بات کہنے میں بالکل عار نہیں ہے کہ موجودہ دور میں جہاد کے خلاف لانچ کی گئی پروپیگنڈا مہم کے پیچھے اسلام دشمنوں اور پست ذہنی سطح رکھنے والے کلمہ گوؤں کا ہاتھ ہے۔ جبکہ دیکھا دیکھی میرے بعض ناسمجھ بھائی بھی ان کی باتوں میں آجاتے ہیں۔
میں آپ کو صرف ایک مثال دوں گا۔
پاکستان میں کتنے ہی ایسے محترم "حاجی صاحبان " ہوں گے جو سیدھا مسجد سے نماز ادا کرنے کے بعد دکان پر بیٹھ کر سرخ مرچوں میں اینٹوں کا برادہ ملا کر فروخت کرتے ہیں ۔ یا پھر دکان پر بیٹھ کر دھوکہ، فراڈ اور جعلسازی کرتے ہیں۔ لیکن ہم نے کبھی ان کے کاموں کے لیے نماز کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا ( ۔ ۔ ۔ ۔ کیوں فاتح بھائی ایسا ہی ہے نا) بلکہ کوئی اگر چھیڑ خانی کے طور پر ایسا کہہ بھی دے تو ہم " لاحول ولا قوۃ" پڑھتے ہوئے موصوف کو ٹوکتے دیتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔( میں صحیح کہہ رہا ہوں نا)
لیکن جب جہاد کی بات آجائے اور بد قسمتی سے کسی مجاہد سے ( خواہ وہ مجاہد بالکل ہی نہ ہو) سے کوئی قصور سرزد ہوجائے تو فوری جہاد پر چڑھائی کر دیتے ہیں ۔ کہ جہاد ہی انہیں یہ بات سکھلاتا ہے۔ اور جہاد پر ہم ایسی تبرا بازی کرتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ اور بالکل نہیں دیکھتے کہ جہاد بھی تو نماز کی طرح کا ہی ایک اسلام کا رکن ہے۔
عزیزم فاتح ! سر درد کا علاج یہ نہیں ہوتا کہ سر ہی کٹوا دیا جا ئے۔
کسی جہاد سے متعلقہ شخص سے غلطی کا یہ مطلب نہیں کہ جہاد پر تبرا بھیجا جائے۔ ۔۔۔
امید ہے آپ برا نہیں منائیں گے۔
والسلام۔
 

خرم

محفلین
نعیم بھائی سب سے پہلی بات تو یہ کہ جہاد اسلام کا رکن نہیں ہے۔ اگر ہے تو پانچ ارکان میں سے ثابت فرما دیجئے کہ کونسا رکن ہے؟
دوسری بات میرے بھائی یہ کہ جہاد بُرا نہیں اپنے آپ خود سے بندوق اُٹھا کر مارا ماری شروع کر دینا اور اسے جہاد کہنا بُرا ہے۔ مسلمان ایک قانون ایک سلطنت ایک نظام کا پابند ہوتا ہے شُتر بے مہار نہیں کہ جب جی چاہا بندوق اٹھائی اور مسلمانوں‌کو ہی قتل کرکے جہاد شروع کردیا۔ آجکل جو کچھ ہو رہا ہے جہاد کے نام پر اس کی نہ تو قرآن میں‌اصل ہے اور نہ سُنت میں۔ ہاں حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کے قاتلوں سے مماثلت ضرور ہے۔ اگر یہی جہاد ہے تو ہم اس سے باز رہے۔
اور جہاد کے خلاف نہیں یہ جو کچھ ہو رہا ہے اسے جہاد کہنے میں اسلام دشمنوں اور پست ذہنیت والوں کا ہاتھ ہے۔ اس سب کچھ کو جہاد اور ان لوگوں کو جہادی اقوامِ غیر ہی کہتے ہیں‌اور ان کی دیکھا دیکھی ہم آپ وگرنہ ان وحشیوں‌کا تو اسلام سے ہی کوئی تعلق نہیں تو جہاد سے تعلق چہ معنی دارد؟
 

Muhammad Naeem

محفلین
جہاد تا قیامت رہے گا۔

میرے بھائی ! اسلام صرف 5 ارکان کے درمیان محدود نہیں ہے۔ بلکہ یہ 5 ارکان تو وہ بنیاد ہیں جن پر اسلام کی عمارت تعمیر ہوتی ہے۔ جبکہ جہاد کے بارے میں نبی الملحمہ( جنگوں کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم) نے" ذروۃ سنامہ الاسلام" یعنی "ارکان اسلام میں سے سب سے بلند ترین رکن" کے الفاظ ارشاد فرمائے ہیں ۔ علاوہ ازیں تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام اس کی اہمیت کے پیش نظر اسے اسلام کا چھٹا رکن قرار دیتے ہیں ۔ لیکن اس بات سے قطع نظر آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دور مبارک میں مخلص اور منافق مسلمان کا فرق میدان جہاد میں ہی کیا جاتا تھا۔ جیسا کہ غزوہ احد ، خندق اور تبک اس کی واضح مثالیں ہیں۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ " جہاد قیامت تک جاری رہے گا جسے کسی عادل حکمران کا انصاف اور ظالم حکمران کا ظلم نہیں روک سکے گا"۔ چنانچہ اس حدیث کے مصداق جہاد آج بھی جاری ہے۔ ہاں اگر آپ سمجھتے ہی کہ آج کل جہاد نہیں ہو رہا ہے تو پھر نعوذ باللہ آپ بالواسطہ طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا تسلیم نہیں کر رہے۔
اور یہ جہاد وہی ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دور میں کفار اور ان کے اتحادیوں کے خلاف کیا۔ صلاح الدین ایوبی نے بھی وہی ریت دھرائی اور صلیبی جنگوں میں عیسائیوں کا ساتھ دینے والے مسلمانوں کو تہہ تیغ کیا۔ آج پھر وہی " کروسیڈ" ہے اور وہی صلاح الدین ایوبی کے فرزند۔
ہاں اگر آپ سمجھتے ہیں کہ وہ جہاد اور تھا تو براہ کرم اس "حقیقی جہاد" کی وضاحت کر دیجیئے۔
 

ساجد

محفلین
محترم محمد نعیم صاحب ،
ذرا ہم کم علموں کے علم کی ترقی کی خاطر یہ تو فرمائیے کہ جہاد کا لُغوی معنی کیا ہے اور اس پر اس قدر زور کیوں دیا گیا ہے؟ کیا جہاد صرف تلوار ( آج کے دور میں خودکش حملوں اور لوگوں کے سرِ عام قتل و ذبح ) سے ہی ممکن ہے؟ اگر جہاد با السیف کی اتنی ہی اہمیت تھی تو وحی کی پہلی ہی آیت " اقراء " سے شروع کیوں ہوئی؟ قرآن پاک کی ترتیب میں سب سے پہلے اللہ کی حمد اور رب العالمین کا ذکر کیوں آیا؟ نبی پاک نے کافر جنگی قیدیوں کو قتل کرنے کا حکم دینے کی بجائے یہ شرط کیوں رکھی کہ تم میں سے جو ایک مسلمان کو پڑھا لکھا دے اس کی سزا معاف کر دی جائے گی؟ حالانکہ آپ نبی پاک کو جنگوں کا نبی لکھتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے تو انہیں رحمۃ اللعا لمین کہہ کر پکارا ، مزمل کہا ہے ، مدثر کہا ہے اور روشن چراغ ( سراج منیر ) کہہ کر ذکر کیا ہے پھر اس عظیم ہستی کو صرف جنگوں کا نبی کہنے سے آپ ان سے عقیدت کا کون سا حق ادا کر رہے ہیں؟ اور کیا آپ نبی الملحمہ کے معانی سے کما حقہ واقف ہیں؟ اگر ہیں تو اس پر بھی روشنی ڈالئیے۔
ابھی یہاں تک ہی ۔ آپ سے اکتسابِ علم کا سلسلہ جب تک آپ چاہیں جاری رہے گا۔ میں مذہبی مباحث سے حتی الامکان کنارہ کشی اختیار کرتا ہوں لیکن آپ نے کچھ اس قسم کی باتیں لکھی ہیں کہ جن کا بطلان ثابت کرنا بہت ضروری سمجھتا ہوں۔
 
جہاد آپ کونسا کرنے جارہے ہیں‌نعیم؟
بم باندھ کر امریکہ کے یاروں‌کو اڑانے والا، زمیں میں فساد کرنے والا یا ملکی فوج میں شمولیت کا؟‌اجتماعی خود کشی کا پروگرام ہے یا اپنے مخالفوں کے قتل کا۔ اس سے بڑھ کر کوئی پروگرام ہے تو بتائیے؟ کیا اس قابل بھی ہیں؟ بغور دیکھئے۔ جس کو مخالف سمجھتے ہیں اس سے لڑ نے کے قابل بھی ہیں؟۔ اسی ملک کی ٹکنالوجی استعمال کرتے ہیں، اسی کے بنے ہوئے ٹیلیفون، کاریں، الیکٹرانکس، کمپیوٹرز، اسی کے مواصلاتی سیارے سے ٹی وی نشریات دیکھتے ہیں۔ اسی کے سرمائے سے چلتے ہیں اور اسی کے گندم سے پیٹ‌بھرتے ہیں۔ اسی کے جہازوں سے دفاع کرتے ہیں۔

چلئے اتنا کافی نہیں - میری پٹائی کے لئے - اور لوازمات فراہم کردیتا ہوں، اس ملک جس سے آپ مقابلہ کرنے جارہے ہیں وہ الیکٹرانکس بناتا ہے، ریڈار بناتا ہے، میزائیل بناتا ہے، ہوئی جہاز بناتا ہے، مصنوعی سیارے بناتا ہے۔ مائیکروپراسیسرز بناتا ہے، کمپیوٹرز بناتا ہے، کاریں بناتا ہے ، دفاعی صورتحال کے لئے زیادہ عرصے تک رہنے والا کھانا بناتا ہے۔ یہ تو موٹی موٹی باتیں ہیں، اس کے ایک ہزار زمین پر دفاعی سٹیشنز ہیں جہاں طیارہ بردار بحری جہاز مستقل تیار رہتے ہیں۔ پھر دنیا بھر کو پل بھر میں دیکھنے کا دن، رات یا کسی بھی موسم کا مصنوعی سیاروں کا نظام ہے۔ اس کے اوپر گلوبل پوزیشنگ سیٹیلائٹ سسٹم ہے، جس کی مدد سے زمین کے کسی بھی طول البلد، عرض البلد پر چند فٹ کے دائرے میں کسی کو دنیا بھر میں نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ ریڈار کی مدد سے زمین سے زمیں پر مار کرنے والے میزائیل ہیں، روشنی یا گرمی کا تعاقب کرنے والے میزائیل ہیں۔ جی۔۔۔۔ کیا کہا ڈرا رہا ہوں؟ نا بھائی، جہاد یعنی جہد یعنی جدوجہد کرنے کا کہہ رہا ہوں، یعنی کام کرو اور یہ سب بھی بناؤ اور اس سے آگے بھی بناؤ - کہاں تک؟ [ARABIC] رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ [/ARABIC] تک ۔ یہ کیا ہوتا ہے؟ پہلے یہاں پڑھو پھر اس سے پوچھو جس نے جہاد کی تعلیم بے زبانوں کے قتل کرنے کے بارے میں‌دی تھی۔

رباط :‌ لڑی، مالا، تانا بانا
الخیل: خیال
ترھبون: رھب : خوفزدہ ہونا

خیالات کے و تانے بانے آپ خود بن لیں، اور وہ کچھ بنا لیں جس کا تصور بھی محال ہے، جن سے مخالف آپ کی قوت سے خوفزدہ ہوجائے - یہاں‌تو کسی نےگھوڑوں کی کھیپ سے کام چلالیا ہے۔

[AYAH]8:60[/AYAH][ARABIC] وَأَعِدُّواْ لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِن دُونِهِمْ لاَ تَعْلَمُونَهُمُ اللّهُ يَعْلَمُهُمْ وَمَا تُنفِقُواْ مِن شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لاَ تُظْلَمُونَ[/ARABIC]
اور (اے مسلمانو!) ان کے (مقابلے کے) لئے تم سے جس قدر ہو سکے (ہتھیاروں اور آلاتِ جنگ کی) قوت مہیا کر رکھو اور بندھے ہوئے گھوڑوں کی (کھیپ بھی) اس (دفاعی تیاری) سے تم اللہ کے دشمن اور اپنے دشمن کو ڈراتے رہو اور ان کے سوا دوسروں کو بھی جن (کی چھپی دشمنی) کو تم نہیں جانتے، اللہ انہیں جانتا ہے، اور تم جو کچھ (بھی) اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے تمہیں اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور تم سے ناانصافی نہ کی جائے گی

کیا کہتے ہیں فاروق بھائی،، اچھا خاصہ جہاد کرنے جارہا تھا، کام بتا دیا :) ہم سے یہ جہاد، یہ جہد، یہ جدو جہد کب ہوتی ہے؟ اس کا تھوڑی کہا تھا ہمارے رب نے نہ ہمارے رسول صلعم نے۔۔۔۔۔۔ ہم تو ایک ہی جہاد جانتے ہیں ۔۔۔ تلوار لو اور ی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ا ھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔و ۔۔۔۔۔۔

والسلام
 

ساجد

محفلین
جہاد آپ کونسا کرنے جارہے ہیں‌نعیم؟
بم باندھ کر امریکہ کے یاروں‌کو اڑانے والا، زمیں میں فساد کرنے والا یا ملکی فوج میں شمولیت کا؟‌اجتماعی خود کشی کا پروگرام ہے یا اپنے مخالفوں کے قتل کا۔ اس سے بڑھ کر کوئی پروگرام ہے تو بتائیے؟ کیا اس قابل بھی ہیں؟ بغور دیکھئے۔ جس کو مخالف سمجھتے ہیں اس سے لڑ نے کے قابل بھی ہیں؟۔ اسی ملک کی ٹکنالوجی استعمال کرتے ہیں، اسی کے بنے ہوئے ٹیلیفون، کاریں، الیکٹرانکس، کمپیوٹرز، اسی کے مواصلاتی سیارے سے ٹی وی نشریات دیکھتے ہیں۔ اسی کے سرمائے سے چلتے ہیں اور اسی کے گندم سے پیٹ‌بھرتے ہیں۔ اسی کے جہازوں سے دفاع کرتے ہیں۔

چلئے اتنا کافی نہیں - میری پٹائی کے لئے - اور لوازمات فراہم کردیتا ہوں، اس ملک جس سے آپ مقابلہ کرنے جارہے ہیں وہ الیکٹرانکس بناتا ہے، ریڈار بناتا ہے، میزائیل بناتا ہے، ہوئی جہاز بناتا ہے، مصنوعی سیارے بناتا ہے۔ مائیکروپراسیسرز بناتا ہے، کمپیوٹرز بناتا ہے، کاریں بناتا ہے ، دفاعی صورتحال کے لئے زیادہ عرصے تک رہنے والا کھانا بناتا ہے۔ یہ تو موٹی موٹی باتیں ہیں، اس کے ایک ہزار زمین پر دفاعی سٹیشنز ہیں جہاں طیارہ بردار بحری جہاز مستقل تیار رہتے ہیں۔ پھر دنیا بھر کو پل بھر میں دیکھنے کا دن، رات یا کسی بھی موسم کا مصنوعی سیاروں کا نظام ہے۔ اس کے اوپر گلوبل پوزیشنگ سیٹیلائٹ سسٹم ہے، جس کی مدد سے زمین کے کسی بھی طول البلد، عرض البلد پر چند فٹ کے دائرے میں کسی کو دنیا بھر میں نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ ریڈار کی مدد سے زمین سے زمیں پر مار کرنے والے میزائیل ہیں، روشنی یا گرمی کا تعاقب کرنے والے میزائیل ہیں۔ جی۔۔۔۔ کیا کہا ڈرا رہا ہوں؟ نا بھائی، جہاد یعنی جہد یعنی جدوجہد کرنے کا کہہ رہا ہوں، یعنی کام کرو اور یہ سب بھی بناؤ اور اس سے آگے بھی بناؤ - کہاں تک؟ رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ تک ۔ یہ کیا ہوتا ہے؟ پہلے یہاں پڑھو پھر اس سے پوچھو جس نے جہاد کی تعلیم بے زبانوں کے قتل کرنے کے بارے میں‌دی تھی۔

بہت خوب فاروق صاحب۔
یہ بات ان کو سمجھائے کون۔ اگر کوئی سمجھائی بھی تو ان کے خانے میں فٹ نہیں بیٹھتی !!! میں نے بھی اسی طرف اشارہ کیا تھا کہ وحی کی پہلی آیت " اقرا " سے شروع ہوئی ہے نہ کہ قتال کے حکم سے۔ پہلے اس ابتدائی حکم پر عمل کرتے ہوئے مسلم امہ کو تعلیم یافتہ اور ٹکنالوجی میں خود کفیل بنانے کی سعی کیجئیے باقی سب بعد میں۔ آغاز کیجئیے اپنے پاکستان سے کہ جس کے زیادہ تر علاقوں میں آج بھی تعلیم کا تناسب 15 فیصد ہے ( بھلے گورنمنٹ 24 فیصد کہتی رہے )۔ اور یہ تناسب تب بنتا ہے کہ اگر صرف اپنا نام اور دستخط کرنے والوں کو بھی تعلیم یافتہ شمار کیا جائے ورنہ بات 8 یا 10 فیصد سے آگے نہ بڑھے گی۔
 

خرم

محفلین
اور ایک بات اور جہاد کے لفظ‌کو قتال سے کب بدلا گیا یہ کسی کو معلوم نہیں۔ آقائے نامدار صل اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی کسی کو نہیں معلوم کہ ہم جہاد اصغر سے جہادِ اکبر کی جانب لوٹ رہے ہیں۔ اپنے آپ کو سُنتِ نبوی صل اللہ علیہ وسلم کے مطابق کرنا ہی سب سے بڑا جہاد ہے لیکن یہ بھاری پتھر ہم سے اُٹھتا نہیں۔ ویسے یہ جہاد جہاد کے نعرے لگانے والوں سے پوچھنا ضرور چاہئے کہ اسی کی دہائی میں اس جہادی انفراسٹرکچر کو تعمیر کس نے کیا؟‌کس نے سہولتیں دیں، پروپیگنڈا مہم چلائی، ہتھیار دئے؟ یہ جو کچھ ہو رہا ہے آج جہاد کے نام پر اس کی بنیاد تو انہی ممالک نے رکھی تھی جن کی آج بھی یہ لوگ خدمت کر رہے ہیں۔ دُنیا کہاں کی کہاں پہنچ گئی یہ آج بھی ترقئی معکوس پر مصر ہیں۔ اپنےلوگوں‌کو پینے کا صاف پینے دینے کا جہاد کیوں‌نہیں کرتے؟ اپنے لوگوں‌کو رشوت لینے اور دینے سے روکنے کا جہاد کیوں‌نہیں کرتے؟ تعلیم کے فروغ کا جہاد کیوں‌نہیں کرتے؟ خوش اخلاقی پھیلانے کا جہاد کیوں نہیں کرتے؟ اسوہ رسول صل اللہ علیہ وسلم پر چلنے اور چلانے کا جہاد کیو‌ں نہیں کرتے؟ خدا کے لئے سمجھو اور جاگو۔ رحمتہ اللعالمین نے تو طائف والوں‌کو بخش دیا۔ تمام غزوات میں جانبین کے جانی نقصان کی تعداد پڑھئے تو رحمتہ اللعالمین کے معانی سمجھ میں آجائیں۔ اتنے کم جانی نقصان سے اتنے بڑےعلاقے کو بدل دینا اور کسی کا کام ہو سکتا ہی نہیں۔ اے لوگو نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم لوگوں کو قتل کرنے نہیں انہیں اپنے مالک و پروردگار سے آگاہ کرنے اور ملانے کے لئے آئے تھے۔ خدا کے لئے اپنی نبی کی سیرت پر چلو ان پر بہتان نہ باندھو۔ اپنے اللہ کی مخلوق سے محبت کرو کہ مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور یہ فرمان میرے آقا و مولا صل اللہ علیہ وسلم کا ہے۔
 

خاور بلال

محفلین
خواتین و حضرات!
ہمارے احباب اور دانشوروں کی آراء میں ایک بار پھر نا پختگی کی انگڑائیاں درآئی ہیں۔ جہاد کیا تھا اور کیا ہے یہ کل بھی واضح تھا اور آج بھی واضح ہے۔ ہم کیا ہیں اور ہمیں کیا ہونا چاہیے یہ حقیقت بھی راز نہیں۔ ظاہر ہے جہاد صرف ایک “لفظ“ نہیں ہے۔ اس کی پشت پر ایک پوری کائنات کھڑی ہے اور اس کے غلط استعمال اور ان کی معنویت کے بدل جانے سے پوری کائنات میں زلزلہ برپا ہوجاتا ہے۔ اس میں ہمارے عقائد اور ان کی روح ہے۔ ہماری چودہ سو سال پر محیط تہذیب ہے۔ ہماری پوری تاریخ ہے۔ اس لفظ کے غلط استعمال سے یہ سب کچھ مسخ اور متاثر ہوتا ہے۔ لیکن یہ کام کرتے ہوئے ہمارے روش خیال ذرا نہیں ہچکچاتے۔

ہمارے ہاں بوٹ پالش کرنے، جوتے چاٹنے، مکھی پر مکھی مارنے، جھوٹی خبریں پھیلانے، افواہیں نشر کرنے اور۔۔۔اور۔۔۔اور رنگ برنگے کھٹے میٹھے فلسفوں کے لولی پاپ چوسنے والے خیالی سقراطیوں اور بقراطیوں کی ہرگز کوئی کمی نہیں ہے۔ آپ ان سے “ایک نمبر اسلام“ کی بابت پوچھیں گے تو جھٹ سے پاک فوج کی طرف اشارہ کردیں گے۔ جہاد کی بابت پوچھیں گے تو فٹ خود کش بمباروں کی جانت انگلی اٹھادیں گے۔ قرآن کو بازیچۂ تاویل بناکر جہاد کی “ایک سے ایک غیر مضر اقسام“ گنوائیں گے مثلاً؛ غربت کے خلاف جہاد، جہالت کےخلاف جہاد، مچھروں، مکھیوں کے خلاف جہاد، پانی کے لیے جہاد، خوش اخلاقی پھیلانے کا جہاد، تمیز سے بات کرنے کا جہاد، مہلک امراض کے خاتمے کے لیے جہاد وغیرہ وغیرہ۔ ہمیں اندیشہ ہے کہ جہاد کی یہ تعریف طویل ہوتے ہوتے اتنی دور تلک جائےگی کہ نہانا دھونا، کان کا میل صاف کرنا، جوئیں نکالنا اور آنکھیں جھپکنا تک بھی باالآخر جہاد کی تعریف میں شامل ہوجائیں گے۔ مختصر یہ کہ ان کا مجاہد ایک عدد “کمانڈر سیف گارڈ“ کا نمونہ ہوگا۔ یہ گھر کا سدھایا ہوا پالتو مجاہدہوگا اور اس سے کسی ظالم کسی جابر اور کسی دہشت گرد کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ جہاد کے اس تصور میں کہیں بحیثیت امت بیداری، جبر کی مزاحمت، ملی غیرت و حمیت اور سربلندی کا کوئی پیغام نہیں۔ جہاد کا یہ تصور سرجھکانے، جوتے کھانے، ہچکچانے، شرمانے، طاقتور کے پیروں پڑ کر گڑگڑانے اور ڈنڈے کھاکر بھی آداب بجالانے پر آمادہ کردیتا ہے ایسے میں انسان کا مقصد اس کے پیٹ تک محدود ہوجاتا ہے اس کی غیرت پر “برائے فروخت“ کا بورڈ آویزاں ہوجاتا ہے، اسکی تاریخ کے ایک ایک موڑ پر سرینڈر کا کتبہ لگا ہوتا ہے۔ خاکِ کربلا کو چومنے والے بدرو حنین کے وارثوں کے لیے طاقت کا عدم توازن ایک نفسیاتی مسئلہ بن جاتا ہے اور کربلا سے صرف اتنی نسبت باقی رہ جاتی ہے؛
کربلا سے بہت یہ نسبت ہے
مانتے ہیں حسین کو حقدار

(خودکش دھماکے، ڈنڈا بردار شریعت، ریاست کے اندر ریاست، ویڈیو شاپس جلانا، نائیوں کو دھمکیاں دینا، مخالفین پر جبر مسلط کرنا) یقیناً جہاد نہیں ہے اور اس کی مجھ سمیت کتنے لوگ مخالفت کرچکے ہیں، لیکن اصل میں جہاد ہے کیا؟ یہ جاننے کی کسی کو توفیق ہوئی؟ اگر ہمیں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبت ہے تو ہمیں جہاد کا حقیقی تصور زندہ کرنا ہوگا۔ ہم بحیثیت امت بیداری پر آمادہ ہوجائیں تو یہ چھوٹے چھوٹے خودساختہ، نام نہادی جہادی گروپ آپ سے آپ غائب ہوجائیں گے۔ جنہیں حق کی تلاش ہے اور جو حضرات جہاد کا اسلامی تصور جاننا چاہتے ہیں انہیں مشورہ ہے کہ الجہاد فی الاسلام کا مطالعہ کریں، اس کتاب کا بنیادی تعارف درج ذیل ہے؛
“١٩٢٦ء میں جب سوامی شردھانند کے قتل پر سارے ہندوستان میں ہنگامہ اٹھ کھڑا ہوا اور اسلام پر چاروں طرف سے حملے ہونے لگے، تو ایک روز مولانا محمد علی جوہر مرحوم نے اپنی تقریر میں کہا کہ کاش کوئی بندۂ خدا اس وقت اسلامی جہاد پر ایسی کوئی کتاب لکھے جو مخالفین کے سارے اعتراضات و الزامات کو رفع کرکے جہاد کی اصل حقیقت دنیا پر واضح کردے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ نے مولانا محمد علی جوہر کی زبان سے یہ بات سن کر اپنے دل میں خیال کیا کہ وہ بندۂ خدا میں ہی کیوں نہ ہوں؟ چنانچہ اسی وقت انہوں نے یہ کام شروع کردیا۔ اس وقت ان کی عمر ٢٣ سال تھی اور تین سال کی محنت شاقہ کے بعد انہوں نے اسے مکمل کیا۔ جس وقت یہ منظرِ عام پر آئی تو علامہ اقبال مرحوم نے اسے دیکھ کر فرمایا کہ جہاد کے موضوع پر ایسی محققانہ اور غیر معذرت خواہانہ کتاب اردو تو کیا، دوسری کسی زبان میں بھی نہیں لکھی گئی۔“

الجہاد فی الاسلام کے دیباچے سے مختصر اقتباس؛
“دورِ جدید میں یورپ نے اپنی سیاسی اغراض کے لیے اسلام پر جو بہتان تراشے ہیں ان میں سب سے بڑا بہتان یہ ہے کہ اسلام ایک خونخوار مذہب ہے اور اپنے پیرووں کو خونریزی کی تعلیم دیتا ہے۔ اس بہتان کی اگر کچھ حقیقت ہوتی تو قدرتی طور پر اسے اس وقت پیش ہونا چاہیے تھا جب پیروانِ اسلام کی شمشیر خاراشگاف نے کرۂ زمین میں ایک تہلکہ برپا کررکھا تھا اور فی الواقع دنیا کو یہ شبہ ہوسکتا تھا کہ شاید ان کے یہ فاتحانہ اقدامات کسی خونریز تعلیم کا نتیجہ ہوں۔ مگر عجیب بات ہے کہ اس بہتان کی پیدائش آفتابِ عروجِ اسلام کے غروب ہونے کے بہت عرصہ بعد عمل میں آئ۔ اس کے خیالی پتلے میں اس وقت روح پھونکی گئی جب اسلام کی تلوار تو زنگ کھاچکی تھی مگر خود اس بہتان کے مصنف، یورپ کی تلوار بے گناہوں کے خون سے سرخ ہورہی تھی اور اس نے دنیا کی کمزور قوموں کو اس طرح نگلنا شروع کردیا تھا جیسے کوئی اثدہا چھوٹے چھوٹے جانوروں کو ڈستا اور نگلتا ہو۔ اگر دنیا میں عقل ہوتی تو وہ سوال کرتی کہ جو لوگ خود امن و امان کے سب سے بڑے دشمن ہوں، جنہوں نے خود خون بہا بہا کر زمین کے چہرے کو رنگین کر دیا ہو، جو خود دوسری قوموں پر ڈاکے ڈال رہے ہوں، آخر انہیں کیا حق ہے کہ اسلام پر وہ الزام عائد کریں جس کی فردِ جرم خود ان پر لگنی چاہیے؟ لیکن انسان کی یہ کچھ فطری کمزوری ہے کہ وہ جب میدان میں مغلوب ہوتا ہے تو مدرسہ میں بھی مغلوب ہوجاتا ہے، جس کی تلوار سے شکست کھاتا ہے اس کے قلم کا بھی مقابلہ نہیں کرسکتا، اور اسی لیے ہر عہد میں دنیا پر انہی افکار و آراء کا غلبہ رہتا ہے جو تلوار بند ہاتھوں کے قلم سے پیش کیے جاتے ہیں۔ چنانچہ اس مسئلے میں بھی دنیا کی آنکھوں پر پردہ ڈالنے میں یورپ کو پوری کامیابی ہوئی اور غلامانہ ذہنیت رکھنے والی قوموں نے اسلامی جہاد کے متعلق اس کے پیش کردہ نظریہ کو بلا ادنیٰ تحقیق و غور و غوض اس طرح قبول کرلیا کہ کسی آسمانی وحی کو بھی اس طرح قبول نہ کیا ہوگا۔

گزشتہ اور موجودہ صدی میں مسلمانوں کی طرف سے بارہا اس اعتراض کا جواب دیا گیا ہے مگر اس قسم کی جوابی تحریرات میں میں نے اکثر یہ نقص دیکھا ہے کہ اسلام کے وکلاء مخالفین سے مرعوب ہوکر خود بخود ملزموں کے کٹہرے میں جاکھڑے ہوتے ہیں اور مجرموں کی طرح صفائیاں پیش کرنے لگتے ہیں۔ بعض حضرات نے تو یہاں تک کیا ہے کہ اپنے مقدمہ کو مضبوط بنانے کے لیے سرے سے اسلام کی تعلیمات اور اس کے قوانین ہی میں ترمیم کر ڈالی، اور شدتِ مرعوبیت میں جن جن چیزوں کو انہوں نے اپنے نزدیک خوفناک سمجھا انہیں ریکارڈ پر سے بالکل غائب کردیا تاکہ مخالفین کی نظر اس پر نہ پڑ سکے۔ غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے اصلی ضرورت اس امر کی ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ اور قتال بغرض اعلائے کلمۂ الٰہی کے متعلق اسلام کی تعلیمات اور اس کے قوانین کو بے کم و کاست اسی طرح بیان کر دیا جائے جس طرح وہ قرآن مجید، احادیث نبوی اور کتبِ فقہیہ میں درج ہیں۔ ان میں سے کسی چیز کو نہ گھٹایا جائے نہ بڑھایا جائے اور نہ اسلام کے اصلی منشا اور اس کی تعلیم کی روح کو بدلنے کی کوشش کی جائے۔ میں اس طریقہ سے اصولی اختلاف رکھتا ہوں کہ ہم اپنے عقائد و اصول کو دوسروں کے نقطۂ نظر کے مطابق ڈھال کر پیش کریں۔ دنیا کا کوئی ایک مسئلہ بھی ایسا نہیں ہے جس میں تمام لوگ ایک نقطۂ نظر پر متفق ہوں۔ ہم دوسروں کے نقطۂ نظر کی رعایت سے اپنے اصول و عقائد کو خواہ کتنا ہی رنگ کر پیش کریں یہ ناممکن ہے کہ تمام مختلف الخیال گروہ ہم سے متفق ہوجائیں اور سب کو ہمارا وہ مصنوعی رنگ پسند ہی آجائے۔ اس لیے زیادہ بہتر طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے دین کے عقائد اور احکام کو اس کی تعلیمات اور اس کے قوانین کو ان کے اصلی رنگ میں دنیا کے سامنے پیش کردیں اور جو دلائل ہم ان کے حق میں رکھتے ہیں انہیں بھی صاف صاف بیان کردیں، پھر یہ بات خود لوگوں کی عقل پر چھوڑدیں کہ خواہ وہ انہیں قبول کریں یا نہ کریں۔ اگر قبول کریں تو زہے نصیب، نہ قبول کریں تو ہمیں اس کی کوئی پروا نہیں۔ (ابوالاعلٰی، دہلی۔ ١٥ جون ١٩٢٧ء)“
 

Muhammad Naeem

محفلین
ہمارے ہاں بوٹ پالش کرنے، جوتے چاٹنے، مکھی پر مکھی مارنے، جھوٹی خبریں پھیلانے، افواہیں نشر کرنے اور۔۔۔اور۔۔۔اور رنگ برنگے کھٹے میٹھے فلسفوں کے لولی پاپ چوسنے والے خیالی سقراطیوں اور بقراطیوں کی ہرگز کوئی کمی نہیں ہے۔ آپ ان سے “ایک نمبر اسلام“ کی بابت پوچھیں گے تو جھٹ سے پاک فوج کی طرف اشارہ کردیں گے۔ جہاد کی بابت پوچھیں گے تو فٹ خود کش بمباروں کی جانب انگلی اٹھادیں گے۔ قرآن کو بازیچۂ تاویل بناکر جہاد کی “ایک سے ایک غیر مضر اقسام“ گنوائیں گے مثلاً؛ غربت کے خلاف جہاد، جہالت کےخلاف جہاد، مچھروں، مکھیوں کے خلاف جہاد، پانی کے لیے جہاد، خوش اخلاقی پھیلانے کا جہاد، تمیز سے بات کرنے کا جہاد، مہلک امراض کے خاتمے کے لیے جہاد وغیرہ وغیرہ۔ ہمیں اندیشہ ہے کہ جہاد کی یہ تعریف طویل ہوتے ہوتے اتنی دور تلک جائےگی کہ نہانا دھونا، کان کا میل صاف کرنا، جوئیں نکالنا اور آنکھیں جھپکنا تک بھی باالآخر جہاد کی تعریف میں شامل ہوجائیں گے۔ مختصر یہ کہ ان کا مجاہد ایک عدد “کمانڈر سیف گارڈ“ کا نمونہ ہوگا۔ یہ گھر کا سدھایا ہوا پالتو مجاہدہوگا اور اس سے کسی ظالم کسی جابر اور کسی دہشت گرد کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ جہاد کے اس تصور میں کہیں بحیثیت امت بیداری، جبر کی مزاحمت، ملی غیرت و حمیت اور سربلندی کا کوئی پیغام نہیں۔ جہاد کا یہ تصور سرجھکانے، جوتے کھانے، ہچکچانے، شرمانے، طاقتور کے پیروں پڑ کر گڑگڑانے اور ڈنڈے کھاکر بھی آداب بجالانے پر آمادہ کردیتا ہے
برادر ! میں تو موصوفین کے اعتراضات کی تردید میں کتاب کھول کر ایک لمبا چوڑا مضمون لکھ رہا تھا۔ لیکن آپ نے تو اپنی پوسٹ میں دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔
ہم جہاد کے مخالفین کے لیئے دعائے خیر ہی کر سکتے ہیں کہ اللہ ان کو ہدایت دے ۔ یہ "روشن خیال" تو فلسطینی نوجوانوں کی اسرائیل کے خلاف مزاحمت دیکھ کر بھی کڑھتے رہتے ہیں ۔ جہاد کی مخالفت نے ان کی مت ماردی ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
برادر ! میں تو موصوفین کے اعتراضات کی تردید میں کتاب کھول کر ایک لمبا چوڑا مضمون لکھ رہا تھا۔ لیکن آپ نے تو اپنی پوسٹ میں دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔
ہم جہاد کے مخالفین کے لیئے دعائے خیر ہی کر سکتے ہیں کہ اللہ ان کو ہدایت دے ۔ یہ "روشن خیال" تو فلسطینی نوجوانوں کی اسرائیل کے خلاف مزاحمت دیکھ کر بھی کڑھتے رہتے ہیں ۔ جہاد کی مخالفت نے ان کی مت ماردی ہے۔
محترم واضح‌ رہے کہ ہم میں سے کوئی بھی اصل جہاد کا مخالف نہیں، آج کل کے نام نہاد مولویوں کے اس نام نہاد "خود کش" بم دھماکوں کی طرح کے جہاد کے خلاف ہیں۔ اپنی کیٹیگری خود تلاش کر لیجئے کہ کس سے تعلق رکھتے ہیں:rolleyes:
 

Muhammad Naeem

محفلین
محترم واضح‌ رہے کہ ہم میں سے کوئی بھی اصل جہاد کا مخالف rolleyes:
مجھے تو ابھی تک آپ کی اس بات کی ہی سمجھ نہیں آسکی یہ اصل جہاد کس طرح کا ہوتا ہے ۔ اوریہ جہاد کیسے کیا جاتا ہے۔ ذرا اس بارے میں بھی وضاحت فرما دیں ۔ میرے نزدیک تو جہاد کا وہی مفہوم ہے جو نبی (صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم) نے ایک صحابی کے سوال کرنے پر بتلایاتھا کہ
"الجہاد ھوالقتال فی سبیل اللہ" جہاد کا مطلب اللہ کے راستے میں جنگ کرنا ہے۔

آپ کے سامنے نامعلوم کونسا جہاد پیش نظر ؟ بظاہر تو آپکا جہاد ایسا معلوم ہوتا ہے جس سے نہ بش کو خوف آتا ہو۔ نہ ایہود المرٹ پریشان ہو، نہ اس جہاد سے منموہن صاحب ناراض ہوتے ہوں اور نہ ہی پیوٹن کو کوئی مسئلہ ہو۔یعنی "سانپ بھی مر جائے اورلاٹھی بھی نہ ٹوٹے" والا معاملہ ہو۔
 

قیصرانی

لائبریرین
مجھے تو ابھی تک آپ کی اس بات کی ہی سمجھ نہیں آسکی یہ اصل جہاد کس طرح کا ہوتا ہے ۔ اوریہ جہاد کیسے کیا جاتا ہے۔ ذرا اس بارے میں بھی وضاحت فرما دیں ۔ میرے نزدیک تو جہاد کا وہی مفہوم ہے جو نبی (صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم) نے ایک صحابی کے سوال کرنے پر بتلایاتھا کہ
"الجہاد ھوالقتال فی سبیل اللہ" جہاد کا مطلب اللہ کے راستے میں جنگ کرنا ہے۔

آپ کے سامنے نامعلوم کونسا جہاد پیش نظر ؟ بظاہر تو آپکا جہاد ایسا معلوم ہوتا ہے جس سے نہ بش کو خوف آتا ہو۔ نہ ایہود المرٹ پریشان ہو، نہ اس جہاد سے منموہن صاحب ناراض ہوتے ہوں اور نہ ہی پیوٹن کو کوئی مسئلہ ہو۔یعنی "سانپ بھی مر جائے اورلاٹھی بھی نہ ٹوٹے" والا معاملہ ہو۔
جہاد کے بارے ذرا اپنی تفصیلی رائے سے آگاہ کیجئے گا
 

ساجد

محفلین
محمد نعیم بھائی ،
جہاد پر تفصیلی رائے دینے سے قبل اس کا مفہوم اور لُغوی معانی ضرور سمجھا دیجئیے ۔
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم
جہاد کے بارے اس فورم پر مفتی محمد شفیع صاحب کا یہ ایک چھوٹا سا کتابچہ اس کا مطالعہ کیجئےاور مزید تفصیلات میں نے ایک کتاب شروع کی ہے "فضائل جہاد کامل" کچھ ابواب تو یہاں پر ان لائن ہے اور ان شاءاللہ وقت کے ساتھ ساتھ اور بھی ہو جائیں گے نوٹ : فضائل جہاد تقریبا 600 سال پہلی لکھی گئی ہے اور اس کا ترجمعہ 1998 میں اردو میں کیا گیا اور جہاں کہی تشریح کی ضرورت پڑی ہے وہاں پر بڑی بریکٹ استعمال کی گئی ہے
 
Top