نیرنگ خیال
لائبریرین
بھلے وقتوں کی بات ہے۔۔۔ جب ہم محفل میں آتے تو تھے۔ پر ہماری مرزا صاحب سے ملاقات نہ تھی۔ آتے تھے چلے جاتے تھے۔۔۔ لیکن کبھی کبھی جو مرزا کے آواز سماعتوں میں رس گھولتی۔۔ تو سوچنے ۔لگتے کہ کیسا آدمی ہے۔۔۔ ہمیشہ مثبت بات ہی کرتا ہے۔ پھر سوچا باتیں مثبت ہیں۔۔۔ کہ شخصیت منفی ہوگی۔۔۔ اس کی کھوج لگانے کو جو ہم نے بھی آغاز گفتگو کیا تو شخصیت بھی مثبت پائی۔۔۔ بعد از مدت بھید یہ کھلا کہ موصوف اتنے مثبت اس لیے ہیں کہ زندگی میں "وٹامن She" کی شدید کمی ہے۔ جب یہ خبر سننے کو ملی۔۔ تو پہلا گماں تو موصوف کے مرزا ہونے پر گزرا۔۔۔ سوچا یہ کوئی چال ہے۔۔ اتنا شریف مرزا۔۔۔نہ نہ ۔۔۔۔ برادری کو چاہیے کہ فوراً سے پیشتر اس کو حنوط کروا کر محفوظ کر لے۔ ایسا نہ ہو کہ حالات زمانہ کے باعث اکلوتے شریف مرزا سے بھی ہاتھ دھونے پڑ جائیں۔ لیکن اب جو گفتگو کو سلسلہ چلا تو اک اور راز کھلا۔۔ وہ یہ کہ موصوف ہمیشہ مخاطب کو صنف نازک کے القابات سے پکارتے۔۔ چاہے مخاطب کے دو کلومیٹر پاس سے بھی زنانہ پن نہ گزرا ہو۔ یعنی "مرزا" "ہٹ" قائم تھی۔
اب جو مرزا کے حلقہ احباب میں ہم شامل ہوئے تو یہ پایا کہ پطرس کے لالہ جی، اور انشاء کے استاد مرحوم کو گر شفیق الرحمن کے شیطان سے تقسیم کر لیا جائے تو حاصل جواب اپنے مرزا صاحب ہی آئیں گے۔ لالہ جی کی طرح صبح اٹھنے کی عادت اور نہ صرف خود اٹھنے کی عادت بلکہ اس وقت تک گفتگو کرتے رہنے کی عادت جب تک باقی نہ اٹھ جائیں۔ اور خود بعد میں رام رام کرنے کے بہانے دیوی کے پاس جا پہنچنا۔۔۔ اک بار ہم نے پوچھا یار مرزا۔۔ یہ رام رام دیوی جی کے پاس ہی کیوں ہوتی ہے۔۔ شنکر جی یا وشنو کے پاس کیوں نہیں۔۔ تو ہنسنے لگے۔۔۔ کہتے میاں!!! کیا بتاؤں۔۔ اسلاف کی روحیں روز آکر سوال کرتی ہیں۔۔۔ کہ تمہارے بعد میں آنے والوں کا سکور کہاں پہنچ گیا۔ اور تم ابھی تک عاشقی کے میدان میں مصباح بنے ہو۔۔۔ پہلے رام کے پاس ہی رام رام کرتا تھا۔ لیکن بعد میں اک دن خواب میں بڑے مرزا (صاحبہ والے ) خود تشریف لائے۔ اور فرمانے لگے کہ میاں۔۔۔۔ اور کچھ نہیں تو کم از کم پتھر کی مورت کو ہی مورتی کر لو۔۔ اس دن سے دیوی جی کے پاس ہی آنا جانا ہے۔ ہم بھی دیوی جی کے کبھی درشن نہ کیے۔۔۔ بس ویسے اک بار پوچھ لیا کہ دیوی جی کو آرٹ کا نمونہ بنا رکھا ہے کہ نہیں۔ تو کہنے لگے۔۔ بھئی ہم یوسفی کی اس بات کو خوب سمجھتے ہیں۔ مجال ہے جو کوئی ململ کا کپڑا تمہیں ملے۔۔۔ ہمیں ایسی بےلباس مورتی کے دیدار کی ہرگز تمنا نہ رہی۔۔۔۔
استاد محترم کی طرح بے پناہ غیر مطبوعہ کلام چھاپ رکھا تھا۔۔۔ گھر والے بھی ظالم تھے۔۔۔ کبھی جو بارش کے دوران صحن میں پانی جمع ہوجاتا تو اینٹیں رکھنے کی بجائے فاصلے فاصلے پر یہی علم و ادب کا خزینہ دھر کر راستہ بنا لیا کرتے تھے۔ ایسے میں مرزا افسوس سے سر ہلاتے رہ جاتے۔ اور کہا کرتے۔۔۔ کہ میاں۔۔۔ دور لد گیا۔۔۔ علم کی وہ قدر و منزلت نہ رہی۔۔۔ ایسے موقعوں پر آنکھوں کی بجائے منہ میں کافی پانی جمع ہوجاتا تو وقتا فوقتا تھوکتے رہتے۔۔۔ بےخبر لوگ اس کو غرور سے منسوب کر دیتے تھے۔۔۔حالانکہ رقیق القلبی کا یہ عالم تھا کہ کبھی جو کسی پر ہونے والے ظلم کی داستاں سن لیتے یا دیکھ لیتے۔۔ تو کئی کئی روز تک دل بہلانے کو کھانے پینے اور گھومنے پھرنے پر توجہ مرکوز کیے رکھتے تھے۔۔ اک بار اک کتے کو دیکھا جو بیچارہ درد سے کراہ رہا تھا۔۔۔ تو فوراً ریوالور نکال کر گولی مار دی۔۔ کہتے میرے سے اس کی تکلیف دیکھی نہیں جاتی تھی۔۔ ۔اس کے بعد اکثر لوگ اپنے درد کا تذکرہ ان کے سامنے کرنے سے گریز کرنے لگے۔۔۔اگر کبھی کوئی موضوع زیر بحث بھی ہوتا تو مرزا کی آمد پر بات بدل دیتے۔ پتا نہیں ایسا کیوں تھا۔
یار باش آدمی تھے۔۔ اجتماعیت کے بہت زیادہ قائل تھے۔ دوران گفتگو بھی زور اجتماعیت پر ہی رہتا۔۔۔ وہ لوگ جو یہ لفظ پہلی بار سنتے۔ لازما چونک جایا کرتے تھے۔۔ ایسے میں مرزا دھیمی سے مسکراہٹ سے کہا کرتے۔۔ کچھ نہیں میاں!!! بس اخبارات نے تمہارا دماغ خراب کر رکھا ہے۔ انٹرویو کرنے کے بہت شوقین تھے۔ جس پر نظر کرم کرنا مقصود ہوتا۔ اس کو چائے کی دعوت دیتے۔ دعوت دینے کا انداز بھی بڑا منفرد تھا۔ کبھی یہ نہ پوچھتے کہ کس وقت فارغ ہوتے ہو۔ کبھی ہمارے آستانے پر تشریف لاؤ۔ چائے مشہور ہے ہماری۔۔۔ بس حکم صادر کرتے میاں۔۔۔ چائے پر آجاؤ۔۔ مجال ہے جو کوئی سرتابی کرے۔۔ میں نے پوچھا کہ مرزا کبھی کسی نے سرتابی کی کوشش کی۔ تواک ادائے کافری سے ہنس کر فرمانے لگے۔ میاں تم کر کے دیکھ لو۔۔۔ چائے پلانے سے پہلے کچھ سوال داغتے۔۔۔ اور پھر چائے پلانے کے بعد کڑک سوالات داغتے۔۔۔ اور جو جواب نہ دیتا۔ تو اس کو "سوا" "لات" رسید کرتے۔ چارو ناچار اس کو حکم کے آگے سر جھکانا ہی پڑتا۔ اور وہ بیچارہ جوابات دے دے کر فوت ہونے والا ہوجاتا۔ ایسے میں جب کبھی ان کے پاس سوالات ختم ہوجاتے تو ان کی اک اور شاگرد سوالات کی پٹاری لے کر آجاتی۔۔۔ اچھا ان کا اور اس شاگرد کا تعلق بھی مزے کا تھا۔ وہ آنے کے بعد ان کے سوالات کی تعریف کرنا نہیں بھولتیں تھیں۔ اور یہ بھی ہمیشہ ہی فرماتے۔۔۔ بس ہم تو یونہی ہیں۔۔ اصل سوالات تو آپ ہی پوچھتیں ہیں۔۔۔ آدھا گھنٹہ یہ دونوں یونہی اک دوسرے کو اونچا ثابت کرتے رہتے۔۔ ایسے میں مسئول ان کی باتوں سے اکتا کر یہ جا وہ جا۔۔۔ بعد میں اس کو کہتے میاں بڑے نابکار ہو تم۔۔۔ ایسی بھی کیا طبیعت میں تیزی پائی تم نے۔۔۔ چلو ابھی چائے پلائی ہے۔۔۔ جب تک سب جواب نہیں ملتے۔۔ جانے کیسے دے سکتے ہیں تمہیں۔۔۔
سالگرہ ہمیشہ یاد رکھتے۔۔۔ خاص طور پر اپنی اور ان لوگوں کی جن کی سالگرہ اس دن ہوتی تھی۔۔ جس دن مرزا کی سالگرہ ہوتی تھی۔۔۔ تحفے تحائف دینے کے بھی بہت شوقین تھے۔ کہتے تھے اس سے باہمی اخوت اور محبت بڑھتی ہے۔۔ ہم نے کہا کہ اخوت تو آج کے دور میں محبت کی قینچی ہے۔۔۔ تو ہنس کر رازدرانہ انداز میں کہنے لگے۔۔ میاں اخوت اور محبت کی تخصیص بھی صنفی تفاوت پر ہے۔۔ سمجھا کرو۔۔۔ اس کے علاوہ لوگوں کی کیفیات میں بے حد دلچسپی رکھتے تھے۔۔ ان کی کیفیات کا خوب مذاق اڑاتے اور مذاق اڑانے والوں کی دل کھول کر حوصلہ افزائی کرتے۔۔۔ خود تو محض کبھی کبھار شہد دیوار پر لگانے کا کام کرتے۔۔ اور پھر خود اک طرف بیٹھ کر لطف اندو ز ہوا کرتے۔۔۔ سیاست کے موضوع کو اپنا پسندیدہ قرار دیتے۔ اور اس پر بات کرنا وقت کا ضیاع سمجھتے۔۔۔ اس میں جانے کیا رمز پوشیدہ تھی۔
دوستوں سے دست درازی کرتے پائےجاتے۔ بچوں سے شفقت، بڑوں سے ادب اور صنف نازک سے ہمیشہ محبت سے پیش آتے۔ راقم بھی ٹھہرا بخت برگشتہ جو پوچھ بیٹھا کہ مرزا یہ صنف نازک سے محبت سے پیش آنا۔۔۔ تو ہنس کر فرمانے لگے۔۔۔ میاں جس معاشرے میں میں رہتا ہوں۔۔۔ صنف کرخت سے محبت سے پیش آؤں تو تم کو کیا معلوم کیسی کیسی باتیں سننے کو ملیں۔۔۔ یہاں تک کہ وطن واپسی پر بھی یہی رویہ رہتا۔۔ اس ضمن میں فرماتے کہ بھئی چند دن کے لیے اب اپنی عادتیں کون خراب کرے۔۔۔ ویسے میری "شر" "افت" پر تمہیں شبہ کیوں ہے۔ ہم نے فوراً دست بستہ عرض کی۔ جناب ہمیں تو اس پر صدیوں سے یقین ہے۔ یہ سننا تھا کہ بھڑک اٹھے۔ اور کہنے لگے۔۔ خبردار جو بڑے مرزا کو بیچ میں لائے۔۔ یہ کردار کشی سے جو تاریخ مسخ کی گئی ہے۔ بقیہ عشاق کی من گھڑت کہانیاں ہیں۔ہم سے ناراض ہوگئے۔ اور کافی دن تک خیر خبر نہ لی۔ پھر ہم بھی رمز شناس تھے۔ اک صوفیانہ کلام کی آڑ لے کر انتظام سبو کیا تو دونوں یعنی مرزا اور ان کی مسکراہٹ واپس لوٹ آئی۔ ٹناری جب بڑھ جاتی تو پنجابی ہی بولا کرتے تھے۔
اک دن جوش میں فرمانے لگے کہ میاں تم بھی تو اپنے تئیں ادیب کہلاتے ہو۔۔ ہم نے فوراً یہ الزام اپنے سر لینے سے انکار کر دیا۔ تو ہنسنے لگے۔۔ کہتے میاں!!! ہماری بات غور سے سنو۔۔ یہ جتنے بھی بڑے ادیب تھے۔۔۔ یہ اس لیے بڑے ادیب بنے کہ ان کے پاس اک ایسا شخص تھا جس پر یہ لکھ سکتے تھے۔۔ اور وہ تھا مرزا۔۔۔ تم بھی خوش نصیب ہو۔۔۔ مرزا کا ساتھ تمہیں نصیب ہے۔۔ لکھو ہم پر۔۔۔ اور بن جاؤ بڑے ادیب۔۔۔ بھئی ہم تو لوگوں کو ادیب ہی بناتے آئے ہیں۔۔۔ اسلاف کی اس رسم سے بھی روگردانی مناسب نہیں۔۔ اس پر ہم نے کہا کہ ہمارے اسلاف میں تو کوئی ادیب نہ گزرا تھا۔۔ تو ہم کونسی وراثت پر حق جتانے کے لیے لکھیں۔۔۔ تو طنزا بولے۔۔۔ آنے والوں کو بھی یہ بات کرنے کا ہی موقع دینا چاہتے ہو۔۔۔
اب جو ہم نے لکھنا شروع کیا کہ ہم نے جو ادب کا مطالعہ شروع کیا تو "مرزا" کو بہت عام پایا۔ فکاہیہ تحاریر ہوں کہ شاعری یا تنقیدی مضامین۔۔ یا عشقیہ داستان۔۔ مرزا مرزا اور مرزا ہر جگہ ہو رہی ہوتی تھی۔۔۔ ہم نے سوچا کہ اگر کچھ بننا ہے تو مرزا سے دوستی کرنی پڑے گی۔ مرزا کی تلاش میں خاک چھانتے رہے۔۔۔ لیکن مرزا نہ ملا۔۔۔ آخر اک دن یونہی اتفاق سے مرزا سے ملاقات ہوگئی۔ اور پھر ملاقات کیا۔۔۔ یہ تو سلسلہ ہوگیا۔ جب تک مرزا سے چھیڑ چھاڑ نہ ہو۔۔۔ کوئی جملہ بازی کا تبادلہ نہ ہو۔۔ یوں محسوس ہوتا کہ آج کچھ کمی رہ گئی ہے۔۔۔
مرزا بہت عمدہ عادات و خصائل کے مالک ہیں۔ شاعری پر بے انتہا عبور ہے۔ وجہ غالب کا مرزا ہونا ہے۔ سب کو ساتھ لے کر چلنے کے عادی ہیں۔ اک رہنما کی طرح لوگوں کا اکھٹاکرنے اور اکھٹا رکھنے کے فن پر دسترس رکھتے ہیں۔ تو یہی پر ٹوک دیا۔ ۔۔۔ کہنے لگے۔۔ کیا بیکار انداز تحریر ہے تعریف کرنے کا۔۔۔ بھئی کچھ پرانے ادیبوں کو پڑھو۔۔ انہوں نے مرزا کی کس طرح تعریف کی ہے۔ پھر کچھ طبع آزمائی کرو۔۔۔ پہلے تیرنا سیکھو۔۔۔ پھر پانی میں اترنا۔۔۔ ہم نے اس نصیحت کو نیفے میں اڑس لیا۔۔ اب اتنی سی بات کے لیے پلو کہا ں سے لاتے۔ کہ اس سے تو مرزا خود بھی محروم تھے۔۔
اب جو مرزا کے حلقہ احباب میں ہم شامل ہوئے تو یہ پایا کہ پطرس کے لالہ جی، اور انشاء کے استاد مرحوم کو گر شفیق الرحمن کے شیطان سے تقسیم کر لیا جائے تو حاصل جواب اپنے مرزا صاحب ہی آئیں گے۔ لالہ جی کی طرح صبح اٹھنے کی عادت اور نہ صرف خود اٹھنے کی عادت بلکہ اس وقت تک گفتگو کرتے رہنے کی عادت جب تک باقی نہ اٹھ جائیں۔ اور خود بعد میں رام رام کرنے کے بہانے دیوی کے پاس جا پہنچنا۔۔۔ اک بار ہم نے پوچھا یار مرزا۔۔ یہ رام رام دیوی جی کے پاس ہی کیوں ہوتی ہے۔۔ شنکر جی یا وشنو کے پاس کیوں نہیں۔۔ تو ہنسنے لگے۔۔۔ کہتے میاں!!! کیا بتاؤں۔۔ اسلاف کی روحیں روز آکر سوال کرتی ہیں۔۔۔ کہ تمہارے بعد میں آنے والوں کا سکور کہاں پہنچ گیا۔ اور تم ابھی تک عاشقی کے میدان میں مصباح بنے ہو۔۔۔ پہلے رام کے پاس ہی رام رام کرتا تھا۔ لیکن بعد میں اک دن خواب میں بڑے مرزا (صاحبہ والے ) خود تشریف لائے۔ اور فرمانے لگے کہ میاں۔۔۔۔ اور کچھ نہیں تو کم از کم پتھر کی مورت کو ہی مورتی کر لو۔۔ اس دن سے دیوی جی کے پاس ہی آنا جانا ہے۔ ہم بھی دیوی جی کے کبھی درشن نہ کیے۔۔۔ بس ویسے اک بار پوچھ لیا کہ دیوی جی کو آرٹ کا نمونہ بنا رکھا ہے کہ نہیں۔ تو کہنے لگے۔۔ بھئی ہم یوسفی کی اس بات کو خوب سمجھتے ہیں۔ مجال ہے جو کوئی ململ کا کپڑا تمہیں ملے۔۔۔ ہمیں ایسی بےلباس مورتی کے دیدار کی ہرگز تمنا نہ رہی۔۔۔۔
استاد محترم کی طرح بے پناہ غیر مطبوعہ کلام چھاپ رکھا تھا۔۔۔ گھر والے بھی ظالم تھے۔۔۔ کبھی جو بارش کے دوران صحن میں پانی جمع ہوجاتا تو اینٹیں رکھنے کی بجائے فاصلے فاصلے پر یہی علم و ادب کا خزینہ دھر کر راستہ بنا لیا کرتے تھے۔ ایسے میں مرزا افسوس سے سر ہلاتے رہ جاتے۔ اور کہا کرتے۔۔۔ کہ میاں۔۔۔ دور لد گیا۔۔۔ علم کی وہ قدر و منزلت نہ رہی۔۔۔ ایسے موقعوں پر آنکھوں کی بجائے منہ میں کافی پانی جمع ہوجاتا تو وقتا فوقتا تھوکتے رہتے۔۔۔ بےخبر لوگ اس کو غرور سے منسوب کر دیتے تھے۔۔۔حالانکہ رقیق القلبی کا یہ عالم تھا کہ کبھی جو کسی پر ہونے والے ظلم کی داستاں سن لیتے یا دیکھ لیتے۔۔ تو کئی کئی روز تک دل بہلانے کو کھانے پینے اور گھومنے پھرنے پر توجہ مرکوز کیے رکھتے تھے۔۔ اک بار اک کتے کو دیکھا جو بیچارہ درد سے کراہ رہا تھا۔۔۔ تو فوراً ریوالور نکال کر گولی مار دی۔۔ کہتے میرے سے اس کی تکلیف دیکھی نہیں جاتی تھی۔۔ ۔اس کے بعد اکثر لوگ اپنے درد کا تذکرہ ان کے سامنے کرنے سے گریز کرنے لگے۔۔۔اگر کبھی کوئی موضوع زیر بحث بھی ہوتا تو مرزا کی آمد پر بات بدل دیتے۔ پتا نہیں ایسا کیوں تھا۔
یار باش آدمی تھے۔۔ اجتماعیت کے بہت زیادہ قائل تھے۔ دوران گفتگو بھی زور اجتماعیت پر ہی رہتا۔۔۔ وہ لوگ جو یہ لفظ پہلی بار سنتے۔ لازما چونک جایا کرتے تھے۔۔ ایسے میں مرزا دھیمی سے مسکراہٹ سے کہا کرتے۔۔ کچھ نہیں میاں!!! بس اخبارات نے تمہارا دماغ خراب کر رکھا ہے۔ انٹرویو کرنے کے بہت شوقین تھے۔ جس پر نظر کرم کرنا مقصود ہوتا۔ اس کو چائے کی دعوت دیتے۔ دعوت دینے کا انداز بھی بڑا منفرد تھا۔ کبھی یہ نہ پوچھتے کہ کس وقت فارغ ہوتے ہو۔ کبھی ہمارے آستانے پر تشریف لاؤ۔ چائے مشہور ہے ہماری۔۔۔ بس حکم صادر کرتے میاں۔۔۔ چائے پر آجاؤ۔۔ مجال ہے جو کوئی سرتابی کرے۔۔ میں نے پوچھا کہ مرزا کبھی کسی نے سرتابی کی کوشش کی۔ تواک ادائے کافری سے ہنس کر فرمانے لگے۔ میاں تم کر کے دیکھ لو۔۔۔ چائے پلانے سے پہلے کچھ سوال داغتے۔۔۔ اور پھر چائے پلانے کے بعد کڑک سوالات داغتے۔۔۔ اور جو جواب نہ دیتا۔ تو اس کو "سوا" "لات" رسید کرتے۔ چارو ناچار اس کو حکم کے آگے سر جھکانا ہی پڑتا۔ اور وہ بیچارہ جوابات دے دے کر فوت ہونے والا ہوجاتا۔ ایسے میں جب کبھی ان کے پاس سوالات ختم ہوجاتے تو ان کی اک اور شاگرد سوالات کی پٹاری لے کر آجاتی۔۔۔ اچھا ان کا اور اس شاگرد کا تعلق بھی مزے کا تھا۔ وہ آنے کے بعد ان کے سوالات کی تعریف کرنا نہیں بھولتیں تھیں۔ اور یہ بھی ہمیشہ ہی فرماتے۔۔۔ بس ہم تو یونہی ہیں۔۔ اصل سوالات تو آپ ہی پوچھتیں ہیں۔۔۔ آدھا گھنٹہ یہ دونوں یونہی اک دوسرے کو اونچا ثابت کرتے رہتے۔۔ ایسے میں مسئول ان کی باتوں سے اکتا کر یہ جا وہ جا۔۔۔ بعد میں اس کو کہتے میاں بڑے نابکار ہو تم۔۔۔ ایسی بھی کیا طبیعت میں تیزی پائی تم نے۔۔۔ چلو ابھی چائے پلائی ہے۔۔۔ جب تک سب جواب نہیں ملتے۔۔ جانے کیسے دے سکتے ہیں تمہیں۔۔۔
سالگرہ ہمیشہ یاد رکھتے۔۔۔ خاص طور پر اپنی اور ان لوگوں کی جن کی سالگرہ اس دن ہوتی تھی۔۔ جس دن مرزا کی سالگرہ ہوتی تھی۔۔۔ تحفے تحائف دینے کے بھی بہت شوقین تھے۔ کہتے تھے اس سے باہمی اخوت اور محبت بڑھتی ہے۔۔ ہم نے کہا کہ اخوت تو آج کے دور میں محبت کی قینچی ہے۔۔۔ تو ہنس کر رازدرانہ انداز میں کہنے لگے۔۔ میاں اخوت اور محبت کی تخصیص بھی صنفی تفاوت پر ہے۔۔ سمجھا کرو۔۔۔ اس کے علاوہ لوگوں کی کیفیات میں بے حد دلچسپی رکھتے تھے۔۔ ان کی کیفیات کا خوب مذاق اڑاتے اور مذاق اڑانے والوں کی دل کھول کر حوصلہ افزائی کرتے۔۔۔ خود تو محض کبھی کبھار شہد دیوار پر لگانے کا کام کرتے۔۔ اور پھر خود اک طرف بیٹھ کر لطف اندو ز ہوا کرتے۔۔۔ سیاست کے موضوع کو اپنا پسندیدہ قرار دیتے۔ اور اس پر بات کرنا وقت کا ضیاع سمجھتے۔۔۔ اس میں جانے کیا رمز پوشیدہ تھی۔
دوستوں سے دست درازی کرتے پائےجاتے۔ بچوں سے شفقت، بڑوں سے ادب اور صنف نازک سے ہمیشہ محبت سے پیش آتے۔ راقم بھی ٹھہرا بخت برگشتہ جو پوچھ بیٹھا کہ مرزا یہ صنف نازک سے محبت سے پیش آنا۔۔۔ تو ہنس کر فرمانے لگے۔۔۔ میاں جس معاشرے میں میں رہتا ہوں۔۔۔ صنف کرخت سے محبت سے پیش آؤں تو تم کو کیا معلوم کیسی کیسی باتیں سننے کو ملیں۔۔۔ یہاں تک کہ وطن واپسی پر بھی یہی رویہ رہتا۔۔ اس ضمن میں فرماتے کہ بھئی چند دن کے لیے اب اپنی عادتیں کون خراب کرے۔۔۔ ویسے میری "شر" "افت" پر تمہیں شبہ کیوں ہے۔ ہم نے فوراً دست بستہ عرض کی۔ جناب ہمیں تو اس پر صدیوں سے یقین ہے۔ یہ سننا تھا کہ بھڑک اٹھے۔ اور کہنے لگے۔۔ خبردار جو بڑے مرزا کو بیچ میں لائے۔۔ یہ کردار کشی سے جو تاریخ مسخ کی گئی ہے۔ بقیہ عشاق کی من گھڑت کہانیاں ہیں۔ہم سے ناراض ہوگئے۔ اور کافی دن تک خیر خبر نہ لی۔ پھر ہم بھی رمز شناس تھے۔ اک صوفیانہ کلام کی آڑ لے کر انتظام سبو کیا تو دونوں یعنی مرزا اور ان کی مسکراہٹ واپس لوٹ آئی۔ ٹناری جب بڑھ جاتی تو پنجابی ہی بولا کرتے تھے۔
اک دن جوش میں فرمانے لگے کہ میاں تم بھی تو اپنے تئیں ادیب کہلاتے ہو۔۔ ہم نے فوراً یہ الزام اپنے سر لینے سے انکار کر دیا۔ تو ہنسنے لگے۔۔ کہتے میاں!!! ہماری بات غور سے سنو۔۔ یہ جتنے بھی بڑے ادیب تھے۔۔۔ یہ اس لیے بڑے ادیب بنے کہ ان کے پاس اک ایسا شخص تھا جس پر یہ لکھ سکتے تھے۔۔ اور وہ تھا مرزا۔۔۔ تم بھی خوش نصیب ہو۔۔۔ مرزا کا ساتھ تمہیں نصیب ہے۔۔ لکھو ہم پر۔۔۔ اور بن جاؤ بڑے ادیب۔۔۔ بھئی ہم تو لوگوں کو ادیب ہی بناتے آئے ہیں۔۔۔ اسلاف کی اس رسم سے بھی روگردانی مناسب نہیں۔۔ اس پر ہم نے کہا کہ ہمارے اسلاف میں تو کوئی ادیب نہ گزرا تھا۔۔ تو ہم کونسی وراثت پر حق جتانے کے لیے لکھیں۔۔۔ تو طنزا بولے۔۔۔ آنے والوں کو بھی یہ بات کرنے کا ہی موقع دینا چاہتے ہو۔۔۔
اب جو ہم نے لکھنا شروع کیا کہ ہم نے جو ادب کا مطالعہ شروع کیا تو "مرزا" کو بہت عام پایا۔ فکاہیہ تحاریر ہوں کہ شاعری یا تنقیدی مضامین۔۔ یا عشقیہ داستان۔۔ مرزا مرزا اور مرزا ہر جگہ ہو رہی ہوتی تھی۔۔۔ ہم نے سوچا کہ اگر کچھ بننا ہے تو مرزا سے دوستی کرنی پڑے گی۔ مرزا کی تلاش میں خاک چھانتے رہے۔۔۔ لیکن مرزا نہ ملا۔۔۔ آخر اک دن یونہی اتفاق سے مرزا سے ملاقات ہوگئی۔ اور پھر ملاقات کیا۔۔۔ یہ تو سلسلہ ہوگیا۔ جب تک مرزا سے چھیڑ چھاڑ نہ ہو۔۔۔ کوئی جملہ بازی کا تبادلہ نہ ہو۔۔ یوں محسوس ہوتا کہ آج کچھ کمی رہ گئی ہے۔۔۔
مرزا بہت عمدہ عادات و خصائل کے مالک ہیں۔ شاعری پر بے انتہا عبور ہے۔ وجہ غالب کا مرزا ہونا ہے۔ سب کو ساتھ لے کر چلنے کے عادی ہیں۔ اک رہنما کی طرح لوگوں کا اکھٹاکرنے اور اکھٹا رکھنے کے فن پر دسترس رکھتے ہیں۔ تو یہی پر ٹوک دیا۔ ۔۔۔ کہنے لگے۔۔ کیا بیکار انداز تحریر ہے تعریف کرنے کا۔۔۔ بھئی کچھ پرانے ادیبوں کو پڑھو۔۔ انہوں نے مرزا کی کس طرح تعریف کی ہے۔ پھر کچھ طبع آزمائی کرو۔۔۔ پہلے تیرنا سیکھو۔۔۔ پھر پانی میں اترنا۔۔۔ ہم نے اس نصیحت کو نیفے میں اڑس لیا۔۔ اب اتنی سی بات کے لیے پلو کہا ں سے لاتے۔ کہ اس سے تو مرزا خود بھی محروم تھے۔۔
آخری تدوین: