سید عمران
محفلین
ان کے یہاں حقیقت ہی حقیقت ہے...آپ کہیں چڑیل کو مجازِ مرسل کے طور پہ تو نہیں لے رہے بھائی؟
مجاز کا کوئی گزر نہیں!!
ان کے یہاں حقیقت ہی حقیقت ہے...آپ کہیں چڑیل کو مجازِ مرسل کے طور پہ تو نہیں لے رہے بھائی؟
پیپسی، کوک وغیرہ کا اصل ذائقہ ان میں نمک ڈال کر پینے سے آتا ہے۔
بچپن میں ایک مرتبہ ہم تینوں چھوٹے بھائی، والدہ ، ماموں اور نانا کے ساتھ ٹرین کا سفر کررہے تھے۔ ٹرین اندھیری رات کا سینہ چیرتی ہوئی دوڑی جاتی تھی کہ ماموں نے ہمیں چڑیلوں کے قصے سنانا شروع کردئیے۔ انہوں نے ہمیں پہلی مرتبہ بتایا کہ چڑیلوں کے پاؤں اُلٹے ہوتے ہیں۔ جہاں کسی کی نظر ان کے پاؤں پر پڑی سمجھو کہ اس کا تو کام تمام ہوگیا۔ وہ رات ہم نے بہت ڈرتے ہوئے گزاری۔ ہر لمحہ خیال ہوتا تھا کہ کہیں سے کوئی چڑیل نمودار ہوجائے گی اور ہمیں نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے پیروں کی جانب دیکھنا ہوگا۔ خدا خدا کرکے نیند آئی۔چڑیلوں کے پاؤں الٹے ہوتے ہیں۔
شعور پکڑتے ہوئے چھوٹے بچے بہت زیادہ سوالات کرتے ہیں۔ عمومی طور پر لوگ اپنی مصروفیات یا تساہل پسندی کی وجہ سے شارٹ کٹ اور جگاڑی قسم کے جوابات سے انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے لیے جھوٹ کالفظ تو مناسب نہیں لگتا البتہ اسے معصومانہ غلط بیانی کہا جائے تو ٹھیک ہے۔ بات کی گہرائی اور بچے کی عمر کی مناسبت سے یہ عمل اپنی واجبی حدود میں تو کچھ جواز رکھتا بھی ہے باقی بچے کی ہر بات کو کسی بتنگڑ کے ساتھ باندھ دینا مناسب نہیں اور یہ عمل نہ صرف اس کے قیمتی بنیادی تصورات کو نہایت کمزور بنیادوں پر تعمیر کرے گا بلکہ ان تصورات کے انہدام پر اس کی نظر میں بڑوں کی دیگر باتوں کی حقیقت بھی مشکوک ہو کر رہ جائے گی۔ بچوں کے سوالات کے جہاں تک ممکن ہو ان کی ذہنی سطح کے مطابق مدلل جواب دیے جانے چاہییں اور ان کے سوال کرنے کی عادت کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔ والدین اور اساتذہ نے جو ضروری علم تیس چالیس سال کی عمر تک حاصل کیا ہے وہ اسے پالش کر کے اگر پندرہ سے بیس سال کی عمر تک بچوں کو منتقل کردیں تو شائد وہ اپنی ابھرتی ہوئی توانائیوں کو نئے ممکنات کی تسخیر میں بہتر طور پر استعمال کر سکیں۔بچوں کو جھوٹ بول کر درست بات سکھانا اسلام کی تعلیمات میں تو نہیں ہوگا
اس موضوع پر اشتیاق احمد کا ایک ناول بھی پڑھا تھا۔ غالبا شوکی سیریز کا ناول تھا۔ایک آئڈیا میرے ذہن میں تھا کہ بڑا ہوکر میں ایسی ٹارچ بناؤں گا جس میں سے سیاہ روشنی نکلے اور روشن کمرے میں اندھیرا ہوجائے۔
شعور پکڑتے ہوئے چھوٹے بچے بہت زیادہ سوالات کرتے ہیں۔ عمومی طور پر لوگ اپنی مصروفیات یا تساہل پسندی کی وجہ سے شارٹ کٹ اور جگاڑی قسم کے جوابات سے انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے لیے جھوٹ کالفظ تو مناسب نہیں لگتا البتہ اسے معصومانہ غلط بیانی کہا جائے تو ٹھیک ہے۔ بات کی گہرائی اور بچے کی عمر کی مناسبت سے یہ عمل اپنی واجبی حدود میں تو کچھ جواز رکھتا بھی ہے باقی بچے کی ہر بات کو کسی بتنگڑ کے ساتھ باندھ دینا مناسب نہیں اور یہ عمل نہ صرف اس کے قیمتی بنیادی تصورات کو نہایت کمزور بنیادوں پر تعمیر کرے گا بلکہ ان تصورات کے انہدام پر اس کی نظر میں بڑوں کی دیگر باتوں کی حقیقت بھی مشکوک ہو کر رہ جائے گی۔ بچوں کے سوالات کے جہاں تک ممکن ہو ان کی ذہنی سطح کے مطابق مدلل جواب دیے جانے چاہییں اور ان کے سوال کرنے کی عادت کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔ والدین اور اساتذہ نے جو ضروری علم تیس چالیس سال کی عمر تک حاصل کیا ہے وہ اسے پالش کر کے اگر پندرہ سے بیس سال کی عمر تک بچوں کو منتقل کردیں تو شائد وہ اپنی ابھرتی ہوئی توانائیوں کو نئے ممکنات کی تسخیر میں بہتر طور پر استعمال کر سکیں۔
چلو کوئی تو ہمارے آئڈیئے کا قدردان ملا!اس موضوع پر اشتیاق احمد کا ایک ناول بھی پڑھا تھا۔ غالبا شوکی سیریز کا ناول تھا۔
اس میں ملک دشمن عناصر چھوٹی موٹی وارداتوں کے لیے ایسی ہی ٹارچ استمال کرتے تھے جبکہ پورے شہر کو قابو کرنے کے لیے شہر کے باہر ایک ایسا ستون بنایا ہوتا ہے جو دن میں بھی سارے شہر میں گھپ اندھیرا کردیتا ہے۔ اس اندھیرے میں دیکھنے کے لیے ان کے پاس خاص چشمے ہوتے ہیں، یعنی اپنے پاس آنکھیں رکھ کر سارے شہر کو اندھا کردیتے تھے۔
اس سے ملتے جلتے آئیڈیے پر مشتمل ایک ناول مظہر کلیم ایم اے نے بھی لکھا تھا لیکن وہاں اندھیرے کے بجائے دھند کو ہتھیار بنایا گیا تھا۔
اشتیاق احمد والا ناول تو ہم نے بھی پڑھا تھا۔ نام اب یاد نہیں۔ اس میں اس اندھیرے والی ٹارچ کا علاج مختلف رنگوں کی عینک کے کامبی نیشن آزما کر نکالتے ہیں۔اس موضوع پر اشتیاق احمد کا ایک ناول بھی پڑھا تھا۔ غالبا شوکی سیریز کا ناول تھا۔
اس میں ملک دشمن عناصر چھوٹی موٹی وارداتوں کے لیے ایسی ہی ٹارچ استعمال کرتے تھے جبکہ پورے شہر کو قابو کرنے کے لیے شہر کے باہر ایک ایسا ستون بنایا ہوتا ہے جو دن میں بھی سارے شہر میں گھپ اندھیرا کردیتا ہے۔ اس اندھیرے میں دیکھنے کے لیے ان کے پاس خاص چشمے ہوتے ہیں، یعنی اپنے پاس آنکھیں رکھ کر سارے شہر کو اندھا کردیتے تھے۔
بچپن میں ایک مرتبہ ہم تینوں چھوٹے بھائی، والدہ ، ماموں اور نانا کے ساتھ ٹرین کا سفر کررہے تھے۔ ٹرین اندھیری رات کا سینہ چیرتی ہوئی دوڑی جاتی تھی کہ ماموں نے ہمیں چڑیلوں کے قصے سنانا شروع کردئیے۔ انہوں نے ہمیں پہلی مرتبہ بتایا کہ چڑیلوں کے پاؤں اُلٹے ہوتے ہیں۔ جہاں کسی کی نظر ان کے پاؤں پر پڑی سمجھو کہ اس کا تو کام تمام ہوگیا۔ وہ رات ہم نے بہت ڈرتے ہوئے گزاری۔ ہر لمحہ خیال ہوتا تھا کہ کہیں سے کوئی چڑیل نمودار ہوجائے گی اور ہمیں نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے پیروں کی جانب دیکھنا ہوگا۔ خدا خدا کرکے نیند آئی۔
وہ دن اور آج کا دن، کسی فلم کے ہیرو کی طرح ہم بھی چڑیلوں کےپیروں اور ان میں پہنے ہوئے جوتوں کے مداح ہیں۔ اُن کے رکھ رکھاؤ کا اندازہ ان کے پیروں میں پہنے ہوئے جوتوں اور سینڈلوں سے کرتے ہی ۔
ساتھ میں کوے کے بولنے کی شرط بھی تو تھیگھر کی منڈیر پر کوا بیٹھے تو مہمان آتے ہیں۔
ایک مرتبہ ہماری منڈیر پر کوا بیٹھا اور مہمان بھی آئے ۔
یقین پھر بھی نہ آیا ۔ ۔ ۔ ۔
ارے بھئی یہ کوے خاموش کب ہوتے ہیں ؟ساتھ میں کوے کے بولنے کی شرط بھی تو تھی
میرے ساتھ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ میں سکول سے سیدھا گھر آنے کی بجائے کرکٹ کھیلنے جاتا تھا۔ پھر اگر دائیں آنکھ پھڑکتی تو اس کا مطلب میں یہی لیتا کہ والد صاحب کو پتہ نہیں چلا۔ لیکن اگر بائیں آنکھ پھڑکتی تو لازمی طور اس شام مجھے ان سے بہت زیادہ ڈانٹ کھانی پڑتی ۔ حد تو یہ ہے کہ میری والدہ بھی ان کی ہی طرف دار ہوتی تھی۔ شومئی قسمت، اکثر بائیں آنکھ ہی پھڑکتی تھی۔بائیں آنکھ پھڑکنے سے بھی کچھ ہوتا تھا
کوئی بہن یا بھائی بتا دیں
ایسا آجکل بھی کہا جاتا ہے۔ اگر چہ لوگ یقین کم ہی کرتے ہیں۔ہانڈیاں چاٹنے یعنی ان میں بچا ہوا سالن وغیرہ کھانے والے کی شادی پہ خوب بارش ہوتی ہے۔
جنّات کے بھی۔چڑیلوں کے پاؤں الٹے ہوتے ہیں۔
بہت خوب !ہائے۔۔۔ جس نے کی ہو شباب میں توبہ۔۔۔ اب اس کو یوں کر دیتے ہیں کہ جس نے گزارا ہو بچپن سنجیدہ۔۔ ویسے ہمارا حال تو بقول انور مسعود
عجیب لطف تھا نادانیوں کے عالم میں
سمجھ میں آئیں تو باتوں کا وہ مزہ بھی گیا
دھند کا آئیڈیا اندھیرے سے بہتر ہے۔اس موضوع پر اشتیاق احمد کا ایک ناول بھی پڑھا تھا۔ غالبا شوکی سیریز کا ناول تھا۔
اس میں ملک دشمن عناصر چھوٹی موٹی وارداتوں کے لیے ایسی ہی ٹارچ استعمال کرتے تھے جبکہ پورے شہر کو قابو کرنے کے لیے شہر کے باہر ایک ایسا ستون بنایا ہوتا ہے جو دن میں بھی سارے شہر میں گھپ اندھیرا کردیتا ہے۔ اس اندھیرے میں دیکھنے کے لیے ان کے پاس خاص چشمے ہوتے ہیں، یعنی اپنے پاس آنکھیں رکھ کر سارے شہر کو اندھا کردیتے تھے۔
اس سے ملتے جلتے آئیڈیے پر مشتمل ایک ناول مظہر کلیم ایم اے نے بھی لکھا تھا لیکن وہاں اندھیرے کے بجائے دھند کو ہتھیار بنایا گیا تھا۔
مقناطیس کے علاوہ یہ بھی یقین تھا کہ ٹیڈی پیسہ یا دس پیسہ رکھیں گے تو وہ روپیہ بن جائے گا۔ میں نے زیادہ نہیں تو نو دس بار اس چمتکار کے لیے کوشش کی ہو گی لیکن ٹرین گزر جانے کے بعد صرف ایک بار ہی سکہ مل سکا جو پہچانا بھی نہیں جاتا تھا۔میرا یقین تھا کہ "ریل کی پٹری پر سکہ رکھنے سے، ریل کے گزرنے پر وہ مقناطیس بن جاتا ہے!"