بے وقوفانہ بات جس پر آپ بچپن میں دل و جان سے یقین رکھتے تھے!

سین خے

محفلین
پیپسی، کوک وغیرہ کا اصل ذائقہ ان میں نمک ڈال کر پینے سے آتا ہے۔

ہم تو وائٹ ڈرنکس میں ڈال کر پیتے تھے۔ نمک ڈالتے ہی جھاگ زیادہ بن جاتے تھے۔ جب عادت بہت پختہ ہو گئی تو یہ پٹی پڑھائی گئی کہ نمک ڈال کر پینے سے ہارٹ اٹیک ہو جاتا ہے :unsure: پھر نمک ڈالنا چھوڑ دیا :-(
 

سین خے

محفلین
میرے دل کو یقین تھا کہ دنیا میں کہیں نا کہیں سپر مین موجود ہوگا ہی ہوگا اور گھر والے جھوٹ بولتے ہیں کہ یہ صرف کارٹون میں وجود رکھتا ہے۔ اکثر رات کو صحن میں کھڑے ہو کر آسمان کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر بہت دیر تک دیکھتی رہتی تھی کہ ایک نا ایک دن ضرور نظر آئے گا۔ لیکن، لیکن، لیکن۔۔۔۔۔ نگوڑ مارا کبھی نظر نہیں آیا :crying1: اگر آجاتا تو میں شائد کبھی مارول کی فین نہ بنتی :arrogant:
 
آخری تدوین:

سین خے

محفلین
بڑوں کو ایکس فائلز پر زور و شور سے بحث کرتے دیکھ کر خلائی مخلوق نظر آنے پر بھی یقین ہو چلا تھا۔ کبھی بیچ رات کو آنکھ کھل جاتی تھی تو کھڑکی سے باہر ضرور جھانکتی تھی کہ شائد کہیں کوئی کھڑی نظر آجائے :oops:
 
چڑیلوں کے پاؤں الٹے ہوتے ہیں۔
بچپن میں ایک مرتبہ ہم تینوں چھوٹے بھائی، والدہ ، ماموں اور نانا کے ساتھ ٹرین کا سفر کررہے تھے۔ ٹرین اندھیری رات کا سینہ چیرتی ہوئی دوڑی جاتی تھی کہ ماموں نے ہمیں چڑیلوں کے قصے سنانا شروع کردئیے۔ انہوں نے ہمیں پہلی مرتبہ بتایا کہ چڑیلوں کے پاؤں اُلٹے ہوتے ہیں۔ جہاں کسی کی نظر ان کے پاؤں پر پڑی سمجھو کہ اس کا تو کام تمام ہوگیا۔ وہ رات ہم نے بہت ڈرتے ہوئے گزاری۔ ہر لمحہ خیال ہوتا تھا کہ کہیں سے کوئی چڑیل نمودار ہوجائے گی اور ہمیں نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے پیروں کی جانب دیکھنا ہوگا۔ خدا خدا کرکے نیند آئی۔

وہ دن اور آج کا دن، کسی فلم کے ہیرو کی طرح ہم بھی چڑیلوں کےپیروں اور ان میں پہنے ہوئے جوتوں کے مداح ہیں۔ اُن کے رکھ رکھاؤ کا اندازہ ان کے پیروں میں پہنے ہوئے جوتوں اور سینڈلوں سے کرتے ہی ۔
 

آوازِ دوست

محفلین
بچوں کو جھوٹ بول کر درست بات سکھانا اسلام کی تعلیمات میں تو نہیں ہوگا
شعور پکڑتے ہوئے چھوٹے بچے بہت زیادہ سوالات کرتے ہیں۔ عمومی طور پر لوگ اپنی مصروفیات یا تساہل پسندی کی وجہ سے شارٹ کٹ اور جگاڑی قسم کے جوابات سے انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے لیے جھوٹ کالفظ تو مناسب نہیں لگتا البتہ اسے معصومانہ غلط بیانی کہا جائے تو ٹھیک ہے۔ بات کی گہرائی اور بچے کی عمر کی مناسبت سے یہ عمل اپنی واجبی حدود میں تو کچھ جواز رکھتا بھی ہے باقی بچے کی ہر بات کو کسی بتنگڑ کے ساتھ باندھ دینا مناسب نہیں اور یہ عمل نہ صرف اس کے قیمتی بنیادی تصورات کو نہایت کمزور بنیادوں پر تعمیر کرے گا بلکہ ان تصورات کے انہدام پر اس کی نظر میں بڑوں کی دیگر باتوں کی حقیقت بھی مشکوک ہو کر رہ جائے گی۔ بچوں کے سوالات کے جہاں تک ممکن ہو ان کی ذہنی سطح کے مطابق مدلل جواب دیے جانے چاہییں اور ان کے سوال کرنے کی عادت کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔ والدین اور اساتذہ نے جو ضروری علم تیس چالیس سال کی عمر تک حاصل کیا ہے وہ اسے پالش کر کے اگر پندرہ سے بیس سال کی عمر تک بچوں کو منتقل کردیں تو شائد وہ اپنی ابھرتی ہوئی توانائیوں کو نئے ممکنات کی تسخیر میں بہتر طور پر استعمال کر سکیں۔
 
آخری تدوین:

ٹرومین

محفلین
ایک آئڈیا میرے ذہن میں تھا کہ بڑا ہوکر میں ایسی ٹارچ بناؤں گا جس میں سے سیاہ روشنی نکلے اور روشن کمرے میں اندھیرا ہوجائے۔
اس موضوع پر اشتیاق احمد کا ایک ناول بھی پڑھا تھا۔ غالبا شوکی سیریز کا ناول تھا۔:)
اس میں ملک دشمن عناصر چھوٹی موٹی وارداتوں کے لیے ایسی ہی ٹارچ استعمال کرتے تھے جبکہ پورے شہر کو قابو کرنے کے لیے شہر کے باہر ایک ایسا ستون بنایا ہوتا ہے جو دن میں بھی سارے شہر میں گھپ اندھیرا کردیتا ہے۔ اس اندھیرے میں دیکھنے کے لیے ان کے پاس خاص چشمے ہوتے ہیں، یعنی اپنے پاس آنکھیں رکھ کر سارے شہر کو اندھا کردیتے تھے۔:)
اس سے ملتے جلتے آئیڈیے پر مشتمل ایک ناول مظہر کلیم ایم اے نے بھی لکھا تھا لیکن وہاں اندھیرے کے بجائے دھند کو ہتھیار بنایا گیا تھا۔:)
 
آخری تدوین:

محمداحمد

لائبریرین
شعور پکڑتے ہوئے چھوٹے بچے بہت زیادہ سوالات کرتے ہیں۔ عمومی طور پر لوگ اپنی مصروفیات یا تساہل پسندی کی وجہ سے شارٹ کٹ اور جگاڑی قسم کے جوابات سے انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے لیے جھوٹ کالفظ تو مناسب نہیں لگتا البتہ اسے معصومانہ غلط بیانی کہا جائے تو ٹھیک ہے۔ بات کی گہرائی اور بچے کی عمر کی مناسبت سے یہ عمل اپنی واجبی حدود میں تو کچھ جواز رکھتا بھی ہے باقی بچے کی ہر بات کو کسی بتنگڑ کے ساتھ باندھ دینا مناسب نہیں اور یہ عمل نہ صرف اس کے قیمتی بنیادی تصورات کو نہایت کمزور بنیادوں پر تعمیر کرے گا بلکہ ان تصورات کے انہدام پر اس کی نظر میں بڑوں کی دیگر باتوں کی حقیقت بھی مشکوک ہو کر رہ جائے گی۔ بچوں کے سوالات کے جہاں تک ممکن ہو ان کی ذہنی سطح کے مطابق مدلل جواب دیے جانے چاہییں اور ان کے سوال کرنے کی عادت کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔ والدین اور اساتذہ نے جو ضروری علم تیس چالیس سال کی عمر تک حاصل کیا ہے وہ اسے پالش کر کے اگر پندرہ سے بیس سال کی عمر تک بچوں کو منتقل کردیں تو شائد وہ اپنی ابھرتی ہوئی توانائیوں کو نئے ممکنات کی تسخیر میں بہتر طور پر استعمال کر سکیں۔

بہت خوب!

اسے محفل کی اس پوسٹ میں بھی نقل کیجے گا جہاں بچوں کی تربیت کے حوالے سے گفتگو ہو رہی ہے۔
 
اس موضوع پر اشتیاق احمد کا ایک ناول بھی پڑھا تھا۔ غالبا شوکی سیریز کا ناول تھا۔:)
اس میں ملک دشمن عناصر چھوٹی موٹی وارداتوں کے لیے ایسی ہی ٹارچ استمال کرتے تھے جبکہ پورے شہر کو قابو کرنے کے لیے شہر کے باہر ایک ایسا ستون بنایا ہوتا ہے جو دن میں بھی سارے شہر میں گھپ اندھیرا کردیتا ہے۔ اس اندھیرے میں دیکھنے کے لیے ان کے پاس خاص چشمے ہوتے ہیں، یعنی اپنے پاس آنکھیں رکھ کر سارے شہر کو اندھا کردیتے تھے۔:)
اس سے ملتے جلتے آئیڈیے پر مشتمل ایک ناول مظہر کلیم ایم اے نے بھی لکھا تھا لیکن وہاں اندھیرے کے بجائے دھند کو ہتھیار بنایا گیا تھا۔:)
چلو کوئی تو ہمارے آئڈیئے کا قدردان ملا!
 

یاز

محفلین
اس موضوع پر اشتیاق احمد کا ایک ناول بھی پڑھا تھا۔ غالبا شوکی سیریز کا ناول تھا۔:)
اس میں ملک دشمن عناصر چھوٹی موٹی وارداتوں کے لیے ایسی ہی ٹارچ استعمال کرتے تھے جبکہ پورے شہر کو قابو کرنے کے لیے شہر کے باہر ایک ایسا ستون بنایا ہوتا ہے جو دن میں بھی سارے شہر میں گھپ اندھیرا کردیتا ہے۔ اس اندھیرے میں دیکھنے کے لیے ان کے پاس خاص چشمے ہوتے ہیں، یعنی اپنے پاس آنکھیں رکھ کر سارے شہر کو اندھا کردیتے تھے۔:)
:)
اشتیاق احمد والا ناول تو ہم نے بھی پڑھا تھا۔ نام اب یاد نہیں۔ اس میں اس اندھیرے والی ٹارچ کا علاج مختلف رنگوں کی عینک کے کامبی نیشن آزما کر نکالتے ہیں۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
بچپن میں ایک مرتبہ ہم تینوں چھوٹے بھائی، والدہ ، ماموں اور نانا کے ساتھ ٹرین کا سفر کررہے تھے۔ ٹرین اندھیری رات کا سینہ چیرتی ہوئی دوڑی جاتی تھی کہ ماموں نے ہمیں چڑیلوں کے قصے سنانا شروع کردئیے۔ انہوں نے ہمیں پہلی مرتبہ بتایا کہ چڑیلوں کے پاؤں اُلٹے ہوتے ہیں۔ جہاں کسی کی نظر ان کے پاؤں پر پڑی سمجھو کہ اس کا تو کام تمام ہوگیا۔ وہ رات ہم نے بہت ڈرتے ہوئے گزاری۔ ہر لمحہ خیال ہوتا تھا کہ کہیں سے کوئی چڑیل نمودار ہوجائے گی اور ہمیں نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے پیروں کی جانب دیکھنا ہوگا۔ خدا خدا کرکے نیند آئی۔

وہ دن اور آج کا دن، کسی فلم کے ہیرو کی طرح ہم بھی چڑیلوں کےپیروں اور ان میں پہنے ہوئے جوتوں کے مداح ہیں۔ اُن کے رکھ رکھاؤ کا اندازہ ان کے پیروں میں پہنے ہوئے جوتوں اور سینڈلوں سے کرتے ہی ۔

چڑیلوں کے قصے آج بھی رات کے وقت لوڈ شیڈنگ کے اندھیرے میں کافی ہیبت طاری کر دیتے ہیں۔ اس کا انحصار البتہ قصہ گو کی صلاحیت پر ہے کہ کتنی ہیبت طاری کی جا سکتی ہے۔ :) اس کی ذیل میں ایک مختصر سا قصہ ہر مرتبہ پرہیبت ثابت ہوتا ہے۔ قصہ یہ ہے کہ ایک آدمی ملتان کے پاس ایک گاؤں میں رات کے وقت جا رہا تھا کہ اسے ایک عورت نظر آئی۔ وہ عورت اس کے قریب آگر کوئی بات پوچھنے لگی تو یکبارگی اس شخص کی اس عورت کے پیروں پر نظر پڑی۔ اس کے پیر الٹے تھے۔ وہ آدمی غش کھا کر گر پڑا۔ جب اسے ہوش آیا تو وہ عورت غائب تھی۔ وہ بھاگا بھاگا گاؤں کی طرف دوڑا۔ رستے میں کسی خاتون نے پوچھا ارے کیا ہوگیا کہاں بھاگے جا رہے۔ اس آدمی نے ہانپتے ہوئے بتایا کہ اسے رستے میں ایک عورت نظر آئی تھی جس کے پاؤں الٹے تھے۔ اس خاتون نے اپنے پاؤں کی طرف اشارہ کرکے کہا کیا ایسے پاؤں تھے؟ وہ آدمی دوبارہ بے ہوش ہو گیا، اور نہ جانے کب تک بے ہوش رہا۔ :)
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
گھر کی منڈیر پر کوا بیٹھے تو مہمان آتے ہیں۔
ایک مرتبہ ہماری منڈیر پر کوا بیٹھا اور مہمان بھی آئے ۔
یقین پھر بھی نہ آیا ۔ :) ۔ ۔ ۔
 

م حمزہ

محفلین
بائیں آنکھ پھڑکنے سے بھی کچھ ہوتا تھا
کوئی بہن یا بھائی بتا دیں
میرے ساتھ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ میں سکول سے سیدھا گھر آنے کی بجائے کرکٹ کھیلنے جاتا تھا۔ پھر اگر دائیں آنکھ پھڑکتی تو اس کا مطلب میں یہی لیتا کہ والد صاحب کو پتہ نہیں چلا۔ لیکن اگر بائیں آنکھ پھڑکتی تو لازمی طور اس شام مجھے ان سے بہت زیادہ ڈانٹ کھانی پڑتی ۔ حد تو یہ ہے کہ میری والدہ بھی ان کی ہی طرف دار ہوتی تھی۔ شومئی قسمت، اکثر بائیں آنکھ ہی پھڑکتی تھی۔
 

الف نظامی

لائبریرین
ہائے۔۔۔ جس نے کی ہو شباب میں توبہ۔۔۔ اب اس کو یوں کر دیتے ہیں کہ جس نے گزارا ہو بچپن سنجیدہ۔۔ ویسے ہمارا حال تو بقول انور مسعود
عجیب لطف تھا نادانیوں کے عالم میں
سمجھ میں آئیں تو باتوں کا وہ مزہ بھی گیا
بہت خوب !
 
اس موضوع پر اشتیاق احمد کا ایک ناول بھی پڑھا تھا۔ غالبا شوکی سیریز کا ناول تھا۔:)
اس میں ملک دشمن عناصر چھوٹی موٹی وارداتوں کے لیے ایسی ہی ٹارچ استعمال کرتے تھے جبکہ پورے شہر کو قابو کرنے کے لیے شہر کے باہر ایک ایسا ستون بنایا ہوتا ہے جو دن میں بھی سارے شہر میں گھپ اندھیرا کردیتا ہے۔ اس اندھیرے میں دیکھنے کے لیے ان کے پاس خاص چشمے ہوتے ہیں، یعنی اپنے پاس آنکھیں رکھ کر سارے شہر کو اندھا کردیتے تھے۔:)
اس سے ملتے جلتے آئیڈیے پر مشتمل ایک ناول مظہر کلیم ایم اے نے بھی لکھا تھا لیکن وہاں اندھیرے کے بجائے دھند کو ہتھیار بنایا گیا تھا۔:)
دھند کا آئیڈیا اندھیرے سے بہتر ہے۔
 
اس لڑی میں لکھنے کے لیے بہت مواد ہے۔ کسی روز وقت نکالیں گے۔
میرا یقین تھا کہ "ریل کی پٹری پر سکہ رکھنے سے، ریل کے گزرنے پر وہ مقناطیس بن جاتا ہے!"
مقناطیس کے علاوہ یہ بھی یقین تھا کہ ٹیڈی پیسہ یا دس پیسہ رکھیں گے تو وہ روپیہ بن جائے گا۔ میں نے زیادہ نہیں تو نو دس بار اس چمتکار کے لیے کوشش کی ہو گی لیکن ٹرین گزر جانے کے بعد صرف ایک بار ہی سکہ مل سکا جو پہچانا بھی نہیں جاتا تھا۔
 
Top