بے پر کی

ماہی احمد

لائبریرین
ابو ظاہر ابو باطن سے گویا ہوا :
"حضور قبلہ عالم! ہم بندگانِ نفس، کشتگانِ حرص و ہوس آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے ہیں ، کہ اُس آزار اور اِ ن امراض ...........دونوں کا علاج پائیں "
ابو باطن نے کہا:
"یا اباظاہر!! دونوں کا علاج ایک ہی ہے ..............صرف ایک "
وہ کیا؟
کند ذہن ، خطا نے تیرے حواس کو مختل اور بصیرت کو مثل ایک نومولود کے کر دیا ہے .............تو ڈھونڈتا اِسے ہے اور "تلاش"اُس کی کرتا ہے.......تیری ہنسی میں خلا ہے اور گریہ محض آبِ عُجلت ..........تیرا نام صرف "نام"سے عبارت اور عبارت بس چار حرف...........ترے کلام سے سکوت بہتر اور سکوت سے بہتوں کا کلام..........تیرا قدم اُدھر اُٹھتا نہیں، جدھر کا تو ارادہ کرے .....تو جسے سننا چاہے، اُسے اذنِ گویائی کیونکر ملے........اور جنہیں تم سنتے ہو، وہ بولتے ہی کیا ہیں ،سوا شور کے.........جہات میں تم قید ہو اور ذائقے کے اسیر.......محبت کیا کرو گے کہ وحشت کے بھی حقدار نہ ہو.....لامتناہی ہونا چاہتے ہواور چوتھی کھونٹ جانے کا حوصلہ تم میں نہیں .......لفظ کو غلام کرنے کی خواہش باطل ہے اور تم اُس کے پیامبر..........اُٹھ یہاں سے .......میری نگاہوں سے دور ہو..... کہیں ............
ابو ظاہر رو دیا .............اُٹھا، گھاٹی کے اِس پار سواری پہ آن بیٹھا ...........پانی اُس کی آنکھوں سے اُبلتا تھا اور ارادے پھر سے بننے ٹوٹنے لگے تھے........
چوتھی کھونٹ جانے کا ارادہ ایک بار پھر سے اُس کے دل میں پختہ ہو چلا تھا.............اُس نے ابو معین کو یاد کیا، جو شعر کہتا تھا ......موت کو جو یوں پکارتا تھا، جیسے شیرخوار شفیق ماں کو........سنگ سے گلاب کھلانے اور قیدِ جسد سے آزاد ہو جانے والا ابو معین.............
ابو ظاہر نے شاہ زادی کو یاد کیا ...... جس کے جسم و روح کو ایک سائے نے اپنی گرفت میں لیا ........پھر دوسرے سائے نے.......یہاں تک کہ وہ خود سائے میں ڈھل گئی ........وہ بھی تلاش میں تھی.......کس کی!!.............شاہ زادی کو خود بھی اس کی خبر نہ تھی...........
ابو ظاہر .................ابو باطن اور صحرا دونوں سے مایوس تھا.............ابو ظاہر .............ابو باطن اور صحرا دونوں سے مایوس ہے
افففف بہت خوب!
لیکن ایک بات بتائیں، یہ بے پرکی تهی؟
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
ابو ظاہر ابو باطن سے گویا ہوا :
"حضور قبلہ عالم! ہم بندگانِ نفس، کشتگانِ حرص و ہوس آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے ہیں ، کہ اُس آزار اور اِ ن امراض ...........دونوں کا علاج پائیں "
ابو باطن نے کہا:
"یا اباظاہر!! دونوں کا علاج ایک ہی ہے ..............صرف ایک "
وہ کیا؟
کند ذہن ، خطا نے تیرے حواس کو مختل اور بصیرت کو مثل ایک نومولود کے کر دیا ہے .............تو ڈھونڈتا اِسے ہے اور "تلاش"اُس کی کرتا ہے.......تیری ہنسی میں خلا ہے اور گریہ محض آبِ عُجلت ..........تیرا نام صرف "نام"سے عبارت اور عبارت بس چار حرف...........ترے کلام سے سکوت بہتر اور سکوت سے بہتوں کا کلام..........تیرا قدم اُدھر اُٹھتا نہیں، جدھر کا تو ارادہ کرے .....تو جسے سننا چاہے، اُسے اذنِ گویائی کیونکر ملے........اور جنہیں تم سنتے ہو، وہ بولتے ہی کیا ہیں ،سوا شور کے.........جہات میں تم قید ہو اور ذائقے کے اسیر.......محبت کیا کرو گے کہ وحشت کے بھی حقدار نہ ہو.....لامتناہی ہونا چاہتے ہواور چوتھی کھونٹ جانے کا حوصلہ تم میں نہیں .......لفظ کو غلام کرنے کی خواہش باطل ہے اور تم اُس کے پیامبر..........اُٹھ یہاں سے .......میری نگاہوں سے دور ہو..... کہیں ............
ابو ظاہر رو دیا .............اُٹھا، گھاٹی کے اِس پار سواری پہ آن بیٹھا ...........پانی اُس کی آنکھوں سے اُبلتا تھا اور ارادے پھر سے بننے ٹوٹنے لگے تھے........
چوتھی کھونٹ جانے کا ارادہ ایک بار پھر سے اُس کے دل میں پختہ ہو چلا تھا.............اُس نے ابو معین کو یاد کیا، جو شعر کہتا تھا ......موت کو جو یوں پکارتا تھا، جیسے شیرخوار شفیق ماں کو........سنگ سے گلاب کھلانے اور قیدِ جسد سے آزاد ہو جانے والا ابو معین.............
ابو ظاہر نے شاہ زادی کو یاد کیا ...... جس کے جسم و روح کو ایک سائے نے اپنی گرفت میں لیا ........پھر دوسرے سائے نے.......یہاں تک کہ وہ خود سائے میں ڈھل گئی ........وہ بھی تلاش میں تھی.......کس کی!!.............شاہ زادی کو خود بھی اس کی خبر نہ تھی...........
ابو ظاہر .................ابو باطن اور صحرا دونوں سے مایوس تھا.............ابو ظاہر .............ابو باطن اور صحرا دونوں سے مایوس ہے
میرے بہت ہی پیارے فلک شیر بھائی ، سچ ہے کہ جو جتنا قیمتی ہوتا ہے، اتنا ہی کم یاب ہوتا ہے! آپ کی نشریات تحاریر گو کہ کم کم ہے مگر کمال ہے صاحب صد کمال ہے !! :) :)
مانا کہ آپ ایک عاجز انسان ہیں اور کثیف القابات سے کنارہ کرتے ہیں ،، اسی واسطے میں اب آپ کو ایسے الفاظ سے تنگ نہیں کرتا :) ۔۔۔ مگر یاد رہے ہماری ذاتی بیاض میں آپ ہمارے گرو ہیں جن سے ہمیں ہمیشہ بے بہا سیکھنے کو ملتا ہے ،،، تحریر گویا محض تراکیب کا جھرمٹ ہی نہیں بلکہ خزانہ ہوتا ہے ،، جزاک اللہ بھائی جان :) :) ،،،، اور !!!!
شکریہ ادی ۔
آپ کو کیا لگتا ہے، یہ بے سروپا باتیں "بے پرکی "کے علاوہ بھی کچھ ہو سکتی ہیں ؟ :)
یا اِس کو کسی اور زمرے میں ہونا چاہیے تھا آپ کے خیال میں ؟ :)

بالکل! یہ قطعاً بے پرکی نہیں ( کم از کم میرے حساب سے ) :) ،،، اور زمرے کا تعین میرے بس میں نہیں !! :p
 

ماہی احمد

لائبریرین
شکریہ ادی ۔
آپ کو کیا لگتا ہے، یہ بے سروپا باتیں "بے پرکی "کے علاوہ بھی کچھ ہو سکتی ہیں ؟ :)
یا اِس کو کسی اور زمرے میں ہونا چاہیے تھا آپ کے خیال میں ؟ :)
نو یہ بے پرکی نہیں۔ آپ اسے "آپ کی تحریریں" میں ڈال دیتے۔ :) بے سروپا باتیں تو کہیں سے نہیں لگتیں یہ تو خوب گہری گہری ہیں اور جهانک کر دیکهوں تو نیچے کہیں بہت خزانے پڑے لگتے ہیں۔۔۔ ویسے آپ کی تحریریں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ :)
 

فلک شیر

محفلین
میرے بہت ہی پیارے فلک شیر بھائی ، سچ ہے کہ جو جتنا قیمتی ہوتا ہے، اتنا ہی کم یاب ہوتا ہے! آپ کی نشریات تحاریر گو کہ کم کم ہے مگر کمال ہے صاحب صد کمال ہے !! :) :)
مانا کہ آپ ایک عاجز انسان ہیں اور کثیف القابات سے کنارہ کرتے ہیں ،، اسی واسطے میں اب آپ کو ایسے الفاظ سے تنگ نہیں کرتا :) ۔۔۔ مگر یاد رہے ہماری ذاتی بیاض میں آپ ہمارے گرو ہیں جن سے ہمیں ہمیشہ بے بہا سیکھنے کو ملتا ہے ،،، تحریر گویا محض تراکیب کا جھرمٹ ہی نہیں بلکہ خزانہ ہوتا ہے ،، جزاک اللہ بھائی جان :) :) ،،،، اور !!!
آپ کی عنایت ہے سید صاحب :)
 
ایک تھا راجہ۔۔۔ تھوڑا کرخت تھوڑا جلالی۔۔۔ رعب ایسا کہ مکھی کی مجال نہ ہو جو ناک پر بیٹھ جائے۔۔۔ تکبر ایسا کہ مجال ہے جو کسی نے راجہ کو بغیر شاہی پگڑی یا تاج کے دیکھا ہو۔۔۔ شاہی حجام ببن تک نے کبھی راجہ کو کھلے سر نہ دیکھا تھا۔۔۔ وہ ہر روز صبح دربار لگنے سے قبل راجہ کی مونچھ، داڑھی اور ناخنوں کی تراش خراش کر کے واپس آ جاتا۔ :) :) :)

ایک مدت بعد راجہ کے گھر پہلا بیٹا پیدا ہوا جس کے چلتے محل میں خوشیاں منائی جانے لگیں۔ چھٹی کے روز دھوم دھام سے جشن منایا جانا تھا جس میں ساری رعایا شامل ہونے والی تھی۔ علیٰ الصباح ببن حجام اپنا استرا، قینچی، اور ناخن تراش لے کر راجہ کے محل جا پہنچا کہ راجہ کی حجامت بنا دے۔ اس علاقے کے رواج کے مطابق چھٹی کے روز بچے کے باپ کو سر کے بال بھی ترشوانے ہوتے تھے، لہٰذا چار و نا چار اس روز راجہ کا سر ببن حجام کے سامنے کھلنے والا تھا۔ ببن حجام نے ڈرتے ڈرتے شاہی پگڑی کی تہوں کو کھولنا شروع کیا، حتیٰ کہ برسوں سے ناتراشیدہ مڑے تڑے بالوں کی جھلک نظر آنے لگی۔ اچانک یہ دیکھ کر تو ببن حجام کی آنکھیں مارے حیرت کے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کہ راجہ کے سر پر دو ننھی ننھی سینگیں اگی ہوئی تھیں۔ بے اختیار ببن حجام کے منہ سے نکلا، مائی باپ آپ کے سر پر تو سینگیں اگی ہوئی ہیں۔ راجہ نے ڈپٹ کر ببن حجام کو کہا کہ خبردار جو یہ بات کسی اور کو پتا چلی تو تمہارے پورے خاندان کو بھاڑ میں جھونک دیں گے۔ ببن حجام نے حیرت اور خوف کے مارے تھر تھر کانپتے ہوئے کسی طرح راجہ کی حجامت بنائی، راجہ کی شاہی پگڑی راجہ کے سر پر باندھی، اور اپنا ساز و سامان باندھ کر الٹے قدموں اپنے گھر لوٹا۔ :) :) :)

ببن حجام ہلکے پیٹ کا آدمی تھا جس کے پیٹ میں کوئی بات ہضم نہیں ہوتی تھی۔ اس پر ایسی حیرتناک بات بغیر کسی کو بتائے کہاں چین آنے والا تھا۔۔۔ دوسری جانب راجہ کی دھمکی کا خیال آتا تو کسی سے ذکر کرنے کی ہمت نہ ہوتی۔ یوں راز چھپانے کی کوشش میں ببن حجام کی بے چینی کا پارہ چڑھتا جا رہا تھا۔ بات چھپائے چھپائے ببن حجام کا پیٹ پھولنے لگا۔ پھولتے پھولتے جب پیٹ اتنا پھول گیا کہ ببن حجام کے لیے بات کو چھپائے رکھنا نا قابل برداشت ہو گیا تو اس نے شاہی جنگل کی راہ لی اور وہاں ایک صندل کے پیڑ سے مخاطب ہو کر کہا، "راجہ کے سر سینگ اگے۔۔۔ راجہ کے سر سینگ اگے!" اب چونکہ راز کی بات بتا دی اس لیے ببن حجام کا پیٹ پچکنے لگا اور تھوڑی دیر میں اس کو مکمل آرام مل گیا اور وہ گھر واپس آ گیا۔ :) :) :)

چھٹی کے جشن کے لیے سازندوں نے نئے ساز بنائے اور اس کے لیے انھوں نے شاہی جنگل سے صندل کا پیڑ کاٹ کر استعمال کیا۔ اتفاق سے یہ وہی پیڑ تھا جس کو ببن حجام نے راز کی بات بتائی تھی۔ سازندوں نے اس پیڑ کی لکڑی سے سارنگی بنائی، نقارہ بنایا، اور ڈھول بنائی۔ جشن کے وقت سارے سازندے جمع ہوئے اور مدھم سروں میں شروعات کی۔ :) :) :)

سب سے پہلے سارنگی نے تان کھینچی اور یوں گویا ہوا: چووووں چووووں۔۔۔ کووووں کووووں۔۔۔ چووووں کووووں۔۔۔ راجہ کے سر سینگ اگے۔۔۔ راجہ کے سر سینگ اگے۔۔۔ کووووں چووووں! :) :) :)

اس پر نقارے نے سوال کیا: کڑرک کٹک۔۔۔ کڑرک کٹک۔۔۔ کٹک کٹک۔۔۔ کنّے کہا۔۔۔ کڑرک کٹک۔۔۔ کس نے کہا۔۔۔ کڑرک کٹک۔۔۔ کٹک کٹک! :) :) :)

تب تک ڈھول نے پول کھول دیا: بم بم بم۔۔۔ بم چک بم چک بم۔۔۔ بم بم بم۔۔۔ ببن حجام کہا۔۔۔ ببن حجام کہا۔۔۔ بم چک بم چک بم۔۔۔ بم بم بم! :) :) :)

یہ بات ساری رعایا کو پتا چل گئی کہ راجہ سر پر ہمیشہ شاہی پگڑی یا تاج کیوں جمائے رکھتا ہے اور ببن حجام کے پورے خاندان کو بھاڑ میں جھونک دیا گیا۔۔۔ قصہ ختم پیسہ ہضم! :) :) :)

اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ پیڑوں کے بھی کان ہوتے ہیں اور راز کی بات کو راز نہ رکھنے پر خاندان بھاڑ میں جھونکا جا سکتا ہے۔ :) :) :)
 

غدیر زھرا

لائبریرین
اس کہانی سے یہ بھی سبق ملتا ہے کہ پیڑوں کے نہ صرف کان ہوتے ہیں بلکہ زبان بھی ہوتی ہے :)
ویسے سمائلز کو تو قاری پر چھوڑ دیا کریں کہ آیا وہ وہاں اس بات پر دینا چاہتا بھی ہے یا نہٰیں :)
ویسے بچو "راز کی بات" ہم اس سے تو زیادہ ہی مسکرائے جتنی مسکانیں آپ نے دیں :)
یہ عقدہ بھی کھول دیتے کہ سینگ کیوں تھے ؟ :)
 
آخری تدوین:

ماہی احمد

لائبریرین
ایک تھا راجہ۔۔۔ تھوڑا کرخت تھوڑا جلالی۔۔۔ رعب ایسا کہ مکھی کی مجال نہ ہو جو ناک پر بیٹھ جائے۔۔۔ تکبر ایسا کہ مجال ہے جو کسی نے راجہ کو بغیر شاہی پگڑی یا تاج کے دیکھا ہو۔۔۔ شاہی حجام ببن تک نے کبھی راجہ کو کھلے سر نہ دیکھا تھا۔۔۔ وہ ہر روز صبح دربار لگنے سے قبل راجہ کی مونچھ، داڑھی اور ناخنوں کی تراش خراش کر کے واپس آ جاتا۔ :) :) :)

ایک مدت بعد راجہ کے گھر پہلا بیٹا پیدا ہوا جس کے چلتے محل میں خوشیاں منائی جانے لگیں۔ چھٹی کے روز دھوم دھام سے جشن منایا جانا تھا جس میں ساری رعایا شامل ہونے والی تھی۔ علیٰ الصباح ببن حجام اپنا استرا، قینچی، اور ناخن تراش لے کر راجہ کے محل جا پہنچا کہ راجہ کی حجامت بنا دے۔ اس علاقے کے رواج کے مطابق چھٹی کے روز بچے کے باپ کو سر کے بال بھی ترشوانے ہوتے تھے، لہٰذا چار و نا چار اس روز راجہ کا سر ببن حجام کے سامنے کھلنے والا تھا۔ ببن حجام نے ڈرتے ڈرتے شاہی پگڑی کی تہوں کو کھولنا شروع کیا، حتیٰ کہ برسوں سے ناتراشیدہ مڑے تڑے بالوں کی جھلک نظر آنے لگی۔ اچانک یہ دیکھ کر تو ببن حجام کی آنکھیں مارے حیرت کے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کہ راجہ کے سر پر دو ننھی ننھی سینگیں اگی ہوئی تھیں۔ بے اختیار ببن حجام کے منہ سے نکلا، مائی باپ آپ کے سر پر تو سینگیں اگی ہوئی ہیں۔ راجہ نے ڈپٹ کر ببن حجام کو کہا کہ خبردار جو یہ بات کسی اور کو پتا چلی تو تمہارے پورے خاندان کو بھاڑ میں جھونک دیں گے۔ ببن حجام نے حیرت اور خوف کے مارے تھر تھر کانپتے ہوئے کسی طرح راجہ کی حجامت بنائی، راجہ کی شاہی پگڑی راجہ کے سر پر باندھی، اور اپنا ساز و سامان باندھ کر الٹے قدموں اپنے گھر لوٹا۔ :) :) :)

ببن حجام ہلکے پیٹ کا آدمی تھا جس کے پیٹ میں کوئی بات ہضم نہیں ہوتی تھی۔ اس پر ایسی حیرتناک بات بغیر کسی کو بتائے کہاں چین آنے والا تھا۔۔۔ دوسری جانب راجہ کی دھمکی کا خیال آتا تو کسی سے ذکر کرنے کی ہمت نہ ہوتی۔ یوں راز چھپانے کی کوشش میں ببن حجام کی بے چینی کا پارہ چڑھتا جا رہا تھا۔ بات چھپائے چھپائے ببن حجام کا پیٹ پھولنے لگا۔ پھولتے پھولتے جب پیٹ اتنا پھول گیا کہ ببن حجام کے لیے بات کو چھپائے رکھنا نا قابل برداشت ہو گیا تو اس نے شاہی جنگل کی راہ لی اور وہاں ایک صندل کے پیڑ سے مخاطب ہو کر کہا، "راجہ کر سر سینگ اگے۔۔۔ راجہ کے سر سینگ اگے!" اب چونکہ راز کی بات بتا دی اس لیے ببن حجام کا پیٹ پچکنے لگا اور تھوڑی دیر میں اس کو مکمل آرام مل گیا اور وہ گھر واپس آ گیا۔ :) :) :)

چھٹی کے جشن کے لیے سازندوں نے نئے ساز بنائے اور اس کے لیے انھوں نے شاہی جنگل سے صندل کا پیڑ کاٹ کر استعمال کیا۔ اتفاق سے یہ وہی پیڑ تھا جس کو ببن حجام نے راز کی بات بتائی تھی۔ سازندوں نے اس پیڑ کی لکڑی سے سارنگی بنائی، نقارہ بنایا، اور ڈھول بنائی۔ جشن کے وقت سارے سازندے جمع ہوئے اور مدھم سروں میں شروعات کی۔ :) :) :)

سب سے پہلے سارنگی نے تان کھینچی اور یوں گویا ہوا: چووووں چووووں۔۔۔ کووووں کووووں۔۔۔ چووووں کووووں۔۔۔ راجہ کے سر سینگ اگے۔۔۔ راجہ کے سر سینگ اگے۔۔۔ کووووں چووووں! :) :) :)

اس پر نقارے نے سوال کیا: کڑرک کٹک۔۔۔ کڑرک کٹک۔۔۔ کٹک کٹک۔۔۔ کنّے کہا۔۔۔ کڑرک کٹک۔۔۔ کس نے کہا۔۔۔ کڑرک کٹک۔۔۔ کٹک کٹک! :) :) :)

تب تک ڈھول نے پول کھول دیا: بم بم بم۔۔۔ بم چک بم چک بم۔۔۔ بم بم بم۔۔۔ ببن حجام کہا۔۔۔ ببن حجام کہا۔۔۔ بم چک بم چک بم۔۔۔ بم بم بم! :) :) :)

یہ بات ساری رعایا کو پتا چل گئی کہ راجہ سر پر ہمیشہ شاہی پگڑی یا تاج کیوں جمائے رکھتا ہے اور ببن حجام کے پورے خاندان کو بھاڑ میں جھونک دیا گیا۔۔۔ قصہ ختم پیسہ ہضم! :) :) :)

اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ پیڑوں کے بھی کان ہوتے ہیں اور راز کی بات کو راز نہ رکھنے پر خاندان بھاڑ میں جھونکا جا سکتا ہے۔ :) :) :)
ہمیں یہ کہانی جب سنائی گئی تھی تب تو راجہ کے کان گدھے کے کانوں جیسے تھے۔ :cool:
خیر
سبق تو پھر بھی یہی رہا :p
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ایک تھا راجہ۔۔۔ تھوڑا کرخت تھوڑا جلالی۔۔۔ رعب ایسا کہ مکھی کی مجال نہ ہو جو ناک پر بیٹھ جائے۔۔۔ تکبر ایسا کہ مجال ہے جو کسی نے راجہ کو بغیر شاہی پگڑی یا تاج کے دیکھا ہو۔۔۔ شاہی حجام ببن تک نے کبھی راجہ کو کھلے سر نہ دیکھا تھا۔۔۔ وہ ہر روز صبح دربار لگنے سے قبل راجہ کی مونچھ، داڑھی اور ناخنوں کی تراش خراش کر کے واپس آ جاتا۔ :) :) :)

ایک مدت بعد راجہ کے گھر پہلا بیٹا پیدا ہوا جس کے چلتے محل میں خوشیاں منائی جانے لگیں۔ چھٹی کے روز دھوم دھام سے جشن منایا جانا تھا جس میں ساری رعایا شامل ہونے والی تھی۔ علیٰ الصباح ببن حجام اپنا استرا، قینچی، اور ناخن تراش لے کر راجہ کے محل جا پہنچا کہ راجہ کی حجامت بنا دے۔ اس علاقے کے رواج کے مطابق چھٹی کے روز بچے کے باپ کو سر کے بال بھی ترشوانے ہوتے تھے، لہٰذا چار و نا چار اس روز راجہ کا سر ببن حجام کے سامنے کھلنے والا تھا۔ ببن حجام نے ڈرتے ڈرتے شاہی پگڑی کی تہوں کو کھولنا شروع کیا، حتیٰ کہ برسوں سے ناتراشیدہ مڑے تڑے بالوں کی جھلک نظر آنے لگی۔ اچانک یہ دیکھ کر تو ببن حجام کی آنکھیں مارے حیرت کے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کہ راجہ کے سر پر دو ننھی ننھی سینگیں اگی ہوئی تھیں۔ بے اختیار ببن حجام کے منہ سے نکلا، مائی باپ آپ کے سر پر تو سینگیں اگی ہوئی ہیں۔ راجہ نے ڈپٹ کر ببن حجام کو کہا کہ خبردار جو یہ بات کسی اور کو پتا چلی تو تمہارے پورے خاندان کو بھاڑ میں جھونک دیں گے۔ ببن حجام نے حیرت اور خوف کے مارے تھر تھر کانپتے ہوئے کسی طرح راجہ کی حجامت بنائی، راجہ کی شاہی پگڑی راجہ کے سر پر باندھی، اور اپنا ساز و سامان باندھ کر الٹے قدموں اپنے گھر لوٹا۔ :) :) :)

ببن حجام ہلکے پیٹ کا آدمی تھا جس کے پیٹ میں کوئی بات ہضم نہیں ہوتی تھی۔ اس پر ایسی حیرتناک بات بغیر کسی کو بتائے کہاں چین آنے والا تھا۔۔۔ دوسری جانب راجہ کی دھمکی کا خیال آتا تو کسی سے ذکر کرنے کی ہمت نہ ہوتی۔ یوں راز چھپانے کی کوشش میں ببن حجام کی بے چینی کا پارہ چڑھتا جا رہا تھا۔ بات چھپائے چھپائے ببن حجام کا پیٹ پھولنے لگا۔ پھولتے پھولتے جب پیٹ اتنا پھول گیا کہ ببن حجام کے لیے بات کو چھپائے رکھنا نا قابل برداشت ہو گیا تو اس نے شاہی جنگل کی راہ لی اور وہاں ایک صندل کے پیڑ سے مخاطب ہو کر کہا، "راجہ کر سر سینگ اگے۔۔۔ راجہ کے سر سینگ اگے!" اب چونکہ راز کی بات بتا دی اس لیے ببن حجام کا پیٹ پچکنے لگا اور تھوڑی دیر میں اس کو مکمل آرام مل گیا اور وہ گھر واپس آ گیا۔ :) :) :)

چھٹی کے جشن کے لیے سازندوں نے نئے ساز بنائے اور اس کے لیے انھوں نے شاہی جنگل سے صندل کا پیڑ کاٹ کر استعمال کیا۔ اتفاق سے یہ وہی پیڑ تھا جس کو ببن حجام نے راز کی بات بتائی تھی۔ سازندوں نے اس پیڑ کی لکڑی سے سارنگی بنائی، نقارہ بنایا، اور ڈھول بنائی۔ جشن کے وقت سارے سازندے جمع ہوئے اور مدھم سروں میں شروعات کی۔ :) :) :)

سب سے پہلے سارنگی نے تان کھینچی اور یوں گویا ہوا: چووووں چووووں۔۔۔ کووووں کووووں۔۔۔ چووووں کووووں۔۔۔ راجہ کے سر سینگ اگے۔۔۔ راجہ کے سر سینگ اگے۔۔۔ کووووں چووووں! :) :) :)

اس پر نقارے نے سوال کیا: کڑرک کٹک۔۔۔ کڑرک کٹک۔۔۔ کٹک کٹک۔۔۔ کنّے کہا۔۔۔ کڑرک کٹک۔۔۔ کس نے کہا۔۔۔ کڑرک کٹک۔۔۔ کٹک کٹک! :) :) :)

تب تک ڈھول نے پول کھول دیا: بم بم بم۔۔۔ بم چک بم چک بم۔۔۔ بم بم بم۔۔۔ ببن حجام کہا۔۔۔ ببن حجام کہا۔۔۔ بم چک بم چک بم۔۔۔ بم بم بم! :) :) :)

یہ بات ساری رعایا کو پتا چل گئی کہ راجہ سر پر ہمیشہ شاہی پگڑی یا تاج کیوں جمائے رکھتا ہے اور ببن حجام کے پورے خاندان کو بھاڑ میں جھونک دیا گیا۔۔۔ قصہ ختم پیسہ ہضم! :) :) :)

اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ پیڑوں کے بھی کان ہوتے ہیں اور راز کی بات کو راز نہ رکھنے پر خاندان بھاڑ میں جھونکا جا سکتا ہے۔ :) :) :)
سعود بھائی اجازت ہو تو ۔۔۔۔۔۔۔۔
 
اس کہانی سے یہ بھی سبق ملتا ہے کہ پیڑوں کے نہ صرف کان ہوتے ہیں بلکہ زبان بھی ہوتی ہے :)
ویسے تو پیڑ توتلے ہوتے ہیں لیکن ان سے ساز بنا لیا جائے تو زبان ہی زبان ہوتی ہے۔ :) :) :)
ویسے سمائلز کو تو قاری پر چھوڑ دیا کریں کہ آیا وہ وہاں اس بات پر دینا چاہتا بھی ہے یا نہٰیں :)
اچھا بچو جی! تاکہ آپ جیسی مسکانچیوں کی بہار آ جائے۔ :) :) :)
ویسے بچو "راز کی بات" ہم اس سے تو زیادہ ہی مسکرائے جتنی مسکانیں آپ نے دیں :)
امی جان سے شکایت لگا دیں گے کہ ببن حجام کا خاندان بھاڑ میں جھونک دیا گیا اور کچھ لوگ پھر بھی مسکرا رہے تھے۔ :) :) :)
یہ عقدہ بھی کھول دیتے کہ سینگ کیوں تھے ؟ :)
اگر یہ عقدہ پگڑی کی طرح آسانی سے کھل جاتا تو ببن حجام کا پیٹ کیوں پھولتا؟ :) :) :)
 
Top