ماہی احمد
لائبریرین
افففف بہت خوب!ابو ظاہر ابو باطن سے گویا ہوا :
"حضور قبلہ عالم! ہم بندگانِ نفس، کشتگانِ حرص و ہوس آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے ہیں ، کہ اُس آزار اور اِ ن امراض ...........دونوں کا علاج پائیں "
ابو باطن نے کہا:
"یا اباظاہر!! دونوں کا علاج ایک ہی ہے ..............صرف ایک "
وہ کیا؟
کند ذہن ، خطا نے تیرے حواس کو مختل اور بصیرت کو مثل ایک نومولود کے کر دیا ہے .............تو ڈھونڈتا اِسے ہے اور "تلاش"اُس کی کرتا ہے.......تیری ہنسی میں خلا ہے اور گریہ محض آبِ عُجلت ..........تیرا نام صرف "نام"سے عبارت اور عبارت بس چار حرف...........ترے کلام سے سکوت بہتر اور سکوت سے بہتوں کا کلام..........تیرا قدم اُدھر اُٹھتا نہیں، جدھر کا تو ارادہ کرے .....تو جسے سننا چاہے، اُسے اذنِ گویائی کیونکر ملے........اور جنہیں تم سنتے ہو، وہ بولتے ہی کیا ہیں ،سوا شور کے.........جہات میں تم قید ہو اور ذائقے کے اسیر.......محبت کیا کرو گے کہ وحشت کے بھی حقدار نہ ہو.....لامتناہی ہونا چاہتے ہواور چوتھی کھونٹ جانے کا حوصلہ تم میں نہیں .......لفظ کو غلام کرنے کی خواہش باطل ہے اور تم اُس کے پیامبر..........اُٹھ یہاں سے .......میری نگاہوں سے دور ہو..... کہیں ............
ابو ظاہر رو دیا .............اُٹھا، گھاٹی کے اِس پار سواری پہ آن بیٹھا ...........پانی اُس کی آنکھوں سے اُبلتا تھا اور ارادے پھر سے بننے ٹوٹنے لگے تھے........
چوتھی کھونٹ جانے کا ارادہ ایک بار پھر سے اُس کے دل میں پختہ ہو چلا تھا.............اُس نے ابو معین کو یاد کیا، جو شعر کہتا تھا ......موت کو جو یوں پکارتا تھا، جیسے شیرخوار شفیق ماں کو........سنگ سے گلاب کھلانے اور قیدِ جسد سے آزاد ہو جانے والا ابو معین.............
ابو ظاہر نے شاہ زادی کو یاد کیا ...... جس کے جسم و روح کو ایک سائے نے اپنی گرفت میں لیا ........پھر دوسرے سائے نے.......یہاں تک کہ وہ خود سائے میں ڈھل گئی ........وہ بھی تلاش میں تھی.......کس کی!!.............شاہ زادی کو خود بھی اس کی خبر نہ تھی...........
ابو ظاہر .................ابو باطن اور صحرا دونوں سے مایوس تھا.............ابو ظاہر .............ابو باطن اور صحرا دونوں سے مایوس ہے
لیکن ایک بات بتائیں، یہ بے پرکی تهی؟