بے پر کی

انسان کی تلاش!

آیئے آج آپ کو انسان کی تعریف بتاتا ہوں۔

انسان نام ہے ایسی چڑیا کا ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔ (نہیں خیر چڑیا تو نہیں)
انسان نام ہے ایسے جانور کا ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔ (نہیں کچھ تو فرق ہوگا انسان اور جانور میں)
انسان نام ہے ایسے ذی روح کا ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔ (نہیں بے جان بھی تو ہو سکتا ہے)
پھر شاید
انسان نام ہے ۔۔۔۔ ایسی ۔۔۔ چیز کا ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔ (نہیں یہ بھی نہیں کبھی کبھی نا چیز بھی تو ہوتا ہے)
پھر ۔۔۔۔ پھر ۔۔۔۔ پھر ۔۔۔۔
انسان نام ہے۔۔۔۔۔۔ نام ہے ۔۔۔۔

چلو کسی انسان سے پوچھتے ہیں۔ :)
فرشتوں سے بہتر ہے انساں ہونا ٌ مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ
 
کھانا

"کھانا" اسم بھی ہے اور مصدر بھی۔۔۔ (اور اگر "کھا۔۔۔ نا" کہہ دیا جائے تو امر بالتاکید بھی ہے)
اسی لئے کہا جاتا ہے کی "ابھی مجھے کھانا کھانا ہے"۔

کچھ کھانے کے لئے جیتے ہیں کچھ جینے کے لئے کھاتے ہیں، جبکہ کچھ تو خانہ پری کے لئے کھاتے ہیں۔
بہتیرے کھانوں کی کھدائی کرتے ہیں تاکہ کھانے کے لئے کھانا پا سکیں۔
ویسے کھانے کئی اقسام کے ہوتے ہیں، اور کھانے والوں کی قسمیں اور بھی کثرت سے پائی جاتی ہیں۔
مثلاً ایک کھانا تو وہ ہوتا ہے جو بھوک کو مٹاتا ہے، توانائی اور تندرستی کا باعث ہوتا ہے۔
جبکہ کچھ لوگ ایسی چیزیں کھاتے ہیں جنکے کھانے سے روزہ بھی نہیں ٹوٹتا مثلاً جوتا، مار، گالیاں وغیرہ وغیرہ۔
حتیٰ کہ ان چیزوں کے کھانے کے بعد آدمی کے پاس جو لازمی شئے ہوتی ہے (جو کہ یقیناً غصہ ہے بشرطیکہ لب انتہائی شیریں نا ہوں) اسے پی جانے سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا۔

ویسے اس تبصرے سے کہیں آپ یہ مفہوم نہ اخذ کر لیں کہ روزہ بہت مضبوط شئے ہے جو ان جھٹکوں کو برداشت کر سکتا ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ چیزیں اتنی لطیف اور زود ہضم ہوتی ہیں کہ روزہ متاثر ہونے سے قبل ہی ہضم (زائل) ہو جاتی ہیں، اور جنھیں ہضم نہیں ہوتیں وہ جواباً گالیاں دے کر اپنا روزہ توڑ بیٹھتے ہیں۔

کچھ معاملات میں یہ دیکھا گیا ہے کہ کھانے کی مقدار سے زیادہ کہنے کا انداز اسکی کثرت کو ظاہر کرتا ہے، مثلاً
"باپ رے! کمبخت پوری کی پوری ایک چپاتی کھا گئی اور ایک میں بیچارہ ہوں کہ پانچ تندوریاں، تین پراٹھے اور تھوڑی سی بریانی کھا کے سنت کے مطابق خالی پیٹ دسترخوان سے اٹھ گیا۔"

کہتے ہیں کی الگ الگ کھانے انسانی بدن کے مختلف حصوں پر مختلف انداز سے اثر انداز ہوتے ہیں، چنانچہ سود خوروں کے بارے میں بتایا جاتا ہے کی انکی توند بہت تیزی سے باہر نکلتی ہے (پر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہر صاحب توند کو سود خور سمجھا جائے)۔ منطق کی اصطلاح میں "عموم خصوص مطلق" سمجھ لیجئے کہ ہر لڈو مٹھائی ہوتا ہے پر ہر مٹھائی لڈو نہیں۔

کھانا کہا کر کام ہے سب کا۔
شکر کریں سب اپنے رب کا۔
یہ تو کافی پردار ہوگئی، بے پر کی تو وہ جو الیکشنوں میں سیاستدان اڑاتے ہیں۔ اور جیتنے کے بعد اعتراف بھی کر لیتے کر لیتے ہیں وہ تو بے پر کی اڑائی تھی(جوش خطابت تھا)
 

غدیر زھرا

لائبریرین
ویسے تو پیڑ توتلے ہوتے ہیں لیکن ان سے ساز بنا لیا جائے تو زبان ہی زبان ہوتی ہے۔ :) :) :)

اچھا بچو جی! تاکہ آپ جیسی مسکانچیوں کی بہار آ جائے۔ :) :) :)

امی جان سے شکایت لگا دیں گے کہ ببن حجام کا خاندان بھاڑ میں جھونک دیا گیا اور کچھ لوگ پھر بھی مسکرا رہے تھے۔ :) :) :)

اگر یہ عقدہ پگڑی کی طرح آسانی سے کھل جاتا تو ببن حجام کا پیٹ کیوں پھولتا؟ :) :) :)
میں بھی کہہ دوں گی آنٹی یہ پہلے خود مسکرائے تھے :) اور شکایت کرنے پر الٹا آپ سے ہی باز پرس ہو سکتی ہے بچو :)
ویسے سچی عقدہ کھل جاتا ناں کوئی نیا ٹوسٹ آ جاتا کہانی میں :)
 
میں بھی کہہ دوں گی آنٹی یہ پہلے خود مسکرائے تھے :) اور شکایت کرنے پر الٹا آپ سے ہی باز پرس ہو سکتی ہے بچو :)
ویسے سچی عقدہ کھل جاتا ناں کوئی نیا ٹوسٹ آ جاتا کہانی میں :)
تو پھر نئی ٹوئیسٹ کے ساتھ کہانی کا اگلا حصہ مسکانچی کی طرف سے! :) :) :)
 
یوں ہی بیٹھے بیٹھے ذہن پندرہ بیس برس ماضی میں جھانکنے چلا گیا۔ ایک بھولی بسری یاد تازہ ہو گئی۔۔۔ بھائی ہیں، ان کی دلاری سی بٹیا رانی ہیں، گاؤں کی فضا ہے اور فرط و انبساط کھیت کر رہی ہے۔ صبح کا وقت ہے جب بھیا ناشتہ کر کے سائیکل اٹھا کر گھر سے چند کیلو میٹر دور واقع قصبے میں اسکول جانے کو تیار ہو رہے ہیں۔ ابھی سائیکل کی سیٹ کے نیچے سے کپڑے کا ٹکڑا نکال کر سائیکل کو جھاڑ پونچھ ہی رہے تھے کہ ننھی سی بٹیا رانی نمودار ہوتی ہیں اور باہیں وا کیے بھیا کی جانب دوڑ پڑتی ہیں۔ گلابی، بینگنی و سفید رنگوں کے پھولوں والی فراک پہنے پری جیسی بٹیا اپنے بھیا کی گود میں سوار ہو کر کہتی ہیں کہ بھیا! آپ کالج جا رہے ہیں؟ جانے سے پہلے ہمیں یہاں ڈھیر سارا پیار کیجیے اور یہ کہتے ہوئے اپنی شہادت کی انگلی اپنی پیشانی پر رکھ دیتی ہیں۔ اس کے بعد بھیا کے کانوں کے پاس ہونٹ لا کر کہتی ہیں کہ بھیا جانی، آج کالج سے لوٹتے ہوئے ہمارے لیے جاگتی سوتی گڑیا لائیے گا۔ وہ والی گڑیا جس کو لٹا دیجیے تو آنکھیں خود بخود بند ہو جاتی ہیں اور کھڑی کرنے پر آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ وہ والی گڑیا جو ہم نے میلے میں دیکھی تھی۔ :) :) :)

دوپہر کا وقت ہے۔ لنچ کے لئے نصف گھنٹے کا وقفہ ہوتا ہے۔ بھیا اور ان کے دوست کالج کے میدان کے دوسری جانب موجود دوکانوں کی طرف کچھ کھانے کے لیے بڑھتے ہیں۔ یوں ہی بھائی کا ہاتھ جیب میں جاتا ہے تو احساس ہوتا ہے کہ آج تو جیب خالی ہے، گھر سے نکلتے ہوئے اس میں پیسے رکھنا بھول گئے ہوں گے۔ دوستوں سے بہانہ کرتے ہیں کہ ہم ذرا ایک کام نمٹا لیں، آپ لوگ چلیے۔ :) :) :)

سہ پہر کے بعد چھٹی ہوتی ہے، سبھی اپنی سائیکلیں سائیکل اسٹینڈ سے نکال کر گھر کو لوٹتے ہیں، بھیا بھی لوٹتے ہیں۔ آس پاس کی دوکانوں پر نظر پڑتی ہے، کتابوں کی دوکان، چاٹ کا ٹھیلا، حلوائی کی دوکان، چائے کا ڈھابہ، کریانے کی دوکان، پھلوں کا ٹھیلا، قصائی کی دوکان، پان کا ڈھابہ، ڈاکٹر کا دوا خانہ اور کھلونوں کی دوکان بھی۔ سائیکل چلاتے ہوئے یوں ہی نگاہ اس دوکان میں مطلوبہ کھلونے کی تلاش میں اٹھتی ہے اور ذہن جیب کی جانب متوجہ ہوتا ہے۔ قریب ہی دھول اڑاتی پرانی سی جیپ گزرتی ہے اور سارا منظر غبار آلود ہو جاتا ہے۔ کوئی نصف گھنٹے سائیکل چلا کر گھر پہنچتے ہیں اور باہر سے ہی آواز لگاتے ہوئے اندر داخل ہوتے ہیں کہ امی جان! کچھ کھانے کو دیجیے، بہت بھوک لگی ہے۔ ابھی سائیکل کو دیوار سے لگا کر کھڑا بھی نہیں کیا تھا کہ بٹیا رانی کہیں سے نمودار ہوتی ہیں اور بھیا سے لپٹ جاتی ہیں۔ بھیا انھیں سائکل کی سیٹ پر بٹھاتے ہیں اور پیار کرتے ہیں۔ ننھی سی پری پوچھتی ہیں کہ بھیا، ہماری گڑیا کہاں ہے؟ بھیا کہتے ہیں کہ بٹیا ابھی لے آتے ہیں، شاید دوکان پر ہی رہ گئی ہو۔ یہ کہہ کر گھر کے اندر جاتے ہیں، جیب میں کچھ پیسے رکھتے ہیں اور امی جان سے یہ کہتے ہوئے سائیکل اٹھا کر پھر قصبے کی جانب چل پڑتے ہیں کہ امی ابھی کھانا رہنے دیجیے، لوٹ کر کھائیں گے۔ :) :) :)

آفتاب غروب ہونے کو ہے جب کھلونے کی دوکان کے پاس پہنچتے ہیں۔ دوکان پر تالا لگا ہے، کچھ دیر وہیں انتظار کرتے ہیں کہ شاید دوکاندار کہیں آس پاس گیا ہو اور واپس آ جائے۔ بھیا کو وہاں کچھ دیر تک کھڑا دیکھ کر قریب موجود پنواڑی کی دوکان سے آواز آتی ہے، ارے بابو کیا دیکھ رہے ہیں؟ کھلونے والا تو دوکان بند کر کے گھر گیا، اب کل آئیے گا۔۔۔ بٹیا کا مایوس چہرہ دیکھنے کی تاب نہیں اس لیے بھیا گھر لوٹنے میں دانستہ تاخیر کرتے ہیں۔ اس روز بٹیا کو بھیا سے کہانی سننے کی آس میں ہی نیند آ گئی۔ دیر رات گئے بھیا گھر میں داخل ہوتے ہیں تو امی جان پریشان ہوتی ہیں۔ کہتی ہیں کہ جلدی سے کھانا کھا لو۔ نہیں امی، بازار میں دیر ہو گئی تھی تو وہیں کچھ کھا لیا تھا۔ امی کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس پگلے نے کچھ نہیں کھایا لیکن بٹیا کی وجہ سے کھائے گا بھی نہیں اس لیے خاموش رہتی ہیں۔ بھیا کپڑے تبدیل کر کے چپکے سے جا کر سوئی ہوئی پری کو خود سے لپٹا کر بھیگی آنکھوں کے ساتھ سو جاتے ہیں۔ :) :) :)

صبح کا وقت ہے، بٹیا رانی شاید اپنی فرمائش بھول چکی ہیں۔ بھیا ان کو پیار کرتے ہیں، جیب سے ٹافی نکال کر دیتے ہیں اور اسکول کے لیے جانے لگتے ہیں تو امی آواز دیتی ہیں کہ بیٹا ناشتہ تو کرتے جاؤ۔۔۔ نہیں امی، آج کالج جلدی جانا ہے اور دوپہر کے بعد چھٹی ہو جائے گی اس لیے جلدی لوٹ آئیں گے۔ راستے میں کچھ کھا لیں گے آپ فکر مت کیجیے۔ یہ کہتے ہوئے سائیکل پر بیٹھ کر یہ جا وہ جا۔ اتنی صبح صبح تو دوکانیں بھی نہیں کھلی تھیں، اور کھلونے والا تو ویسے بھی دیر سے دوکان کھولتا تھا۔ اسکول میں اس روز بھیا کا دل نہیں لگ رہا تھا۔ اساتذہ کیا آ کر پڑھا گئے کچھ بھی ہوش نہیں۔ اس روز شام میں کوئی کلاس نہیں تھی اس لیے لنچ کی چھٹی کے بعد گھر کی جانب لوٹے اور کھلونے کی دوکان پر جا کر سوتی جاگتی گڑیا کا پوچھا۔ دوکاندار نے کہا صاحب بس ایک عدد گڑیا بچی ہے، آپ کی قسمت ہے کہ آپ کو مل گئی ورنہ اب تو اگلے ہفتے شہر سے مال لانے جاتے تبھی ملتی۔ بھیا نے اسے کہا کہ جلدی سے اس گڑیا کو ہلکے گلابی رنگ کے پھولدار لفافے میں پیک کر دیجیے اور گہرے سیاہ رنگ کی پلاسٹک کی تھیلی میں رکھ دیجیے۔ :) :) :)

گھر پہنچے تو پایا کہ ان سے چند منٹ قبل ہی بٹیا بھی اپنے اسکول سے گھر پہنچی ہیں۔ بٹیا کی پیشانی پر گرمی کے باعث پسینے کے قطرے چمک رہے تھے اور ابھی اسکول کا ڈریس بھی تبدیل نہیں کیا تھا۔ بھیا کو دیکھ کر دوڑتی ہوئی آئیں اور سائیکل کے ہینڈل سے لٹکے تھیلے کو اتارنے کی کوشش کرنے لگیں۔ بھیا نے اپنی دلاری پری کو گود میں اٹھا کر کہا کہ یہ تھیلا ایسے نہیں ملنے والا بچو جی! پہلے آپ بھیا کو پیار کیجیے اور پھر چل کر بھیا کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائیے۔ اور آج بھیا بٹیا کو نوالے کھلائیں گے اور بٹیا اپنے بھیا کو۔ اس روز ننھی پری کے ہاتھوں سے کتنے نوالے کھائے اور ان میں اپنے آنسؤں کا کتنا نمک شامل کیا یہ تو یاد نہیں لیکن یہ ضرور یاد ہے کہ بٹیا کو کھانے سے زیادہ اس سیاہ تھیلے کو کھولنے میں دلچسپی ہو رہی تھی۔ :) :) :)

بھیا کی نگاہیں اس تھیلے پر نہیں تھی بلکہ اس چہرے پر جمی ہوئی تھیں جس کی ساری توجہ سیاہ تھیلے سے گلابی لفافہ نکالنے، اسے اوپر سے ٹٹول کر اندر کی چیز کا اندازہ لگانے، اور پھر اس کو کھول لینے پر مرکوز تھی۔۔۔ افف! وہ خوشی، وہ چہکار اور چہرے پر وہ دمک جس کے آگے صبح صبح شبنم میں بھیگے بیلا کے پھولوں کی تازگی بھی ماند پڑ جائے۔۔۔ اور پھر ایک بات اور یاد ہے۔۔۔ وہ رات بٹیا کے لیے بڑی الجھن بھری تھی۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ اپنی گڑیا کو اپنے پاس سلائیں یا بھیا سے لپٹ کر لیٹیں۔۔۔ درمیان میں گڑیا کو لٹاتیں تو لگتا کہ اب بھیا کے بازو پر سر رکھ کر اور بھیا کے سینے سے لگ کر کیسے سوئیں گی۔۔۔ خیر یہ ننھی پری کا مسئلہ تھا، ہمیں کیا!!! :) :) :)
 

ملائکہ

محفلین
یوں ہی بیٹھے بیٹھے ذہن پندرہ بیس برس ماضی میں جھانکنے چلا گیا۔ ایک بھولی بسری یاد تازہ ہو گئی۔۔۔ بھائی ہیں، ان کی دلاری سی بٹیا رانی ہیں، گاؤں کی فضا ہے اور فرط و انبساط کھیت کر رہی ہے۔ صبح کا وقت ہے جب بھیا ناشتہ کر کے سائیکل اٹھا کر گھر سے چند کیلو میٹر دور واقع قصبے میں اسکول جانے کو تیار ہو رہے ہیں۔ ابھی سائیکل کی سیٹ کے نیچے سے کپڑے کا ٹکڑا نکال کر سائیکل کو جھاڑ پونچھ ہی رہے تھے کہ ننھی سی بٹیا رانی نمودار ہوتی ہیں اور باہیں وا کیے بھیا کی جانب دوڑ پڑتی ہیں۔ گلابی، بینگنی و سفید رنگوں کے پھولوں والی فراک پہنے پری جیسی بٹیا اپنے بھیا کی گود میں سوار ہو کر کہتی ہیں کہ بھیا! آپ کالج جا رہے ہیں؟ جانے سے پہلے ہمیں یہاں ڈھیر سارا پیار کیجیے اور یہ کہتے ہوئے اپنی شہادت کی انگلی اپنی پیشانی پر رکھ دیتی ہیں۔ اس کے بعد بھیا کے کانوں کے پاس ہونٹ لا کر کہتی ہیں کہ بھیا جانی، آج کالج سے لوٹتے ہوئے ہمارے لیے جاگتی سوتی گڑیا لائیے گا۔ وہ والی گڑیا جس کو لٹا دیجیے تو آنکھیں خود بخود بند ہو جاتی ہیں اور کھڑی کرنے پر آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ وہ والی گڑیا جو ہم نے میلے میں دیکھی تھی۔ :) :) :)

دوپہر کا وقت ہے۔ لنچ کے لئے نصف گھنٹے کا وقفہ ہوتا ہے۔ بھیا اور ان کے دوست کالج کے میدان کے دوسری جانب موجود دوکانوں کی طرف کچھ کھانے کے لیے بڑھتے ہیں۔ یوں ہی بھائی کا ہاتھ جیب میں جاتا ہے تو احساس ہوتا ہے کہ آج تو جیب خالی ہے، گھر سے نکلتے ہوئے اس میں پیسے رکھنا بھول گئے ہوں گے۔ دوستوں سے بہانہ کرتے ہیں کہ ہم ذرا ایک کام نمٹا لیں، آپ لوگ چلیے۔ :) :) :)

سہ پہر کے بعد چھٹی ہوتی ہے، سبھی اپنی سائیکلیں سائیکل اسٹینڈ سے نکال کر گھر کو لوٹتے ہیں، بھیا بھی لوٹتے ہیں۔ آس پاس کی دوکانوں پر نظر پڑتی ہے، کتابوں کی دوکان، چاٹ کا ٹھیلا، حلوائی کی دوکان، چائے کا ڈھابہ، کریانے کی دوکان، پھلوں کا ٹھیلا، قصائی کی دوکان، پان کا ڈھابہ، ڈاکٹر کا دوا خانہ اور کھلونوں کی دوکان بھی۔ سائیکل چلاتے ہوئے یوں ہی نگاہ اس دوکان میں مطلوبہ کھلونے کی تلاش میں اٹھتی ہے اور ذہن جیب کی جانب متوجہ ہوتا ہے۔ قریب ہی دھول اڑاتی پرانی سی جیپ گزرتی ہے اور سارا منظر غبار آلود ہو جاتا ہے۔ کوئی نصف گھنٹے سائیکل چلا کر گھر پہنچتے ہیں اور باہر سے ہی آواز لگاتے ہوئے اندر داخل ہوتے ہیں کہ امی جان! کچھ کھانے کو دیجیے، بہت بھوک لگی ہے۔ ابھی سائیکل کو دیوار سے لگا کر کھڑا بھی نہیں کیا تھا کہ بٹیا رانی کہیں سے نمودار ہوتی ہیں اور بھیا سے لپٹ جاتی ہیں۔ بھیا انھیں سائکل کی سیٹ پر بٹھاتے ہیں اور پیار کرتے ہیں۔ ننھی سی پری پوچھتی ہیں کہ بھیا، ہماری گڑیا کہاں ہے؟ بھیا کہتے ہیں کہ بٹیا ابھی لے آتے ہیں، شاید دوکان پر ہی رہ گئی ہو۔ یہ کہہ کر گھر کے اندر جاتے ہیں، جیب میں کچھ پیسے رکھتے ہیں اور امی جان سے یہ کہتے ہوئے سائیکل اٹھا کر پھر قصبے کی جانب چل پڑتے ہیں کہ امی ابھی کھانا رہنے دیجیے، لوٹ کر کھائیں گے۔ :) :) :)

آفتاب غروب ہونے کو ہے جب کھلونے کی دوکان کے پاس پہنچتے ہیں۔ دوکان پر تالا لگا ہے، کچھ دیر وہیں انتظار کرتے ہیں کہ شاید دوکاندار کہیں آس پاس گیا ہو اور واپس آ جائے۔ بھیا کو وہاں کچھ دیر تک کھڑا دیکھ کر قریب موجود پنواڑی کی دوکان سے آواز آتی ہے، ارے بابو کیا دیکھ رہے ہیں؟ کھلونے والا تو دوکان بند کر کے گھر گیا، اب کل آئیے گا۔۔۔ بٹیا کا مایوس چہرہ دیکھنے کی تاب نہیں اس لیے بھیا گھر لوٹنے میں دانستہ تاخیر کرتے ہیں۔ اس روز بٹیا کو بھیا سے کہانی سننے کی آس میں ہی نیند آ گئی۔ دیر رات گئے بھیا گھر میں داخل ہوتے ہیں تو امی جان پریشان ہوتی ہیں۔ کہتی ہیں کہ جلدی سے کھانا کھا لو۔ نہیں امی، بازار میں دیر ہو گئی تھی تو وہیں کچھ کھا لیا تھا۔ امی کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس پگلے نے کچھ نہیں کھایا لیکن بٹیا کی وجہ سے کھائے گا بھی نہیں اس لیے خاموش رہتی ہیں۔ بھیا کپڑے تبدیل کر کے چپکے سے جا کر سوئی ہوئی پری کو خود سے لپٹا کر بھیگی آنکھوں کے ساتھ سو جاتے ہیں۔ :) :) :)

صبح کا وقت ہے، بٹیا رانی شاید اپنی فرمائش بھول چکی ہیں۔ بھیا ان کو پیار کرتے ہیں، جیب سے ٹافی نکال کر دیتے ہیں اور اسکول کے لیے جانے لگتے ہیں تو امی آواز دیتی ہیں کہ بیٹا ناشتہ تو کرتے جاؤ۔۔۔ نہیں امی، آج کالج جلدی جانا ہے اور دوپہر کے بعد چھٹی ہو جائے گی اس لیے جلدی لوٹ آئیں گے۔ راستے میں کچھ کھا لیں گے آپ فکر مت کیجیے۔ یہ کہتے ہوئے سائیکل پر بیٹھ کر یہ جا وہ جا۔ اتنی صبح صبح تو دوکانیں بھی نہیں کھلی تھیں، اور کھلونے والا تو ویسے بھی دیر سے دوکان کھولتا تھا۔ اسکول میں اس روز بھیا کا دل نہیں لگ رہا تھا۔ اساتذہ کیا آ کر پڑھا گئے کچھ بھی ہوش نہیں۔ اس روز شام میں کوئی کلاس نہیں تھی اس لیے لنچ کی چھٹی کے بعد گھر کی جانب لوٹے اور کھلونے کی دوکان پر جا کر سوتی جاگتی گڑیا کا پوچھا۔ دوکاندار نے کہا صاحب بس ایک عدد گڑیا بچی ہے، آپ کی قسمت ہے کہ آپ کو مل گئی ورنہ اب تو اگلے ہفتے شہر سے مال لانے جاتے تبھی ملتی۔ بھیا نے اسے کہا کہ جلدی سے اس گڑیا کو ہلکے گلابی رنگ کے پھولدار لفافے میں پیک کر دیجیے اور گہرے سیاہ رنگ کی پلاسٹک کی تھیلی میں رکھ دیجیے۔ :) :) :)

گھر پہنچے تو پایا کہ ان سے چند منٹ قبل ہی بٹیا بھی اپنے اسکول سے گھر پہنچی ہیں۔ بٹیا کی پیشانی پر گرمی کے باعث پسینے کے قطرے چمک رہے تھے اور ابھی اسکول کا ڈریس بھی تبدیل نہیں کیا تھا۔ بھیا کو دیکھ کر دوڑتی ہوئی آئیں اور سائیکل کے ہینڈل سے لٹکے تھیلے کو اتارنے کی کوشش کرنے لگیں۔ بھیا نے اپنی دلاری پری کو گود میں اٹھا کر کہا کہ یہ تھیلا ایسے نہیں ملنے والا بچو جی! پہلے آپ بھیا کو پیار کیجیے اور پھر چل کر بھیا کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائیے۔ اور آج بھیا بٹیا کو نوالے کھلائیں گے اور بٹیا اپنے بھیا کو۔ اس روز ننھی پری کے ہاتھوں سے کتنے نوالے کھائے اور ان میں اپنے آنسؤں کا کتنا نمک شامل کیا یہ تو یاد نہیں لیکن یہ ضرور یاد ہے کہ بٹیا کو کھانے سے زیادہ اس سیاہ تھیلے کو کھولنے میں دلچسپی ہو رہی تھی۔ :) :) :)

بھیا کی نگاہیں اس تھیلے پر نہیں تھی بلکہ اس چہرے پر جمی ہوئی تھیں جس کی ساری توجہ سیاہ تھیلے سے گلابی لفافہ نکالنے، اسے اوپر سے ٹٹول کر اندر کی چیز کا اندازہ لگانے، اور پھر اس کو کھول لینے پر مرکوز تھی۔۔۔ افف! وہ خوشی، وہ چہکار اور چہرے پر وہ دمک جس کے آگے صبح صبح شبنم میں بھیگے بیلا کے پھولوں کی تازگی بھی ماند پڑ جائے۔۔۔ اور پھر ایک بات اور یاد ہے۔۔۔ وہ رات بٹیا کے لیے بڑی الجھن بھری تھی۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ اپنی گڑیا کو اپنے پاس سلائیں یا بھیا سے لپٹ کر لیٹیں۔۔۔ درمیان میں گڑیا کو لٹاتیں تو لگتا کہ اب بھیا کے بازو پر سر رکھ کر اور بھیا کے سینے سے لگ کر کیسے سوئیں گی۔۔۔ خیر یہ ننھی پری کا مسئلہ تھا، ہمیں کیا!!! :) :) :)
یہ میری بات ہورہی ہے نا :heehee::heehee::battingeyelashes::chill:
 
بھئی کیا ہی خوبصورت ہے۔۔۔ اور بے پر کی ہے یا نہیں یا کتنی ہے یہ تو آپ ہی جانتے ہوں گے ، لیکن اسے پڑھ کر اب ہمیں جو نثر کا گریبان پکڑ کر لفظوں کا خون کرنے کی سوجھی ہے، وہ آپ کے سر ہے!! :)
 
Top